سر بیڈ کی پشت سے ٹکائے وہ بیتے کل کو یاد کرنے لگی۔۔ وقت اسے اپنے ساتھ بہاتا چند ماہ قبل پیچھے لے گیا۔۔ علی کی امی کی آمد کے بعد سے ایمان اپنے کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی۔۔ یک دم گھر کی ساری سوگواریت جیسے مٹ گئی تھی۔۔ طاہرہ بیگم کے چہرے کی رونق دیکھ ایمان لمحے بھر کو پتھر کا مجسمہ بن گئی۔۔ آج کئی سال بعد وہ دل سے مسکرائی تھیں۔۔ اس کے مقابل بیٹھے اسے علی کی جانب سے شادی کی پیشکش کے متعلق مطلع کیا جا رہا تھا۔۔ جوابا وہ محض ان کا مسکراتا چہرہ دیکھتی رہی۔۔ جذبات میں آ کر وہ حامی بھر بھی لیتی مگر دل میں گھر کر بیٹھا خوف پھر سے وہشت زدہ کئے دینے لگا۔۔
“مجھے یہ شادی نہیں کرنی امی۔۔” بمشکل جملہ مکمل کئے وہ چہرہ ہاتھوں کے ہالے میں گرائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ طاہرہ کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی۔۔ کئی سالوں بعد نصیب ہوئی خوشی کا ایمان گلا گھونٹ چکی تھی۔۔ کیا کہتیں کیا نہ کہتیں؟ ذہن الجھ گیا تھا۔۔ مقابل بیٹھی وہ مسلسل بلک رہی تھی۔۔ “میں جانتی ہوں آپ سب بہت خوش ہیں۔۔ لیکن۔۔ میں کیا کروں؟؟؟ کیسے سمجھاؤں خود کو؟ امی۔۔ امی۔۔ میرا سانس بند ہونے لگتا ہے۔۔ مجھے لگتا ہے جیسے۔۔۔ میری سانس رک جائے گی۔۔ میں مر جاؤں گی۔۔ لیکن میں نہیں مرتی۔۔ میں نہیں مرتی، امی۔۔ شاہ میرے سامنے تھا۔۔ کفن میں لپٹا وجود مجھ سے رخصت کی اجازت مانگ رہا تھا مگر میری سانس۔۔ مجھے لگا تھا امی یہ بند ہو جائے گی۔۔ آج محبت تاریخ رقم کرے گی۔۔ میں بھی شاہ کے ساتھ مدفن ہونگی مگر میں نہیں مری۔۔ امی مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔۔ اسنے۔۔ اسنے مجھ سے۔۔۔ اسنے مجھ سے محبت کی تھی امی۔۔۔ اور پھر میری محبت اسے راس نہ آئی۔۔ وہ مر گیا امی۔۔ میری محبت کی وجہ سے۔۔ میں جس بھی شے سے محبت کروں گی۔۔ وہ یونہی مجھے چھوڑ جائے گی۔۔ میں نے اگر۔۔ اگر میں نے اس رشتے کے لئے ہاں کہ دی تو علی۔۔” وہ خاموش ہوئی تو سانس بری طرح پھولی تھی۔۔۔ طاہرہ بیگم بھیگے چہرے سمیت اسے دیکھ رہیں تھیں۔۔ آنکھوں سے کرب جھلک رہا تھا۔۔ لب کپکپا رہے تھے۔۔
“امی آپ اسے سمجھائیں۔۔۔ وہ چلا جائے۔۔ مجھ سے دور۔۔ بہت دور۔۔ ورنہ۔۔ ورنہ میری محبت۔۔ میری محبت اسے کھا جائے گا۔۔ میری محبت اسے نگل جائے گی۔۔ اسے سمجھائیں وہ چلا جائے۔۔ چھوڑ دے مجھے۔۔” سر ہاتھوں کی مٹھیوں میں بھینچے وہ کراہنے لگی تھی۔۔
“ایمان۔۔” کمرے میں داخل ہوا علی اسے آنسو بہاتا دیکھ شش و پنج میں مبتلا ہوا۔۔ بےاختیار اسنے ایمان کا ہاتھ تھاما تھا۔۔ علی کا لمس محسوس کرتے وہ بری طرح چونکی تھی۔۔ خواب کا تسلسل ٹوٹ گیا۔۔ بیتا کل وقت میں پیچھے رہ گیا اور ایمان کو آگے۔۔ بہت آگے دھکیل گیا۔۔ “کیا ہوا؟؟؟ تم ٹھیک ہو؟؟؟”
“ہممم۔۔” سر کو جمبش دیتے اسنے علی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔۔ “بیٹھیں۔۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔”
