THEY were both fighting against their
own demons ,
ارج نے لائبریری سے گھر تک کے راستے میں آرزو صاحبہ سے کوئی بات نہ کی تھی ۔گھر میں داخل ہو کر وہ سر درد کا بہانہ کرتے ہوئے اپنے کمرے میں جا ٹھیکی ۔
کھڑکی کے پاس پڑے صوفہ پر بیٹھ کر باہر جلتی بجھتی روشنیوں کو دیکھنے لگی ۔ ذہن کے درچوں کی کھٹ کھٹ کی آوازیں اس کے کانوں میں زہر کی مانند کھل رہیں تھیں ۔ چیخنے کی ، درد سے کرھانے کی ، تنگ آ کر اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ دھر دیے ۔
"یا اللہ مجھے معاف فرما ۔ ” ارج نے گڑگڑا کر اپنے رب سے معافی مانگی ۔ کاش کے وہ یہ سب پہلے کرتی تو آج اس حال میں نہ ہوتی
اس نے باہر دیکھنے کا مشغلہ ترک کر کے بیڈ پر پڑے لحاف میں منہ دے لیا ۔ آنکھوں کے سامنے وہ کالی آنکھیں لہرائیں ۔ اس نے اپنے آنکھوں کو پٹ سے واہ کر دیا
"نہیں۔۔۔۔ نہیں ! تم خواب نہیں پال سکتی ۔ تم تو پاگل ہو تم جیسے لوگ خواب نہیں پالتے ۔” ارج نے اس لائبریرین سے آج خوف محسوس نہیں کیا تھا ۔ مگر اس کی آنکھیں روح تک گڑتی محسوس ہوئیں تھیں ۔
میں اب لائبریری بلکل بھی نہیں جاؤں گی اس نے سوچتے ہوئے کروٹ بدلی ۔اور کھڑکی سے باہر ستاروں کو تکنے لگی گہری کھائی میں گرے لوگوں تک ستاروں کی روشنیان نہیں پہنچا کرتیں ۔
مجھے خواب دیکھنے کا حق نہیں وہ نیند سے بو جھل آنکھیں لئے بڑبڑائی ۔اور سپنوں کی وادیوں میں اتر گئی ۔جہاں وہ رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔
بادصباء گلوں کو چھوکر گزرتی ہوئی اپنے سفر پر گامزن تھی ۔ گلوں کی ٹھنیاں ایک دوسرے سے اٹکھلیاں کر رہیں تھیں ۔
آرزو گلدان بیگم کے گھر سے ناشتے کی مہک اٹھ رہی تھی ۔
"ارج ! بیٹا میرا ایک کام کرو گی ؟”
آرزو صاحبہ نے چیز امیلیٹ پر ہاتھ صاف کرتی ارج کو متوجہ کرتے ہوئے کہا
"جی ! آرزو آنٹی آپ بولیں تو سہی ۔ ”
ارج نے ایک اور نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا
"دراصل میرے پاؤں میں بہت درد ہے ۔ اگر تم لائبریری تک جا سکو تو ! نہیں جا سکتی تو کوئی مسلہ نہیں ۔بس کچھ کتابیں واپس کرنی تھیں ان پر فائن لگ سکتا ہے اگر آج جمع نہ ہوئیں ۔ کوئی بات نہیں کچھ لیرا (ترکی کی کرنسی) کا نقصان تمہارے لئے اٹھا ہی سکتی ہوں ”
آرزو صاحبہ نے کمال مہارت کی ادا کاری کی
"آپ ۔وہ ۔میں ” ارج نے الفاظ ڈھونڈنے کی۔ کوشش کی
"کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتی ہوں ۔ چند پیسے ہی تو ہیں ”
یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے پاؤں کو جوتی سے آزاد کیا گویا ان کے پاؤں میں شدید درد ہو ۔
"نہیں !! میں چلی جاؤں ۔اگر زیادہ درد ہے تو ڈاکٹر کو دیکھا لیتے ہیں ۔ ”
ارج پریشانی سے بولی ۔
"نہیں اتنا نہیں ہے ۔ بوڑھی ہو رہی ہوں تو وٹامن وغیرہ کے سپلایمنٹ لوں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی ۔ ”
