راکشس کی کہانی کے بعد جب بچے دوسری کہانی سننے کے لیے جمع ہوئے تو ان میں سے بیشتر کے ہاتھوں میں غلیلیں تھیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں غلیلوں کو دیکھ کر وہ چونک پڑا۔
ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا:
’’تمہارے ہاتھوں میں یہ غلیلیں کیوں ہیں؟‘‘
’’بچوں نے جوش میں آ کر جواب دیا:
’’ہمارے گاؤں میں اگر راکشس آیا تو ہم بھی اِس سے اُس کو مار گرائیں گے۔‘‘
’’ہاں، انکل! ہم بھی اس کی آنکھیں اس سے پھوڑ دیں گے۔‘‘ ایک بچے نے اپنی غلیل تان لی۔
اس کی نگاہیں غلیل کی تنی ہوئی ربڑوں پر مرکوز ہو گئیں۔
’’انکل! آج کون سی کہانی سنائیں گے؟‘‘
اس نے ربڑوں سے نگاہ ہٹائے بنا جواب دیا
’’آج ایک نئے انداز کی کہانی سناؤں۔‘‘
’’مزے دار توہو گی نا انکل؟‘‘
’’ہاں، مزے دار ہو گی اور کافی ایڈونچرس بھی۔‘‘
’’انکل! اور وہ کہانی کب سنائیں گے جس کا آپ نے ایک دن وعدہ کیا تھا؟‘‘
’’کون سی کہانی؟‘‘
’’وہی جس کو سن کر ہوا رک جائے گی۔ بہتے ہوئے دریا ٹھہر جائیں گے۔ آسمان جھک جائے گا۔ زمین دہل اٹھے گی۔ سورج بجھ جائے گا اور چاند میں دھبّے پڑ جائیں گے۔‘‘
’’سناؤں گا۔ وہ کہانی بھی سناؤں گا مگر اس کے لیے ابھی اور انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
’’اس کہانی سے کیا سچ مچ ایسا ہو گا؟‘‘
’’ہاں سچ مچ ایسا ہو گا۔‘‘
’’تب تو بڑا مزا آئے گا۔‘‘
’’اچھا، انکل! یہ بتائیے کہ اس کہانی کا ہم پر کیا اثر ہو گا؟‘‘
’’تم پر—— تم پر یہ ہو گا کہ اسے سنتے ہی تمہاری مونچھیں نکل آئیں گی۔‘‘
’’انکل مذاق چھوڑیے، سچ بتائی، ہم پر اس کا کیا اثر ہو گا؟‘‘ ایک بچہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔
’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ سچ مچ تمہاری مونچھیں نکل آئیں گی۔ وہ بھی سنجیدہ ہو گیا۔
’’پھر تو واقعی بڑا مزا آئے گا انکل! پایا کی طرح اپنی مونچھوں پر ہم بھی ہاتھ پھیرا کریں گے — یوں —
’’اچھا! اب آج کی کہانی سنو!‘‘
’’جی!‘‘ بچے الرٹ ہو گئے۔‘‘
ایک قصبے میں چار شرارتی دوست تھے۔ چاروں ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ بہت ذہین اور پڑھنے میں کافی ہوشیار تھے مگر ان کی صلاحیت پڑھنے لکھنے میں کم شرارتیں گڑھنے میں زیادہ استعمال ہوتی تھی۔
وہ نئی نئی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ ان کی شرارتوں سے ان کے گھر والے، اڑوسی پڑوسی، اسکول ٹیچرس اور کلاس فیلو سبھی بہت تنگ تھے۔
ان کی شرارتوں سے تنگ آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی شرارتوں سے کبھی گھر والوں کی ایمانداری کے اوپر سے پردہ اٹھ جاتا اور ان کی بے ایمانیاں سامنے آ جاتیں۔ کبھی پڑوسی کے کالے کارنامے ان کے صاف ستھرے گھروں سے جھانکنے لگتے اور ان کے اجلے چہرے میلے ہو جاتے۔
کبھی اسکول کے استادوں کی ڈھکی چھپی حرکتوں کا پول کھل جاتا اور ان کی کمزوریاں دکھائی دینے لگتیں۔
اور کبھی طالب علموں کی وہ ترکیبیں بے کار ثابت ہو جاتیں جنھیں وہ امتحان پاس کرنے کے لیے کڑی محنت اور بڑی ہشیاری سے نہ جانے کہاں کہاں سے نکال کر لاتے تھے۔
ایک دن چاروں نے اسکول کے پرنسپل کے ساتھ ایک ایسی شرارت کی جس سے پرنسپل کی بنی بنائی عزت کو مٹی میں مل جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ پرنسپل ان کی اس شرارت پر آگ بگولہ ہو گیا اور اس سے پہلے کہ وہ لڑکے اپنی شرارت کے سرے کو آگے بڑھاتے، اس نے اسکول سے ان کے نام کاٹ دیے۔
اسکول سے نام کٹ جانے پر ان کے گھر والوں کے غصے کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ انھوں نے ڈانٹ پھٹکار اور مار پیٹ کر ان کو گھر سے بھی باہر نکال دیا۔
اپنے اپنے گھر سے نکل کر چاروں دوست ایک جگہ جمع ہوئے۔ پہلے پرنسپل اور بعد میں اپنے گھر والں کو خوب جی بھر کر کوسا اور دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد ٹھنڈے دماغ سے سوچنا شروع کیا کہ اب وہ کہاں رہیں گے؟ کیا کریں گے؟ کہاں سے کھائیں گے، اپنی زندگی کس طرح گزاریں گے؟‘‘
بہت دیر تک سر کھپانے کے بعد اِس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ شہر جا کر کوئی نوکری یا کام تلاش کریں گے۔
وہ اسی دن رات کی گاڑی سے شہر کے لیے روانہ ہو گئے۔ شہر پہنچ کر کام کی تلاش میں صبح سے شام تک وہ گلی کوچوں میں بھٹکتے رہے مگر کہیں کام نہیں ملا۔
رات کاٹنے کے لیے وہ تھک ہار کر شہر کے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لوٹ آئے۔ سونے سے پہلے ایک بنچ پر اداس بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اب وہ کیا کریں کہا چانک ان میں سے ایک کی نظر سامان ڈھونے والے ایک نوجوان پر پڑی۔ کچھ دیر تک قلی کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اپنے دوستوں سے کہا:
’’کیوں نہ ہم لوگ قلی گیری کا کام شروع کر دیں؟‘‘
یہ سن کر دوسرا بولا:
’’بوجھ ڈھوئیں گے؟‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘ تیسرے نے پہلے کی رائے سے اتفاق کیا۔
’’جب تک کوئی کام نہیں مل جاتا قلی گیری کرنے میں بھی کچھ حرج نہیں‘‘ چوتھے نے بھی تائید کر دی۔
اور وہ اس دن سے اسی اسٹیشن پر قلی گیری کا کام کرنے لگے مگر سخت محنت اور مشقت کے باوجود اس کام سے انھیں اتنے پیسے نہیں مل پاتے کہ وہ اپنے رہنے کے لیے کوئی کمرہ کرایہ پر لے سکیں۔
پلیٹ فارم کی فٹ پاٹھ والی زندگی سے وہ تنگ آ گئے مگر وہاں سے نکلنے اور بہتر زندگی پانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے مجبوراً وہ وہیں پڑے رہے۔ ایک دن ان میں سے ایک نے اپنے دوستوں سے کہا:
’’کیوں نہ ہم لوگ بھی لاٹھی بابا کے پاس جا کر اپنی قسمت آزمائیں۔ کیا پتہ وہ ہماری بگڑی بنا دیں۔‘‘
سبھی دوستوں کو یہ رائے اچھی لگی۔ دوسرے ہی دن وہ ایک بالٹی اصلی دودھ لے کر لاٹھی بابا کے پاس پہنچ گئے۔
’’کہانی انکل وہ اصلی دودھ کیوں لے گئے؟‘‘
’’اس لیے کہ بابا کی لاٹھی ملاوٹ والا دودھ نہیں پیتی تھی۔‘‘
’’لاٹھی دودھ پیتی تھی؟‘‘ ایک ساتھ سبھی بچے چونک پڑے۔
’’ہاں، بابا کی لاٹھی دودھ پیتی تھی اور لاٹھی صرف انھیں لوگو کا دودھ پیتی تھی جن کی مراد پوری ہونی ہوتی تھی۔ یعنی بابا کی لاٹھی جن لوگوں کی بالٹی کا دودھ پی لیتی تھی، ان کے من کی مراد پوری ہو جاتی تھی۔
’’آگے کیا ہوا انکل؟‘‘
چاروں دوست بابا کے مٹھ میں پہنچے تو دیکھا:
بابا کی کٹیا کے سامنے کچھ دوری پر ایک لاٹھی گڑی تھی۔ لاٹھی کے اوپری سرے پر سانپ کا منہ بنا ہوا تھا اور منہ کافی کھلا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے سچ مچ کا کوئی سانپ اپنا منہ کھولے پونچھ کے بل کھڑا ہو۔
لاٹھی کے چاروں طرف مراد پانے والے اصلی دودھ سے بھری اپنی اپنی بالٹی لیے کھڑے تھے۔
باری باری سے ایک ایک آدمی لاٹھی کے پاس جاتا تھا اور اپنی بالٹی کا دودھ لاٹھی کے منہ میں انڈیل دیتا تھا۔ لاٹھی بالٹی کا سارا دودھ گٹا گٹ پی جاتی تھی۔ چار پانچ بالٹیوں کا دودھ پی لینے کے بعد لاٹھی نے اپنا منہ بند کر لیا۔ چھٹی بالٹی کا سارا دودھ اِدھر اُدھر بہہ گیا۔
یہ دیکھ کر چاروں دوست حیران ہو اٹھے۔
کافی دیر تک وہ لاٹھی کے دودھ پینے کا منظر آنکھیں پھاڑے دیکھتے رہے۔
لاٹھی چار پانچ بالٹیوں کے بعد اپنا منہ بند کر لیتی تھی اور سارا دودھ لاٹھی کے اندر جانے کے بجائے اِدھر اُدھر بہہ جاتا تھا۔
