’’ ساقی نامہ‘‘ کا کوئی متعین موضوع نہیں بلکہ یہ فکر اقبال کے عمومی و اساسی مضامین کا مجموعہ ہے اس میں پیام اقبال کے نمایاں عناصر کی تلخیص و تقطیر کی گئی، گویا یہ عطر مجموعہ ہے۔ چنانچہ مختلف اہم تخلیقات میں بکھرے ہوئے موضوعات اس نظم میں یک جو و یک جہت ہو گئے ہیں۔ یہ ایک نہایت خوشنما اور دبزی و نفیس قالین ہے جس میں متعدد رنگوں کے متنوع نقوش ایک دوسرے میں سمو کر بن دئیے گئے ہیں۔ عنوانات قائم کئے بغیر، خضر راہ کے ابواب۔۔۔ صحرا نوردی، زندگی، سلطنت، سرمایہ و محنت، دنیائے اسلام۔۔۔۔ ساقی نامہ کے اندر حل اور باہم و گر پیوست ہیں۔ ان کے علاوہ فطرت کی منظر نگاری، ذوق و شوق کے ارتعاشات اور طلوع اسلام کے ارتسامات بھی نظم کی سطح پر ابھرے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تنوع کا ایک مرکز ہے، تصور خودی، جس کے گرد فطرت، عصر حاضر، مغرب و ملت، شخصی واردات اور حرکت و حیات کے نقطے اور زاویے جمع کر دئیے گئے ہیں، گویا خودی کے محور پر پوری کائنات فکر استوار کر دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے مثنوی کی بحر بڑی چستی و چابک دستی کے ساتھ استعمال کی گئی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے رواں دواں مصرعے اجزائے تخیل کو سمیٹ کر ایک رخ پر ہمواری کے ساتھ بہانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اس ہیئت سخن میں اقبال کا آہنگ بہت تند و تیز ہو گیا ہے۔ جس سے روانی نغمہ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اول تا آخر حرکت نظم اتنی تیز رفتار ہے کہ کسی ایک تصویر پر نگاہ جمتی نہیں بلکہ پراں تصویریں یکے بعد دیگرے سرعت کے ساتھ ابھرتی اور گذرتی جاتی ہیں۔ اسی لیے رنگ برنگ پیکروں کے باوجود سارا زور آہنگ پر پڑتا ہے اور ترسیل خیال پر معنی صداؤں کے ذریعے ہوتی ہے۔ دقیق سے دقیق نکات لطیف نغمات بن کر فردوس گوش ہوتے ہیں۔ یہ اقبال کی نہایت تیز و شدید صوتی حسیات کا بہترین اظہار ہے۔ گرچہ پیمانہ صوت یعنی مختصر ہے مگر آواز کی باریکی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اس آواز میں بانسری کا سر پلاپن ہے، کہہ سکتے ہیں کہ نظم کے ٹھوس خیالات لطیف آوازوں میں تحلیل ہو کر ایک دوسرے میں اس طرح گھل گئے ہیں کہ ان کو الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان کا تجزیہ کرنا دشوار ہے ایک خیال دوسرے میں پیوست ہے، دوسرا تیسرے میں اور تیسرا چوتھے میں۔ اس طرح کڑی سے کڑی نہ صرف ملی بلکہ گتھی ہوئی ہے۔ اس سے ہیئت پر پیچ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت لچکدار ہو گئی ہے اور شاعر کو موقع ملا ہے کہ ہلکے ہلکے خم دے کر تخیل کو ایک کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بہ آسانی موڑتا چلا جائے۔ یہاں تک کہ نقطہ عروج غیر محسوس لیکن مربوط طور پر سامنے آ جائے۔ یہ ایک سیال اسلوب بیان ہے۔
ساقی نامہ کی چند جھلکیاں دیکھئے:
فطرت
ہوا خیمہ زن کاروان بہار
ارم بن گیا دامن کوہسار
گل و نرگس و سوسن ونسترن
شہید ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رک سنگ میں
فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
عصر حاضرمغرب
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے
گیا دور سرمایہ داری کیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
ملت اسلامیہ
دل طور سینا و فاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیمؑ
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن‘ تصوف‘ شریعت‘ کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا‘ حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
واردات ذاتی
ذوق و شوق
جوانوں کو سوز جگر بخشدے
مرا عشق میری نظر بخشدے
مری نائو گرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر
بتا مجھ کو اسرار مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
مرے دیدہ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری
امیدی مری جستجوئیں مری
مری فطرت آئینہ روز گار
غزالان افکار کا مرغزار
مرا دل مری رزم گاہ حیات
گمانوں کے لشکر یقین کا ثبات
زندگی
حرکت حیات
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شے سے پیدا رم زندگی
یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوں بے نظیر
یہ عالم یہ تبخانہ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آخریں
مگر عین محفل میں خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں‘ تارے میں ہے
یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے
اسی کے بیاباں اسی کے ببول
اسی کے ہیں کانٹے‘ اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے
ہوا ججب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
اتر کر جہان مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
مذاق دونی سے بنی روج زوج
اٹھی وحشت و کہسار سے فوج فوج
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اسی شاخ دسے پھوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
بڑی تیز جولاں‘ بڑی زود رس
ازل سے ابد تک رم یک نفس
زمانہ کہ زنجیر ایام
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
خودی
ارتقا
یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے!
خودی کیا ہے ؟ تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے؟ راز درون حیات!
خودی کیا ہے ! بیداری کائنات!
خودہ جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسس کی تاہیں بدلتی ہوئی
دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
کرن چاند میں ہے شرر سنگ میں
یہ بیرنگ ہے ڈوب کر رنگ میں
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشیب و فراز و پس و پیش سے
ازل سے ہے یہ کش مکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
فرد فال محمود سے درگزر
خودی کو نگہ رکھ‘ ایازی نہ کر
وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
یہ عالم یہ ہنگامہ رنگ و صوت
یہ عالم کہ ہے زیر فرمان موت
یہ عالم ‘ یہ بت خانہ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر
طلسم زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیر مولا‘ جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید‘ آسماں اس کا صید
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخی فکر و کردار کا
یہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
بالکل واضح ہے کہ ہر منتخب موضوع پر اقبال نے اپنے افکار کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے اور بڑے والہان انداز میں جوش و نشاط‘ سرمستی و رعنائی اور سوز و ساز کے ساتھ نغمہ پیرائی کی ہے۔ افکار کی ترتیب و تسلسل بھی نغمے کی طرح منظم ہے ۔ ابتدائے نظم میں فطرت کی پر بہار منظر نگاری کے بعد اور اسی کے تسلسل میں جوئے کہستاں‘ کوہ شکن حرکت کی تصویر کھینچی گئی ہے:
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی‘ لچکتی‘ سرکتی ہوئی
اچھلتی ‘ پھسلتی ہوئی ‘ سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
اس کے بعد شاعر سے مے پردہ سوز‘ طلب کرتا ہے جس میں سوز و ساز ازل‘ ہے اور جس سے کھلتا ہے راز ازل۔ چنانچہ پہلا بند ٹیپ کے اس شعر پر ختم ہوتا ہے:
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
معلوم ہوا کہ بہار فطرت اور ایک سیل انگیز مظہر فطرت کی تصویر کشی کا مقصد عصر حاضر کا ایک راز کھولنا تھا۔ جو تاریخ انسانی میں ہمیشہ ایک راز ہی رہا ہے۔ اور وہ ہے قوت و ضعف کے توازن کا راز قدیم ادوار کی طرح دور جدید میں بھی ایک طرف کمزور مشرق ہے اور دوسری طرف طاقت ور مغرب جن کی علامتیں علی الترتیب‘ ممولا اور شہباز ہیں۔ دونوں کے درمیاں صف آرائی کا سامان ہے‘ اس لیے کہ مغرب مشرق کو غلام بنائے ہوئے ہے۔ اسی کا استحصال کر رہا ہے اور اس کو فنا کر دینا چاہتا ہے لہٰذا مشرق کے لیے نجات کا راستہ یہی ہے کہ وہ آمادہ پیکار ہو کر مغرب کا مقابلہ کرے۔ چنانچہ عصر دحاضر کی سیاست کے رازسے پردہ اٹھانے اور ممولے کو شہباز سے لڑنے کے قابل بنانے کے لیے ساقی فطرت …خداوند عالم سے دعا کرتا ہے ۔ ا س کے بعد فوراً ہی دوسرا بند سیاست حاضرہ کے بدلتے ہوئے تیور کا ذکر کرتا ہے:
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
اس انقلاب حال ہی کا نتیجہ ہے کہ راز فرنگ فاش ہو گیا ہے‘ سامراج کی چالوں کا بھید کھل گیا ہے‘ پرانی سیاست گری خوار ہے۔ اور گیا دور سرمایہ داری گیا پورے مشرق میں بیداری کی ایک لہر دوڑنے لگی ہے۔ چین تک کی غفلت دور ہو چکی ہے اور ہمالہ پر جمی ہوئی برف پگل کر ایک چشمہ رواں کی طرح ابلنے لگی ہے۔ لیکن مشرق کی امیدوں کامرکز ملت اسلامیہ ہے جس کے پاس ہی وہ نسخہ نور ہے جو عصر حاضر کی تاریک کو سحر کر سکتا ہے۔ اور پوری انسانیت کو مغربی جبر و ستم اور استبداد و استحصال سے بچا سکتا ہے۔ چنانچہ مسلماں ہے توحید میں گرم جوش‘ مگر خالص و کامل تو حید کی بازیابی ابھی باقی ہے عشق کی آگ بجھ چکی ہے‘ اور مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ اس ٹیپ پر دوسرا بند تمام ہوتا ہے۔
لہٰذا تیسرا بند اس دعا سے شروع ہوتا ہے:
شراب کہن سے پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
بال جبریل کی ایک غزل کا شعر ہے:
وہی دیرینہ بیماری‘ وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
دل کی نامحکمی ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو ملت زوال پذیر ہوت ہے اسے یہی ضعف قلب یعنی ضعف ایمان کی دیرینہ بیماری لاحق ہوتی ہے جبکہ ترقی پذیر ملت کا دل پر یقین ہوتا ہے۔ طاقت ایمانی سے محکوم ہوتا ہے اس لیے کہ وہ عشق الٰہی عشق رسولؐ اور عشق دین کے آب نشاط انگیز سے سرشار ہوتی ہے۔ ترقی کی یہ کیفیت ماضی میں ملت اسلامیہ کے اندر موجود اور نمایاں تھی۔ اور آئندہ ترقی کے لیے دوباری اسی کو پیدا کرنا پڑ ے گا۔ لہٰذا ساقی سے التجا ہے کہ عشق کی شراب کہن اپنے زندان مے کدہ کو پھر پلا دے اور توحید کا وہی جام گردش میں لائے جو کمزوروں کے دل مضبوط کر کے انہیں ایمان کی دولت سے طاقت ور بنا دیتا ہے اور ممولے کو شہباز سے لڑا کر جتا دیتا ہے ۔ چوں کہ شاعر کو نور حق کا یہ پیغام دنیائے اسلام کو دینا ہے لہٰذا وہ ساقی فطرت سے دعا کرتا ہے کہ اسے عشق کے پر لگا کر اڑائے اور اسے جگنو کی طرح تاریکی میں اجالا پیدا کرنے کے قابل بنائے۔ لیکن وہ پرانی نسل کے لوگوں سے مایوس ہے اس لیے کہ وہ خوئے غلامی میں پختہ ہو چکے ہیں اور ان کے جسمانی و دماغی قویٰ مضحمل ہو گئے ‘ لہٰذا اس کی امیدیں نئی نسلوں سے وابستہ ہیں اور وہ چاہتا کو جوانان ملت مصلحت اندیش اور مصالحت باز خرد کی غلامی سے آزاد ہو جائیں اور عشق کی جرات رندانہ اختیار کریں تاکہ خود ان کی خرد بھی دوسروں کی غلامی سے آزاد ہو جائے۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب جو ان عشق کی بصیرت سے مالا مال ہو کر فراست ایمانی اور اس سے پیدا والی جرات عمل دونوں میں پیروں کے استاد بن جائیں اور ملت کی قیادت کریں۔ چنانچہ اسی خیال کے تسلسل میں شاعر کہتا ہے :