انہوں نے بات بنائی
"چلیں ٹھیک ہے میں نو بجے تک چلی جاؤں گی اور بیکری فون کر لیتی ہوں پہلے کہ میں گیارہ بجے تک پہنچوں گی ”
ارج نے اپنے ناشتے کے برتن رکھتے ہوئے کہا
"ہان ٹھیک ہے میں ذرا اپنی میڈیسن لے لوں۔ ”
آرزو صاحبہ نے کمرے کا رخ کیا جبکہ ارج نروائس ہو کر کرسی پر بیٹھ کر ناخن کترنے لگی ۔ پر اب کیا کیا جا سکتا تھا جانا تو تھا ہی۔ وہ کمرے میں جانے لگی تو بے دھیانی میں سڑھیوں کے پس پڑے گلدان کی ٹھوکر لگی
"اف ” اس نے اس کو ایسے گھورا جیسے سارا قصور ھی اس گلدان کا ہو اور کمرے میں جا کر جانے کی تیاری کرنے لگی
ارج اس لائبریری کے سامنے کھڑی تھی جس کے بارے میں وہ عہد کر کے سو ئی تھی کے اب یہاں کا رخ نہیں کرے گی ۔ آخر ہمت جتا کر اندر داخل ہوئی ۔
لیکن کاؤنٹر پر کوئی شخص موجود نہ تھا ۔ہاتھ میں پکڑی کتابیں سمبھالتے کاؤنٹر پر رکھیں ۔اور دوسری مطلوبہ کتابوں کو تلاش کرنے لگی ۔ کتابیں مل جانے پر واپس مڑی ۔تو کاؤنٹر پر ایک خوبصورت سی لڑکی کھڑی دیکھ جانے کیوں ارج کے اندر ویرانی کی لہر اتر گئی ۔
"آپ بکس یہاں پڑھنا چاہیں گی یہ اشو کروانا چاہیں گی ۔پامیر کسی کام سے گیا ہے ہم لوگ چھے سال سے دوست ہیں تو کبھی کبھی کوئی مصروفیت ہو تو میں ھی لائبریری اور بک سٹور دیکھتی ہوں ۔”
پامیر وہ پہلی بار اس نام سے آشنا ہوئی ۔ جس نے اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ وہ اپنے خیالات کو جھٹک کر کاؤنٹر تک آئی ۔
"اوہ ! آپ ٹھیک ہیں ؟” لڑکی نے اس کے نر واس چہرے کو دیکھ کر سوال کیا
"”جی بس میں ایسی ھی ہوں کبھی کبھی تھوڑی نر واس و جاتی ہوں ۔ یہ ۔ ۔۔”
اس نے کاؤنٹر پر رکھی بکس کی طرف اشارہ کر کے کہا
"کتابیں بھی واپس کرنی تھیں ۔ اور نئی اشو کروانی تھیں ۔ میری آرزو آنٹی تھوڑے پرانے دور کی ہیں ۔ وہ سمارٹ فون سے پڑھنا پسند نہیں کرتیں ۔” ارج پانچ چھ کتابوں کے پلندے کی طرف دیکھ کر بولی ۔
”کتابوں کی مہک بہت آسودگی کا احساس دلاتی ہے جو موبائل فون سے میسر نہیں ہوتا ۔ خیر یہ لیں آپ کی بک اشو ہو گئی ہیں ۔ مجھے آرزو صاحبہ کی کال آئے تھی ورنہ ہم دوسروں کے کارڈز پر بک اشو نہیں کرتے ۔”
وہ کمپیوٹر پر ٹائپ کرتے اور رجسٹر پر لکھتے ہوئے بولی
ارج نے آگے ہو کر بکس اٹھانی چاہیں تو بازو کی آستین اوپر ہونے سے جلنے کے نشان وازیہ ہوئے ۔جیسے جلدی سے ٹھیک کیا گیا پر مقابل کی آنکھوں سے یہ منظر مخفی نہیں رہا تھا
"یہ ،یہ کیا ہے ۔” وہ ارج کے چہرے کو گھور سے دیکھتے ہوئے بولی جیسے کوئی اور نشان تلاش رہی ہو ۔
"کچھ نہیں ۔ بس ہاتھ جل گیا تھا کچھ عرصے پہلے ۔”
ارج نے کتابیں اٹھاتے ہوئے کہا
"میں چلتی ہوں ۔” وہ نروائس انداز میں بولی
"روکو ! ” ارج کے قدم اس لڑکی کی آواز پر تھمے ۔
"میرا نام ھایال کورئے ہے” اس معمولی شکل و صورت والی لڑکی کے چہرے پر کوئی نشان نہ پا کر مسکرا کر گویا ہوئی