اپنی باری آنے پر ان میں سے ایک آگے بڑھا اور لاٹھی کے پاس پہنچ کر اپنی بالٹی کا دودھ اس نے لاٹھی کے منہ میں انڈیل دیا۔ لاٹھی نے گٹاگٹ ان کا دودھ پی لیا۔ وہ خوش ہو کر اسٹیشن لوٹ آئے اور اپنی مراد کے پورا ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
کئی ہفتے بیت جانے پر بھی ان کی حالت اچھی نہیں ہوئی۔ ان میں سے کسی کو بھی کہیں کوئی نوکری نہیں ملی۔
انھیں لاٹھی بابا پر بہت غصہ آیا اور ان کی شرارت کی رگ جو بہت دنوں سے دبی پڑی تھی، پھڑک اٹھی۔ انھوں نے سوچ لیا کہ وہ لاٹھی بابا کو اس کا ضرور مزا چکھائیں گے۔
ایک رات وہ اندھیرے میں چھپ چھپا کر لاٹھی باباکے مٹھ کے پاس پہنچے۔ بابا اپنی کٹیا میں جا چکا تھا۔ کٹیا کے کواڑ بھی بند تھے۔ ان میں سے ایک آہستہ آہستہ دبے پاؤں لاٹھی کے پاس گیا اور اس کے منہ کے اندر کوئی چیز پھنسا کر آ گیا۔
دوسرے دن صبح سویرے چاروں اپنی شرارت کا تماشا دیکھنے اور اس کا مزا لینے لاٹھی بابا کے مٹھ پر پہنچ گئے۔
دھیرے دھیرے مراد پانے والوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ بابا اپنی کٹیا سے باہر نکلا اور لاٹھی کے نیچے آسن جما کر بیٹھ گیا۔
اس کے بیٹھتے ہی لاٹھی کو دودھ پلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پہلی بالٹی کا دودھ لاٹھی کے اندر نہ جا کر اِدھر اُدھر بہہ گیا۔ دوسری بالٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ تیسرے، چوتھے اور پانچویں امیدوار کے ساتھ بھی لگاتار یہی ہوتا رہا۔
یہ منظر دیکھ کر چاروں دوستوں کی شریر آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھلنے لگی۔
اِدھر جن لوگوں کی بالٹیوں کا دودھ لاٹھی کے اندر نہ جا کر باہر گر گیا تھا ان بے چاروں کی آنکھیں بجھ گئی تھیں۔ ان کے چہروں پر اداسی چھا گئی تھی۔
لوگوں میں کانا پھوسی ہونے لگی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ بھیڑ کی بھنبھناہٹ سن کر لاٹھی بابا بھی چونک پڑا۔ اس کا دھیان بھنگ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ لگاتار پانچ بالٹیوں کے بہے ہوئے دودھ اور لوگوں کی بے چینی کو دیکھ کر پہلے تو وہ بہت گھبرایا پھر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولا، انرتھ! گھور انرتھ، پاپی! مہا پاپی!
لوگ چونک کر لاٹھی بابا کی طرف دیکھنے لگے۔ بابا نے لوگوں کو مخاطب کیا:
’’سجّنو! آج اس مٹھ پر کوئی مہا پاپی آ گیا ہے جس کو دیکھ کر لاٹھی مہاراج کرودھِت ہو اٹھے ہیں۔ آج وہ کسی کا بھی دودھ سویکار نہیں کریں گے۔ انھیں منانا ہو گا۔ ان کا غصہ شانت کرنا پڑے گا۔ اس لیے آپ سبھی بھکتوں سے پرارتھنا ہے کہ آپ آج اپنا بھینٹ واپس لے جائیے اور مجھے مہاراج کے دھیان میں بیٹھنے دیجیے۔ ان کو منانے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں مجھے پوری رات پوجا کرنی پڑے گی۔ آپ جائیے۔ کل صبح آئیے گا۔‘‘
لوگ ایک ایک کر کے اپنی اپنی بالٹی لیے واپس چلے گئے۔
لاٹھی کے دودھ نہ پینے اور بابا کے پریشان ہونے پر شرارتی لڑکوں کے تیز دماغ نے سوچا کہ ہو نہ ہو اس لاٹھی میں ضرور کوئی بھید چھپا ہے اور اس بھید کا پتا لگانے کے لیے وہ چاروں اس دن سورج کے ڈوبتے ہی بابا کے مٹھ کے پاس کی جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ گئے۔
اندھیرا جب کافی گہرا ہو گیا تو لاٹھی بابا سائے کی طرح اپنے کٹیا سے باہر نکلا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا لاٹھی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد لاٹھی پہلے اوپر کی طرف اٹھی اور پھر جھُک گئی۔ اس لاٹھی کو لے کر بابا تیزی سے ادھر اُدھر دیکھتا ہوا اپنی کٹیا میں گھس گیا۔ کٹیا کی لائٹ جلی اور تھوڑی دیر بعد بجھ گئی۔
بابا لاٹھی کے ساتھ باہر نکلا۔ آگے بڑھا اور لاٹھی کی جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا۔ لاٹھی پھر اپنی جگہ کھڑی ہو گئی۔ یہ منظر دیکھ کر چاروں دوست سوچتے ہوئے واپس پلیٹ فارم پر آ گئے۔
دوسرے دن لاٹھی نے پھر سے دودھ پینا شروع کر دیا۔ لڑکوں کا شبہ یقین میں بدل گیا۔ بھید کی تہہ تک پہنچنے کے لیے وہ چاروں اس رات بھی جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ گئے۔
کافی رات گزر جانے کے بعد ایک بڑی سی گاڑی بابا کی کٹیا کے سامنے آ کر رکی۔ چاروں کی نگاہیں گاڑی کی طرف مرکوز ہو گئیں۔
کچھ لوگ گاڑی سے باہر نکلے اور اپنے ہاتھوں میں بڑے بڑے ڈبے لیے کٹیا کے اندر داخل ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ایک ڈبّے کو دو دو تین تین آدمی پکڑے ہوئے کٹیا سے باہر نکلے اور ان ڈبّوں کو گاڑی کے اندر لادنے لگے۔
تقریباً ڈیڑھ دو درجن ڈبّے لاد کر گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔
سارا ماجرا ان کی سمجھ میں آ گیا۔ دوسرے دن مراد پانے والی بھیڑ کے ہٹتے ہی وہ چاروں دوست تیزی سے لاٹھی بابا کی کٹیا میں گھس پڑے اور بابا کے ساز و سامان کو الٹ کر پلٹ کر کمرے کی تلاشی لینے لگے۔ ایک نے آگے بڑھ کر فرش پر بچھے مرگ چھالے کو بھی الٹ دیا۔ مرگ چھالے کے نیچے پکے فرش پر ایک لوگ سا لوہے کا ڈھکن دکھائی دیا۔ چاروں اس ڈھکن کے پاس پہنچ کر اسے اٹھانے لگے کہ گھبرایا ہوا سادھو تیزی سے ان کی طرف لپکا اور ایک ہی دھکے میں ان میں سے دود یوار تک ڈھکیل دیا۔ باقی دو کو بھی دبوچ کر دور پھینک دینا چاہتا تھا کہ دیوار کے پاس سے اٹھ کر ایک لڑکے نے بابا کی کمر میں گدگدی کرنی شروع کر دی۔ بابا گدگدی سے بے بس ہو گیا۔ اس دوران باقی تین دوستوں نے سنبھل کر اس ڈھکن کو اٹھا دیا۔
ڈھکن کے نیچے ایک تہہ خانہ تھا جس کے اوپر تک دودھ بھرا ہوا تھا۔ تہہ خانے میں جمع دودھ کو دیکھ کر ان میں سے ایک بولا:
’’تو لاٹھی بابا جی! آپ کی لاٹھی کا پیٹ یہاں ہے۔‘‘
سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ پڑی۔
راز کھل جانے پر لاٹھی بابا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا:
’’اس بات کو کسی سے نہ کہنا، اس کے لیے تم لوگ جو مجھ سے مانگو گے، میں دوں گا۔‘‘
ان میں سے ایک موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بولا:
’’ٹھیک ہے، پانچ ہزار روپے دے دیجیے، ہم کسی سے نہیں کہیں گے۔‘‘
لاٹھی بابا نے اپنی جان اور عزت بچانے کے لیے چپ چاپ پانچ ہزار روپے گن دیے۔
چاروں دوست اتنی بڑی رقم پا کر خوشی میں جھوم اٹھے۔ خوشی کے نشے میں جھومتے ہوئے مسافر خانے پہنچے۔ ریلوے اسٹیشن میں بڑھیا سا کھانا کھایا اور پاؤں پھیلا کر فرش پر لیٹ گئے۔ مگر کافی رات گزر جانے کے بعد بھی کسی کو نیند نہیں آئی۔ سب کی آنکھوں میں ڈھیر سارے ہرے ہرے نوٹ لہراتے رہے۔ سب کے ذہنوں میں پانچ ہزار روپوں کے منصوبے بنتے رہے۔
ان میں سے ایک اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے نے لیٹے لیٹے اس سے پوچھا۔
’’کیوں بھائی نیند نہیں آ رہی ہے کیا؟‘‘
’’پتہ نہیں آج میری نیند کو کیا ہو گیا —— شاید یہ دونوں سو گئے۔‘‘
’’نہیں، ہم لوگ بھی جاگ رہے ہیں۔‘‘ وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئے۔
پہلا بولا،
’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ایک ساتھ تینوں نے پوچھا۔
’’یہی کہ ان روپیوں کا کیا کریں؟‘‘
’’ہم بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ان کا استعمال کہاں اور کیسے ہو؟‘‘
