وہ گاڑی بیچ تک لائی جہاں رونق عروج پر تھی۔ گاڑی ایک مخصوص جگہ پارک کی اور باہر نکل کر اردگِرد کا جائزہ لینے لگی۔ آخر اُسے ایک خاصی پُرسکون جگہ تو ملی ہی مگر ساتھ میں پینٹنگ کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت منظر بھی مل گیا تھا۔ وہ خود میں جوش سا محسوس کر نے لگی۔ اُس نے گاڑی کی ڈگی کھولی۔ اپنا ایزل اور برشز کا باکس اُٹھا کر اُس طرف چل دی ۔
وہ پہاڑ کی اوٹ تھی جہاں سے سورج بہت پیاری چھب دِکھا رہا تھا۔ اُسکا دِل کیا کہ وہ خوشی سے چیخے کیونکہ ایک تو اج اُسکی نیمو گھر آگئی تھی وہ اُسے آرام کا کہہ کر موسم سے فائدہ اُٹھانے اور اپنی بہت ہی اچھی سی پینٹنگ بنانے اِس طرف آگئی تھی تا کہ وہ نیمو کوگفٹ کی جا سکتی۔ دوسرا اُسے یہاں آتے ہی ایک بہت دلکش منظر بھی مل گیا تھا۔
وہ اپنا سامان اُٹھائے سمندر کنارے آگئی تھی ۔ وہاں ماحول پُر سکون تھا۔ وہ ایک پتھر کے قریب گئی۔ اُس کے پاس اپنا ایزل سیٹ کیا اور برشز کا باکس کھول کر ایزل سٹینڈ پر رکھا ۔ خود پتھر پر بیٹھ کر ٹھنڈی سا نس اندر اُتاری ۔ اب وہ پینٹ اور آئل مکس کر نے کے بعد سامنے موجود منظر کو بہت مہارت اور سکون سے سامنے کینوس پر اُتار رہی تھی۔
وہ مکمل مگن تھی جب اُسنے اپنے سامنے سے کسی کو گزرتا ہو دیکھا۔ وہ چونکی نہیں مگر اُسے غصہ بہت آیا ۔ اتنیی پُر سکون جگہ اتنی محویت اور یہ اچانک سے کون مخل کرنے آگیا تھا۔ اُس نے گردن اونچی کر کے دیکھا اور حیرت سے اُسکی انکھیں پھیل گئیں جبکہ منہ کُھلا ہوا تھا۔ وہ اُتنے غور سے اُسے دیکھ رہی تھی مگر مجال تھی کہ وہ ذرا بھی چونکتا۔ وہ تو نہ چونکا مگر پرِیا چونک چُکی تھی۔ کچھ تو تھا اِس شخص کے ساتھ۔
وہ کچھ فُٹ دور جا چُکا تھا۔ پرِیا نے اپنا پورا زور لگا کر اُ سے آواز دی۔ کیونکہ ایک تو وہ مگن بہت تھا دوسرا سمندر کی لہروں کا شوربہت تھا ۔ وہ چلتا رہا تھا۔ کیسے رُکتا کہ پرِیا نے اُسے اُسکے نام سے بھی تو نہیں پُکاراتھا۔ اور ابھی دو دن پہلے ہی تو بس اپالو بولا تھا۔ وہ چلتا جا رہا تھا۔ پرِیا نے اپنا سامان وہیں چھوڑا اور اُ سکی طرف دوڑنے لگی۔
اُس کے پاس پہنچنے پر اُس نے اُسکےکندھے پر ہاتھ مارا تو وہ چونکتے ہوئے مُڑا تھا۔
” کہاں گم ہو بھئی۔ کب سے بھاگتی آ رہی ہوں تمہارے پیچھے ۔ آواز بھی دی مگر سُنا ہی نہیں تُم نے” وہ گہرے سانس لے رہی تھی۔
” تُم کسی جگہ پرپیچھا چھوڑ بھی سکتی ہو میرا؟” وہ نارمل سے انداز میں بولا۔
” نہیں” وہ دانت نکالتے ہوئے واپس مُڑی اور مزید گویا ہوئی” آؤ وہاں چلتے ہیں میں اپنا سامان چھوڑ آئی ہوں ” وہ خاموشی سے اُس کے ساتھ چلنے لگا تو وہ بولی