"خوشی ہوئی آپ سے مل کر میں ارج ۔” اس نےمضنوعی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا اور لائبریری سے چل دی ۔
"ضروری نہیں فلموں ڈراموں میں ادا کاری کی جائے اس نئے زمانے میں چند انسانوں کو چھوڑ اکثریت اس فن میں ماہر ہے ۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ۔ ” ارج نے تلخی سے سوچا
ارج کتابیں آرزو صاحبہ کو پہنچانے کے بعد بیکری کے راستے پر نکل پڑی تھی ۔ جبکہ پامیر کی جگہ کسی لڑکی کا سن کر آرزو صاحبہ کو ہرگز خوشی نہ ہوئی تھی ۔خومخواہ بیچاری ارج نے ڈر کے باوجود سفر تہ کیا” یا اللہ جو فصیلہ میں ارج کے لئے لے رہی ہوں وہ ٹھیک ہو تمام جہانوں کے مالک ۔” آرزو صاحبہ نے کھڑکی سے باہر ارج کو جاتے دیکھ دعا کی ۔
ارج بیکری پہنچی تو ساڑھے گیارہ کا وقت ہو چکا تھا ۔ ہمیشہ کی طرح جا کر بیکر ی کا یونیفارم پہنا اور کام میں جت گئی ۔ بیکری میں تمام اسٹاف فیمیل تھا جو ارج کی یہاں کام کرنے کی بڑی وجہ تھی
"ارج ذرا میری بات سنا نا ذرا کیک کی فروسٹینگ میں مدد کر دو ۔ ” عفت نے بیکری کے پیچھے بنے بیکینگ روم سے جھانکا ۔
"تم کچھ اور کام کر لو مسز تیمور آتیں ہیں تو میں مدد ہوں یوں بیکری کو کھلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی ۔” وہ کیک کے بوکس ڈھونڈھتے ہوئے بولی ۔
"ٹھیک ہے پھر ۔۔”
عفت دروازے کے پیچھے گم ہو گئی ۔داخلی دروازہ کھولنے کی آواز پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ارج نے ٹرے ٹھیک سیٹ کرنے کا کام ترک کیا ۔اور اٹھ کر سامنے کسٹمر کو دیکھا ۔تو ارج کی سیٹی گم ہو گئی ۔ہلک با ذات خود اس کے سامنے موجود تھا ۔
"اوہ ! تو آپ یہاں کام کرتیں ہیں ۔ ” پامیر نے اس کی شکل دیکھ کر اپنی حیرانی چھپائی اور مسکراہٹ وازیہ کی۔
"مس آرزو کیسی ہیں میں نے سنا ہے کچھ بیمار ہیں ۔” وہ ارج سے بات کرتےڈسپلے کاؤنٹر جھکا ۔
"آر ے آرام سے مسٹر ہلک اتنا وزن ڈالیں گے ٹوٹ جائے گا آپ پہلے ہی اتنے ہلکی بلکی (hulky bulky ) ہیں” ارج نے سوچتے ہوئے پھر سے بول دیا ۔
”جی ! ” پامیر کا قہقہ فضا میں گونجا شائد پہلی بار وہ دل ہی ہنسا تھا ۔
"وہ میں تو بس سوچ رہی تھی ۔ ” وہ گڑ بڑا کر بولی
"آپ کو کچھ چاہیے تھا ۔” ارج منمنائی ۔
"جی !ایک دوست کی طرف جا رہا ہوں تو سوچا کچھ لیتا چلوں ۔ ”
پامیر کے کہنے پر ارج کے ذہن میں ھایال کی شیبہ اتری "کیا لینا چاہیں گے سب کچھ آپ کے سامنے موجود ہے آپ دیکھ کے بتا دیں میں پیک کر دوں گی ۔ فروزن دیزرٹ بھی ہیں ۔ قیمت ساتھ درج ہے ۔” وہ اپنے مخصوص دکانداری انداز میں بولتی بہت معصوم لگی
"ہمم !” پا میر نے اتنا کہنے پر اکتفا کیا ۔اور کچھ چوکلیٹ پسٹریز پیک کروا لیں اور ساتھ ایک کافی بھی ۔ ارج نے چیزیں کا بل بنا کر اس کی طرف بڑھایا تو کاؤنٹر پر پڑی فروسٹنگ پر کہنی کا دباؤ پڑنے سے پامیر کے چہرہ پر جا لگی ۔