’’کیا یہ مناسب نہیں رہے گا کہ ہم لوگ کسی بڑے شہر میں جا کر ان روپیوں سے کوئی اچھا کاروبار شروع کر دیں؟‘‘ ایک نے اپنی رائے ظاہر کی۔
’’بالکل مناسب رہے گا۔‘‘ باری باری سے سب نے پہلے کی رائے سے اتفاق کیا۔
دوسرے دن وہ صبح والی گاڑی سے سفر پر نکل پڑے۔ ایک دن اور ایک رات کا سفر طے کر کے وہ ایک بہت بڑے شہر میں پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے رہنے کے لیے کرائے پر ایک کمرہ لیا اور ایک کاروبار شروع کر کے خوش حال زندگی گزارنے لگے۔
جس محلّے میں ان کا کمرہ تھا اس کے بازو والے کمرے میں ایک عورت رہتی تھی، وہ اس عورت کے ساتھ کافی گھل مل گئے تھے۔ وہ اسے بھابی کہتے تھے اور وہ بھی انہیں اپنا دیور سمجھنے لگی تھی— وہ اکثر اس منہ بولی بھابی سے اِدھر اُدھر کی گپیں لڑایا کرتے تھے۔ بھابی بھی بڑے مزے مزے کی باتیں کیا کرتی تھی۔ ایک دن سادھو فقیروں کا ذکر چھڑا تو بھابی نے بتایا:
اس شہر میں ایک بہت پہنچے ہوئے بابا رہتے ہیں۔ بابا بڑے چمتکاری ہیں۔ اس لیے لوگ انھیں چمتکاری بابا کہتے ہیں۔ بابا کا آشرم شہر سے لگ بھگ تین چار کلومیٹر دور شہر کے اتری حصے میں آباد ہے۔ آشرم میں ہر دم لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ کافی دور دور سے لوگ بابا کے پاس من کی شانتی کے لیے آتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں۔ چمتکاری بابا نے میری بھی ایک مراد پوری کی ہے۔ میرا یہ بیٹا بابا کا ہی وردان ہے۔ شادی کے کئی سال بعد بھی جب ہمیں کوئی اولاد نہیں ہوئی تو گھبرا کر میں نے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ طرح طرح کے ڈاکٹروں نے میرا علاج کیا مگر کسی سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ میں مایوس ہو گئی۔ اولاد نہ ہونے کے دکھ نے مجھے اتنا دکھی کیا کہ رات دن میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
ایک دن کسی نے مجھے بتایا کہ چمتکاری بابا بانجھ عورتوں کی گود بھی سنتان سے بھر دیتے ہیں۔ یہ سن کر ایک روز میں بھی بابا کے پاس گئی اور بابا کو اپنا دکھڑا سنا کر آس بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگی۔ بابا کاغذ کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے پیار سے بولے :
’’اسے اپنے سر کے اوپر تین بار گھما کر اِس پانی میں ڈال دو۔‘‘ میں نے ویسا ہی کیا۔ کچھ دیر بعد اس کاغذ کو پانی سے نکال کر مجھ کو دکھاتے ہوئے بابا پھر بولے :
’’دیکھو! یہ پریت آتما تمہاری سنتان کے راستے میں کھڑی ہے۔ اسے ہٹانا ہو گا۔ اتوار کی رات میں یہاں آ کر آشرم کے پوتر استھل پر سپنا بوٹی کا جاپ کرنا پڑے گا۔ بھگوان نے چاہا تو سپنا جاپ سے تمہاری گود اوشیہ بھر جائے گی۔‘‘
میں نے کاغذ کی اور دھیان سے دیکھا تو اس پرا یک ڈراؤنی شکل بنی ہوئی تھی۔
سنتان پانے کی چاہ میں اتوار کی رات میں بابا کے پاس پہنچی۔ بابا نے مجھے سپنا بوٹی دے کر اپنی چیلی کے ہمراہ کر دیا۔ چیلی نے مجھے ایک کمرے میں پہنچا دیا۔ کمرہ خوشبوؤں میں بسا ہوا تھا۔ فرش پر ایک سفید چادر بچھی تھی۔ کمرے کی ساری کھڑکیاں بند تھیں۔ چیلی نے مجھے بتایا کہ میں اندر سے دروازہ بند کر کے چادر پر لیٹ جاؤں اور سپنا بوٹی سونگھ کر اِس منتر کا جاپ سو مرتبہ کرو۔‘‘
’’سر پر سکھ کی چادر تان— دے د ے بابا اک سنتان۔‘‘
چیلی مجھے سمجھا کر چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی میں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا اور کھڑکیوں کے پردے گرا کر چادر پر لیٹ گئی۔ میرے لیٹتے ہی اپنے آپ کمرے کی بتی بجھ گئی۔ سپنا بوٹی سونگھنے کے بعد میں نے منتر جاپ شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے میری پلکیں بند ہونے لگیں اور آنکھوں میں سپنا ابھرنے لگا۔ سپنے میں دھرتی کی گود سے جٹا دھاری بھگوان پرکٹ ہوئے۔ دھیرے دھیرے آگے بڑھے اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ پہلے انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا پھر میرے پورے شریر پر۔ بھگوان کے ہاتھ کے اسپرش سے میرا رُواں رُواں سہر اٹھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے اندر کوئی بہت ہی پیاری اور آنند دائک چیز سما گئی ہو۔ میرا من جھوم اٹھا۔ خوشی میں آنکھیں کھل گئی۔ دیکھا تو کمرے میں کوئی بھی نہیں ہے۔ اسی طرح اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ کھڑکیاں، دروازے سبھی بند ہیں۔
کچھ دیر تک میری آنکھیں خوبصورت سپنے اور بھگوان کے ہونے والے درشن میں کھوئی رہیں۔ پھر مجھے نیند آ گئی۔ صبح اٹھ کر جب بابا کے پاس گئی تو بابا آشیرواد دیتے ہوئے بولے :
’’جاؤ بچی! تمہاری منو کامنا پوری ہوئی‘‘ ۔ میں آشرم سے خوشی خوشی گھر لوٹ آئی اور پھر نو مہینے بعد میرا یہ مُنّا میرے آنگن میں کلکاریاں بھرنے لگا۔
پڑوسن کی دلچسپ داستان سن کر چاروں شرارتی دوستوں کے من میں بابا سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اور دوسرے ہی دن وہ چاروں چمتکاری بابا سے ملنے ان کے آشرم پہنچ گئے۔
آشرم کو دیکھ کر انھیں لگا جیسے آسمانی جنت زمین پر اتر آئی ہو۔ آشرم کے دور تک پھیلے ہوئے لان میں چاروں طرف پیارے پیارے رنگین نظارے خوبصورتی بکھیر رہے تھے۔
کہیں پر ایک ساتھ کئی کئی فوّارے اپنے منہ سے پانی کے ساتھ ساتھ رنگ اور نور کی جھڑیاں اچھال رہے تھے۔ اور نیچے سے اوپر کی طرف لہرا گہرا کر جاتی ہوئی جھڑیاں رقص کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ ابلتے ہوئے فوّاروں کے سنگ سنگت کرتی ہوئی سنگیت کی دھُنیں کانوں میں رس اور رگوں میں نشہ گھول رہی تھیں۔ کہیں پر دور تک کھلے ہوئے لال، گلابی، نیلے، کالے، اجلے، ہرے، اودے، آسمانی، دھانی رنگ برنگ کے پھول ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہوا پھولوں کی ڈلیوں کو ہولے ہولے پیں گیں دے رہی ہو اور پھول مستی میں جھولا جھول رہے ہیں۔ جھولتے ہوئے پھولوں کی پنکھڑیوں سے نکلنے والی طرح طرح کی بھینی بھینی خوشبوئیں ماحول کو مہکا رہی تھیں۔
ایک طرف صاف شفاف پانی سے لبالب ایک خوبصورت تالاب جھلملا رہا تھا۔ تالاب کے بیچو بیچ ایک گھنا چھتنار پیڑ پانی کے اوپر کھڑا تھا، جس کی ڈالیوں پر طرح طرح کے رنگ و روپ والے بے شمار پرندے ایک دوسرے کی چونچ سے چونچ ملا رہے تھے۔ اپنے ریشمی پروں کو پھڑپھڑا رہے تھے اور رہ رہ کر چہچہا رہے تھے۔ پانی کی سطح پر ایک جانب مرغابیاں تیر رہی تھیں تو دوسری طرف سفید بطخوں کے ان گنت جوڑے قیں قیں کرتے پھر رہے تھے۔
تالاب کے چاروں طرف سفید سنگ مرمر کی سیڑھیاں چمچما رہی تھیں اور ان چمچماتی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھے لوگ تالاب کے منظروں کا مزا لے رہے تھے۔
لان کے ایک طرف آشرم کا بڑا سا گیٹ تھا جس سے ہو کر لوگ آشرم کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے تھے۔ گیٹ کے دونوں طرف خوبصورت تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ ان تصویروں میں ایسی کشش تھی کہ آشرم میں داخل ہونے ے پہلے ہر آدمی وہاں کچھ دیر کے لیے ضرور رک جاتا تھا۔
آشرم کے لان اور گیٹ کا آنند اٹھانے کے بعد چاروں دوست آشرم کے اندر داخل ہوئے۔ آگے بڑھے تو لوگوں کی ایک بھیڑ ملی جسے ایک گائڈ آشرم کے اندرونی حصے کا درشن کرارہا تھا اور بابا کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بتارہا تھا۔