“ہاں نہ بولو۔۔ میں سن رہا ہوں۔۔” یک دم وہ پریشان سا دکھائی دینے لگا تھا۔۔ پیشانی سلوٹ زدہ سی تھی۔۔ نشست پہ آگے کو ہو بیٹھا وہ ہاتھ باہم پھنسائے اسکے بولنے کا منتظر تھا۔۔ ایمان کے حلق میں گلٹی ابھری تھی۔۔ فیصلہ ہو چکا تھا مگر اعتراف کرنے کا مرحلہ نہایت ہی مشکل ثابت ہو رہا تھا۔۔
“آپ نے امی سے کہا تھا کہ۔۔” بمشکل اٹکتے اسنے بات کا آغاز کیا۔۔ اسے خاموش ہوا دیکھ علی الجھا تھا۔۔ سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ایمان نے آنسو ضبط کئے تھے۔۔ “کہ آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟؟؟”
ہاتھوں پہ گرفت ڈھیلی پڑی۔۔ ہتھیلیاں بھیگنے لگیں۔۔ کندھے ڈھلک گئے۔۔ اسے ایمان سے ایسی بات کی توقع ہرگز نہ تھی۔۔ “ہاں۔۔ ہاں۔۔ کیوں؟؟؟”
“اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ۔۔ کہ میں نے۔۔ انکار۔۔ انکار کر دیا تھا؟؟؟؟” جواباً علی نے آنکھیں موند کر کھولتے محض سر کو خم دیا۔۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔ جانے وہ اب کیا کہتی؟ شاید آج اس کا دل ٹوٹنے والا تھا۔۔ شاید وہ اسے شاہ کی محبت کی شدت بتانے والی تھی۔۔ شاید آج علی جہانزیب کا دل کرچی کرچی ہونے والا تھا۔۔
“مجھے جاننا ہے کیا اب بھی آپکی رائے وہی ہے۔۔؟” اسکے خیالوں کا تسلسل اک چھناکے سے ٹوٹا تھا۔۔ نگاہیں اٹھاتے اس نے بےیقینی سے ایمان کی جانب دیکھ تھا۔۔ “کیا آپ کا پروپوزل ابھی بھی برقرار ہے؟؟” علی کو لگا وہ اگلی سانس تک نہ لے سکے گا۔۔ “کیا آپ اب بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟؟؟؟”
“ایمان میں۔۔ میں۔۔” علی نے سوکھے لبوں پہ زبان پھیری۔۔ نشست پہ مزید آگے ہوا وہ ان لفظوں کی تلاش میں تھا کہ جس سے اس کے جذبات عیاں ہو سکتے۔۔ “میں کیا تم؟؟؟” نگاہیں اٹھائیں تو نظریں ایمان کی منتظر نگاہوں سے ٹکرائیں۔۔ بھیگی پلکیں اور مسکراتا چہرہ۔۔ وہ اس لمحے کس قدر حسین لگ رہی تھی۔۔ بےاختیار علی نے اس کا ہاتھ تھاما۔۔ نظریں جھکا دیں۔۔ “مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے۔۔” نگاہیں اٹھائیں۔۔ “جیسے میں دنیا کا سب سے حسین خواب دیکھ رہا ہوں۔۔ اگر خواب ہے تو خدا اس خواب کی عمر دراز کرے۔۔”
ایمان کھل کر مسکرائی تھی۔۔ “تو مس ایمان۔۔” وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ “اس وقت میرے پاس اپنے ان لفظوں کے سوا ایسی کوئی شے نہیں ہے کہ جسے آپکی خدمات میں پیش کرتے اپنی محبت آپ پہ آشکار کر سکوں مگر دنیا میں لفظوں سے خوبصورت کوئی شے نہیں ہے۔۔ اسی لئے۔۔” وہ گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھا تھا۔۔ “ٹام۔۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔ پتا نہیں کیوں پر تم مجھے دنیا کی حسین ترین لڑکی لگتی ہو۔۔” وہ مبہوت سی اسے سنے گئی۔۔ “تم۔۔” ذرا سا توقف دیا۔۔ “تم مجھے دوسری شادی کرنے دو گی نہ؟؟؟؟” ایمان کے لب بےاختیار کھلے۔۔ علی اپنی مسکراہٹ چھپانے کی سعی میں خوار ہوتا ہونٹ دانتوں تلے دبا گیا۔۔
“آپ پہلے دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟؟؟؟” پشت پہ رکھا کشن اٹھاتے پوری قوت سے اسکی جانب اچھالا۔۔