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
پھر وہ اپنے ذوق و شوق کے کوائف بیان کر کے بند کو اس ٹیپ پر ختم کردیتا ہے:
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے! ٹھکانے لگا دے اسے
یہ کون سی دولت ہے؟ ٹیپ سے پہلے بند کا آخری شعر ہے:
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
یہ متاع فقیر درد عشق ہے:
مرے دیدہ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کو پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا آغاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری
امیدیں مری ‘ جستجوئیں مری
اس درد عشق نے ہی شاعر کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ زندگی حرکت ارتقاء اور خودی کے راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور نونہالان ملت کو بقا و ترقی کے ان رازوں کے آگاہ کر کے صاحب نظر اولولعزم اور سرفروش بنا سکتا ہے۔ لہٰذا چوتھا بند زندگی کے حقائق بیان کرتا ہے اور ان دو نہایت معنی خیز حسین اور فکر انگیز شعروں پر ختم ہوتا ہے:
کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ
کہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیانے سے دور
پھڑکتا ہوا جال میں نا صبور
یہ تصویریں زندگی کے دو پہلوئوں کی پیکر تراشی کرتی ہیں۔ ایک قوت کا ہے ‘ دوسرا ضعف کا ‘ شاہین قوت کی علامت ہے ‘ کبوتر ضعف کی ۔ شاہین کو شکار کرتا ہوا دکھایا گیا ہے اور کبوتر کو شکار ہوتا ہوا۔ ا س فرق کو دلوں پر نقش کرنے کے لیے دونوں کی حرکات کو چند جزئیات کے ساتھ متشکل کر دیا گیا ہے ۔ شکاری لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ ہے اور شکار پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور۔ چونکہ شاعر کے مخاطب عصر حاضر کی تاریخ میں کبوتر کارول ادا کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس رول کو زیادہ سے زیادہ پرور دا ور وحشت خیز بنانے کے لیے کبوتر کی بے چارگی اور حسرت و اندوہ میں ہے یہ کہ بے پناہ اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ کہ یہ کبوتر کہیں آشیانے سے دور ہے ۔ لہٰذا وہ جال میں پھنس کر تڑپ رہا ہے ۔ اگر وہ شکاری کانوالہ تر بن گیا تو ا س کے آشیانے میں اس کی راہ دیکھنے والے اہل و عیال کا کیا ہو گا؟ اس تفصیل کے لطیف اشارات سے شکار کی درد مندی اور شکاری کی بے دردی کا نہایت عبرت انگیز مرقع تیار ہو جاتا ہے۔ اور جہاں کبوتر کے ساتھ بے اختیار ہمدردی ہوتی ہے وہیں جال کو توڑ کر نکل جانے اور آئندہ کبھی جال میں نہ پھنسنے بلکہ اپنے ضعف کو ہمیشہ کے لیے دور کر لینے کا شدید احساس بھی ابھرتا ہے۔ شاہین کی بھیانک تصویر اس پرندے کے عام تصور کے مطابق ہے نہ کہ اس حقیقت کے مطابق جو اس کی اقبال کی نگاہ میں ہے۔ اس تصور کا استعمال فرمان خدا میں بھی کیا گیا ہے :
گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
بہرحال اس تصویر کا خاص مقصد کبوتر کا رول ادا کرنے والوں کو اس خطرے سے خبردار کرنا ہے جو ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
(ابوالعلا معری… بال جبریل)
اس کے بعد پانچویں بند میں زندگی کی اس حرکیت‘ مشکل پسندی اور ترقی پسندی کا ولولہ انگیز بیان ہے جو کبوتر کے تن نازک پر شاہین کا جگر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے:
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
یہ بند تسلسل زماں کے ذکر پر ختم ہوتا ہے اور اس کے فوراً بعد چھٹے بند سے خودی کا بیان شروع ہو جاتا ہے ۔ اس طرح حرکت زندگی اور خودی کے درمیان وقت کو گویا رابطہ بنایا گیا ہے ۔ یہ بہترین رابطہ ہے اس لیے کہ خودی کا اظہار‘ اس کی تشکیل اور تکمیل سب ہی مراحل حوادث زمانہ کے درمیان اور ان کے ہاتھوں ہی طے ہوتے ہیں جیسا کہ اسی چھٹے بند کا ایک شعر واضح کرتا ہے:
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
خودی کا یہ بیان ساتویں اور آخری بند میں بھی جاری رہتا ہے ۔ اور اب مسلمان یا انسان کو… دونوں کے درمیان اقبال کے نزدیک کوئی فرق نہیں…ایک زنجیر ایام میں رواں دواں زندگی کا مسافر قرار دے کر تلقین کی جاتی ہے کہ وہ تصور خودی کو عملی شکل دے اور وسعت کائنات میں حیات کا ایک ذرہ حقیر ہونے کے باوجود خودی کے زور سے…جو راز درون حیات اور بیداری کائنات ہے ۔ قوت حیات کا مجسمہ بن کر کائنات پر اپنی فتح کا پرچم لہرا دے۔
یہی ساقی نامہ کا پیغام ہے‘ اس کو دل میں اتارنے کے لیے چھٹے بند کی ٹیپ میں ایک بہت ہی حسین اور خیال انگیز تشبیہہ استعمال کی گئی ہے۔
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی فلک نشین ہے اور آدمی خاک نشیں۔ لیکن وسعت کائنات میں آدمی کا ننھا سا وجود آنکھ کے تل کی موقر ہے۔ جوپورے جشم کا سب سے چھوٹا عضو معلوم ہوتا ہے مگر اہمیت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے‘ جسم کی بینائی اسی سے ہے ‘ جس کے بل پر جسم کی پوری قوت کا اظہار ہوتا ہے اوردوسرے تمام اعضا کو اپنا اپنا کام صحیح انداز میں کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس استعارے کو جاری رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آدمی چشم فلک میں ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس فلک کو آنکھوں کا ستارا سمجھنا چاہیے۔ اسی بات کو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ انسان چشم کائنات ہے اور اس کا دل اس کائناتی آنکھ کا تل ہے۔ یہ سب مضمرات ہیں سامنے کے اس مفہوم کے کہ جس طرح آسمان کی وسعتوں کا عکس آنکھ کے چھوٹے سے تل میں سما جاتا ہے اسی طرح خودی کی ساری وسعتیں دل انسان میں سمٹ آئی ہیں اگر یہ دل بیدار اور حق آگاہ ہو جب دل سے انسان کا یہ مقام ہے تو انسان کا فرق ہے کہ اپنی خودی پہچانے اور اس سے وہ کام لے جو قدرت الٰہی نے اس کے لیی مقدر کیا ہے۔ یہ کام کتنا بڑا ہے اور اس کا انعام کیا ہے اس کی تشریح آخری بند میں قبل کے بند میں ٹیپ کے زیر نظر شعر کے بعد اور ا س کے معانی کے تسلسل میں ہوتی ہے چنانچہ نظم کے آخری چار اشعار یہ ہیں:
تو ہے فاتح عالم خوب و زشت
تجھے کیا بتائوں تری سرنوشت
حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمع نفس
مگر تاب گفتار رہتی ہے بس
اگر یک سر موئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
یہ ایک تفصیل کا خلاصہ ہے جس میں اس کے ولولہ انگیز اشعار ہیں:
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر
طلسم زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیر مولا جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید آسماں اس کا صید
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخی فکر و کردار کا
یہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
بہرحال خاتمہ نظم کے آخری چار اشعار بہت معنی خیز ہیں اور ان کا ابہام بے حد خیال انگیز ہے۔ ایک مصرعے حقیقت یہ ہے کہ جامہ حرف تنگ میں اشارات کی ایک دنیا آباد ہے شاعر کا سینہ روشن ہے اور کائنات میںانسان کے مقام اور اس کی خودی کے کمالات و فتوحات کے متعلق عمیق خیالات کا ہجوم اس کے ذہن پر ہوا رہا ہے۔ مگر تاب گفتار کہتی ہے بس یعنی ایسے باریک خیالات کو بیان کرنے کا یارا زبان شاعر کو نہیں ہے ا س کیفیت کے اظہار کے لیے معراج النبیؐ کے واقعے پر ایک مشہور فارسی شعر کا حوالہ دے کر یہ واضح اشارہ کیا گیا ہے کہ عروج آدم خاکی کی منزل سدرۃ المنتہیٰ مادی کائنات کے آخری نقطے… تک ہے یعنی چرخ نیلی فام سے پرے ہے جیسا کہ شب معراج رفیق سفر رسولؐ حضرت جبرئیل کی زبان سے اد ا ہونے والے اس بیان سے مترشح ہوتا ہے۔ جو متعلقہ روایات پر مبنی سعدی کے محول فارسی شعر میں مضمر ہے۔ روح القدس نے سدرۃ المتہیٰ تک رسول اللہ ؐ کی رفاقت کے بعد کہا تھا کہ وہ اس سے آگے بال برابر نہیں بڑھ سکتے اس لیے کہ آگے انوار الٰہی کی و تجلی ہے جو فرشتوں کے سردار کے پر بھی جلا دے گی۔ لہٰذا اب ختم المرسلینؐ جلوہ حقیقت اور مشاہدہ حق کے آخری مقام کی طرف مقام عبدہ پر فائز ہونے کا سبب تنہا ہی بڑھیں۔ یہ ارفع مقام کائنات وجود میں اشرف المخلوقات کے سوا کسی کا نہیں لہٰذا انسان اگر اپنی حقیقت کی شناخت کر لے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے تو چھٹے بند کے ایک شعر کے مطابق انسانی خودی کی ترقی کا یہ عالم ہے :
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
بس انسانیت کی ایک حد ہے‘انسانیت جس کی تعین آخری بند کے اس شعر سے ہوتی ہے:
وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
یہ وہی بات ہے جو بال جبریل کی ایک غزل کے اس شعر میں ہے:
وہ بندگی خدائی یہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن‘ یا بندہ زمانہ
یہ مقام عبدہ کی بہترین تشریح ہے۔ انسانیت کے موضوع پر یہ شاعری کا نقطہ عروج ہے جس کو کلام اقبال نے ہی حاصل کیا ہے ۔ اس کلام میں فکر کا اعتدا ل اور فن کا توازن دونوں موجود ہیں اور کمال حسن و زیبائی اور انتہائے سرمستی و رعنائی کا باعث ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی ایک بار پھر نمایاں ہوتا یہ کہ اقبا ل نے انسانیت کی شاعری کا اوج کمال ملت کی شاعری کے ذریعے حاصل کیا ہے‘ جبکہ اس شاعری کی پہنائی میں مشرق وطن اور فطرت کی شاعری کے پہلو بھی شامل ہیں۔ اس لیے کہ ملت کی شاعری خودی اور عشق کے آفاقی تصورات پر مبنی ہے۔ اور ملی تاریخ کے حوالے فنی استعارات و علائم کا کام کرتے ہیں‘ اور اس تاریخ کی تلمیحات کے اشارات و کنایات شاعری کی لطیف ایمائیت پیدا کرتے ہیں۔
ٹیپ کے فارسی شعر سے قبل ساقی نامہ کے آخری شعر:
فروزاں ہے سینے میں شمع نفس
مگر تاب گفتار گہتی کہتی ہے بس!