وہ بھی اس بھیڑ میں شامل ہو گئے۔ گائڈ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا: ’’سجّنو اور دیویو! آپ جس آشرم کا درشن کر رہے ہیں اور یہاں کے سندر، شانت، شیتل اور من موہک داتا ورن کا آنند لے رہے ہیں، یہ کسی سادھارن سادھو کا آشرم نہیں بلکہ اس مہان چمتکاری ہستی کا آشرم ہے جو اس دھرتی پر بھگوان کے اوتار کے روپ میں پرکٹ ہوئی ہے۔ دھنیہ ہے یہ دھرتی کہ بابا کے پوتر پاؤں یہاں پڑے ہیں۔ ہمارے بابا کوئی ایسے ویسے بابا نہیں بلکہ ایسے چمتکاری بابا ہیں جن کے چمتکار نے ساری دنیا کو اچنبھے میں ڈال دیا ہے اور دور دراز کے دیسوں میں بسنے والوں کی نگاہوں کو بھی اپنی اور کھینچ لیا ہے۔
سچ پوچھیے تو بابا دکھیوں کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے دھرتی پر آئے ہیں۔ بابا کے اس پاون اور چمتکاری مٹھ پر جو بھی سچے من سے آتا ہے، اپنی مراد ضرور پاتا ہے۔ بابا سب کی سنتے ہیں۔ سب کا دکھ دور کرتے ہیں۔ سب کی منو کامنا پوری کرتے ہیں۔ بدلے میں کسی سے کچھ نہیں لیتے۔ بابا تو بس سیوا کرنا اور دینا جانتے ہیں۔ اسی لیے بابا کے پاس راجا رنک سبھی آتے ہیں بلکہ آشرم میں آنے والے لوگوں میں امیروں کی سنکھیا اَدھک ہوتی ہے۔ دیکھیے، اس طرف جو لوگ بیٹھے ہیں وہ کوئی سادھارن آدمی نہیں ہیں۔ وہ کافی بڑے، مہمان اور دھنوان لوگ ہیں۔ ان میں کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی انجینئر، وئی سائنس داں ہے، کوئی بیرسٹر، کوئی فلسفی ہے، کوئی پروفیسر، کوئی بہت بڑا ویوپاری ہے، کوئی اعلیٰ افسر مگر بے چارے سبھی دُکھی ہیں۔ سب کی آتما ویاکل ہے۔ سب کے سب دماغی بے چینی اور روحانی پیڑا سے دو چار ہیں۔ سبھی من کی شانتی کی تلاش میں یہاں پہنچے ہیں۔ یہاں بابا کے پاس ان کی بے چین اور ویاکل آتما کو شانتی ملتی ہے۔ اس آشرم کا شانت ماحول ان کے دکھی اور بے چین من کو سکھ اور سکون پر دان کرتا ہے۔ چنتاؤں سے انھیں یہاں مکتی ملتی ہے۔
ادھر جو عورتیں بیٹھی ہیں، جن میں امیر، غریب، ان پڑھ، پڑھی لکھی سبھی شامل ہیں، سب کی سب دکھیاری ہیں۔ سنتان کے سکھ سے محروم ہیں۔ اولاد نہ ہونے کا دکھ انھیں یہاں کھینچ کر لے آیا ہے۔ وہ بابا کے پاس سنتان کے سکھ کے لیے آئی ہیں —
اور ان کے پہلو میں جو نوجوان لڑکیاں بیٹھی ہیں، ان کے ماں باپ اور وہ خود شادی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ انھیں وَر نہیں مل رہا ہے اور جن کو مل رہا ہے ان کے پاس جہیز دینے کے لیے دھن نہیں ہے۔ بابا ان سب کو ان کی پسند کا وَر دلائیں گے اور اس میں پیسہ بھی خرچ نہیں ہو گا—
اور وہ رہے ہمارے چمتکاری بابا! گائڈ نے برگد کے ایک گھنے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔
سب کی نگاہیں برگد کے پیڑ کی طرف دوڑ گئیں۔ بابا پیڑ کے نیچے ایک چبوترے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے تھے۔ بابا کے لمبے بال برگد کی جٹاؤں کی طرح کندھے کے نیچے تک لٹکے ہوئے تھے۔ بابا کی آنکھوں سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ ان کے ماتھے پر چمک اور چہرے پر دمک تھی۔ بابا کا گٹھا ہوا کسرتی بدن بھی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
بابا کے آگے ایک عورت بیٹھی نزدیک سے بابا کا درشن کر رہی تھی اور اس کے پیچھے ملنے والوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔
’’آپ لوگ اگر نزدیک سے بابا کا درشن کرنا چاہتے ہیں اور بابا سے کچھ مانگنا یا ان سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو جائیے آپ لوگ بھی اس لائن میں کھڑے ہو جائیے۔‘‘
گائڈ اس بھیڑ سے نکل کر دوسری طرف بڑھ گیا۔
دوسرے لوگوں کے ساتھ چاروں شرارتی دوست بھی لائن میں کھڑے ہو گئے۔ نمبر آنے پر ان چاروں نے بھی باری باری سے بابا کا درشن کیا۔ قریب پہنچ کر ان سب نے محسوس کیا کہ بابا کی آنکھوں میں چُمبک کی طرح کوئی شکتی ہے جو سامنے والے کے دھیان کو تیزی سے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
بابا نے سادہ کاغذ کا ایک ایک ٹکڑا ان کے ہاتھوں میں دے کرکہا کہ وہ تین بار اپنے سروں کے اوپر گھما کر پانی میں ڈال دیں۔
پانی میں ڈالنے سے پہلے چاروں نے اپنے اپنے کاغذ کو کنکھیوں سے دیکھا مگر کسی بھی کاغذ پر کورے پن کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔
بابا ہر ایک کو اس کا بھیگا ہوا کاغذ دکھاتے ہوئے بولے :
’’بالک تمہارا من بہت بے چین ہے، تمہیں من کی شانتی اور تمہارے بیمار تن کو تندرستی چاہیے، کبھی کبھار آشرم میں آیا کرو، ایشور نے چاہا تو تمہارے تن من کی بے چینی دور ہو جائے گی۔‘‘
الگ الگ شبدوں میں بابا نے چاروں سے ایک ہی بات کہی تھی اور ان چاروں کے کاغذوں پر بھی ایک ہی طرح کی تصویر ابھری تھی۔ حالاں کہ اپنے من میں وہ الگ الگ باتیں سوچ کر گئے تھے۔
اس واقعے نے انھیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ سوچتے وقت کاغذ اور تصویر کا رشتہ انھیں بھید بھرا محسوس ہوا۔ بابا اور آشرم میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ وہ باقاعدہ آشرم میں جانے لگے۔ آشرم کے لوگوں میں گھلنے ملنے لگے۔ دھیرے دھیرے آشرم کے لوگوں کے ساتھ ان کا میل ملاپ بڑھتا گیا۔
آشرم والوں سے بابا کے بارے میں انہیں بہت سی باتیں معلوم ہوئیں: پتا چلا کہ بابا کو ہندو، مسلم، عیسائی کئی دھرموں کے اوتار اور پیر فقیروں کا وردان ملا ہے۔ سب نے انھیں اپنا آشیرواد دے رکھا ہے۔ اسی لیے سبھی دھرموں کے لوگ بابا میں آستھا رکھتے ہیں اور بنا کسی سنکوچ اور رکاوٹ کے بابا کے در پر درشن کرنے آتے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ آج بابا کا جہاں آشرم ہے، وہ ایک ویرانہ تھا۔ ایسا ویرانہ کہ شام ہی سے وہاں اُلّو بولنے لگتے تھے۔ جھاڑیوں میں سانپ گوجروں کا ٹھکانہ تھا۔ جنگلی جانوروں کا بسیرا بھی تھا۔ راتوں میں وہاں چور ڈاکو بھی اپنا اڈّا جماتے تھے۔ کہتے ہیں کہ بھوت پریت بھی بستے تھے اور دن رات بد روحیں منڈرایا کرتی تھیں۔ ایسا خوف ناک اور ڈراؤنا خطہ تھا جہاں رات تو رات دن میں بھی جانے کی کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
بابا کہیں سے آ کر اس خوفناک، ویران اور سنسان جگہ براجمان ہو گئے۔ اور دن رات پوجا پاٹھ اور تپسیا میں مشغول رہنے لگے۔ شہر کے لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ کوئی سادھو اس ویرانے میں آباد ہو گیا ہے اور اس کے قدموں کی برکت اور پوجا پاٹھ کی بدولت بد روحیں وہاں سے غائب ہو گئی ہیں۔ چور ڈاکوؤں نے بھی اپنا اڈّا بدل لیا ہے اور جنگلی جانور بھی اس علاقہ کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہیں تو وہ بے خوف و خطر ہو کر بابا کے درشن کے لیے آنے لگے۔
بابا سے ایشور، آتما اور پرماتما کے بارے میں بڑی بڑی اور انوکھی باتیں سن کر لوگ بہت متاثر ہوئے اور وہ بھی اس ویرانے میں صبح سویرے آ کر بابا کے ساتھ پوجا پاٹھ میں بیٹھنے لگے۔