“ہائے۔۔ میری جیلس فیانسی۔۔” وہ ہنسا تھا۔۔ ایمان کا چہرہ تمتمانے لگا۔۔ بلآخر قسمت اس پہ مہربان ہو ہی گئی تھی۔۔
* * * * * * *
دلہن کے عروسی لباس میں سجی سنوری وہ ہاتھوں میں پہنی چوڑیوں پہ انگلیاں پھرتی گاہے بگاہے دروازے کی جانب دیکھتی۔۔ رات گہری ہونے لگی تھی مگر علی کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔ “کہاں رہ گئے ہو جیری؟؟؟” اکتا کر وال کلاک کی جانب دیکھا جو رات کے ساڑے باران بجا رہی تھی۔۔ بستر سے اٹھتی وہ سرخ عروسی لباس سمبھالتی کمرے میں نصب کھڑکیوں کی جانب بڑھی تھی۔۔ ہلکی سی درز کھلی تو ہوا کے جھونکے کمرے میں داخل ہونے لگے۔۔ جھونکا چہرے سے ٹکرایا تو یک دم لبوں پہ اداس سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔
“آج کے دن بھی اداس۔۔۔” افسوس بھری آواز عقب سے آئی تھی۔۔ ایمان نے رخ نہ موڑا، بس افق کی جانب دیکھتی گئی جہاں پورے چاند کی چاندنی چمک رہی تھی۔۔ “ایسے نہ کرو’ مسسز علی جہانگیر۔۔” پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے وہ چلتا اس تک آیا۔۔
سرد آہ خارج کرتے ایمان نے رخ ہلکا سا موڑا تو نگاہ اسکے عکس سے ٹکرائی۔۔ وہ نہیں تھا مگر وہ تھا۔۔ “تم خوش ہو شاہ؟؟؟؟”
“ہممم ہممم۔۔ بہت زیادہ۔۔” وہ کھلے دل سے مسکرایا۔۔ “سچ پوچھو تو تمہاری وہ روندی صورت مجھے بلکل نہیں پسند تھی۔۔” وہ دھیما سا ہنس دیا۔۔ ایمان نے رخ وآپس موڑا۔۔ “میں بہت خوش ہوں تمھارے لئے۔۔ تم نے سہی فیصلہ کیا۔۔”
“آج شاید میں آخری بار تم سے بات کر رہی ہوں۔۔ شاید۔۔ شاید آخری بار تمھیں محسوس کر رہی ہوں۔۔ شاید پھر علی میرے دل میں وہ مقام حاصل کر لے جو۔۔ جو تمہارا ہے۔۔ کیا تم اب بھی خوش ہو؟؟؟”
“ہاں۔۔ کیوں کہ تم بھی خوش ہو۔۔ علی تمہارا شوہر ہے اور میں۔۔ میں صرف تمہارا اچھا دوست تھا۔۔” ایمان محض اسے دیکھے گئی۔۔ لب کچھ کہنے کی غرض سے کھولے ہی تھے کہ دروازہ ہلکی سی دستک کے بعد کھلا۔۔ مقابل علی کھڑا مسکراتا، ہونٹ گول کئے تاخیر سے آنے کی معذرت کر رہا تھا۔۔
“دراصل دوسری شادی کے لئے امی کے ساتھ لڑکی تلاش کرنے گیا تھا۔۔ بس وہیں دیر ہو گئی۔۔” کمر پہ ہاتھ رکھے ایمان نے ابرو اچکائے۔۔ “اوکے اوکے ٹام سوری۔۔” ہاتھ کھڑے کرتا وہ اسے پرسکون ہونے کی تاکید کر رہا تھا۔۔ قدم بڑھاتا وہ اس تک آیا۔۔ ساتھ ہی کوٹ کی جیب سے خوبصورت سا چکور نما باکس نکالا۔۔ “فور مائی سویٹ وائفی۔۔” ڈبیا کھولی، جس میں خوبصورت سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔۔ “مسسز جیری۔۔” وہ ہنسا تو ایمان بھی مسکرا دی۔۔ بایاں ہاتھ اسکی جانب بڑھایا۔۔ “تھینک یو۔۔” علی نے اس کا ہاتھ تھاما اور خوبصورت سی انگوٹھی کو اسکی انگلی کی زینت بنایا۔۔ “دوسری بیوی کو میں ڈائمنڈ سیٹ دونگا۔۔” جہاں ایمان اسکی بات خفا پہ ہوئی، وہیں علی کھلکھلا کر ہنس دیا۔۔ کھڑکیوں کے پار چاند کی چاندنی بادلوں کی اوٹ سے جھانکتی انکے مسکراتے چہرے دیکھ خوبصورت زندگی کی دعا دینے لگی۔۔
* * * * * * *
٭ختم شد٭