٭تعارف اور پس منظر
’’ ساقی نامہ ‘‘ کا سال تصنیف ۱۹۳۵ء ہے۔ نظرثانی میں ‘ بعض مصرعوں اور اشعار میں ترمیم کی گئی‘ مثلاً: اس مصرعے: ’’تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ‘‘ کی ابتدائی صورت یوں تھی: ’’ جوانوں کو جلنے کی توفیق دے۔‘‘ متعدد اشعار قلم زد کر دیے گئے‘ مثلاً: ابتدامیں چھٹے بند میں یہ اشعار بھی موجود تھے:
خرد اس کے گھر کی پرانی کنیز
خودی کی غلامی سے ناچیز ‘ چیز
سرودِ جہاں کے بم و زیر یہ
بجاتی ہے طنبورِ تقدیر یہ
ترکی میں یہ مصطفی کمال پاشا کا دورِ حکومت تھا جس میں ترکی کی اسلامی اور مشرقی روایت کو ختم کیا جار ہا تھا۔ شرعی عدالتوں اور محکمۂ اوقاف کا خاتمہ‘ ترکی لباس اور پردے کی ممانعت‘ ہجری کی جگہ عیسوی سنہ اور عربی کی جگہ لاطینی رسم الخط کی ترویج اور ایسے ہی دوسرے اقدامات‘ اسلامی اور ملی نقطۂ نظرسے سخت مایوس کن تھے۔ ایران بھی ’’ جدیدیت ‘‘ اور لادینیت کی راہ پر گامزن تھا۔ رضا شاہ پہلوی بھی مصطفیٰ کمال کے نقش قدم پر چل رہا تھا، اگرچہ اس کی حکمت عملی کمال پاشا سے قدرے مختلف تھی ۔ اس نے سکولوں سے لازمی مذہبی تعلیم کا خاتمہ کر دیا۔ مشرقی لباس ممنوع قرار دیا۔ پردے کی بھی ممانعت کر دی گئی حتیٰ کہ اس کی بیوی اور صاحبزادی پردہ ترک کرکے برسرعام آگئیں۔ ہندی مسلمانوں پر تحریک خلافت کی ناکامی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی وجہ سے زبر دست مایوسی طاری تھی۔ ۱۹۲۸ء کی نہرو رپورٹ نے اس مایوسی میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔
فکری جائزہ
ساقی ناموں کی روایت کے مطابق‘ اس نظم کا آغاز بہا ر کے ایک خوب صورت اور حسین و جمیل منظر سے ہوتا ہے۔ شاعر نے ایک ایسے ماحول کا نقشہ کھینچا ہے جس میں گل و گلزار ‘ اشجار و طیّور اور جوے کہستاں… ہر شے فعّال اور متحرک و مستعد اورalive ہے اور اس پر خوشی و سرمستی کی کیفیت طاری ہے۔ پرندے وفور شوق و مسرت سے اپنے آشیانوں میں نچلے نہیں بیٹھ سکتے اور ندی کے جو ش و طغیانی کا یہ عالم ہے کہ وہ بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر پتھروں کو چیر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ مناظر و کیفیات شاعر کے جذبات میں بھی جوش و خروش پیدا کر رہے ہیں۔ ولولہ انگیز منظر شاعر کو زندگی کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ محسوس ہورہا ہے ۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ میں اقبال نے انھی دھڑکنوں اور زندگی کے پیام کو پیش کیا ہے۔
ساقی نامے کی روایت ہے کہ شاعر وقتاً فوقتاً ساقی کو مخاطب کرکے اس سے شراب کا جام طلب کرتا ہے۔ اقبال بھی اسی روایت کے تحت: ’’ ذرا دیکھ اسے ساقیِ لالہ فام‘‘ کہہ کر بہاریہ منظر سے اصل موضوع کی طرف گریز کرتے ہیں۔ گویا یہ خارجی ماحول سے داخلی کیفیات اور فکر و تخیّل کی طرف گریز ہے۔ ساقی سے جامِ مے طلب کرنے کے بعد ،وہ ایسے حقائق کی نقاب کشائی کرنے چلے ہیں جو اس وقت عام لوگوں سے مستور و مخفی ہیں۔
پہلا بند سراسر تمہیدی ہے۔ دوسرے بند سے نظم کے موضوعات پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ کے مباحث کو ذیل کے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ عالمی منظر پر ایک نگاہ بند ۲ اشعار: ۱۔۵