ایک دن پوجا شروع ہونے سے پہلے بابا نے لوگوں کو مخاطب کیا۔ سجّنو! شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ رات کے پچھلے پہر نیند میں مجھے ایک آواز سنائی پڑی۔ ایسا لگا جیسے کوئی مجھے پکار رہا ہو اور مجھ سے کہہ رہا ہو ’’اے گہری نیند سونے والا جاگ! اور اِدھر اُدھر تجھ سے ملنے کون آیا ہے؟‘‘ آواز سن کر نیند ہی میں میں بستر سے اٹھ کر اپنی کٹیاں سے باہر نکل پڑا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے کوئی اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ میں ان جھاڑیوں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر میری آنکھیں پوری طرح کھل گئیں — دیکھا تو سامنے اِندر بھگوان کی سواری کھڑی ہے۔ جگمگ کرتا ہوا مُکٹ پہنے اندر مہاراج اپنے سجے ہوئے اِراوت پر بیٹھے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔
’’کہانی انکل! اراوت کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’اِراوت ہاتھی کو کہتے ہیں۔ اندر بھگوان کی سواری کا نام اراوت ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا انکل؟‘‘
میں نے ہاتھ جوڑ کر اندر بھگوان کو پرنام کیا۔ میرا پر نام سویکار کرتے ہوئے اندر بھگوان بڑی ہی مدھُر، کومل اور آکرشک آواز میں بولے :
تو نے اپنے آگمن سے اس ویران اور بنجر زمین کو آباد کر دیا ہے اور اپنی گھور تپسیا سے اِس دھرتی اور یہاں کے داتا ورن کو پوتر بنا دیا ہے۔ میں تمہاری تپسیا سے بہت پرسنّ (خوش) ہوں اور وردان دیتا ہوں کہ یہ ویران دھرتی بہت جلد سورگ کا نمونہ بن جائے گی اور اس سورگ میں آنے والے دکھی لوگ اپنے دکھوں سے چھٹکارا پائیں گے۔ نامرادوں کی یہاں آنے پر مرادیں پوری ہو جائیں گی اور بے چین اور ویاکل لوگ یہاں آ کر من کی شانتی پائیں گے۔‘‘
اتنی بات بتا کر اندر مہاراج غائب ہو گئے اور میں وہاں سے اپنی کٹیا میں لوٹ آیا۔
بابا کی یہ بات سن کر لوگ حیران ہو اٹھے اور پوجا میں بیٹھنے کے بجائے اس جگہ کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہو گئے جہاں بھگوان اندر کی سواری آئی تھی۔
’’ہم لوگ اس جگہ کو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ سبھی ایک ساتھ بولے۔
’’ٹھیک ہے، آپ لوگ دیکھنا چاہتے تو میں آپ لوگوں کو وہاں لے چلتا ہوں۔‘‘
بابا آگے بڑھ گئے۔ بابا کے پیچھے پیچھے سبھی اس جھاڑی کے پاس جمع پہنچ گئے۔ جھاڑی کے قریب پہنچتے ہی لوگوں نے ایک عجیب طرح کی خوشبو محسوس کی۔
دیکھا تو سچ مچ ہاتھی کے چاروں پیروں کے بالکل تازہ نشان موجود تھے۔ سب کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان کے سر شردھا سے نشان کے آگے جھک گئے۔ بھگوان کے درشن سے ان کا من جھوم اٹھا۔
اس جگہ کی زمین کے مالک نے اپنی ساری زمین بھگوان اِندرا کے نام کر دی۔ دولت مندوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ بے شمار غریبوں اور مزدوروں نے اپنے شرم سمرپت کر دیے۔ بنا دیر کیے علاقے کی حد بندی ہو گئی۔ ہاتھی کے پیروں کے نشان کی جگہ والی زمین پر بھگوان اِندر کے مندر کی بنیاد ڈال دی گئی۔ حد بندی کے اندر والی زمین پر آشرم کی عمارتیں بننے لگیں۔
بہت جلد مندر اور آشرم کی قیمتی پتھروں اور چِتر کاری کے بہترین نمونوں سے سجا سنوار کر کھڑا کر دیا گیا۔ آشرم کے اندر اور باہر کی خالی زمینوں میں پھولوں کے پودے اور سبزے لہلہانے لگے۔ بنجر زمین سے فوّارے پھوٹنے لگے۔ جھاڑی کے دامن میں تالاب کھُد گیا۔ تالاب میں طرح طرح کے پرندے چہچہانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ویران علاقہ واقعی جنت کا نمونہ بن گیا۔
انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ جوانی میں بابا سنیاس لے کر برگد کے پیڑ کے نیچے تپسیا کیا کرتے تھے تو ایک دن آکاش وانی ہوئی کہ:
’’اے نوجوان! تو اپنے دکھوں کے کارن ہمارے شرن میں آیا ہے اور تو نے یہ روپ اس لیے دھارن کیا ہے کہ اپنے دکھوں کو بھلا سکے۔ تو سُن! اپنے دکھوں سے چھٹکارا پانے کا سب سے اچھا راستہ یہ ہے کہ دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے کا جتن کیا جائے۔ اس لیے اے نوجوان! اُٹھ اور اٹھ کر چندن نگر جا! وہاں دکھیوں کا دکھ دور بھگا، چندن نگر کی دکھیاری عورتیں تیرا انتظار کر رہی ہیں۔ جانے سے پہلے اس برگد کی چھال اتار۔ اسے جلا کر راکھ بنا اور اس راکھ سے دکھی عورتوں کے سوکھے شریر کو ہرا بھرا بنا۔‘‘
بابا آکاش وانی سن کر چندن نگر روانہ ہو گئے۔ اور وہاں ایک تالاب کے کنارے بیٹھ کر لوگوں کو برگد کا بھبھوٹ بانٹنے لگے۔
چند نگر کی کئی عورتوں کو بابا کی بھبھوٹ سے فائدہ پہنچا۔ ان کی خالی گودیں بھر گئیں اور بابا سنتان والے بابا سے مشہور ہو گئے۔
چندن نگر میں کافی دنوں تک بھبھوٹ بانٹتے رہنے کے بعد ایک دن اچانک بابا تالاب سے اٹھ کر شہر کی جامع مسجد میں پہنچ گئے۔ وہاں سب کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی اور نماز کے بعد اعلان کیا:
’’لوگو! کل تک میں سنتان والا بابا تھا۔ میرا دھرم ہندو تھا مگر آج میں مسلمان ہوں۔ بات در اصل یہ ہے کہ کل رات ایک نورانی بزرگ میرے خواب میں آئے۔ مجھے سینے لگایا اور پورا قرآن شریف میرے سینے میں اتر گیا۔ مجھے قرآن پاک کے تیسوں سپارے زبانی یاد ہو گئے۔‘‘
یہ اعلان سنتے ہی مسجد میں جمع نمازیوں کا مجمع چونک پڑا۔ سب کی نگاہیں حیرت سے بابا کی طرف دیکھنے لگیں۔ بابا کی باتوں کی سچائی جاننے کے لیے حافظوں کی ایک جماعت بیٹھی اور بابا سے قرآن سنانے کو کہا گیا۔ بابا نے قرآن سنانا شروع کر دیا۔ جس حافظ نے جس پارے سے قرآن سنانے کو کہا بابا نے اس پارے سے فر فر قرآن سنا دیا۔
مسجد میں جمع لوگ اس کرامت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ بابا کو قریب سے دیکھنے، ان سے ہاتھ ملانے اور ان سے گلے ملنے کے لیے لوگوں کا ہجوم ان کی طرف امنڈ پڑا۔
لوگوں سے ملنے ملانے کے بعد بابا نے ایک اور اعلان کیا:
مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر سے نکل کر دور دور تک اسلام کی تبلیغ کروں اور غریبوں، محتاجوں اور بیماروں کی تن من دھن سے مدد کروں اس لیے میں دو چار روز کے اندر یہ شہر چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ اور انسانوں کی خدمت کے لیے نکل جاؤں گا۔ میں تو ایک فقیر آدمی ہوں۔ میرا ہاتھ خالی ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ میرے اس خالی ہاتھ کو میرا وہ مالک اسی طرح مال و دولت سے بھر دے گا جس طرح اس نے میرے سینے کو اپنے کلام سے بھر دیا تاکہ میں اس دولت سے اس کے غریب اور محتاج بندوں کی مدد کر سکوں۔ ان کی حاجت پوری کر سکوں۔‘‘
اس اعلان کے بعد بابا کے بدلے ہوئے نئے روپ کی خبر چاروں طرف پھیل گئی۔ دور دور سے مسلمان بابا کی زیارت کے لیے آنے لگے۔ آنے والے اپنی حیثیت کے مطابق بابا کو نذرانے پیش کرنے لگے۔ بابا کے پاس نقدی اور تحفوں کا ڈھیر لگ گیا۔
بابا نے بہت سارے تحفے وہیں کھڑے کھڑے غریبوں میں بانٹ دیے۔ کچھ نقدی بھی غریبوں میں تقسیم کر دی۔
بابا کی اس فیاضی کو دیکھ کر دولت اور برسی اور بابا اپنے خالی ہاتھوں کو روپیوں سے بھر کر چندن نگر سے نکل پڑے۔
گاؤں گاؤں گھوم گھوم کر بابا غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے پھر رہے تھے کہ اچانک ایک روز پھر انھیں کوئی آکاش وانی سنائی پڑی اور وہ اس ویرانے میں آ پہنچے۔
بابا کے بارے میں نئی نئی باتیں جان کر بابا میں ان چاروں کی دلچسپی اور بڑھ گئی۔ بابا انھیں اور پُر اسرار لگنے لگے۔ بابا کی حقیقت جاننے کے لیے وہ بے چین ہو اٹھے۔ ان کی جاسوسانہ چھان بین میں اور تیزی آ گئی۔