کا موازنہ شکوہ کے پہلے بند کی ٹیپ سے کرنا دلچسپ اور مفید ہو گا:
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
خاکم بدہن کے تحفظ کے باوجود شکوہ میں تاب سخں اتنی جرات آموز ہے کہ بندے کو خدا کا شکوہ خدا سے کرنے پر آمادہ کرتی ہے جبکہ وہی تاب گفتار ساقی امی میں کہتی ہے کہ بس حالانکہ فروزاں ہے سینے میں شمع نفس یہ فرق فن کی پختگی اور ارتقا کا ہے راز کی جوبات شاعر نے تصویر و ترنم کے رنگ و آہنگ کے باوجد شکوہ میں برملا اور واشگاف کہہ دی ہے ساقی نامہ میں اس کے اظہار کے لیے بعض تفصیلات کے باوجود ایک ایمائی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ محسوس کرتا ہے:
حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ یہ احساس فکر و فن دونوں کا نقطہ کمال ہے۔
اس کمال کا اظہار بڑے لطیف طریقے سے ساقی نامہ کی ابتدا و انتہا کی ایمائی ترکیب و ترتیب میں ہوا ہے۔ جس سے نظم میں ارتقائے خیال کی تنظیم بالکل نغماتی پیوستگی کے ساتھ ہوئی ہے ہم نے آخری بند میں انسانی خودی کی یہ حرکیت دیکھی ہے:
بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر
طلسم زماں و مکاں توڑ کر
جبکہ اس سے قبل کے بند میں بھی ہم نے خودی کی یہ روانی عمل دیکھی تھی:
زمانے کے دریا میںبہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
یہ انتہا کا منظر نامہ ہے اور انسان کے فکر و عمل سے تعلق رکھتا ہے جس کے بار ے میں نظم کا آخری بند بتاتا ہے:
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخی فکر و کردار کا
ب اس یلغار اور شوخی کی تحریک بالکل ابتدائے نظم میں فطرت کے منظر نامے پر ملاحظہ کیجیے اس کا حوالہ قبل ہی دیا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں صر ف تین پیکروں کا مطالعہ کافی ہو گا:
جہاں چھپ گیا پردہ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں
اس سے قبل کے دو اشعار میں کاروان بہار کے خیمہ زن ہونے اور دامن کوہسار کے ارم بن جانے کا ذکر ہے‘ جس میں گل و نرگس و سوسن و نسترن بھی کھلے ہوئے ہیں اور شہید ازل لالہ خونیں کفن بھی لہٰذا جہاں پردہ رنگ میں چھپ گیا ہے ۔ اس منظر بہار میں سب سے نمایاں عنصر لہو کی گردش ہے جوش حیات ہے حرکت زندگی ہے اور یہ عنصر پوری فضا پر اس درجہ محیط اور اس حد تک شدید ہے کہ رگ سنگ میں بھی موج زن ہے:
فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
بہار کی فضا یقینا پر سرور ہے اور اس کا سرور یہ ہے کہ ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور بلکہ اپنا نشیمن چھوڑ کر نیلی نیلی فضا کی وسعتوں میں ہوا کے دوش پر اڑتے پھر رہے ہیں‘ اور سے اور بلندیوں کی طرف پرواز کرتے جا رہے ہیں:
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ (شاہین) طیور سراپا حرکت میں ہیں اور محو تک و تاز :
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی‘ لچکتی‘ سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی‘ سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سیل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
یہ سعی و جدوجہد اور حرکت و عمل کا پیچ و خم ہے جس کی شدت اور زور کا عالم یہ ہے کہ اس سیل حیات کی راہ میں اگر چٹانیں حائل ہوں تو ریزہ ریزہ ہو جائیں اور اس طرح سخت سے سخت راہ بھی بڑھتے ہوئے قدموں تلے آ کر ہموار ہو جائے۔ یہاں انسانی خودی کے اقدام و ارتقا کے سلسلے میں آخری بند کا یہ مصرع بے اختیار یاد آتا ہے:
بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر
فطرت کے محسوس مناظر اور خودی کے مجرد تصور کے درمیان ایسی زبردست ہم آہنگی اقبال کے فن کا بے نظیر کارنامہ ہے۔ ان کے جذبہ عشق کی یکسوئی مختلف عناصر وجود کی متنوع تصویروں کو ملا کر ایک کر دیتی ہے ۔ حسیات کی ایسی ہی یک جہتی عظمت فن کی دلیل ہے جس کی حامل اقبال کی شاعری دنیا کے کسی بھی شاعر کے کلام سے بڑھ کر ہے اس شاعری میں ذہن کا ارتکاز کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں سمویا ہوا بھی ہے ذہن و فن کا یہ امتزاج اپنے اس نقطہ عروج پر جو اقبال نے حاصل کیا ہے دنیائے شاعری میں بے مثال ہے۔
٭٭٭
شاعری میں ذہن کا ارتکاز فن کے ارتکاز کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں سمویا ہوا بھی ہے۔
مسجد قرطبہ
ہم فطرت ‘ وطن ‘ ملت ‘ انسانیت ‘ خودی اور عشق کے موضوعات پر اقبال کی اہم نظموں کا مطالعہ کر کے ان کے محبوب مضامین اور بنیادی عناصر فکر پر ان کی عظیم فن کاری کا کافی اندازہ لگا چکے ہیں۔ لیکن مسجدقرطبہ اس اندازے کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ اقبال کی شاعری کا عظیم ترین نمونہ ہے ۔ اورمیرے خیال میں تمثیل کے مد فاضل سے صرف نظر کر کے خالص نظم نگاری میں دنیا کی بہترین تخلیق ہے۔ اس نظم کی ترتیب ہئیت میں شروع سے آخر تک ایسی کامل یکسوئی اور اس کے عناصر ترکیبی کے درمیان ایسی مکمل پیوستگی ہے کہ خود اقبال کی دوسری اہم نظموں میں مواد کی انتہائی پیچیدگی کو انتہائی ہم آہنگی میں مرتکز کرنے کی اتنی بڑی مثال اتنے بڑ ے پیمانے پر نہیںملتی یقینا ایسی ہی ہمواری و استواری ذو ق و شوق میں بھی ہے۔ مگر اس کا پیمانہ مختصر ہے اور اس کا مواد سادہ سا۔ اس میں صرف شاعر کے انفرادی جذبات اور ذاتی واردات کا بیان ہے گرچہ احساسات کے اظہار میں عمومیت ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کے لطف و مسرت میں شرکت بھی پوری طرح ہوتی ہے۔ ساقی نامہ کا پیمانہ یقینا بڑا ہے‘ لیکن ارتقائے خیال کے تسلسل کے باوجود اس کی ہئیت میں ہمواری و استواری کی وہ شدت نہیں جو ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساقی نامہ کے عناصر کی تقسیم جس آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے اور کی گی ہے وہ مسجد قرطبہ میں ممکن ہی نہیں۔ تنقید تو ہر چیز کا تجزیہ اور تشریح کر لیتی ہے۔ مگر یہ تجزیہ و تشریح ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے عناصر کے سلسلے میں مشکل سے ہوتی ہے۔ یہ گویا دریا کی لہروں کو گننا ہے جب کہ موج در موج ہونے کے باوجود سطح آب یکساں ہوتی ہے ہم نے ان کے مترنم آہنگ کے پیش نظر اقبال کی نظموں میں برابر نغمگی کا احساس کیا ہے‘ ظاہر ہے کہ شاعری میں مسویقی کی ادکار سراغ لگانا ایک استعارہ ہے لیکن مسجد قرطبہ کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ استعارہ حقیقت بن رہا ہے۔ بہرحال ساقی نامہ میں جو موسیقی صرف بانسری کی باریک سی آواز ہے وہ مسجد قرطبہ میں ایک ارغنون یا آرکسٹرا کی طرح دبیز بسیط اور تہہ دار ہے۔
اس نظم میں عصر عشق‘ ایمان‘ اور فن کا ایسا امتزاج ہے کہ عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بے اختیار دوسرے کا احساس بھی کرتے ہیں۔ شاعر نے واقعہ یہ ہے کہ نظم میں عشق و ایمان و فن کو وقت کی اتنی بسیط سطح پر مدغم کیا ہے کہ خود وقت عشق ‘ ایمان اور فن تینوں بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح عشق پر ایک آیت قرآنی اور ایک حدیث رسولؐ کا پرتو پڑا ہے۔
آیت یہ ہے :
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنو ا و عملو الصلحت وتواصو باالحق وتواصو بالصبر
(زمانے کی قسم ! بیشک انسان خسارے میں ہے سو ا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوںنے نیک عمل کیا اور لوگوں کو حق اور صبر کی تلقین کی)۔
حدیث: لا تسبو الدھر فان اللہ ہو المدھر
(زمانے کو برا نہ کہو اس لیے کہ یقینا اللہ ہی زمانہ ہے)
اس نظم میں ہر بند کے اشعار اور سب بندوں کی تعداد مساوی ہے ۔ آٹھ آٹھ شعر کے کل آٹھ بند ہیں یہ تقسیم بھی ترتیب ہئیت کی کامل ہمواری و استواری کی ایک دلیل ہے۔ نظم ہسپانیہ کے پس منظر میں ہے جو اقبال کا محبوب ترین تاریخی موضوع ہے۔ اور اس پر ہسپانیہ اور طارق کی دعا جیسی نظمیں بھی بال جبریل ہی میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ اسی سلسلے میں عبدالرحمن اول سے معتمد تک ہسپانیہ کے عروج و زوال سے متعلق احساسات بھی ہسپانوی تاریخ ہی کے دو کرداروں کے جذبات کی شاعرانہ ترجمانی کرکے پیش کیے گئے ہیں مسجد قرطبہ میں ان چھوٹی نظموں کے ارتعاشات بھی جذب ہو گئے ہیں۔
نظم کے دو حصے ہیں پہلے میں دعا ہے جو پوری کی پوری مسجد قرطبہ میں لکھی گئی ہے۔ جیسی کہ عنوان کے نیچے قوسین میں شاعر کی طرف سے وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے حصے میں مسجد قرطبہ ہے جو شاعر کی وضاحت کے مطابق ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص مسجد قرطبہ میں لکھی گئی ہے۔ یہ وہی تکنیک ہے جو روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے (مع فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں) اور فرمان خدا (مع فرشتوں کا گیت) میں اختیار کی گئی ہے ۔ اس ترتیب سے تمثیلی رنگ ابھرتا تو ہے مگر دوسری نظموں کی طرح اس نظم میں دو آوازیں نہیں ہیں۔ فرشتے اور روح ارضی یا فرشتوں اور خدا کی بلکہ صرف ایک آواز شاعر کی ہے جو پہلے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر دعا مانگتا ہے پھر مسجد کے متعلق اپنے احساسات و خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔ اس طرح دعا کے ساتھ اظہار خیال کو مربوط کرنا مسجد قرطبہ کی شاعری میں عصر عشق ایمان اور فن کو ہم آہنگ کر نے والے عامل کا تیسرا سراغ بہم کرتا ہے۔ یہ عامل رب اور عبد خالق حقیقی اور مجازی خالق نظم کے درمیان وہ رابطہ استوار جو فکر و فن کو باہم دگر پیوستہ کرنے والا اور بہ یک وقت عاشقانہ و شاعرانہ جذبہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ مسجد قرطبہ میں لکھی گئی دعا خاص کر اس کے آخری شعر سے واضح ہوتا ہے:
ہے یہی میری نماز‘ ہے یہی میرا وضو
میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو
صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور
سر خوش و پر سوز ہے لالہ لب آبجو
راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو
تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتش اللہ ہو
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درود و داغ
تو ہی مری آرزو تو ہی مری جستجو
پاس اگر تو نہیں ہے شہر ہے ویراں تمام
تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو خلوتیوں کے کدو
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لا مکاں میرے لیے چار سو
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو
ذوق و شوق اور ساقی نامہ دونوں کے آثار اس دعا میں ہیں جو مسجد قرطبہ کی بڑی حسین موزوں اور موثر تمہید ہے ۔ اس کا پہلا ہی شعر آنے والی نظم کے عناصر عشق ایمان فن …کا اشاریہ ہے۔ عشق کے درد مند فن کار کی نوائوں میں فطری طور پر اس جگر کا لہو ہے اور یہی خون جگر ہے جس سے وہ وضو کرتا ہے اور اس کی نواہی نماز ہے یا اس کی نماز اس کی نوا ہے اس طرح فیض عشق سے فن ایک طرز عبادت بن جاتا ہے اس لیے کہ جس ایمان نے عشق پیدا کیا وہی فن بھی پیدا کرتا ہے ۔ فن کے اسی تصور کی نشاندہی دعا کا آخری شعر بھی زیادہ تعین کے ساتھ کرتا ہے خواہ علم فلسفہ ہو یا فن شعر دونوں کی حقیقت جلوہ محبوب کے لیے لب عاشق پر ایک حرف تمنا کی ہے جو رخ محبوب کے پس پردہ اور نگاہوں سے دور ہونے کے سبب شرمندہ الفاظ ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ و شعر دونوں کی بڑی نہ تعریف اور مسجد قرطبہ کے انداز نظر اور ترکیب فن کا بہترین کراتی ہے۔ یہ نظم واقعی فلسفہ شعر کا ایک نہایت باذوق اور پر شوق حرف تمنا ہے۔
دعا کے بعد نظم کا پہلا بندوقت کی ایک فلسفیانہ تعبیر شاعرانہ انداز میں پیش کرتا ہے:
سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلہ روز و شب ستار حریر دورنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں
جس سے کھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب صیرفی کائنات
تو ہوا اگر کم عیار‘ میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات‘ موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا‘ یا طن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہہ نو منزل آخر فنا
’’نقش گر حادثات‘‘ ’’تار حریر دورنگ‘‘ ’’قبائے صفات‘‘ سازل ازل کی فغاں‘ ’’زیرو ممکنات‘‘ ’’صیرفی کائنات جیسی چند نفیس تصویروں اور سلسلہ روز و شب کی ترنم خیز اور خیال آفریں تکرا ر سے شاعر نے صرف چھ شعروں اور بارہ مصرعوں میں وقت کا ایک جمیل و جلیل پیکر تراش کر رکھ دیا ہے۔ جو موضوع نظم کے بالکل مناسب ہے۔ زمانہ ایک شان خداوندی ہے زندگی اسی سے عبارت ہے اور یہ زندگی کا امتحان بھی ہے ‘ بہرحال زمانہ لمحات کے ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جس کی تقسیم ممکن نہیں‘ زمانے کا عمل غیر جانبدار اور منصافہ اس کا فیصلہ انسان کے عمل کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹیپ کے ساتھ آخر کے دونوں اشعار وقت کے وقت پیام کا ذکر کرتے اور بتاتے ہیں کہ دنیا اور اس کا ہر کام فانی ہے‘ اول و آخر ‘ باطن و ظاہر قدیم و جدید ہر چیز فانی ہے‘ انسانی ہنر و فن کے تمام کمالات بے ثبات اور عارضی ہیں‘ خیالات ‘ استعارات اور آہنگ کی مجموعی ترکیب کے لحاظ سے وقت کے موضوع پر یہ بند شاعری کا بہترین پارہ فن ہے۔
اس عالم فنا ہے بقا اور بقائے دوام کی صرف ایک صورت ہے چنانچہ دوسرا بند اس نادر استثنا کو بیان کرتا ہے اور کی ایک فلسفیانہ توجیہہ شاعرانہ طریقے سے کرتا ہے:
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات‘ موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کو رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیںکوئی نام
عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسولؐ عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ‘ عشق ہے اس کا الکرام
عشق فقیہ حرم عشق امیر جنود
عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات
جس طر ح پہلے بند میں سلسلہ روز و شب کی تکرار طلسم آفریں تھی اسی طرح دوسرے بند میں عشق کی تکرار ہے ۔ اس تکرار میں معنی آفرینی بھی پہلے ہی کی طرح ہے۔ سلسلہ روز و شب کی تکرار نے وقت کی طاقت کا پیکر تراشا تھا اور عشق کی تکرار عشق کی طاقت کی تصویر کھینچتی ہے۔ ’’سیل ‘‘ ’’تقسیم‘‘ ’’دم جبرئیلؑ‘‘ ’’دل مصطفیٰؐ‘‘ ’’پیکر گل‘‘ ’’صہبائے خام‘‘ ’’کاس الکرام‘‘ ’’ابن السبیل‘‘ ’’مضراب‘‘ ’’نغمہ تار حیات‘‘ وغیرہ جیسے پیکر عشق کے جمال وجلال کا ایک مرق مرتب کرتے ہیں۔ اس عارفانہ و فن کارانہ عشق کو مرد خدا سے منسوب کیا گیا ہے اوراس کے کارمانے کو لافانی یعنی وقت کی دسترس سے باہر قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح عشق کی قوت وقت کی قوت سے ٹکراتی ہے ۔ تو فتح عشق کی ہوتی ہے اس لیے عشق ہی وہ جوہر ہے جو زندگی کو وقت کے معیار امتحان پر پورا اترنے کے قابل بناتا ہے۔ اوریہ جوہر ایمان و یقین کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتا۔ چنانچہ ایمان و یقین کا مجسمہ اور جوہر عشق کا آئینہ وہ انسان ہے جو مرد خدا ہے یہ وہی مرد مومن یا مرد مسلمان ہے جو اقبال کے تصور انسانیت کی علامت ہے۔ اس کا تعلق کسی فرقے علاقے طبقے اور زمانے سے نہیں یہ صرف ایک صاحب نظریہ اور صاحب کردار اور اصولی و عملی شخصیت ہے جو روئے زمین پر براہ راست خدا کا نائب اور بلا امتیاز پوری دنیا کا دوست فلسفی اور راہ بر ہے۔ اس مرد خدا کا جذبہ ایمان و عشق جب اپنی بہترین صلاحیتوں سے کام لے کر کوئی پارہ فن تخلیق کرتا ہے تو وقت کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔ آفاقی انسان کا کارنامہ ابدی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا محرک حسن ازل کا کائناتی و سرمدی عشق ہے۔
پچھلے بند میں وقت کو نفس گر حادثات‘ اصل حیات و ممات قبائے صفات‘ (الٰہی) کا تار حریر دورنگ ‘ ساز ازل کی فغاں‘ اور صیرفی کائنات‘ کے پیکروں میں منقش کر کے‘ ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات کا طوفان نقطہ کھینچا گیا تھا۔ دوسرا بند اسی زمانے کی رو کو تند و سبک سیر بتاتے ہوئے عشق کی بھی ایک ایسی طوفانی تصویر پیش کرتا ہے جو اپنے زور میں طوفان شکن بھی ثابت ہوتی ہے:
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی یہ تقویم زمانے کی تقویم کرتی ہے ۔ چنانچہ اس عظیم الشان ازلی و ابدی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام… ایک طرف بے کراں ماضی ہے اور دوسری طرف ناپید کنار مستقبل‘ ظاہر ہے کہ ان دونوں وسعتوں کے درمیان زمانہ حال ایک بہت ہی محدود مختصر سا لمحہ ہے۔ اس تصویر وقت اور عشق کی تصویر کے ساتھ ایس کے مقابلے میں موضوع نظم کے بنیادی اشارات مضمر ہیں مطلب یہ ہے کہ عصر حاضر کی سطحی و عارضی تابانیوں پر فریفتہ اور ان سے مرعوب ہونے کے بجائے زندگی کے اصلی اور دائمی محرک عشق کا کھویا ہوا جوہر دوبارہ حاصل کرنا چاہیے اس لیے کہ عصر حاضر کے تمام معجزہ ہائے ہنر فنا پذیر ہیں اور صرف اس نقش میں رنگ ثبات دوام ہ جس کو کسی مرد خدا کے جذبہ عشق نے تمام کیا ہو۔ عشق سے فروغ پانے والا یہ عمل صدیوں قبل ماضی میں ہو چکا ہے۔ اور وہ مستقبل میں بھی صدیوں تک قائم رہے گا۔ اسی عمل کی ایک نمایاں مثال مسجد قرطبہ ہے جو سپین میں مسلمانوں کی سلطنت کے خاتمے پر صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنی جگہ قائم ہے اور آئندہ رہے گی اس پر موت حرامہے اس نے وقت کو شکست دی ہے اس کا حسن لازوال ہے اس لیے کہ وہ عشق کی تخلیق ہے جو واصل حیات ہے۔ اس عشق کی بہت ہی موزوں اور خیال انگیز کردار نگاری‘ دم جبرئیل دل مصطفیٰؐ‘خدا کا رسولؐ اور خدا کا کلام جیسے پیکروں سے کی گئی ہ۔ جو سب کے سب اس تاریخ اسلام کے اشارات ہیں جن کے تناظر میں مسجد قرطبہ تعمیر کی گئی تھی اور تخلیق بھی جاری ہے۔ کاس الکرام‘ دفقیہ حرم‘ امیر جنود‘ اور ابن السبیل کے پیکر بھی تاریخ اسلام ‘ تاریخ سپین اور تعمیر قرطبہ کے اشارات بہم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک چابک دست فن کار نے وقت کے ساتھ ساتھ عشق کی مرقع نگاری اپنے موضوع کی مناسبت سے اور اس کے تخیل کے تمام پہلوئوں کی نقاشی کے لیے کی ہے۔ اسی لیے بند کی ٹیپ میں عشق کو نور حیات اور نار حیات کے ساتھ نغمہ تار حیات بھی کہا گیا ہے۔ نور و نغمہ گویا اس عظیم نمونہ فن کے عناصر ترکیبی ہیں جس کی شاعرانہ تصویر کشی تخلیق نظم کا مقصود ہے۔
دو بندوں میں وقت اور عشق کے تصورات کو فنی طورپر ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر عشق کی برتری ثابت کرنے کے بعد تیسرے بند میں شاعر عشق اور فن کے امتزاج کا جلوہ دکھاتا ہے اور آخر میں اس امتزاج کے تاریخی عامل کی طرف اشارہ کرتا ہے پچھلے بند کی ٹیپ میں عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات کاجو آہنگ نمودار ہوا تھا موجودہ بند میں اس کی تجسیم وتمثیل ہوتی ہے:
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے سدا سوز و سرود و سرور
تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور مجھ سے دلوں کی کشود
عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود
پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سو و گداز سجود
کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوۃ درود لب پہ صلوۃ و درود
شوق مری لے میں ہے شوق مرے نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
یہاں عشق اور فن کے کردار ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں اور ا س ادغام کا ظہور ایک عاشق ایک انسان‘ ایک مومن ‘ ایک شاعر کی ہستی میں ہوتا ہے۔ جو عشق انسانیت‘ ایمان اور شاعری کے امتزاج سے ایک نمونہ فن کا نظم کی صورت میں اسی طرح تخیق کا رہا ہے جس طرح صدیوں قبل سپین میں اسلام کے مردان خدا نے مسجد قرطبہ تعمیر کی تھی۔ مختلف عناصر فکر کی ہی فنی ترکیب ہی مواد نظم کی شاعرانہ ترتیب کی ذمہ دار ہے۔ اسی ترکیب و ترتیب سے وہ پر معنی خیال آفریں ‘ رنگین زریں اور نغمہ ریز تنظیم فن رونما ہوتی ہے جس کا نام مسجد قرطبہ ہے شاعر کہتا ہے کہ مسجد کی تعمیر ایک لازوال عشق نے کی ہے اور عشق خون جگر سے جس سے معجزہ فن کی نمود ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ خون جگرہی وہ سوز و داز پیدا کرتا ہے جو چٹان کو بھی پگھلا کر دل کی طرح حساس‘ لطیف اور بے تاب بنا دیتاہے۔ خون جگر سے سدا سوز و سرود و سرود کی بارش ہوتی ہے اور عشق کایہ فن کار خون جگر دل انسان میں موج زن ہوتا ہے۔ جس پر انوار الٰہی کا پرتو پڑتا ہے۔ عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں۔ انسان کا قلب سو ز و گداز سجود سے لبریز ہے ۔ یہ وہ کیفیت ہے جو فرشتوں کو بھی نصیب نہیں۔ اس کیفیت کی بدولت کف خاک کا رتبہ پیکر نوری سے بھی بلند تر ہو گیا ہے ۔ شاعر اس کف خاک کا ایک مجسمہ اور آئینہ ہے اس کا شعور انسان انسان کے دل میں عشق کا سوز و گداز پیدا کرتا جس فن اپنی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ عشق اور فن کار یہ ملا جلا ذوق و شوق شاعر کے خیال میں تصور پر توحید پر مبنی ہے کم از کم اس کا اور ا سکے موضوع کا تخلیقی سرچشمہ یہ تصور ہے۔ چنانچہ اس سرچشمے سے ابھرنے والے فنی نمونے یا زندگی کے کارنامے لازوال ہوتے ہیں‘ وقت کی دست برد سے محفوظ رہتے ہیں۔ توحید یا زندگی کے کارنامے لازوال ہوتے ہیں۔ وقت کی دست بر د سے محفوط رہتے ہیں۔ توحید کی عملی شکل عشق خدا و رسولؐ ہے لہٰذا شاعر اپنے تخلیقی ذہن کی ترکیب کرنے سے بت خانہ ہند سے اپنے آبائی تعلق کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس سلسلہ بیان کے منطقی نتیجے کے طور پر پہلے بند کی ٹیپ میں وقت اور دوسرے بند کی ٹیپ میں عشق پر زور دینے کے بعد تیسرے بند کی ٹیپ میں ایمان کی نغمہ پیرائی کی گئی ہے۔