۲۔مسلم انحطاط کا مرثیہ بند ۲ اشعار ۶۔۱۴
۳۔احیاے ملت کے لیے ولولہ و عزم بند ۳
۴۔زندگی، کشمکشِ انقلاب بند ۴- ۵
۵۔ خودی کی قو ّت اور اس کے امکانات بند ۶
۶۔ پرورش خودی کی تلقین بند ۷
٭عالمی منظر پر ایک نگاہ:
اقبال سب سے پہلے عالمی منظر پر نگاہ ڈالتے ہوئے بیداری کی اس لہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف خطّوں میں جنم لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں:
۱۔ اقبال برطانوی امپریلزم کے زوال کی طرف توجّہ دلاتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ بات بہت مشہور تھی کہ ’’ سلطنت ِ برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا‘‘ مگر اب فرنگی اقبال کا سورج گہنا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ’’ ساقی نامہ‘‘ کے دور میں برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی مگر اقبال کی پیمبرانہ بصیرت نے برطانیہ کے زوال کی پیش گوئی کی جس کی صداقت دوسری جنگِ عظیم کے بعد واضح ہوئی‘ جب ’’بڑوں ‘‘کی قطار میں برطانیہ کا نمبر تیسرا تھا اور آج شاید چوتھا یا پانچواں ہے۔
۲۔ سرمایہ دارانہ نظام بڑ ی حد تک برطانوی امپیریلزم کی قسمت سے وابستہ تھا۔ برطانوی ’’امپائر ‘‘کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد ‘سرمایہ داری (capitalism)بھی زوال پذیر ہوگئی۔ خصوصاً روس اور اس کے حاشیہ بردار مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک نے مغربی سرمایہ داری کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
۳۔ مغرب میں علوم جدیدہ کی وجہ سے جو عام بیداری کی رو چلی‘ اس کے سبب مغرب میں شہنشاہیت بالکل ختم ہوگئی‘ اگر چہ برطانیہ ‘ ناروے ‘ سویڈن اور ڈنمارک میں رسمی نوعیت کی بادشاہت اب بھی قائم ہے۔ اسی طرح مشرق میں بھی مغربی علوم کی اشاعت سے آزادی اور جمہوریت کے تصو ّرات رواج پانے لگے اور بادشاہت کا تصو ّر کمزور ہوگیا۔
۴۔ چینی قوم ایک لمبے عرصے سے خواب غفلت میں مدہوش پڑ ی تھی‘ اب وہ بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے۔ آج کا چین اقبال کی پیش گوئی کی تعبیر ہے۔
یہ چند مثالیں اقبال نے اس حقیقت کو واضح کرنے لیے دی ہیں کہ فکری‘ذہنی اور سیاسی اعتبار سے دنیا میں ایک انقلابی انداز نظر جنم لے رہا ہے۔ پرانے افکار کی جگہ نئے معیارات و تصو ّرات لوگوں کے ذہنوں کو مسحور کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ یاجو قوم نئے دور کے انقلابی تقاضوں کا ساتھ نہیں دے گی ‘ اسے فنا ہونے سے کوئی چیزنہیں روک سکتی:
جس میں نہ ہو انقلاب ‘ موت ہے وہ زندگی
٭مسلم انحطاط کا مرثیہ:
یہ صورت حال مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں مگر افسوس کہ مسلمانوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ یہاں اقبال نے دورِ حاضر کے مسلمانوں کے ہمہ پہلو انحطاط کا مکمل اور جامع نقشہ کھینچا ہے۔ جس میں امت ِ مسلمہ کے زوال کے وہ سارے اسباب گنوا دیے ہیں جو کئی صدیوں کی تاریخ پر محیط ہیں۔ اجتماعی بے عملی‘ غیر اسلامی تصو ّف‘ فقہی موشگافیاں ‘ عجمی اور یونانی تعلیمات‘ مفہوم سے زیادہ لغت پر زور اور غیر اسلامی روایات کی پیروی زوالِ مسلم کے اسباب ہیں۔ ’’ سالک‘‘ اور ’’مقامات‘‘ رائج الوقت تصو ّف کی خاص اصطلاحیں ہیں ۔ مسلمانوں کی جو عبرت ناک حالت اقبال نے نظم کے اس حصے میں بیان کی ہے ‘ اس کا نتیجہ انھوں نے، بجا طور پر، یہ پیش کیا ہے کہ مسلمان بظاہر چلتے پھر تے لاشے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک قوم نہیں بلکہ راکھ کا ڈھیر ہے:
بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں ‘ راکھ کا ڈھیر ہے
٭احیاے ملت کے لیے ولولہ و عزم نو:
مسلم انحطاط کا دردناک بیان ایسا نہیں جو کسی مسلمان خصوصاً اقبال جیسے حساس فرزند ِ ملت کو متاثر نہ کرسکے۔ یہ بیان ایسا ہے جو اقبال کے الفاظ میں قلب کو گرما دینے اور روح کو تڑپا دینے والا ہے۔ چنانچہ نظم کے اگلے حصے( بند نمبر ۳) میں اسی جوش و ولولے اور سوز و تڑپ کا اظہار ملتا ہے اور اس کی بنیاد احیاے ملی کی شدید خواہش ہے۔
ساقی نامے کی روایت کے مطابق، شاعر نے پہلے ہی شعر میں ساقی کو مخاطب کرکے ’شراب کہن‘ طلب کی ہے۔ یہ سارا بند دعائیہ ہے اور انداز بیان سے ظاہر ہے کہ خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے۔ ’شراب کہن‘ کا مفہوم حقیقی اسلامی جوش و جذبہ او راحیاے اسلام کی شدید خواہش ہے۔ خدا کے سامنے اس آرزو کا اظہار کرتے ہوئے شاعر دعا گو ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا علی مرتضیٰ ؓ کے سے ایمان و یقین سے بھر دے۔ خود شاعر کا اپنا دل بھی ملی درد و سوز سے لبریز ہے۔ اس کے شب و روز اسی کرب و اضطراب اور کشمکش میں گزرتے ہیں کہ روے زمین پر امت کے عروج اور غلبۂ اسلام کی کوئی صورت نظر آئے:
اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی‘ کبھی پیچ و تابِ رازی
پروفیسر محمد منوّر لکھتے ہیں:’’ حق یہ ہے کہ حضرت علامّہ کی زندگی کا بہت سا حصہ اسی اضطراب میں بسر ہو گیا کہ ملت کو کس طرح متحد کیا جائے‘ ملت کو کس طرح غلامی سے نجات دلائی جائے‘ ملت کس طرح اپنے پاؤں پردوبارہ کھڑی ہو ‘ کس طرح اپنا مقام پہچانے اور دنیا میں خدا کے آخری آئین کو نافذ کرکے‘ نوعِ انسانی کے لیے دنیا کو جنت عدن کا صحیح بدل بنا دے۔‘‘ ( ایقانِ اقبال: ص ۷۹)
علامّہکے سوزو ساز ‘ بے تابیوں‘ بے خوابیوں اور نالہ ہاے نیم شب کا منبع ان کا جذبۂ عشق ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ یہ جذبۂ عشق جو ان کی زندگی کی سب سے قیمتی چیز اور ’’ متاعِ فقیر‘‘ ہے ‘ ملت کے نوجوانوں کو بخش دیا جائے۔ اکبر الہٰ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جوذوقِ خداداد کے ساتھ قوّتِ عمل بھی رکھتا ہو ‘ مل جائے‘ جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں‘‘۔ ( اقبال نامہ‘ دوم:ص ۴۹)
اس مقدس امانت کو نوجوانوں تک پہنچا کر اقبال کو اطمینان ہوگا کہ حق بہ حق دار رسید اور یوں وہ کہہ سکیں گے کہ :
شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم
٭کائنات اور زندگی کا مشاہدہ:
اب فلسفی شاعر کی نگاہ حیات و کائنات اور اس کے گوناگوں مظاہر اور متنوع پہلوؤں کی طرف اٹھتی ہے۔ وہ چشم تخیل سے زندگی کی ازلی و ابدی حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا اور ان پر تنقیدی تبصرہ کرتا چلا جاتا ہے۔ دنیا کی ساری موجودات از قسم جمادات ‘ نباتات اور حیوانات اور پھر ان کی مختلف شکلوں انسان‘ چرند‘ پرند‘ شجر و حجر ‘ سونا چاندی ‘ جبریل وحور‘ ببول و پھول‘ کہساروبیاباں‘ دشت و کہسار‘ پست و بلند ‘ ثابت و سیار… اور دیگر مختلف عناصر کے باہمی تعلق‘ آپس کے عمل اور ردّ ِ عمل کے نتیجے میں یہ عظیم الشان حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ زندگی تحرک ‘ تسلسل اور تمو ّج کا دوسرا نام ہے اور زندگی جدو جہد ‘ کشمکش اور انقلاب ہی کے نتیجے میںقرار و استحکام اور نشوونما پاتی ہے۔ اقوام کی تشکیل و تنظیم بھی اسی جدوجہد کی مرہونِ منّت ہے:
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات، کشمکشِ انقلاب
نظم کے بند ۴- ۵ میں متعدد مثالوں اور مختلف انداز میں اقبال نے حیات و کائنات کے فلسفیانہ مشاہدے کا یہی نچوڑ پیش کیا ہے۔ یہ بات کہ سکون و ثبات ‘ فریب ِ نظر ہے اور حرکت و جدو جہد ہی اصل حقیقت ہے، اقبال کے فکری نظام کا اہم جز ہے:
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
اقبال نے اپنی شاعری اور فکر میں حرکت و تسلسل اور کش مکش کا یہ فلسفہ بڑے تواتر ‘ کثرت اور شد ّت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شاید اس لیے کہ کائنات کا مزاج بھی حرکت و تسلسل اور آگے بڑ ھنے کا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صداے کن فیکوں
’’ساقی نامہ‘‘ کے ان دو بندوں میں اس فلسفے کو جتنے بہتر ‘ خوب صورت اور مکمل اندازمیں پیش کیا گیاہے‘ وہ شاید اقبال کی کسی اورنظم میں نہیں ملتا۔ یہ نتیجہ اقبال نے فطرت کے خارجی مطالعے سے اخذ کیاہے، اس سے آگے بڑھ کران کا مشاہدہ سائنسی میدان تک وسیع ہے۔ انسانی جسم کا حیاتیاتی (biological) مطالعہ بھی یہی کہتا ہے ’’اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود‘‘ اور عناصر کا کیمیائی (chemical) تجزیہ بھی ’’کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود‘‘ اس امر کی شہادت دے رہا ہے۔
٭خودی کی قو ّت اور اس کے امکانات:
معرکۂ زندگی ہمیں کیا درس دیتا ہے اور اس کی تلاطم خیز موجوں سے بحفاظت کنارے تک پہنچنے کے لیے کس شے کی ضرورت ہے؟ اقبال کے نزدیک صرف خودی کی کہ :
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
اس راز سے آگاہی کے بغیر زندگی کے طویل سفر کو بامراد طے کرنا ممکن نہیں‘ چنانچہ زندگی کے تحر ک و تمو ّج کاپتا دینے کے بعد، اب بند ۶ میں اقبال ہمیں اس راز( خودی) سے آگاہ کرتے ہیں۔ کیونکہ(جیسا اقبال آگے چل کر بتاتے ہیں)معرکۂ زندگی کی غایت ہی یہ ہے کہ انسان کو خودی کا شعور حاصل ہو اور وہ اپنے اندرون میں موجود اس غیر معمولی قو ّت سے پوری طرح آگاہ ہو جائے:
یہ ہے مقصد گردشِ روز گار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
فلسفۂ خودی ‘ فکر اقبال کا اہم ترین باب ہے۔ اقبال نے اپنی نثری تحریروں میں بھی خودی کی حقیقت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں بھی زیر بحث موضوعات کی مناسبت سے خودی کی قو ّت اور اس کے پوشیدہ امکانات پر ایک نئے پیرایے میں اظہارِ خیال ملتا ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبالؔ نے خودی کی جو خصوصیات گنوائی ہیں‘ وہ مختصراً حسب ذیل ہیں:
۱۔ خودی میں ایٹم کی مانند طاقت و قو ّت کا زبردست اور لا محدود ذخیرہ پوشیدہ ہے۔
۲۔ خودی ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے جس کے آغاز و انجام کی کوئی انتہانہیں ۔
۳۔ پتھر ہو یا چاند ‘ دنیا کی ہر شے میں خودی کا جلوہ دیکھا جاسکتا ہے۔
۴۔ خودی کا مرکز و منبع انسانی دل ہے‘ یعنی ایک طرح کی داخلی کیفیت کا نام ہے۔
اقبال نے خودی کی جو صفات اور جن قو ّتوں کا بیان کیا ہے ‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خودی خدائی صفات ہی کا پرتو ہے۔
٭پرورشِ خودی کی تلقین:
خودی کی عظمت و اہمیت کو واضح کرنے کے بعد، اقبال اس کی پرورش کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خودی‘ انسان کو فقر و استغنا اور غیر ت و خودد اری سکھاتی ہے۔ خودی کی وجہ سے انسان دنیا میں سر اٹھا کر چل سکتا ہے اور ’’ہزار سجدے ‘‘سے نجات پالیتا ہے۔ اقبال انسان کو تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ دنیا ‘ یہ بت خانۂ شش جہات اس کی پہلی منزل ہے‘ منتہاے مقصود نہیں :
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
شاید تو خود بھی اپنی حقیقت سے واقف نہیں ۔ تجھے صرف دنیا ہی نہیں‘ پوری کائنات کو تسخیر کرنا ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ تیرے لیے چشم براہ ہے کیوں کہ:’’تو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زشت‘‘اقبال جب کہتے ہیں:
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیر ی خودی تجھ پہ ہو آشکار
تو شاید یہ فکر و تخیل کی وسعت اور بلندی کا انتہائی یعنی saturated درجہ ہے۔ چنانچہ اب شاعر سلسلۂ گفتگو کو قطع کرتا ہے۔ یوں کہنے کو تو وہ بہت کچھ کہہ سکتا ہے کیونکہ شاعر کے تخیل کا دھارا کچھ ایسی کیفیت کا حامل ہوتا ہے:
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
لیکن ضروری نہیں کہ الفاظ بھی اس دھارے کا ساتھ دے سکیں۔ نظم کے آخری تین اشعار میں اسی بات کا اظہار کیاگیا ہے۔ ایک طرف شاعر کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ اس کے سینے میں شمعِ الہام فروزاں ہے‘ مگر ساتھ ہی اس نے اپنے عجز کا اظہار بھی کیا ہے کہ مزید تابِ گفتار نہیں ہے ۔ کیونکہ شیخ سعدی کے الفاظ میں اگر میں ( جبریل ؑ) بال برابر بھی آگے بڑ ھوں تو میرے پَر جل کر راکھ ہو جائیں گے۔
فنی تجزیہ
’’ ساقی نامہ‘‘ فنی اعتبارسے اقبال کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ چھوٹی بحر کے سات بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کا نام بحر متقارب مثمن مقصودالآخر ہے جس کے ارکان یہ ہیں: فُعُوْلُن ْ فُعُوْلُنْ فُعُوْلُنْ فُعُوْل
٭روایتی انداز:
فارسی اور ارود ساقی ناموں کی روایت کے تتبع میں ‘ اقبال نے زیر مطالعہ نظم میں ساقی نامے کی روایت کو برقرار رکھا ہے:
الف۔نظم کا بہاریہ آغاز روایتی ہے۔
ب۔ روایتی انداز کے مطابق اقبال نے جگہ جگہ ساقیِ لالہ فام کو مخاطب کر کے اس سے جام گردش میں لانے کی درخواست کی ہے۔