ایک دن جب بابا کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے تو وہ اس چبوترے کے پاس جس پر بابا آسن جمایا کرتے تھے، پہنچ کر وہاں کا معائنہ کرنے لگے۔ آس پاس میں بکھرے ہوئے کاغذوں کو اٹھا اٹھا کر غور سے دیکھنے لگے۔ کاغذوں کے معائنے کے دوران برگد کی ابھری ہوئی جڑ میں پھنسا ہوا کاغذ کا ایک ویسا ہی ٹکڑا ان کے ہاتھ آ گیا جس طرح کے ٹکڑے سر پر پھیرا کر پانی میں ڈالنے کے لیے بابا لوگوں کو دیا کرتے تھے۔
کاغذ کے اس ٹکڑے کو گھر لا کر انھوں نے اس کی جانچ کی۔ اسے بلب کے اوپر رکھ کر بلب کی روشنی میں غور کیا تو اس کاغذ پر دھندلا دھندلا سا کوئی عکس دکھائی پڑا۔ انھوں نے اس کاغذ کو پانی میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب کاغذ کو پانی سے باہر نکال کر دیکھا تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کاغذ پر ویسی ہی بھوت پریت والی ڈراؤنی تصویر ابھر آئی تھی، جیسی کہ بابا کے دیے ہوئے کاغذوں پر ابھرتی تھی، انھیں یقین ہو گیا کہ کاغذ کا وہ ٹکڑا بھی بابا کے کاغذوں میں سے ایک تھا جو بابا کے پاس سے کسی وقت اڑ کر برگد کی جڑ کے نیچے جا چھپا تھا۔ تصویر کا بھید کھل جانے پر انھیں یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ کاغذ پر بھوت پریت وغیرہ کی تصویر ابھارنے میں ضرور کوئی ٹرک ہے۔
سادہ کاغذ پر ابھرنے والی ڈراؤنی تصویروں کا راز جان لینے کے بعد ان کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ وہ سپنا بوٹی کا بھی بھید جاننے کے لیے بے قرار ہو اٹھے۔
اس راز کو معلوم کرنے کے لیے چاروں اپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ جلد ہی ایک گھوڑے نے ایک ترکیب نکال لی۔ ترکیب باقی دوستوں کو بھی پسند آ گئی۔
ترکیب یہ تھی کہ چاروں میں کوئی ایک عورت کا بھیس بدل کر بابا کے پاس جائے اور بابا سے کہے کہ اسے اولاد نہ ہونے کا بڑا دکھ ہے۔ اس طرح وہ سپنا بوٹی کے جاپ والے کمرے میں پہنچ جائے گا اور اس چمتکار کے پیچھے کی چال شاید اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے گا۔
یہ اوپائے تھا تو بہت جوکھم بھرا مگر وہ چاروں سر پھرے دوست خطروں سے کھیلنا جانتے تھے۔ اور اس طرح کے جوکھم بھرے کھیل میں انھیں مزا بھی آتا تھا۔ اس لیے ان میں سے ایک نے جو ذرا زیادہ گورا چٹا، نرم و نازک اور خوبصورت تھا، یہ خطرہ مول لے لیا۔
ایک دن وہ خوب سج دھج کر عورت کے بھیس میں بابا کے پاس پہنچا۔ اس کی باری آنے پر بابا نے اس کا دکھڑا سنا اور پانی میں کاغذ ڈالنے والے عمل کے بعد کاغذ کو دکھاتے ہوئے اس سے کہا:
’’بیٹی! تیرے اوپر اس بھوت کا ڈیرا ہے۔ یہی تیرے اور تیری سنتان کے راستے میں روڑا اٹکاتا ہے۔ اتوار کی رات میں یہاں آ کر سپنا بوٹی کا جاپ کرنا۔ بھگوان نے چاہا تو ضرور تیری گود بھر جائے گی۔‘‘
بابا کے کہنے کے مطابق وہ آنے والے اتوار کی رات پھر لڑکی بن کر آشرم میں پہنچ گیا۔
بابا نے سپنا بوٹی دے کر اسے اپنی ایک چیلی کے ہمراہ کر دیا۔ چیلی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی ایک جگہ ایک تنگ راستے سے نیچے اتر کر انڈر گراؤنڈ منزل میں پہنچ گئی۔ کچھ دور آگے جانے کے بعد ایک گیلری میں وہ داخل ہو گئی۔ گیلری کافی دور تک چلی گئی تھی۔ گیری کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے تھے۔ ایک کمرے کے پاس رک کر چیلی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اسے اندر چلنے کا اشارہ کیا۔ چیلی کے پیچھے وہ کمرے کے اندر پہنچ گیا۔
اس کمرے پر ایک نگاہ ڈالی۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ فرش پر صرف ایک صاف ستھری چادر بچھی ہوئی تھی۔ کھڑکیاں اور روشن دان سبھی بند تھے۔ کچھ لمحے بعد چیلی بولی:
’’سنو! سپنا بوٹی کو سونگھ کر اس چادر پر لیٹ جانا۔ اور ۱۰۰ بار اس منتر کا جاپ کرنا۔
سر پر سُکھ کی چادر تان دے دے بابا اک سنتان
اور سنو! میرے جانے کے بعد کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لینا۔‘‘
بابا کی چیلی سپنا بوٹی کا جاپ سمجھا کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد لڑکے نے دروازہ بند کر لیا۔ ساری کھڑکیوں کی چٹخنیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ روشن دان بھی اچھی طرح بند تھا۔ اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد وہ چادر پر لیٹ گیا۔ اس کے لیٹتے ہی کمرے کا بلب اپنے آپ بجھ گیا۔
اس نے سپنا بوٹی کو سونگھے بناہی آنکھیں مونڈ کر منتر کا جاپ شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے چرچراہٹ سی محسوس ہوئی۔ پلکیں کھول کر نگاہیں اِدھر اُدھر دوڑائیں تو دیکھا کہ دروازے کے پاس کے فرش کا ایک حصہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہا تھا اور زمین کے اندر سے دودھیا روشنی پھوٹ کر کمرے کے اندر پھیل رہی تھی۔ فرش کا اوپر اٹھتا ہوا حصہ چند لمحے بعد کھڑا ہو گیا۔ چرچراہٹ رک گئی۔ زمین کے اندر سے ایک جٹا دھاری باہر نکلا۔ اس کی جٹائیں کافی لمبی تھیں۔ ڈاڑھی اور مونچھ کے بال بھی لمبے تھے۔ اوپر سے نیچے تک وہ ایک ڈھیلا ڈھالا گیروے رنگ کا چوغہ پہنے ہوئے تھا۔ اس کا ماتھا کافی چمک رہا تھا۔
وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا اور اس لڑکے کے سرہانے جا کر بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی اس کی انگلیاں پہلے لڑکے کے سر اور پھر پورے جسم پر رینگنے لگیں۔ جب انگلیاں چھاتی کی طرف بڑھیں تو لڑکے نے جھٹ سے بے ہوشی کی دوا اُسے سنگھا دی۔ آن کی آن میں جٹا دھاری بے ہوش ہو کر فرش پر لڑھک گیا۔
لڑکے نے اس لڑھکے ہوئے جٹا دھاری کو سر سے پیر تک غور سے دیکھا تو اس کی جٹا اور داڑھی دونوں نقلی لگیں۔ لڑکے نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو دونوں اپنی جگہ سے نکل کر اس کے ہاتھ میں آ گئیں۔
جٹا اور داڑھی کو دیکھ کر لڑکے کے شرارتی دماغ سے فوراً ایک ترکیب باہر نکل آئی۔ اس نے جٹا دھاری کا چوغہ بھی اس کے جسم سے اتار لیا۔ اور جلدی جلدی اپنا زنانہ لباس اتار کر اسے پہنا دیا اور اس کا چوغہ خود پہن کر اور جٹا اور داڑھی لگا کر تہہ خانے کے اندر اتر گیا۔ تہہ خانے کی سرنگ میں روشنی تھی۔ اسے آگے بڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ سرنگ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ جہاں سرنگ ختم ہوئی تھی وہ آشرم کے تالاب والا علاقہ تھا اور وہاں تھوڑی تھوڑی دوری پر کئی جٹا دھاری لمبے لمبے گیروے رنگ کے چوغے پہنے شانتی جاپ میں مصروف تھے۔ وہ بھی ایک کونے میں بیٹھ کر شانتی جاپ میں مشغول ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے کچھ جٹا دھاری سرنگ سے باہر آئے اور اِدھر اُدھر بیٹھ کر شانتی جاپ کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد اس نے یہ بھی دیکھا کہ تالاب کے کنارے بیٹھے ہوئے کچھ چٹا دھاری اپنی سے اٹھے اور آگے بڑھ کر سرنگ میں داخل ہو گئے۔
پَو پھٹنے سے پہلے ایک خاص طرح کی آواز میں گھنٹہ بجا اور اس آواز کے سنتے ہی جٹا دھاری تالاب سے اٹھ کر مختلف دِشاؤں میں چل پڑے۔ وہ اٹھ کر وہاں سے اپنے گھر آ گیا۔
سپنا بوٹی کی اصلیت جان کر باقی تینوں دوست حیرت میں ڈوب گئے۔ کافی دیر تک حیرت میں ڈوبے رہنے کے بعد ان میں سے ایک بولا:
اب ہمیں یہ پتہ لگانا چاہیے کہ یہ آکاش وانی کا چکر کیا ہے؟ اور اس کا بھی کہ بابا کے سینے میں قرآن کیسے اترا اور اندر بھگوان کی سواری کس طرح پَرکٹ ہوئی؟