تین بندوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ عصر ‘ عشق اور ایمان کے تار ملانے کے بعد چوتھے بند میں بالکل منطقی طور پر مسجد و مومن کو ایک دوسرے کے ساتھ مطلقاً ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ اس ہم آہنگی سے جو بسیط نغمہ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے:
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جیل و جمیل
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے درو بام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیمؑ و خلیلؑ
اس کی زمیں بے حدود اس کا افق بے تفور
اس کے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل
اس کے زمانے عجب اس کے فسانے غریب
عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
ساقی ارباب ذوق فارس میدان شوق
بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اس کی اصیل
مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لا الہ
سایہ شمشیر میں اس کی پنہ لا الہ
مسجد قرطبہ کے نقش و نگار میں جمال و جلال دونوں کا اظہار اقبال کے تصور فن کی ایک اہم خصوصیت ہے اس لیے کہ جلال کے بغیر جمال کو وہ ایک کمزوری تصور کرتے ہیں جبکہ قوت اگر اس کا استعمال صحیح مقصد کے لیے ہو‘ اقبال کے نزدیک بجائے خود ایک قدر جمال ہے۔
میرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطون کی تیزی ادراک
مری نظر میں یہی جمال و زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سر کش و بیباک
(جلال و جمال…ضرب کلیم)
یہ جمالیات کا وہ توازن ہے جس میں حسن و دل آویزی کے ساتھ قوت و تاثیر کو ہم آہنگ کر دیا گیا ہے اور اس میں صلابت نزاکت پر مقدم ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس تصور جمالیات میں فن پر زندگی کو مقدم کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ فن اگر زندگی سے خالی ہو تو موت کی نقش گری ہے:
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار
(ہنروران ہند… ضرب کلیم)
اور زندگی قوت و صلابت کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی کے اس تقدم کے باوجود اقبال فن میں جلال کا توازن چاہتے ہیں۔ اور نزاکت و صلابت کا یہی اعتدال نہاں مسجد قرطبہ میں نظر آتا ہے۔ ایک طرف تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار کی صلابت ہے اور دوسری طرف تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل کی لطافت کی لطافت ہے جبکہ تیرے دروبام پروادی ایمن کا نور جلوہ الٰہی کے دونوں پہلوئوں جلال و جمال کا مرکب پر تو ہے۔ پھر سر کلیمؑ و خلیلؑ بھی جلال و جمال کی ترکیب کی طرف ایک اشارہ ہے۔ ٹیپ میںقبل کے آخری شعر کے دونوں مصرعے جمال و جلال کے توازن کی تصویریں پیش کرتے ہیں ساقی ارباب ذوق کے ہمراہ فارس میدان شوق اور بادہ ہے اس کا رحیق کے ساتھ تیغ ہے اس ہے اس کی اصیل کے بیانات نرمی و سختی کے اس اعتدال پر مبنی ہیں جو زندگی کی حقیقت بھی ہے اور اس کا حسن بھی۔ جمال و جلال کی ترکیب و توازن کا نکتہ و پیکر مسجد قرطبہ کے سلسلے میں بہت ہی موزوں و پر معنی ہے ۔ اس لیے کہ اس عمارت میں فن تعمیر کا جو عظیم اسلامی نمونہ رونما ہوا ہے اس کے اندر یہ ترکیب و توازن اعلیٰ ترین معیار پر ظاہر ہوا ہے۔ اس معیار کی شاعرانہ توصیف کے لیے اقبال نے جس تصور جمالیات سے کام لیا ہے وہ مغرب کی جمہوری و اشتراکی انتہا پسندیوں اور بے اعتدالیوں سے پاک ہے اس میں نہ جمہوری نرمی و زیبائی کا غلو ہے نہ اشتراکی تندرستی و طاقت کا مطالغہ بلکہ وہ میانہ روی ہے جو اسلامی نقطہ نظر کی شان ہے اور جس کا ظہور عمارت اور اس پر نظم دونوں میں ہوا ہے اس لیے کہ دونوں کی تعمیر میں مرد خدا یا مرد مسلمان نے کی ہے۔ فن کا یہ نقطہ نظر دوسرے نقاط نظر کے مقابلے میں بداہتہً زیادہ ثروت مند اور نتیجہ خیز ہے۔ اسی لیے نہ تو فن تعمیر میں مسجد قرطبہ کا جواب ہے نہ فن شاعری میں ہی نظم کے مقررہ پیمانے پر مسجد قرطبہ کاجواب ہے۔
نظم کے زیر نظر بند میں اسلام اور اسلامی تاریخ کے رموز و علائم کا وفور ہے۔ یہ تخیل نظم کے اس نقطہ ارتقاء کے بالکل مطابق ہے جو چوتھے بند میں نمودار ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی کی مناسبت سے اس قسم کے خیال آفریں پیکر تراشے گئے ہیں۔ جیسے شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل میں تیرے دروبام پروا دی ایمن کا نور ‘ تیرا منار بلند جلوہ گاہ جبرائیل‘ اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیلؑ اس کے سمندر کی موج اور دجلہ و دینیوب و نیل‘ ان تصویروں میں وہی آفاقیت ہے جو اسلام کا طرہ امتیاز ہے اور دوسرے تمام ادیان و نظریات کے مقابلے میں ہے۔ اس کی زمین بے حدود ہے اس کا افق بے تغور ہے ۔ مسجد قرطبہ کے معمار کی صحیح ترین کردار نگاری ہے آفاقیت کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمان کے تجدیدی و انقلابی کردار کا عکس بھی عمارت کے نقوش پر مرقسم ہے۔ جیسا کہ فن تعمیر کی تاریخ میں مسلم معماروں کی جدت طرازیوں میں واضح ہے اس کے علاوہ انسانی سماج کی تشکیل و تعمیر جدید میں بھی اسلام کے تاریخی کارنامے کی طرف واضح اشارہ اس شعر سے ہوتا ہے:
اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے عجیب
عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
مسجد قرطبہ خود مرد مسلماں کے عجیب و غریب زمانے اور افسانے کا ایک مکمل و موثر نمونہ ہے یہ مسجد اسپین میں مسلمانوں کی ان ترقیات کی علامت ہے جن کی بدولت ہی دنیا میں وہ عصر حاضر نمودار ہوا ہے جسے اہل مغرب کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بہت قبل اسلام کے عمرانی تصور کی کارفرمائی سے مدینہ منورہ کی ریاست و معاشرت نے دو رقدیم کے اوہام و خرافات اور یونانی و رومی اساطیر کی وحشتوں کو ختم کر کے ایک جدید تمدن اور روشن خیال تہذیب کے محکم عقائد اور شکستہ افعال پر مشتمل عالم انسانیت کی داغ بیل ڈال دی تھی۔
چنانچہ اندلس کے مسلمانوں کی ساری ترقیات اسی بنیاد پر استوار تھیں۔ بہرحال جس اسلامی ذہن و کردار نے یہ حیرت انگیز تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا‘ وہ اپنی جگہ لافانی ہے اور وقت کے نشیب و فراز اسے مٹا نہیں سکتے بلکہ ہر نشیب و فراز میں وہ ایک نئی آن اور نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جتیے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
(طلوع اسلام… بانگ درا)
طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب
یگانہ اورمثال زمانہ گونا گوں
(مدنیت اسلام… ضرب کلیم)
یہ اسلامی ذہن و کردار ہی ہے جو کبھی نمرود وقت کے مقابلے میں خلیل اللہ بن کر سامنے آیا ہے اور کبھی فرعون زمانہ کے مقابلے میں کلیم اللہ بن کر۔ اس لیے کہ اس کی اذانیں ہر زمانے میں اور ہر مقام میں کسی مسجد کے منار بلند سے خدائے وحدہ لاشریک کیلافانی و لاثانی عظمت کا اعلان کرتی رہی ہیں۔ لہٰذا معبود کی اس عظمت کا سایہ عابد کی ہستی پر بھی پڑتا رہاہے۔ چنانچہ وادی ایمن کے اسی نور ازل کا پرتو مسجد قرطبہ کے دروبام پر پڑ رہا ے جبکہ اس کا منار بلند ہر پیغمبر اسلام پر ہر دور میں نازل ہونے والی لازوال وحی الٰہی کے قاصد حضرت جبرئیل کی جلوہ گہ ہے۔
اسلامی فن تعمیر کے حسین ترین نمونے کی توصیف اسلامی استعاروں میں اس عظیم فنکاری کے ساتھ کرنے کے بعد بند کی ٹیپ میں اس نمونے کے حامل و عامل مرد مسلماں کے لافانی کردار کا راز بتایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ عالم وجود کی رزم گاہ خیر و شر اور تاریخ انسانیت کے معرکہ حق و باطل میں مرد مسلماں ایک اایسا بانکا مرد سپاہی ہے جس کی زرہ اور پنہ دونوں لا الہ ہے وہ اپنے عقیدہ توحید ہی کی شمشیر سے لڑتا بھی ہے۔ اور اسی کی ڈھال سے حملوں کی زد میں آ کر بچتا بھی ہے۔ وقت کے نمرودوں اور فرعونوں سے اس کی جنگ حق کا بول بالا کرنے کے لیے ہے کسی ذاتی شان و شوکت کے لیے نہیں۔ وہ بالکل بے غرض ہے لہٰذا اس کی طاقت بے پناہ ہے اس کا جذبہ صادق ہے لہٰذا ہمیشہ تازہ ہے ۔ اس کا ایمان پختہ ہے لہٰذا قابل شکست ہے اس نے اپنے آپ کو خدائی مرضی کے تابع کر دیا ہے لہٰذا اس کی مرضی دنیا کے معاملات طے کرنے میں کارفرما رہی ہے اس کے بلند مقاصد اس کی شخصیت کو دلنواز بناتے ہیں پانچواں بند بندہ مومن کی صفات کے لیے وقف ہے:
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقام بلند‘ اس کا خیال عظیم
اس کا سرور‘ کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا‘ کارساز
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل و پاکباز
نقطہ پر کار حق مرد خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
اس بند میں تشبیہہ و استعارہ وغیرہ کی مشاطگی گویا نہیں ہے‘ اور جو چند پیکر ہیں وہ محاورے کی حد تک سادہ ہیں۔ لیکن شروع سے آخر تک حسن معنی کی ایسی لالہ کاری ہے کہ رنگ و آہنگ کی ایک دنیا آباد نظر آتی ہے ۔ یہ فصاحت کی بلاغت ہے اور سلاست کی نفاست‘ شاعر نے یہاں اپنے اسلوب کی روانی سے ایسی نغمہ آفرینی کی ہے کہ قاری خیال کے بہائو اور اس کی لہروں کے پیچ و خم میں محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ دل سوزی‘ سرمستی اور رعنائی کا کیف تمام اشعار پر چھایا ہوا ہے ۔ ترنم کی سحر انگیز نوائوں کے ساتھ ہی تمثیل کی طلسم آفرینی ادائیں بھی الفاظ و تراکیب کی بندش و نشست اور تصورات و نکات کی ترتیب و تنظیم سے رونما ہوتی ہیں…
اس کے دنوں کی تپش‘ اس کی شبووں کا گداز‘ اس کا سرور‘ اس کا شوق‘ اس کا نیاز‘ اس کا ناز‘ غالب و کار آفریں‘ کارکشا‘ کارساز‘ اس کی ادا دلفریب ‘ اس کی نگاہ دلنواز ‘ زم ہو یا بزم ‘ پاک دل و پاک باز‘ یہ پانچ اشعار کے دوسرے مصرعے ہیں‘ انہیں اپنے پہلے مصرعوں کے ساتھ ملا کرایک لے سے پڑھا جائے تو نغمہ موسیقی کے زیر و بم بالکل خیال کی لروں کے اتارچڑھائو کے مطابق محسو س ہوں گے اور فکر کی ترقی پذیر حرکیت فن کی ترقی پذیر حرکیت کے ساتھ مکمل طور سے ہم آہنگ نظر آئے گی‘ الفاظ و معانی کے توازن کا یہ سلسلہ ٹیپ کے شعر میں پہلے مصرعے پر تمام ہو جاتا ہے:
عقل کی منزل ہے وہ‘ عشق کا حاصل ہے وہ
عقل و عشق اور منزل و حاصل کا یہ آفاقی توازن جو نتیجہ پیدا کرتا ہے وہ دوسرے شعر میں اس طرح منقش ہوتا ہے:
حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