ج۔ ساقی نامے کی روایت کے مطابق شاعر نے نظم میں مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
د۔ اسی طرح نظم کی فنی ہیئت یعنی بحر کا اختصار‘ مختلف حصے( بند) اور ہر شعر کے مصرعوں کاباہم ہم قافیہ ہونا بھی ساقی نامے کی فنی روایت اور تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
٭ایجاز و بلاغت:
فنی ہیئت سے قطع نظر‘ بلاغت اور اختصا ر و جامعیّت ’’ ساقی نامہ‘‘ کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اس ایک نظم میں اقبال نے اپنے فکر و فلسفے کے تمام اہم اور بنیادی عناصر کمال ایجاز و بلاغت سے بیان کر دیے ہیں اور پھر ایک ایک جز کو جس بلیغ اور مکمل انداز میں یہاں پیش کیا ہے ‘ دوسرے مقامات پر ایسا بیان نہیں ملتا‘ اگر ملتا ہے تو بہت کم۔ فن کے نقطۂ نظر سے اس نظم کا ایک ایک حصہ ‘ ایک ایک شعر اور ہر ہر مصرع فصیح و بلیغ اور ایجاز و ایما کا شاہ کار ہے۔ مثلاً ایک شعر:
ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
میں برٹش امپائر کے زوال کی تصویر اس خوبی سے کھینچ دی ہے کہ شاید ایک مؤرخ اس زوال کو سیکڑوں صفحوں میں بھی بیان نہ کر سکے۔ اسی طرح ایک اورشعر:
تمدن ‘ تصو ّف ‘ شریعت ‘ کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
میں امت ِ مسلمہ کے ہمہ پہلو انحطاط اور اس کی وجوہات کو جس اختصار اور بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے ‘ وہ اقبال کی معجز بیانی کا ثبوت ہے۔ اس شعر کے حوالے سے پروفیسریوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:’’دوسرے مصرع میں ایسا بلیغ اسلوب اختیار کیا ہے کہ ایک ہزار سال کی تاریخ دو لفظوں میں بیان کر دی۔ یعنی دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘‘۔ (شرح بال جبریل:ص۵۸۸) مسلمانانِ عالم کی موجودہ عبرت ناک حالت کا مرقع ایک شعر میں اس سے بہتر اورکیسے کھینچا جاسکتا ہے:
بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
مسلمان نہیں ‘ راکھ کا ڈھیر ہے
زمانے کی حقیقت ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
زمانہ کہ زنجیر ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
انسان، خودی اور زمان و مکاں کے باہمی ربط و تعلق پرایک جامع اور بلیغ تبصرہ دیکھئے:
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
غرض پورا ’’ساقی نامہ‘‘ ہی ایجاز و بلاغت کی مثال اور اس لحاظ سے اقبال کا ایک نادر شاہ کار ہے۔
٭روانی و تسلسل:
شستہ‘ رواں ‘ چست اور پرجوش زبان ساقی ناموں کی روایت ہے۔زیر مطالعہ نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ میں بلا کی روانی اور تسلسل پایا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ علامّہ اقبال پر بعض اوقات اس تیزی کے ساتھ اشعار وارد ہوتے تھے کہ لکھنے والے کا قلم اس تیزی کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ لگتا ہے کہ ’’ ساقی نامہ ‘‘ بھی ایسی ہی کیفیت میں کہی ہوئی نظم ہے۔ روانی اور تسلسل کا احساس آغاز سے ہی ہو جاتا ہے۔ بہاریہ تمہید میں اقبال نے ندی کی تصویر کھینچی ہے :
الجھتی ‘ پھسلتی ‘ سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