دوستو! اگر یہ تینوں راز ہمیں مل گئے تو ہم بابا کا پول کھول کر ان سے بہت ساری دولت اینٹھ سکتے ہیں۔‘‘
باقی تینوں ساتھیوں نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا اور چاروں نے مل کر اسکیم یہ بنائی کہ پہلے کسی طرح یہ پتا لگایا جائے کہ بابا کا اصلی وطن کہاں ہے؟ اگر وطن کا پتہ چل گیا تو وہاں جا کر بابا کے بارے میں اور بہت ساری باتیں معلوم کی جا سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ وہاں سے ان رازوں کا بھی کوئی سراغ مل جائے۔ اسکیم میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ ایک دوست کی ڈیوٹی آشرم میں لگا دی جائے تاکہ وہ بابا کے قریب پہنچ کر کسی اشارے کا پتہ چلائے تاکہ اس کے سہارے بابا کے گاؤں تک پہنچا جا سکے۔
چنانچہ ایک کیڈ یوٹی بابا کے آشرم میں لگا دی گئی۔ وہ دن دن بھر آشرم میں رہنے لگا۔
کبھی وہ بابا کے چرنوں میں پھول چڑھاتا، کبھی خوبصورت پھولوں کا سُندر گلدستہ انھیں پیش کرتا۔ کبھی گھنٹوں گھٹنوں کے بل بابا کے آگے سر جھکائے کھڑا رہتا۔ کبھی بابا کے خاص مہمانوں کی خدمت میں پڑا رہتا۔
اس کی شردھا اور سیوا بھاؤنا کو دیکھ کر بابا نے اسے اپنے خاص سیوکوں میں رکھ لیا۔ اس نے بابا کی جی جان اور تن من سے اتنی سیوا کی وہ بابا کا چہیتا بن گیا۔ بابا کے خاص کمرے میں بہت کم لوگوں کو جانے کی اجازت تھی۔ جو لوگ جاتے تھے وہ بہت ہی آ گیا کاری اور وشواسی تھے۔ کچھ دنوں بعد اس نے بابا کا وشواس بھی جیت لیا۔ اور اسے بھی بابا کے خاص کمرے میں جانے کی اجازت مل گئی۔
بابا کے کمرے میں ایک طرف کتابوں کی الماریاں تھیں، جن میں نئی پرانی ہر طرح کی کتابیں سجی تھیں۔ ان میں گیتا، بائبل، قرآن، گرو گرنتھ وغیرہ بہت سارے دھارمک گرنتھ بھی تھے اور فلسفہ، جیوتش، عملیات، سائنس، جادو، آرٹ اور لٹریچر کی کتابیں بھی۔ کچھ کتابیں ریشمی کپڑوں کے جزدان میں لپٹی ہوئی تھیں اور جزدان کو جگہ جگہ سے دیمک چاٹ گئی تھی۔
ایک دن اس نے بابا سے کہا کہ آپ کے کمرے کی کتابوں پر گرد چڑھ گئی ہے اور اس نے الماری میں دیمکوں کو بھی رینگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر آیا ہو تو کتابوں کو وہ آدر کے ساتھ صاف کر کے الماریوں میں سجا دے۔ بابا نے اجازت دے دی۔
ایک دن وہ کتابوں کو جھاڑ پونچھ کر الماریوں میں رکھ رہا تھا کہ ایک پرانی کتاب کے اندر ایک تصویر گر پڑی۔
اٹھا کر اس نے اسے دیکھا تو وہ جانی پہچانی سی لگی۔ غور کیا تو اس میں بابا کی سی جھلک نظر آئی۔ احتیاط سے اس نے وہ تصویر اپنی چور پاکیٹ میں چھپائی اور جلدی جلدی کتابوں کی جھاڑ پوچھ کا کام نمٹا کر گھر آ گیا۔
تصویر کو دیکھ کر اس کے دوستوں نے بھی اسے بابا کے بچپن کی تصویر قرار دے دیا۔ تصویر کی دوسری طرف ایک کی نظر پڑی تو وہ ایک دم چونک پڑا۔ دوسری طرف اسٹوڈیو کا نام اور پتہ درج تھا۔ اسٹوڈیو کا پتہ پا کر ان سب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ان کی رگوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی۔ ایسا لگا جیسے ان کے ہاتھ میں کسی خزانے کی کنجی آ گئی ہو۔
پروگرام کے مطابق ان میں سے تین گوپال گنج کے لیے روانہ ہو گئے۔ کمل اسٹوڈیو پہنچ کر تصویر کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ اسی اسٹوڈیو کی کھنچی ہوئی ہے۔
تینوں نے اسٹوڈیو کے مالک سے درخواست کی کہ وہ اس تصویر والے بچے کا نام اور پتہ۔ اپنا رکارڈ دیکھ کر بتا دے۔ اس کام کے لیے انھوں نے ایک معقول رقم دینے کا آفر کیا اور آفر کے لالچ میں مالک نے اپنے پرانے ریکارڈ کی چھان بین بھی کی کہ رسید کی ڈبلی کیٹ کاپی مل جائے جس پر تصویر کھنچوانے والے کے نام پتے درج رہتے ہیں۔ مگر کوشش اور محنت کے باوجود رسید نہ مل سکی۔ تب انھوں نے اسی اسٹوڈیو میں اس تصویر کی کچھ اور کاپیاں بنوائیں اور ایک ایک کاپی لے کر بابا کے گھر کا پتہ لگانے شہر کے الگ الگ حصوں میں نکل پڑے۔ اور تصویر دکھا کر لوگوں سے بابا کا پتہ پوچھتے پھرے مگر کوئی بھی اس تصویر کو نہ پہچان سکا۔ مایوس ہو کر وہ وہاں سے لوٹنے ہی والے تھے کہ ایک روز ایک مولوی صاحب اس تصویر کو دیکھ کر چونک پڑے۔
’’ارے یہ تو قادر کی تصویر ہے!‘‘
خوش ہوتے ہوئے تینوں نے مولوی صاحب سے التجا کی۔
کیا قادر کے بارے میں آپ ہمیں کچھ اور بتائیں گے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘
مولوی صاحب تینوں کے چہروں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ضرور! قادر ہمارے ہی مدرسے میں پڑھتا تھا۔ بڑا ذہین طالب علم تھا۔ پڑھنے میں اتنا تیز تھا کہ بہت کم وقت میں ہی اس نے قرآن شریف حفظ کر لیا۔
’’قرآن حفظ کیا؟ تینوں ایک ساتھ چونک پڑے۔
’’ہاں قرآن حفظ کیا مگر اس میں چونکنے کی کیا بات ہے؟‘‘ مولوی صاحب ان کی طرف بھید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ ان کے اس سوا اور ان کی نگاہوں کے تیور سے تینوں گھبرا گئے مگر ان میں سے ایک فوراً سنبھل کر بولا۔
’’در اصل ہم اس لیے چونکے کہ اس نے بہت کم وقت میں قرآن کے تیس سپارے کس طرح حفظ کر لیے۔‘‘
’’تم لوگوں کا چونکنا صحیح ہے کیونکہ عام طور سے قرآن حفظ کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ یہی نہیں کہ قادر نے بہت کم وقت میں قرآن حفظ کر لیا بلکہ قرآن کے ساتھ ساتھ اس نے دوسرے علوم و فنون مثلاً فلسفہ، آرٹ، انگریزی اور اردو ادب کا بھی مطالعہ کیا۔ ہندی زبان بھی سیکھی اور بہت سی ہندی کتابیں بھی پڑھ ڈالیں۔ سچ مچ قادر بڑا ہی ذہین، ہوشیار اور محنتی لڑکا مگر بے چارے پر بہت ظلم ہوا۔‘‘
’’ظلم ہوا؟ وہ تینوں پھر چونکے۔
’’ہاں اس پر بہت ظلم ہوا—— در اصل قادر ایک نو مسلم لڑکا تھا۔‘‘
’’نو مسلم کیا ہوتا ہے انکل؟‘‘
’’نو مسلم اسے کہتے ہیں جو خاندانی مسلمان نہ کر پہلے کسی اور مذہب کا ماننے والا ہوتا ہے اور بعد میں اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر کے مسلم بن جاتا ہے۔‘‘
’’پھرک یا ہوا کہانی انکل؟‘‘
’’یہی کہ وہ قادر پہلے کالو تھا۔ پانچ چھ سال کے ننھے سے کالو پر اس کے گاؤں کے بڑے کل والوں نے وہ وہ ظلم کیا کہ پوچھو مت۔ اس کی ماں جب اسے لے کر یہاں مسلمان ہونے آئی تھی تو اس کی پوری پیٹھ چابکوں کے نیل سے اٹی پڑی تھی۔ لگتا تھا جیسے ایک ساتھ بہت ساری گرم سلاخیں اِدھر اُدھر سے اس کی پیٹھ پر رکھ کر دبا دی گئی ہوں۔
اس کا قصور یہ تھا وہ ایک اچھوت کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اس گھر میں جس کے اندر پیدا ہونے والے انسان، انسان ہوتے ہوئے بھی انسان نہیں شمار ہوتے۔ جن کے دماغوں میں ہوش آتے ہی دم لگ جاتی ہے اور اپنے ارد گرد کھڑے ہوئے مالکوں کے سامنے کتوں کی دُم کی طرح رات دن ہلنے لگتی ہے۔ جو ہوش سنبھالتے ہی بیلوں کی طرح جُوئے جُت جاتے ہیں اور بھولے سے بھی کبھی لیک سے سے ادھر اُدھر نہیں ہٹتے۔ کبھی اگر ٹھوکر لگنے، پاؤں پھسلنے یا اونچی چڑھائی چڑھنے میں ڈگمگاتے ہیں تو مالک کے ہاتھوں میں لپلپاتے ہوئے سونٹے سڑاک سڑاک ان کی پیٹھ پر برس پڑتے ہیں۔