ان مصرعوں کے ساتھ مسلمان اور بندہ مومن کی کردار نگاری مکمل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگلا اورچھٹا بند مومن و مسجد کے کرداروں کو ایک کائناتی سطح پر اور ایک مقصد حیات کے لیے بالکل مدغم کر دیتا ہے:
کعبہ ارباب فن! سطوت دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
ہے تہہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حامل ’’خلق عظیم‘‘ صاحب صدق و یقین
جن کی حکومت ہے فاش یہ رمز غریب
سلطنت اہل دل فقر ہے‘ شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے
یمن کی خوشگوار آب و ہوا اور حجاز کی گرمی نوا نے اندلس کی زرخیزی و شادابی کے ساتھ مل کر جو روشن جبیں‘ خوش دل اور دل نشیں شخصیت تاریخ کے ایک دور اور جغرافیہ کے ساتھ ایک خطے میں پیدا کی اس کے دل آویز اور سحر کار نقوش کا نہ صرف یہ کہ مسجد قرطبہ کے دروبام اور ستون و مینار پر ہمیشہ کے لیے مرقسم ہو چکے ہیں بلکہ ہسپانیہ کی ہوائوں اور نوائوں میں آج بھی مرتعش ہیں اور عصر حاضر کی ترقیات کے ساتھ ساتھ اسپین کی نسلوں کی نسلوں کے لہو اور چشم و ابرو میں رواں دواں ہیں اور اشارہ کناں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ عمرانی نقشہ ایک دینی کارنامے پر مبنی ہے۔ اس کا سارا حسن و جمال اسلامی حکومت و معاشرت کا فیض ہے۔
اسی لیے شاعر نے بند کے آغاز میں مسجد قرطبہ کو بیک وقت کعبہ ارباب فن اور سطوت دین مبیں کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ دین و فن کا یہ امتزاج ہی دراصل مسجد قرطبہاور نظم مسجد قرطبہ دونوں کی تعمیر و تخلیق میں ایک خاص ذہن و فن کی کامل ہم آہنگی کی کلید ہے۔ عشق اور ایمان کے ارتباط سے تشکیل پانے والا یہ ذہن و فن بہترین قدر جمال کا حامل ہے۔ چنانچہ دین اور فن کا جذبہ اور سلیقہ جس حسن کا خالق ہو وہ کائنات میں بے نظیر ہے اور اس کے جلوے کا مرکز یا تو اس طرح تخلیق ہونے والے نمونہ فن میں ہے یا اس قلب مسلماں‘ میں ہے جو اس تخلیق کا عامل ہے۔ لہٰذا مسجد قرطبہ کی تعمیر و تخلیق دونوں کا حسن بے مثال اور لازوال ہے۔ اس عظیم ترین نمونہ حسن کو شاعر نے ایک عمرانی پس منظر اور ایک زندہ معاشرے کے تناظر میں پیش کر کے اس میں زندگی کی ایسی حرارت اور تابندگی پیدا کر دی ہے کہ تاریخ تعمیر اور شعری تخلیق تینوں مجسم ہو کر نگاہوں کے سامنے اپنی تمام رنگینی و زرینی کے ساتھ جلوہ آرا ہو جاتی ہیں۔ اور مسجد و نظم کے نقوش میں انسانی خون کی سرخی دوڑتی اور چمکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘ تاریخ کا ایک گزرا ہو ا لمحہ زندہ ہوجاتا ہے‘ اس لمحے کی ایک فنی تصویر بولنے لگتی ہے۔ اور اس تصویر کا شعری پیکر دلوں اور ولولوں سے معمور کر دیتا ہے‘ ہم اسلامی اسپین کو ایک عروس نو کی طرح آراستہ و پیراستہ دیکھتے ہیں‘ زمانے کی رو تھم جاتی ہے وقت کا احساس ختم ہو جاتا ہے ماضی حال بن جاتا ہے۔
یہ خاص مسجد قرطبہ کی شاعرانہ مرقع نگاری کا نقطہ عروج ہے لیکن اقبال نے عام شعرا کی طرح صرف ہئیت مسجد کو موضوع نہ بنایا ہے ۔ بلکہ اس ہئیت سے وابستہ بہت ہی اہم مضمرات کو بھی موضوع سخن بنا کر انہوںنے مسجد کا مطالعہ زندگی کے وسیع ترین اجتماعی پس منظر میں اور آفاقی تناظر میں کیا ہے۔ یہی نظم کی وہ فنی خوبی ہے جو اسے اس قسم کے موضوعات پر دنیا کی دوسری تمام نظموں سے ممتاز کرتی ہے اور ان کے مقابلے میں اس کی فضیلت و فوقیت کا باعث ہے۔ شاعر نے ایک عمارت کو ایک ملت کی علامت بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس کی قبلہ گاہ اور مرکز عمل ہے۔ چنانچہ ملت و عمارت کی مرکب تصویر کو تاریخ کے فریم میں فٹ کر کے ماضی و حال و مستقبل اور ایمان و عشق کے تصورات کے تحت‘ ازل و ابد تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دین اور فن کو ہم آہنگ کر کے کیا گیا ہے جس سے فن لازوال ہو گیا ہے ۔ یہ حسن و عشق کا وہ حقیقی رشتہ ہے جس کی ابدیت لافانی نتائج پیدا کرتی ہے اس سلسلے میں ماضی و حال کا نقشہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ اب آخری دوبندحال و مستقبل کا خاکہ پیش کر کے آخر میں وقت پر انسان کے ابدی تصرف کا نسخہ تجویز اور اس کے نمونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ساتوں بند ہے:
دیدہ انجم ہے تیری زمیں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں
دیکھ چکا لمنی شورش اصلاح دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں
حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
یہ عصر رواں کی نقاشی ہے جس میں مغربیوں کے دگرگوں ہوتے ہوئے جہاں کی صدیوں پر مشتمل تاریخ کا ایک خیال آفریں مرقع مرتب کیا گیا ہے۔ اس مرقعے میں انقلاب زمانہ کے وہ اثرات دکھائے گئے ہیں جو مغربی دنیا کی تجدید اور یورپی ممالک کی ترقی کا باعث ہوئے۔ جرمنی فرانس ‘ اور روم (اطالیہ) میں اصلاح دیں اور نشاط ثانیہ کی وہ انقلابی تحریکات چلیں جو بالآخر پورے یورپ میں سائنس صنعت‘ سیاست اور معاشرت کی عظیم الشان تبدیلیوں کا سبب بنیں اور ان کے نتیجے میں مغربی ممالک آزادی فکر ایجاد و انکشاف اور تجارت و حکومت کے مراکز بن گئے۔ یہ سلسلہ روز و شب کے حادثات ہیں جیسا کہ پہلے بند میں وقت کی نقش گری کرتے ہوئے اشارہ کیا جا چکا ہے ۔ لیکن بند اول ہی مٰں اسی طرح کے دوسرے اشارے کے مطابق زمونے کی رو مسلسل چل رہی ہے ملت اسلامیہ بھی گردش ایام کے اس چکر میں محفوظ نہیں۔ شاعر روح مسلماں میں آج پھر وہی اضطراب دیکھتا ہے جو کچھ عرصہ قبل مغرب کی غیر اسلامی ملتوں کو اصلاح اور انقلاب سے دوچار کر چکا ہے ۔ انقلاب زمانہ کی یہ ساری باتیں شاعر کو ا س صورت حال کے مشاہدے سے یاد آتی ہیں جس کا پر حسرت ذکر زیر نظر بند کے پہلے ہی شعر کے مصرع ثانی میں کیا گیا ہے:
آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
یہ صدیاں ملت اسلامیہ کے زوال کی ہیں۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر ملت کے دور عروج کا ایک عظیم الشان نشان ہے اور اس کی فضا کا صدیوں سے بے اذاں ہونا علامت زوال ہے لیکن تاریخ ایک بار پھر نئے موڑ پر آ چکی ہے ۔ زمانے کے انداز بدلے جا چکے ہیں۔ بحر زمانہ کی تہہ میں ابھی کتنے ہی طوفان پل رہے ہیں اور گنبد نیلو فرری رنگ بدلنے والا ہے‘ جیسا کہ بند کی ٹیپ کے استفہام سے مترشح ہوتا ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ مستقل ہے۔ جو اس سوال کے جواب میں دیا گیا ہے جس کا اندراج بند کے دوسرے شعر میں کیا گیا تھا:
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں؟
یہ بڑ ا معنی خیز سوال ہے اور عشق بلا خیز کا ابہام اس کے معانی میں انتہائی وسعت پیداکر دیتا ہے۔ یہ عشق انسانیت کی قوت محرکہ بھی ہے اور ملت کی بھی۔ بعد کے اشعار‘ جو بداہتہً اس سوال کا جواب ہیں‘ عصر حاضر کی پوری انسانیت نیز ملت کی تاریخ کے نشیب و فراز پر نہایت بصیر ت افروز روشنی ڈالتے ہیں تاریخ کی حرکت کو عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں کہہ کر شاعر نے انقلاب زمانہ کی سیاسی کروٹوں کو بڑی گہری شاعری کے رنگ میں ڈبو دیا ہ۔ پھر جن لفظوں میں اور جن نکتوں کے ساتھ اقبال نے مغرب کے دور جدید کی تصویر کشی ک ہے جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشان‘ اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں‘ جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں‘ لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں۔ ان سے تاریخ کے بہت گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس مطالعے کے شاعرانہ اظہار کے لیے چند رنگیں پیکر خیال نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔ اور کئی فنی حسیات کو بیدار کرتے ہیں۔
تاریخ کو تلمیح بنانا اقبال کا ایک نمایاں کمال فن ہے۔ وہ سیاست و صنعت کے تصورات و ایجادات کو کس طرح استعارات و علامات کی شاعرانہ صورتوں میں پیش کر تے ہیں ا س کا ایک نمونہ ہم طلوع اسلام میں دیکھ چکے ہیں مسجد قرطبہ میں یہ نمونہ بالیدہ ترین شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ زیر نظر بند میں جرمنی کی تحریک انقلاب مسیحیت کو جو لوتھر کی دینی اصلاحات پر مبنی تھی‘ اور جس نے پورے یورپ میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا اقبال نے صرف چار مصرعو ں میں متشکل کر دیا ہے۔ شور ش اصلاح دیں کی ترکیب Reformation کے پورے ہنگامے کی موثر پیکر تراشی کرتی ہے۔ حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت کا مصرع پابائیت کے خلاف بغاوت کی بالکل صحیح موزوں اور معنی خیز تصویر کشی کرتا ہے۔ متعلقہ شعر کا دوسرا مصرع اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں‘ کلیسا میں عصمت پیر کنشت کے حرف غلط بن جانے کا منطقی نتیجہ ہے اور پاپائے روم نیز دیگر پادریوں کی معصومیت کا عقیدہ ختم ہوجانے کے بعد دنیائے مسیحیت میں آزادی فکر کی جو لہر چل اس کی بہترین شاعرانہ تعبیر ہے اور اس آزادی کی حقیقت کے پیش نظر نہایت فکر انگیز بیان ہے۔ اس کے بعد انقلاب فرانس اور یورپ میں بادشاہت کے خلاف اس انقلاب کے سیاسی کارنامے پر صرف ایک مصرعے جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں‘ کے ذریعے بھرپور تبصرہ کر دیا گیا ہے۔ اٹلی سے پورے مغرب میں نشاۃ الثانیہ Renaissanceکی جو تحریک چلی یہاں تک کہ مسولینی کے دور اول نے اس نے درمیانے عرصے کے طویل دور زوال کے بعد‘ اطالیہ میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی‘ اس کی پوری تصویر مع پس منظر ایک شعر میں پیش کر دی گئی ہے۔ جس میں پہلا مصرع ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر نشاۃ ثانیہ سے قبل نیز اس کے ایک عرصہ بعد کے دو مختلف ادوار ماضی کی عکاسی کرتا ہے۔ اطالیہ دور قدیم میں یونان کا جانشین تھا۔ پھر عہد وسطیٰ میں قدامت اور پسماندگی کا گہوارہ بنا‘ اس کے بعد اسلامی اثرات کے تحت عہد وسطیٰ کے اواخر میں اس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی قیادت کی پھر یورپ کی دوسری قومیں جو نسبتاً نو دولت تھیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ گئیں اور اطالیہ کی کہنہ پرستی اس کے لیے گویا عصائے پیری بنی رہی‘ یہاں تک کہ مسولینی کے دور اول میں ایک بار پھر اس قدیم ملک میں ایک مختصر عرصے کے لیے جوانی کی تازگی آ گئی۔ جسے شعر کے مصرع میں ثانی لذت تجدد ہے وہ بھی ہوئی پھر جواں‘ میںمنقش کر دیا گیا۔ اس طرح طقط دو مصرعے ایک قدیم ملک کے ماضی و حال دونوں ٹھیک ٹھیک صورت گری ایک خیال انگیز شاعرانہ انداز سے کرتے ہیں۔ اسی طرح انیسویںصدی کے اواخر میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں روح مسلماں کے اضطراب کو نہایت ایمائی انداز سے بڑے لطیف پیرائے میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں!