جوئے کہستاں کی یہ کیفیت ’’ ساقی نامہ ‘‘ پر صادق آتی ہے سواے اس کے کہ نظم کی روانی کسی مقام پر نہیں رکتی۔ اس کا تسلسل اور بہاؤ اس قدر زوردار ہے کہ نظم کے خاتمے بر اگر ’’ تابِ گفتار‘‘ کی رکاوٹ نہ ہوتی تو شاید نظم آگے بھی چلتی۔ اقبال اس تسلسل اور روانی کو سعدی کے ایک شعر کے ذریعے روکتے ہیں۔ نظم کی اس الہامی روانی کی وجہ سے جوے کہستاں کی طرح یہ نظم بھی پہاڑوں کا دل چیر دینے کی تاثیر رکھتی ہے۔ یوں تو نظم کے ہر حصے اور ہر بند میںروانی اور تسلسل موجود ہے مگر تمہیدی بند کے پہلے حصے ‘ تیسرے بند کے آخری حصے ( جوانوں کو سوزِجگر بخش دے…تا آخر) اور چھٹے بند میں خودی کی طاقت اور صفات کے بیان میں یہ خصوصیت عروج پر ہے۔
اس روانی اور تسلسل کا ایک پہلو جوشِ بیان بھی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی قوّت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اقبال کے فلسفے میںیوں بھی قو ّت اور توانائی کو اہمیت حاصل ہے اور ذکر بھی خودی کا ہو رہا ہے جو طاقت و قو ّت اور حرکت و نمو کا منبع ہے۔ بقول مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم:’’ اس نظم میں ڈاکٹر صاحب کا جوش بیان اپنے منتہاے کمال کو پہنچ گیا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ پر جوش الفاظ اور مست خیالات کا ایک سیلاب امنڈتا ہوا چلا آتا ہے‘‘۔ (اقبال کامل: ص ۱۳۱)
٭فنی محاسن کے مزیدچند پہلو:
’’ساقی نامہ‘‘گوناگوں فنی محاسن سے بھر پور ہے۔ چند پہلو ملاحظہ ہوں:
الف: تصویر کاری: نظم کے آغاز ہی میں بہاریہ منظر کی ایک دل ربا تصویر ملتی ہے، مثلاً: اس شعر سے:
فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
موسم بہا ر کا ایک دل کش ماحول اور رومانوی فضا کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ اگلے تین شعروں میں جوے کہستاں کی ایک اور خوب صورت تصویر سامنے آتی ہے۔ پانچویں اور چھٹے بند میں، جہاں خودی کی قو ّت اور صفات کا بیان ہواہے ‘امیجری کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں خودی ایک طاقت اور قاہر قو ّت کی حیثیت سے ہر مدِّ مقابل کو مارتی ‘ گراتی اور پچھاڑتی جار ہی ہے۔ حتیٰ کہ پہاڑ بھی اس کی ضربوں سے ریگِ رواں بن جاتے ہیں اور موت اس کے سامنے آنے سے کتراتی او ر ادھر ادھر منہ چھپاتی پھرتی ہے:
رہی زندگی موت کی گھات میں
یہی چیز ہے جس کے متعلق ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے کہا ہے کہ ’’ اقبال نہایت خوبی سے تجریدی تصو ّرات کو جان دار اور جیتی جاگتی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اس کے افکار و تصوّرات محسوس استعاروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں… وہ بے جان اشیا کو اس طرح محسوس شکل میں پیش کرتا ہے کہ گویا وہ ذی روح ہیں‘‘۔ ( روح اقبال: ص ۱۱۰‘ ۱۱۲)
ب: نئی تراکیب:’’ساقی نامہ‘‘ میں بعض نادر ‘ نئی اور خوب صورت تراکیب ملتی ہیں، مثلاً: مے پردہ سوز‘ شیشہ بازِ فرنگ ‘ بت خانۂ چشم و گوش‘ فروفالِ محمود‘ فاتحِ عالم خوب و زشت‘ بت خانۂ شش جہات‘ غزالانِ افکار۔
ج: صنائع بدائع: اس نظم میں بھی ہمیں صنائع بدائع کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ چند مثالیں:
۱۔ صنعت تلمیح:
تمدن ‘ تصو ّف ‘ شریعت ‘ کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
۲۔ صنعت ترافق ( اور صنعت ترصیع بھی):
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
۳۔ صنعت مشاکلہ: دو چیزوں کو ایک ہی ُغہ مذکور ہونے کی مناسبت سے انھیں ایک ہی لفظ سے تعبیر کرنا):
مرا دل ‘ مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر ‘ یقیں کا ثبات
۴۔ صنعت تجنیس مضارع: ( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صرف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو) :
چمک اس کی بجلی میں ہے‘ تارے میں ہے
یہ چاندی میں ‘ سونے میں ‘ پارے میں ہے
۵۔ صنعت عکس: ( کلام کے بعض اجزا کو مقد ّم اور مؤخّر کر کے پھر مؤخّرکو مقد ّم اور مقد ّم کومؤخّرلانا ):
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں
٭مجموعی قدر و قیمت :
بعض اصحاب نے زیر مطالعہ نظم کی مجموعی قدر و قیمت پر جچے تلے انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مولوی شمس تبریز خان لکھتے ہیں: ’’ساقی نامہ‘‘ اقبال کی منتخب نظموں میں شمار ہوتا ہے ۔ خیالات و افکار کی پختگی اور قطعیت تو اس میں نمایاں ہے، ادبی اور فنی لحاظ سے بھی اردو میں ایک منفرد شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شاید اردو میں پہلا ’’ ساقی نامہ ‘‘ ہے جس میں اس روایت کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ اردو کے علاوہ خود فارسی میں بھی ظہوری وغیرہ کا ساقی نامہ‘ اپنی بہت محدود دنیا رکھتا ہے۔ لیکن اقبال کی عبقریت ِفکر کا کمال یہی ہے کہ وہ جس صنف سخن کو ہاتھ لگاتے ہیں‘ اسے بلند تر کر دیتے ہیں۔ اور لفظ و معنی کی دنیا میں اپنے جہانِ نو کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ فارسی اور اردو میں میر حسنؔ اور نسیمؔ کی یا دوسر ی مثنویاں صرف بیانیہ حیثیت رکھتی ہیں اور واقعہ نگاری کے لیے مفید ہیں لیکن تفکر اور نازک خیالی کے لیے انھیں بیچ بیچ میں غزلیں لکھنا پڑ تی ہیں‘ اس کے برخلا ف اقبال ؔ نے مثنوی میں قصیدے اور غزل، دونوں کی روح بھی برقرار رکھی ہے اور مثنوی کو سیدھی اور سپاٹ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ الفاظ کی روانی ‘ خیالات کی جولانی اور سیلانِ شعور(stream of consciousness)کی جو کیفیت ہے، وہ اقبال ؔ ہی کا حصہ ہے‘‘۔ ( نقوش اقبال: ص ۲۱۶- ۲۱۷)
اس منفرد نظم پر پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی راے بھی قابلِ توجّہ ہے۔اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں: ’’ اس پوری نظم میں اقبال کے مخصوص تصو ّرات یعنی خودی‘ عشق ‘ وقت اور ابدیّت کے حسیّاتی شعری تجسیم انتہائی مؤثر انداز میں پیش کی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آخر آخرمیں انداز بیان بہت زیادہ واضح اور قطعیت کا حامل نظر آتا ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی زندگی کے حرکی تصو ّرکی عکاسی، روشن محاکات اور رواں دواں اور سبک بحروں کی وساطت سے حیرت انگیز بے ساختگی کے ساتھ کی گئی ہے۔‘‘( اقبال کی تیرہ نظمیں: ص ۱۸۵)