کالو کا ناسمجھ اور نادان دماغ ابھی تک اس حقیقت کو قبول نہ کر سکا تھا کہ وہ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا ہے جس کے باشندے آدمی نہیں جانور ہیں اور جن کے بچوں کا بڑے لوگوں کے بچوں کے ساتھ گھلنا ملنا سخت منع ہے۔ چنانچہ ننھا منا معصوم کالو پیدائشی بڑے بچوں کے ساتھ ماں کے منع کرنے کے باوجود کھیلنے کودنے سے باز نہیں آتا تھا۔ بڑے گھرانوں کے بچے بھی اپنے بڑے پن کے با وجود کالو کے سنگ کھیلنا پسند کرتے تھے شاید اس لیے کہ ان کے دماغوں نے ابھی ہوش کے سونٹے نہیں پکڑ پائے تھے۔
ایک دن ایک بڑے گھرانے کے بچے نے کالو سے ٹھیکوا (میٹھی ٹکیہ) مانگا، جسے کالو اپنے گھر سے لا کر کھارہا تھا، کالو نے اپنے ٹھیکوے میں سے توڑ کر ایک ٹکڑا اس بچے کو دے دیا۔ اس نے کالو کا دیا ہوا ٹھیکوا مزے لے لے کر کھانا شروع کر دیا۔
کسی سیانے اس انوکھے منظر کو دیکھ لیا اور اس حادثے کی خبر اس لڑکے کے باپ تک پہنچ گئی۔ لڑکے کا بڑا باپ آگے سے باہر ہو گیا اور بیلوں کا سونٹا لیے کالو تک پہنچ کر کالو کی پیٹھ پر سونٹا برسانا شروع کر دیا۔ کالو کی چیخ سن کر اس کی ماں بچے کو بچانے دوڑی تو اس کی پیٹھ بھی سونٹے کی مار سے داغ دار ہو گئی۔ کالو کی ماں نے اس دن طے کر لیا کہ وہ اپنے دھرم سے نکل کر اسلام کی پناہ میں چلی جائے گی اور وہ کالو کو لے کر مدد سے آ گئی۔
ماں کے ساتھ کالو بھی کلمہ پڑھ کر کالو سے قادر بن گیا۔ قادر یہیں ہماری آنکھوں کے سامنے مدرسے کے پرسکون ماحول میں آزادی کے ساتھ بے فکری سے پلا بڑھا پڑھا لکھا اور جوان ہوا۔
جوان ہوتے ہی جوانی کے تقاضوں نے زور مارا۔ شادی کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس کے بہی خواہوں نے اس کی اس ضرورت کو محسوس کر کے اس کی طرف سے کئی مسلم گھروں اور گھرانوں میں شادی کا پیغام بھجوایا مگر کسی مسلمان نے بھی قادر کو اپنی بیٹی دینا گوارا نہیں کیا۔ سب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ نیچ ذات کے لڑکے کے حوالے اپنی بیٹی کیسے کر سکتے ہیں؟
قادر کی طرف سے لاکھ سمجھایا گیا کہا سلام میں نیچ اونچ ہیں ہے۔ اور قادر چونکہ اسلام قبول کر چکا ہے اس لیے اس کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں ہونا چاہیے مگر اسلام کے ماننے والوں پر اسلام کی اس حقیقت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
قادر پر مسلمانوں کے اس سنگدلانہ رویے کا ایسا برا اثر ہوا کہ مسلمانوں کے لیے بھی اس کے دل میں نفرت کا زہر بھر گیا۔ نتیجے میں وہ اسلام سے پھر گیا۔
اس نے اپنی اس بے عزتی اور شادی نہ ہونے کے غم کو بھلانے اور اچھی نوکری پانے کے لالچ میں بی اے کیا۔ بی اے کے بعد ایم بھی پاس کیا مگر اس کی اعلیٰ تعلیم بھی اسے راس نہ آئی۔ قابلیت، کوشش اور مسلسل جد و جہد کے باوجود اسے ملازمت نہ مل سکی۔ اس نے رِزرو کوٹے سے بھی فارم بھرا اور اپنی نیچتا کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ تب بھی کامیابی نہ مل سکی۔ اس لیے کہ اس کی ڈگریوں میں موجود قادر اس کے راستے میں آ گیا۔ وہ اپنی ذہانت اور طرح طرح کی دلیلیں پیش کرنے کے باوجود اپنے کو کالو ثابت نہ کر سکا۔ غصے میں اس نے اپنی ساری ڈگریاں پھونک ڈالیں۔ چاروں طرف سے مایوس اور نامراد ہو جانے پر مجبور ہو کر اس نے مرجانا چاہا۔ زہر بھی کھایا مگر ملاوٹ کے سبب زہر اپنا اثر نہ دکھاسکا۔ وہ یہاں بھی ناکام رہا۔ آخر کار جھک ہار کر اس نے سنیاس لے لیا اور گیروا بستر پہن کر ایک برگد کے پیڑ کے نیچے دن دن بھر بیٹھنے لگا۔
ایک دن سننے میں آیا کہ اس پیڑ کے نیچے اسے کوئی غیبی آواز سنائی پڑی اور وہ یہ شہر چھوڑ کر چلا گیا۔
’’اس کی ماں کا کیا ہوا مولوی صاحب؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’اس کا انتقال تو بہت پہلے ہو گیا تھا وہ مدرسے میں پڑھتا تھا۔‘‘
’’اس کے گاؤں میں اس کا کوئی رشتہ دار وغیرہ تو ہو گا؟‘‘ دوسرے نے جاننا چاہا۔
’’ہاں نرائن پور میں اس کے کئی رشتہ دار ہیں۔‘‘
مولوی صاحب کا شکریہ ادا کر کے تینوں دوست قادر کے گاؤں نرائن پور پہنچے۔ اس کے رشتے داروں سے ملے۔ بہت سے رشتے داروں سے تو قادر کے بارے میں کچھ بھی نہ معلوم ہو سکا مگر ایک رشتے دار سے انھیں ایسی بات معلوم ہوئی کہ وہ خوشی سے اُچھل پڑے۔
رشتے دار نے بتایا کہ قادر نے چندن نگر سے مجھے ایک چٹھی لکھی کہ میں کسی چھوٹے بچے کو لے کر چندن نگر آؤں مگر اس تک پہنچنے سے پہلے میں شہر میں گھوم گھوم کر لوگوں سے معلوم کروں کہ بھبھوت بانٹے والے بابا کہاں رہتے ہیں۔ اور لوگوں کو یہ بھی بتاؤں کہ میرا یہ بچہ اسی بابا کا وردان ہے اور جب چاروں طرف اس بات کی چرچا ہو جائے تو میں اس کے لکھے ہوئے پتے پر پہنچ جاؤں۔ قادر نے جیسا کرنے کو مجھے لکھا تھا، چندن نگر جا کر میں نے ویسا ہی کیا۔ میرے پرچار سے قادر کافی مشہور ہو گیا۔ لوگ اس کے پاس پہنچنے لگے۔ اس کے چرنوں میں چڑھاوے چڑھنے لگے۔ کئی دنوں تک میں اس کے پاس رہا۔ آتے سمے اس نے ڈھیر سارے روپے اور کپڑے لتّے بھی دیے۔ اس کے بعد قادر کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ ہاں میں نے ایک بار اخبار میں یہ ضرور پڑھا تھا کہ چندن نگر کا کوئی سادھو جو سنتان والے بابا سے مشہور تھا، اچانک ایک دن مسلمان ہو گیا۔
چمتکاری بابا کے دو چمتکاروں کا راز معلوم کر کے تینوں دوست شہر لوٹ آئے۔ اِدھر چوتھے دوست نے بھی بابا کے بارے میں کچھ اور باتیں معلوم کر لی تھیں۔ اس نے بھی اپنے دوستوں کو بتایا کہ بابا کے چمتکاروں کی خبر جب دور دراز تک پہنچی تو بہت سے غیر ملکی بھی بابا کے پاس آنے لگے۔ انھوں نے بابا کو اپنے ملک میں بھی بلایا۔ وہاں انھوں نے بابا کی بڑی خاطر کی۔ ان کے عیش و آرام کے لیے ایک قیمتی …سامنے رکھ دیا اور بابا سے کہا:
’’بابا! آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ سچ مچ آپ کے دیس باسیوں کو سکھ اور شانتی کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے مشن کو جار رکھیے اور لوگوں کی بے چینی دور کیجیے۔ انھیں شانتی پہنچائیے۔ ہو سکے تو آپ اور جگہوں پر بھی شانتی آشرم کھولیے۔ آپ پیسے کی فکر مت کیجیے۔ آپ چاہیں گے تو اس نیک کام کے لیے پیسہ ہم دیں گے۔ پیسہ ہی نہیں اپنے فلاحی فنڈ سے ہم آپ کی ہر طرح کی مدد کریں گے۔
یہ بھی سنا ہے کہ فلاحی فنڈ سے بابا کو ڈھیر ساری دولت ملی ہے اور بابا اب اپنے دیس میں تمام بڑے بڑے شہروں میں شانتی آشرم کھولنے جا رہے ہیں۔‘‘
’’یار ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ باہر والوں کو ہمارے دیس کی شانتی کی اتنی فکر کیوں ہے؟‘‘
ایک نے گمبھیر لہجے میں سوال کیا۔ اس سوال کو سن کر دوسرے نے جواب دیا۔
’’اس لیے کہ باہر والے بڑے دل والے ہیں اور ساری دنیا کو سکھی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کہیں ایسا تو نہیں اس میں بھی کوئی راز ہو؟‘‘ سوال کرنے والے نے پھر سوال کیا۔‘‘
’’بھلا اس میں کیا راز ہو سکتا ہے؟‘‘
’’کیا پتہ ہو ہی۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔‘‘
تیسرے نے اپنی رائے ظاہر کی۔
’’ٹھیک ہے، اس پر بھی غور کر لیں گے۔ اب تم لوگ بتاؤ کہ تم نے بابا کے بارے میں کیا کیا معلوم کیا؟‘‘
انھوں نے بابا کی اصلیت کا قصہ دہرا دیا۔
’’آگے کیا ہوا انکل؟‘‘
’’آگے قصہ اگلی بار سناؤں۔ آج بس یہیں تک اچھا، اب میں چلتا ہوں۔ کافی دیر ہو چکی ہے۔
———
گھر آ کر وہ کہانی کے باقی حصے پر غور کرنے لگا۔
اس کی سوچیں دور دور تک پہنچنے لگیں۔
بچے اپنے گھر جا کر کہانی کے باقی حصے کا انتظار بے صبری سے کرنے لگے۔
٭٭