عصر حاضر میں عالم انسانیت کی اس عمیق و حسین عبرت خیز اور فکر انگیز تصویر کشی کے بعد آخری اور آٹھویں بند میں مستقبل کے معنی خیز اشارات بڑے حکیمانہ و فن کارانہ اسلوب سے کیے جاتے ہیں:
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
آب روان کبیر ! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نوا ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کش مکش انقلاب
صورت شمشیر ہے درست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جوہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
مسجد قرطبہ کے صحن میں شاعر دعا مانگ چکا ہے ا س کے بعد مسجد کی شان میں اس نے ایک شاندار قصیدہ پڑھا‘ جس میں وقت اور تاریخ کے پس منظر میں اس نے ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام و ملل کے عروج و زوال کی داستان بیان کی اور سب سے بڑھ کر اس داستاں کو رنگین و زریں‘ مسرت انگیز ‘ بصیرت افروز اور سبق آموز بنانے والے عشق‘ ایمان اور فن کے آفاقی عناصر کی نغمہ پیرائی کی۔ اس وقت کے لمحات تواریخ عالم اور مظاہر حیات و کائنات کی پر جلال و پر جمال تصاویر ہوئے گزرتے رہے‘ یہاں تک کہ آفتاب وادی کبیر میں غروب ہو گیا۔ ہسپانیہ کے کوہسار پر چھائے ہوئے بادل غازہ شفق سے گل گوں ہو گئے۔ آسمان لعل بدخشاں کی طرح چمکنے لگا۔ اس حسین فضا میں معصوم دو شیزائوں کے سادہ پر سوز گیتوں سے پوری وادی گونجنے لگی اور ہر سو عہد شباب کی مستی و رعنائی طاری ہو گئی۔
ایک خوبصورت سر زمین پر ‘ ایک خوبصورت تاریخ اور خوبصورت تعمیر کے سایے میں فطرت کے خوبصورت مناظر اور انسانیت کے خوبصورت مظاہر کے مشاہدے میں کھویا ہوا شاعر آب روان کبیر کے کنارے ماضی و حال سے مختلف‘ کسی اور زمانے کے خواب دیکھتا ہے۔ اس کی بصیرت اسے بتاتی ہے کہ ایک ‘ عالم نو پردہ تقدیر‘ میں مرتب ہو رہا ہے۔ او ر ابھی دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے‘ لیکن شاعر کی نگاہوں میں اس کی سحر بے حجاب ہے ۔ آنے والے دور کی یہ تصویر عصر حاضر کی مغربی طاقتوں کے لیے اتنی ہولناک ہے کہ شاعر اگر اس کے متعلق اپنے چہرہ افکار سے پردہ اٹھادے تو فرنگ اس کی نوائوں کی تاب نہ لا سکے۔
گردش ایام اشارہ کرتی ہے کہ یہ انقلاب ہو کر رہے گا۔ زندگی کا رخ بدلتا ہی رہتا ہے‘ زمانے کا دستور یہی ہے۔
روح امم کی حیات کش مکش انقلاب
مغربی اقوام و ممالک کے اقتدار کے دن گئے ہوئے ہیں‘ وہ عصر حاضر میں تاریخ سے اپنا حصہ لے چکے ہیں اور زمانے میں اپنا رول ادا کر چکے۔ ان کا تمدن نقط عروج پر پہنچ کر مائل بہ زوال ہو چکا ہے۔ انہوںنے دو تین صدیوں تک جو کچھ عمل کیا ہے‘ اب اس کا حساب دینے کا وقت آ گیا ہے ۔ اس انقلاب دوراں میں جو عنقریب واقع ہونے والا ہے وہی ملت تاریخ کے پردے پر آگے بڑھے گی اور عنان وقت اپنے ہاتھ میں لے لے گی جو آنے والے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا جائزہ لے کر اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے گا۔ قدرت کا قانون یہی ہے کہ جو قوم زمانے کی ہر کروٹ کے ساتھ خود احتسابی سے کام لیتی وہی مشیت خداوندی کی تکمیل کا وسیلہ بنائی جاتی ہے‘ گویا وہ قضائے الٰہی کے ہاتھ میں ایک شمشیر آبدار ہے جو وقت کی تمام آلائشوں کو صاف کر کے مشیت کے حکم سے‘ اس کے منشا کے مطابق اور اسی کی تائید و نصرت سے‘ اس کی تعمیل کی راہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن گردش ایام کے تمام نشیب و فراز میں ایک نقش ہمیشہ پائیدار رہتا ہے اور ایک نغمہ برابر جاندار رہتا ہے۔ اس لیے کہ یہی نقش مکمل اور یہی نغمہ پختہ ہوتا ہے ۔ یہ نقش و نغمہ وہ ہے جو خون جگر سے پرورش پاتا ہے۔
وقت کے موضوع پر اظہار خیال کرنے والے پہلے بند کی ٹیپ تھی۔
اول و آخر فنا‘ باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
جبکہ دوسرا بند اس شعر سے شروع ہوا:
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
اور آخری بند کی ٹیپ ہے:
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
نقوش کا یہ تسلسل نظم کی بہت ہی مربوط ہئیت اور اس نے تخیل کے مسلسل ارتقاء پر واضح دلالت کرتا ہے۔ تاریخ کا یہ پیام ازلی ہے کہ ہر نقش کو فنا ہے الا اس نقش کے جس کی تعمیر کسی مرد خدا نے اپنے جذبہ ایمان و عشق سے کی ہو‘ یہی نقش وہ نمونہ فن ہے جو کامل اور پختہ ہے اور زمانے کی حدود میں لافانی ہے۔
’’ذوق و شوق‘‘ کا آغاز حسن فطرت کی مرقع نگاری سے ہوا تھا اور پہلا بند ٹیپ کو چھوڑ کر پورا کا پورا اسی کے لیے مخصوص تھا ساقی نامہ کی تمہید میں بھی جمال فطرت کی تصویر کشی پہلے بند کے بڑے حصے میں کی گئی تھی۔ خضر راہ کی ابتدا بھی فطرت کی منظر نگاری سے ہوئی تھی۔ لیکن مسجد قرطبہ کی تمہید و ابتدا وقت کے فلسفیانہ موضوع سے ہوئی اور ایک پورا خاص بند اس کے لیے وقف کر دیا گیا‘ جبکہ نظم کے آخری بند میں سرف ایک پہلا شعر فطرت کی منظر نگاری پر مشتمل ہے اور دوسر ا شعر فطری سادگی کے نغمے اور عہد شباب کے فطری ولولے کی پیکر تراشی کرتا ہے‘ اور تیسرے شعر کے پہلے مصرعے میں ایک مظہر فطرت سے متعلق ہے یعنی بند کے سولہ مصرعوں میں زیادہ سے زیادہ پانچ مصرعے فطرت کوئی ادا اور اس کا کوئی جلوہ پیش کرتے ہیں۔اس طرح فطرت کی خالص منظر نگاری مسجد قرطبہ میں دوسری بڑی نظموں سے بہت ہی کم ہے ‘ حالانکہ جہاں تک نظم کے آخری بند میں فطرت کی منظر کا تعلق ہے وہ شمع اور شاعر اور طلوع اسلام میں بھی ہے اور گرچہ پورا بند اس کے لیے وقف نہیں ہے مگر اس کا معتدبہ حصہ منظر فطرت پر مشتمل ہے ۔ جمال فطرت سے اقبال کا گہرا شغف ہم کئی نظموں میں دیکھ چکے ہیں اور ہم پاتے ہیں کہ کلی یا جزوی طور پر براہ راست فطرت کے موضوع پر شاعری کے علاوہ اقبال کے استعارات و علامات کا بہت بڑا حصہ مناظر قدرت کے موضوع پر شاعری کے علاوہ اقبال کے استعارات و علامات کا بہت بڑا حصہ مناظر قدرت کے اشارات پر مشتمل ہے اور کلام کی تازگی اور شادابی کا باعث ہے لیکن اقبال فطرت پرست نہیں‘ صرف فطرت پسند ہیں‘ اسی لیے مناظر کا خارجی حسن ان کی فن کاری کا مقصود نہیں اس مقصود کو حاصل کرنے کا جو ان کے پیش نظر ہے ایک وسیلہ ہے۔ یہ مقصود وہ حسن ازل ہے جو مظاہر فطرت کی حقیقت ہے حسن ازل صرف حسن فطرت میں نہیں‘ اس سے زیادہ جمال انسانیت میں ہے ‘ لہٰذا انسانیت کی معرفت فطرت کے لطف پر مقدم ہے‘ اس لیے کہ نفس انسانی کا عرفان رب کائنات کا عرفان ہے ۔ اور یہی زندگی اور فن کی بنیادی نیز آخری حقیقت ہے ۔ مسجد قرطبہ خالصتاً و کلیتہً اسی حقیقت کی عکاسی و نقاشی ہے۔ چنانچہ عصر عشق ‘ ایمان اور فن جیسے آفاقی عناصر ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے موضوع کی ترکیب اس طرح کرتے ہیں کہ انسانیت کی پوری تاریخ کا خلاصہ اور اس کے ادوار ماضی و حال و مستقبل میں مشیت و حکمت الٰہی کا جلوہ ہماری نگاہوں کے سامنے عیاں ہوتا ہے۔
پوری مسجد قرطبہ اول تا آخر ایک نغمہ ہے۔ جو صرف الفاظ کے آہنگ و تصاویر کے رنگ سے نہیں ابھرتا۔ رنگ و آہنگ کے علاوہ اور ان سے بڑھ کر وہ پوری ہئیت نظم اپنے آٹھ بندوں اور چونسٹھ اشعار اور ایک سو اٹحائیس مصرعوں کے ساتھ ہے جس کے آسمان میں آہنگ الفاظ اور رنگ تصاویر دونوں استعاروں کی طرح ٹنکے ہوئے جگمگا رہے ہیں۔ یہ ہئیت اپنے موا د و انداز کے لحاظ سے نہ تو فقط کسی افسانوی واقعے کا بیانیہ ہے۔ نہ محض کسی عشقیہ جذبے کا تغزل نہ خالی درس و وعظ۔ اس میں ایک تمثیلی کیفیت ہے جس میں سب سے پہلے شاعر صحن مسجد میں محو و عا نظر آتا ہے اور ہم اس کی نوا ئے عاشقانہ سنتے ہیں اس کے بعد دو بندوں تک وقت اور عشق کے موضوعات پر ایک بہترین فکری شاعری کا حسین ترین نغمہ ہے ۔ پھر مسلسل پانچ بندوں کے اندر ہمیں شاعری کی دو آوازیں سنائی دیتی ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں ایکد وسری میں ملی ہوئی ہیں‘ مسجد سے خطاب کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے شاعر عشق‘ ایمان‘ فن اور تاریخ کے موضوعات پر اپنے افکار و خیالات اور احساسات و جذبات کا اظہار روانی اور رعنائی کے ساتھ کرتا چلا جاتاہے۔ اور کہیں کہیں واحد متکلم کا صیغہ بھی اس طرح استعمال کرتا ہے کہ اس سے واحد حاضر کے ساتھ خطاب کی حقیقت و اہمیت مزید واضح ہو جاتی ہے آخری بند میں بھی ایک شعر خطاب کے سلسلے کو جاری رکھتا ہے لیکن دوسرے اشعار میں فطرت‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ دن اور فکر کی فکری شاعری‘ شروع کے دو بندوں کی طرح ہے نظم کے مختلف بندوں میں بعض تصویروں کی تکرار ہے اور پہلے اور آخری بند کی ٹیپ کے اشعار نکتہ اور مقابل نکتہ کے مانند نغماتی طور پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ان ساری باتوں کا کردار ایک ہے جو خود شاعر ہے اور اپنے الفاظ میں بولتا ہے لیکن اس نے واحد متکلم کا استعمال بہت ہی کم کیا ہے گویا نہیں جبکہ اس نے مسجد کے لیے واحد حاضر اورمومن کے لیے واحد غائب کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ کیا اس کثرت اور اس سے پیدا ہونے والی شدت کے ساتھ واحد حاضر اور واحد غائب کا یہ استعمال مسجد اور مومن کو ایک کردار اور کردار کو اس کی اپنی زبان نہیں دیتا لفظاً نہیں معناً ہی سہی؟ کیا یہ تصویر مسجد کے سوا کسی کردار کی ہو سکتی ہے؟
تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے دروبام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل
کیا یہ تصویر مومن کے سوا کسی کردار کی ہو سکتی ہے؟
تجھ س ہو آشکار بندہ و مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش ‘ اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقام بلند‘ اس کا خیال عظیم
اس کا سرور‘ اس کا شوق‘ اس کا نیاز‘ اس کا ناز
ہاتھ ہے اس کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا‘ کارساز
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل‘ اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب ‘ اس کی نگہ دلنواز
نرم دم گفتگو‘ گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل و پاکباز
