انسانی جسم میں کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں اتنی طویل عرصہ تک غلط فہمی نہیں رہی جتنی سر کے بارے میں۔ اور غلط فہمیوں کا سنہرا دور انیسویں صدی تھی۔ خاص طور پر دو شعبوں کا سامنے آنا۔ فرینولوجی اور کرینیومیٹری۔ فرینولوجی میں سر کے ابھاروں کا تعلق انسانی کردار کی خاصیتوں سے نکالا جاتا تھا۔ جبکہ کرینیومیٹری کے ماہرین فرینولوجی کو غلط کہتے تھے اور ان کا اپنا بے تکا خیال یہ تھا کہ سر کی شکل، اس کا حجم اور سٹرکچر انسانی کردار کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس پر تحقیق کرنے والوں میں سب سے مشہور برنارڈ ڈیوس تھے۔ یہ برطانوی ڈاکٹر تھے جن کی اس موضوع پر لکھی کئی کتابیں تھیں اور ان کے پاس دنیا میں کھوپڑیوں کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ ان کی ذاتی کلیکشن میں 1540 کھوپڑیاں موجود تھیں جو دنیا بھر سے اکٹھی کی گئی تھیں۔
وہ اس بات کے قائل تھے کہ سفید فام نسل اخلاقی اور ذہنی طور پر باقی نسلوں سے برتر ہے اور یہ بات کھوپڑی کے اتار چڑھاوٗ بھی بتا دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹلی میں لومبروسو نے جرائم کی اینتھروپولوجی کے لئے اس قسم کی تھیوری بنائی۔ ان کے خیال میں ماتھے کی ڈھلوان، کان کی لو کی گولائی اور پیر کی انگلیوں کے درمیان فاصلے جیسی خاصیتیوں سے انسان کے کردار کا معلوم ہو جاتا تھا۔ اگرچہ ان کے خیالات بے بنیاد تھے لیکن ان کے بہت عزت تھی۔ انہیں شعبے کا ماہر سمجھا جاتا تھا اور ماہر کے طور پر بلایا جاتا تھا۔ ایک خاتون کے قتل کے دو ملزم تھے۔ ایک کے بارے میں انہوں نے کہا، “اس کے بڑے جبڑے، ناک اور زائگوماٹا کی بلندی، اوپر کا پتلا ہونٹ، سامنے کی بڑے دانت اور غیرمعمولی طور پر بڑا سر اس بات کا غماز ہیں کہ وہ ایسا کام کرے گا”۔ اگرچہ اس شخص کے خلاف کچھ اور شواہد نہیں تھے لیکن اسے اس شہادت کے بعد سزا ہو گئی”۔
ایک اور غیرمتوقع کرینومیٹرسٹ فرنچ سائنسدان بروکا تھے۔ بروکا بہت اچھے سائنسدان تھے اور دماغ کے بولنے والے حصے کا نام ان کے نام پر ہے کیونکہ یہ انہی کی دریافت تھے لیکن کھوپڑی کے بارے میں ان کے خیالات ٹھیک نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین، مجرم اور سیاہ رنگت والے لوگوں کے دماغ سفید فام مردوں جتنے چست نہیں۔
جب انہیں دکھایا گیا کہ قتل کے مجرموں کے دماغ کئی بار اوسط سے بڑے سائز کے ہوتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ پھانسی کی وجہ سے سوج گئے ہیں۔
لیکن سب سے زیادہ خفت ان کی وفات کے بعد کی تھی۔ جب ان کی فرمائش پر ان کے دماغ کی پیمائش کی گئی تو یہ اوسط سے کم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہائیوں تک جاری رہنے والے ان شعبوں کو ختم کر کے اس شعبے کو مضبوط سائنسی بنیادوں پر لانے والے سائنسدان چارلس ڈارون تھے۔ 1872 میں لکھی ہوئی ان کی کتاب “انسان اور جانوروں کے جذباتی تاثرات” اس موضوع پر تھی۔ ان کا انقلابی تھا کہ انسانی خاصیتیں اور رویے بڑی حد تک ایک سے ہیں اور اس میں نسل کا کردار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے چہرے کی مدد سے کتنے تاثرات دے سکتے ہیں؟ اس پر کوئی اتفاق نہیں اور اس پر لگائے گئے تخمینے چار ہزار سے دس ہزار تک ہیں۔ چالیس سے زیادہ مسلز چہرے کا تاثر دینے میں حصہ لیتے ہیں۔ نوزائیدہ بچے کے لئے سب سے زیادہ توجہ والی شے چہرہ ہے۔ ہمارے دماغ کے کچھ حصوں کا کام ہی چہرہ پہچاننے کا ہے۔ ہم کسی کا موڈ اور چہرے پر ہونے والی معمولی سی تبدیلی کے بارے میں حساس ہیں۔ اور ان کا ہمیں ہمیشہ شعوری طور پر علم نہیں ہوتا۔
ڈانیل مک نیل نے ایک تجربہ کیا جس میں خواتین کی دو تصاویر دکھائی گئیں جن میں باقی سب کچھ وہی تھا لیکن ایک میں آنکھ کی پتلی کچھ بڑی تھی۔ یہ اتنا کم فرق تھا کہ اس کا شعوری ادراک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شرکاء سے پوچھا گیا کہ کونسی تصویر زیادہ پرکشش ہے۔ تمام شرکاء نے آنکھ کی بڑی پتلی والی تصویر کو ترجیح دی۔ اور ان میں سے کوئی بھی یہ بتانے سے قاصر رہا کہ ایسا کیوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسیات کے پروفیسر پال ایکمین نے 1960 کی دہائی میں اس بات پر تجربہ کیا کہ آیا چہرے کے تاثرات آفاقی ہیں یا کلچر کے حساب سے ان میں فرق ہیں۔ انہوں نے نیوگنی میں الگ تھلک رہنے قبائل کو سٹڈی کیا۔ ان کا نتیجہ یہ تھا کہ ایسے چھ تاثرات ہیں جو آفاقی ہیں۔ خوف، غصہ، حیرانی، خوشی، گِھن اور افسوس۔ سب سے آفاقی تاثر مسکراہٹ کا ہے۔ ایسا کبھی کوئی معاشرہ نہیں ملا جہاں پر مسکراہٹ پر ردِ عمل نہیں ملتا۔ اصل مسکراہٹ مختصر مدت کے لئے ہوتی ہیں۔ دو تہائی سیکنڈ سے چار سیکنڈ تک کے دورانیے کی۔ اور یہ وجہ ہے کہ طویل وقت تک برقرار رہنے والی مسکراہٹ اچھی نہیں لگتی۔
فرانسیسی اناٹومسٹ بولوگنے نے نوٹ کیا کہ اصل مسکراہٹ میں آنکھ کے کونوں پر پایا جانے والا مسل سکڑتا ہے۔ اور ہمیں اس مسل پر خود کوئی اختیار نہیں۔ آپ اپنے منہ پر مسکراہٹ طاری کر سکتے ہیں لیکن آپ آنکھ میں آنے والی جعلی چمک نہیں لا سکتے۔
پال ایکمین کے مطابق، ہم سب مائیکروتاثرات دیتے ہیں۔ یہ جذبات کی چمک ہے جو ایک چوتھائی سیکنڈ سے کم عرصے کے لئے ہوتی ہے۔ ہم خود جو تاثر دینا چاہ رہے ہوں، یہ اس سے ہٹ کر ہماری چغلی کھا جاتی ہے۔ ایکمین کا کہنا ہے کہ تربیت سے ہم اس کو بھی پہچان سکتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...