"اوہ !مجھے معاف کر دیں ۔ غلطی۔۔۔ سے ۔۔ہو ۔۔گیا ۔ ” ارج کا سانس ایک دم سے اکھڑا ۔اس نے ٹیشو اس کی طرف بڑھایا
"کوئی بات نہیں ۔” پامیر کی نظر اس کے ہاتھ سے ہوتی بازو پر گئی ۔ پھر اس کے چہرے کی طرف اس کی نظروں میں حیرانی تھی ، تجسس تھا سوالات تھے ۔
میں چلتا ہوں اس نے بل کاؤنٹر پر رکھا ۔ اسے مسلسل دیکھتے ہوئے چہرہ صاف کیا
اور باہر جاتے ہوئے دکان میں داخل ہوتے ایک لڑکے کو دیکھ کر روک گیا ۔ تبھی ایک بوڑھی عورت اندر داخل ہوئیں ۔
مسز تیمور آج آپ کافی لیٹ ہو گئیں میم ۔آپ یہاں دیکھیں ذرا عفت کو مدد چاہیے تھی سو میں ابھی آتی ہوں ارج پامیر کو۔حیرانی سے دیکھا اور اندر کو چل دی
” ارج صاحبہ اگر آپ یونہی ڈرتی مرتی رہیں نا تو رہ لیں اس دنیا میں آپ "۔ اس نے ملامتی انداز میں خود کلامی کی
” ویسے یں کو دیکھ کر اچھا بھلا بندہ در فانی سے کوچ کر جائے ۔ ” ، ارج نے خود کلامی کی اور کام میں مصروف ہو گئی
پامیر کالی شرٹ اور جینز میں ملبوس اس دو منزلا ترکش سٹائل کے مکان کے سامنے کھڑا تھا ۔ گہرا سانس لیتے ہوۓ اس نے گھنٹی بجائی ۔
"کون ہے ۔” آرزو صاحبہ کی آواز آئی
” پامیر ! ”
دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کو کہا۔ اس نے گھر میں داخل ہو کر جوتے اتارے اور گھر کا تعارفی جائزہ لیا اندر سے اور بھی لوگوں ی آوازیں آنےپر وہ بے چین ہوا ۔
"آ جاؤ یہ جمال ہیں میرے بڑے بھائی انہوں نے ہی ارج کو میرے پاس بھجا تھا ۔ان کا یہاں ہونا بہت ضروری تھا ۔”
"اور جمال ۔وہ اپنے بھائی کی طرف متوجہ ہوئیں ۔”
"یہ پا میرارکن ہے ۔ وہی انسان جس کو میں ارج کی زندگی میں شامل کرنا چاہتی ہوں ۔ "انہوں نے اپنے بھائی کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر ناگواری وازیہ تھی ۔
پامیر ان سے مل کر صوفہ پر جا بیٹھا تھا اب ان کےچہرے کے تاثرات پڑھ رہاتھا ۔ ہلکا سا مسکرا کر گویا ہوا !
"میں ایک کان سے سن نہیں سکتا ۔ ماضی میں میرا کسی سے کوئی رشتہ نہیں رہا ۔ رشتے سے مراد کوئی خاندان بیوی کچھ بھی میری زندگی کا حصہ نہیں رہے ۔ چھبس سال کی عمر میں میں اسلام سے روشناس ہوا ۔اور اپنی اٹھتیس سالہ زندگی میں ۔ میں نے دنیا میں انسان کے روپ میں شیطان دیکھے ہیں ۔ وہ گندگی کے دلدلوں میں رہتے ہیں ۔اور دوسروں کو بھی اس کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں”
پا میر نے با مشکل الفاظ ادا کئے ۔کچھ دیر رک کر پھیر گفتگو کا آغاز کیا ۔
"اور میں ارج سے نکاح کے لئے تیار ہوں ۔ باقی کا فصیلہ آپ کا اپنا ہے ۔ میں آپ کو خاص امید نہیں دلا سکتا کے وہ میرے ساتھ خوش رہے گی مگر میرا خیال میں اس میں اور مجھ میں بہت سی چیزیں مطا بقت رکھتی ہیں ۔” پامیر کو کمرے میں یک دم گھٹن محسوس ہوئی ۔
"میں چلتا ہوں ۔ ” بنا پلٹے وہ در عبور کر گیا جبکہ آرزو صاحبہ کبھی اس کو دیکھتیں کبھی اپنے بھائی کے غصے سے بھپرے چہرے کو ۔