مسجد و مومن کی تصویروں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ یہ دونوں تصویریں نہ صرف ایک دوسرے سے وابستہ ہیں بلکہ ایک دوسرے میں مدغم ہیں اور یہ مومن کی متحرک شخصیت کے نقوش ہی ہیں جو مسجد کی منجمد ہئیت پر کندہ ہو گئے ہیں یا مسجد کے دروبام اور ستون و مینار پر کندہ نقوش پگھل کر مومن کے دنوں‘ اس کی شبوں اس کے سرور اور اس کے شوق‘ اس کے مقاصد‘ اس کی ادا‘ اس کی نگاہ‘ اس کی گفتگو‘ اس کی جستجو‘ اور اس کے رزم و بزم میں متحرک نظر آتے ہیں۔ پھریہ احساس بھی ہو گا ہ کہ مومن خود شاعر ہی ہے ‘ خواہ اپنی حقیقت میں یا اپنی آرزوئوں میں اس طرح تینوں کردار…شاعر مسجد اور مومن… مل کر ایک ہو جاتے ہیں جبکہ تین عناصر سے مرکب اس کردار کے تینوں عناصر کی ترکیب اس کی ہی شب اور عصر رواں کے مشترک کا پیکر ہے اور مرکب کردار کے تینوں عناصر کی ترکیب ہی اس کی ہی سطح پر ہوتی ہے۔ بہرحال‘ وقت کو پس منظر میں بھی رکھ دیں تو باقی تینوں کردار کسی عمل کے منظر میں نمودار نہیں ہوتے‘ نہ آپس میں کوئی مکالمہ کرتے ہیں‘ بلکہ ان سب کی کردار نگاری صرف ایک کردار… شاعر اپنے بیان سے کرتا ہے۔ لیکن وہ کوئی قصہ بیان نہیں کرتا صرف اپنے افکار و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایک فرد کا اظہار خیال ہونے کے باوجود تغزل محض کی آواز نہیں ہے۔ اس کی نوائے شوق کا ایک نغمہ کائنات ہے اور پوری حیات کا آہنگ۔
اس تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نمونہ فن کے لحاظ سے مسجد قرطبہ بہت پیچیدہ و بالیدہ و تراشیدہ تخلیق شاعری ہے۔ تمثیلی عمل کے بغیر بھی اس میں ایک تمثیلی تخیل ہے اور اس تخیل کو اداکرنے والے چند اہم کردار ہیں جو مکالمے کے بغیر بھی صرف اپنے خالق کی زبان سے اپنا ایک پر اثر مرقع پیش کرتے ہیں جس کی ترکیب سب کی مشترک ادائوں کے قوس قزحی عکس سے ہوتی ہے۔ اس عکس کی نقاشی میں شاعری کی دو آوازیں خود کلامی اور تخاطب کی ‘ تو بالکل نمایاں ہیں جبکہ تیسری آواز تمثیلی کرداروں کی بہ ظاہر خاموش ہونے کے باوجود ایک زبان حال رکھتی ہے‘ شاعر کا تخاطب اور بیان اپنے کرداروں کی ایسی ترجمانی کرتا ہے کہ ان کے نقوش بولتے محسوس ہوتے ہیں۔ چنانچہ مسجد قرطبہ منظوم تمثیلی Poetic Dramaنہ ہوتے ہوئے بھی اس معنے میں ایک تمثیلی نظم Dramatic Poem کہی جا سکتی ہے۔ کہ اس کے تخیل اور بیان کے عناصر و مظاہر میں تمثیل حیات کا ایک کائناتی احساس ہے ۔ اور اس تمثیل میں عشق کا عامل عصر کے عامل سے ٹکرا کر مسجد و مومن کی لافانی شخصیتیں تخلیق کرتا ہے۔ اس تاریخی تصادم و تخلیق میں ایک آفاقی تمثیل کا جو فلسفیانہ و شاعرانہ مواد ہے اس کو اقبال کے دست ہنر نے ایک ایسی ہئیت سخن میں منقش کر دیا ہے کہ الفاظ و تصاویر پر ایک نغمہ بسیط مرتب کرتے ہیں۔
شاعری کا یہ نغمہ ہندی ہے مگر اس کی لے حجازی ہے :
عجمی خم ہے تو کیا‘ مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا ‘ لے تو حجازی ہے مری
(شکوہ …بانگ درا)
بلاشبہ مسجد قرطبہ کے نقوش اسلامی ہیں‘ اور یہ موضوع کی فن پیش کش کے لیے لازمی تھا۔ مسجد و مومن کے تصورات لازم و ملزوم ہیں یہی وجہ ہے کہ مسجد کے نقوش کی عکاسی کا شاعرانہ رد عمل مومن کی دعا سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک خالص و کال فنی عمل ہے جس کے بغیر حقیقت کی حقیقت پسندانہ تمثیل اور ایک خاص مواد کی موزوں و موثر شاعرانہ تخلیق ممکن نہ تھی۔ مسجد قرطبہ ایک حسین ترین نمونہ تعمیر ضرو ر ہے۔ مگر اس کی فن کاری ایک تصور حیات پر مبنی ہے اور ایک دائرہ تاریخ سے تعلق رکھتی ہے جو اسلام اور ملت اسلامیہ ہیں‘ لہٰذا اس کا کارنامہ فن کی کسی بھی فنی تعبیر کے لیے اسلام اور ملت اسلامیہ کے نکات و نقوش کا استعمال ناگزیر ہے۔ اور جب یہ تعبیر شاعری کی زبان میں کی جائے گی تو ان میں ایک جذبہ و ولولہ بھی ضرور ہو گا‘ ورنہ تصویر فن میں جان نہیں پڑے گی۔ اور موضوع کی روح بیدار نہ ہو گی۔ چنانچہ اقبال نے ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں اپنے مخصوص و معروف نظریہ و جذبہ اسلامی کے ساتھ فن کے یہی تقاضے بدرجہ اتم پورے کیے ہیں اور اپنے دینی احساسات و خیالات کے اظہار میں ایسا زبردست شاعرانہ کمال دکھایا ہے کہ خالص نظم نگاری میں اس کی کوئی نظیر دنیائے ادب میں نہیں۔
’’مسجد قرطبہ‘‘ کا موازنہ قدر اول کے انگریزی شاعر ورڈس ورتھ کی ایک مشہور ترین نظم کے ساتھ بہت ہی مفید ہو گا۔ اس نظم کو مختصر طور پر عرف عام میں ٹینٹرن ایبی Tintern Abbey کہا جاتا ہے جبکہ اس کا مکمل عنوان اس طرح ہے :
سطریں
جو جولائی کی تیرہ تاریخ کو 1798ء میں‘ ایک سیاحت کے دوران دریائے وائی کے کناروں پر دوبارہ پہنچنے کے بعد ننٹرن ایبی سے چند میل اوپر تحریر کی گئیں۔
بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ فنی نقطہ نظر سے یہ ورڈز ورتھ کی بہترین تخلیق ہے۔ حسب معمول اوس میں بھی فطرت کے شاعرانہ تصویر کشی کی گئی ہے‘ اگرچہ پس منظر میں ایک مسیحی خانقاہ ہے اس طرح مسجد قرطبہ سے ایک گونہ مشابہت بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس کی خانقاہ کے نقوش یا ان سے متعلق احساسات نظم میں مفقود ہیں۔ بس جو کچھ ہے شاعر کی اپنی ذہنی خانقاہ فطرت کے نقش و نگار ہیں۔ لیکن ایک خاص بات اس نظم میں یہ ہے کہ شاعر مناظر قدرت کے ساتھ ساتھ کچھ اشارات عالم انسانیت کے بھی ہیں اور بعض نکات عشق حقیقی کے بھی ہیں۔ گرچہ وہ اتنے سرسری اور پراسرار ہیں کہ مناظر قدرت سے الگ کر کے ان کو دیکھنا دشوار ہے۔ جہاں تک فطرت کی عکاسی کا تعلق ہے۔ اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں‘ وہ ورڈس ورتھ کی فطرت پرستی ہے جو اقبال کا موضوع نہیں۔ لیکن انسانیت اور محبت کی بعض گریزاں تصویریں یہ ہیں:
تا آں کہ اس قالب جسمانی کا سانس
بلکہ ہمارے انسانی خوں کی حرکت بھی
معطل ہو جاتے ہیں اور ہم سو جاتے ہیں
جسم کے اندر اور ایک درندہ روح بن جاتے ہیں
جبکہ ایک ایسی آنکھ سے جو پر سکون ہو گئی ہے طاقت سے
نغمے کی اور عمیق مسرت کی‘
ہم جان اشیا کے اندر دیکھنے لگتے ہیں
…چونکہ میں نے سیکھ لیا ہے
فطرت پر نظر کرنا اس طرح نہیں جس طرحں
جوانی کے ایام بے فکری میں بلکہ اکثر سنتے ہوئے
خاموش‘ پر درد نغمہ انسانیت کو
جو نہ سخت نہ کھردرا اگرچہ بڑا ہی طاقتور ہے
تننزیہ و تسخیر کے لیے‘ اور میں نے محسوس کیا ہے
ایک وجود جو پریشان کرتا ہے مجھے مسرت سے
ترفع یافتہ خیالات کی‘ ایک احساس بلند
کسی ایسی شے کا جو بہت زیادہ گہرے طور پر سموئی ہوئی ہے
جس کا نشیمن ڈوبتے سورجوں کی روشنی ہے
اور محیط سمندر اور زندہ ہوا
اور نیلا آسمان اور دماغ انسان:
ایک حرکت اور ایک روح ؤجو تحریک دیتی ہے
تمام ذی فکر اشیا کو اور فکر کے تمام موضوعات کو
اور ساری چیزوں کے اندر رواں دواں ہے…
اسی رو ح کو وہ
میرے پاکیزہ ترین افکار کا لنگر خادمہ ‘
رونما‘ میرے قلب کی نگراں اور جان
میرے پورے اخلاقی وجود کی
قرار دیتا ہے
چنانچہ وہ اپنے آپ کو فطرت کا ایک پجاری کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور فطرت کی اس دیوی کے لیے اپنی محبت کو وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف زیادہ سے زیادہ گرم بلکہ زیادہ سے زیادہ مقدس ہوتا ہوا بتاتا ہے۔
ان باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ورڈس ورتھ کے لیے جو کچھ ہے منظر حیات ہے اور وہ اسے اپنے ہی تفکر کا محور تصوف کی حد تک بنائے ہوئے ہے انسانیت کا اشارہ ہے تو اسی کے حوالے سے اور محبت کا نکتہ ہے تو اسی پر مبنی‘ یہاں تک کہ اس سلسلے میں ورڈس ورتھ کے ذہن کا ارتقا فقط یہ ہے کہ وہ جن مظاہر پر فریفتہ ہے ان کے اندر کچھ دوسرے اور زیادہ گہرے عناصر کو بھی محسوس کرنے لگتا ہے۔ گرچہ یہ احساس بہت ہی مبہم ہے اور مختصر۔ اس کے برخلاف اقبال زندگی کا ایک جامع محیط اور وسیع و رفیع و عمیق نظریہ رکھتے ہیں۔ جو فطرت انسانیت اور محبت سبھی کی تشریح و توضیح و تعبین ایک توازن و ترکیب کے ساتھ کرتا ہے۔ اس توازن و ترکیب کا علم اقبال کو ان کے ایمان کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ ایمان انہیںنفس اور رب دونوں کی معرفت سے سرشار کرتاہے۔ یہ معرفت تاریخ فطرت کائنات اور حیات کی نہ صرف گہری بصیرت عطا کرتی ہے بلکہ اس محکم بصیرت کے ساتھ ایک جذبے کا سوز اور ایک ولولے کا گداز بھی عطا کرتی ہے مسجد قرطبہ کا حسن اسی بصیرت جذبے اور ولولے کا عطیہ ہے جبکہ ٹنٹرن ایبی میں معبد کی کوئی ہستی ہی نہیں اورساری اہمیت دریائے وائی (WYE) کے کناروں کی ہے‘ لہٰذا ورڈس ورتھ کی بصیرت محدود جذبہ خنک اور ولولہ سرد ہے‘ بات یہ ہے کہ فطرت کی پرستش وہ سرشاری پیدا کر ہی نہیں سکتی جو خد ا کی عبادت عطا کرتی ہے۔ رگ جاں کو چھیڑنے والی ہستی مظاہر کی نہیں ان کے خالق کی ہے اور اقبال نے خالق کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دعا کی اور اس کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی مسجد کو موضوع بنایا محض آب روان کبیر کے کنارے کھڑے ہو کر کسی اور زمانے کا خواب نہیں دیکھا جبکہ ورڈس ورتھ کی ساری دعائیں اور عبادتیں دریائے وائی کے کناروں پر نظر آنے والے مناظر کے لیے مخصوص ہیں اور ا س کے نیچے چند میل کے فاصلے پر واقع ننٹرن کی خانقاہ کا نام صرف پتے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور شاعر کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔
اقبال کی روح کے سو ز و گداز اور ورڈس ورتھ کی روح کی خنکی و سردی کا اثر دونوں کے فن پر بہ آسانی محسو س کیا جا سکتا ہے مسجد قرطبہ کے مصرعوں میں جو حرارت‘ تب و تاب اور نغمگی ہے ننٹرن ایبی اس سے خالی ہے۔ اس کی سطریں نسبتاً بہت ٹھنڈی بجھی بجھی اور اکھڑی اکھڑی ہیں اس فنی صورت حال میں کچھ میں کچھ حصہ انگریزی عروض کی ناہمواری اور مغربی موسیقی کی ناپختگی کا بھی ہے۔ بہرحال اصل معاملہ اس روح فن کا ہے جس پر یہاں بحث کی جا رہی ہے۔ اسی روح فن کی کار فرمائی فارسی میں اقبال کے جاوید نامہ کو دانتے کی اطالوی نظم نام نہاد‘ ڈواین کومیڈی سے بہتر تخلیق شاعری بناتی ہے‘ جس فطرت کی پرستش ورڈس ورتھ کے فن کی تجدید کرتی ہے اسی طرح ایک عورت کی پرستش دانتے کے شاعرانہ پرواز کے لیے زنجیر پا ہے جبکہ اقبال کا فن رب السموات و الارض کی بندگی کو مرکز نظر بنا کر شاعری اور زندگی دونوں کے سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کے لیے آزاد اور فراخ ہے اور اپنی اس آزادی و فراخی سے ادب کی وسعتوں میں دنیا کا بلند ترین مینار تعمیر کرتا ہے۔