” تُمہارا کچھ گم گیا ہے کیا؟” وہ بے تاثر سا منے دیکھتا رہا ۔ہاں مگر اُس کے ماتھے پر ایک ہلکی سی لکیر نمودار ہوئی اور سر جھٹک کر اپنی بائیں طرف دیکھنے لگا۔ ہمیشہ کی طرح وہ بولا اب بھی نہ تھا۔
” تمہاری بیلرینا کھو گئی ہے ناں؟” وہ بولی تو یوں جیسے اُسے پورا یقین ہو اِس بات کا۔
وہ ٹھٹک کر رُکا اور رُخ موڑے اُ سے دیکھنے لگا۔ اُسکی سنہری آنکھوں میں سُرخی اُتری تھی۔ پرِیا رُخ موڑے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ اُسے اپنی پینٹنگ بھول چُکی تھی۔ ۔ وہ اُسکی کہانی کی طرف بہہ جانے والی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جا ب سے آتے ہی فریش ہو کر اُن کے لیے کافی بنا لائی تو وہ جو ابھی کافی کا سوچ ہی رہی تھیں بے ساختہ اُس کا ماتھا چُومنے لگیں ۔
” ابھی تُم آئی ہو۔ اصولاً مجھے کچھ لانا چاہیے تھاتمہارے لیے” وہ بولیں تو وہ شرمندہ ہوتی بولی” نہیں نینی۔ اصول یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑوں کے لیے ایسے کام کریں۔ میں نے کچھ بڑا کام کیا بھی نہیں بس کافی ہی تو بنائی ہے”
” مجھے پری کہتی تھی کہ نینی آپ کی نواسیاں تو نیمو کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ میں سمجھتی تھی کہ نئی نئی دوست ہے اس لیے روم کی لڑکیوں کو اِتنا ہلکا لے رہی ہے۔ مگر واقعی میری نواسیاں تو تمہارے پاسنگ بھی نہیں ۔ایشیائی حسن ہے تم میں۔” وہ بولیں تو ایک بار پھر وہ سُرخ ہوئی تھی۔ پہلے وجہ شرمندگی تھی اور اب وجہ تعریف تھی۔ آف وہائٹ اسکارف میں اُسکا چہرا دمک رہا تھا۔ وہ اُن کے بائیں طرف سنگل صوفہ پر بیٹھی تھی اور وہ اُسے گردن موڑ کر دیکھ رہی تھیں۔ اُ نہوں نے بے اختیار نظریں چُرائی تھیں۔
” نینی پری کب تک آئیگی؟” وہ بولی تو نینی چونکیں۔
” کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک دفعہ اپنا ایزل لے کر بیٹھ جائے تو بس جب تک وہ اُ سکی پسند کے مُطابق ڈھل نہ جائے۔۔ اُٹھتی نہیں ہے” وہ ناک چڑھائے بتا رہی تھیں۔ وہ ہنس دی۔
” تُم اپنی مدر سے بات کرواؤ ناں میری” وہ اُسکی طرف پوری طرح مُڑی تھیں۔
” میں سیل لاتی ہوں اپنا” وہ کہتے ہوئے اُٹھی اور اندر جانے لگی جب نینی نے کہا ” تُم وہ لیپ ٹاپ یوز کر سکتی ہو” اُنہوں نے سامنے دیوار کے پاس بنے ایک شیلف کی طرف اِشارہ کیا تو وہ جھجکی ۔
” ارے بھئی کچھ نہیں ہے اُس میں، اُٹھا لاؤ۔ مل کر بات کرتے ہیں ناں ۔ ویڈیو کال کرنا” وہ بولیں تو وہ آگے بڑھ کر لیپ ٹاپ اُٹھا لائی۔ واپس صوفے پر بیٹھتے ہوئے اُسنے لیپ ٹاپ آن کیا اور عینی ( اپنی بہن) کو میسج سینڈ کر کے کال ملائی۔
عینی لاگ اِن ہوچُکی تھی ۔ اُس نے کال کنیکٹ کی اور ذرا آگے ہو کر بیٹھ گئی ۔
اب وہ اِشتیاق سے اپنی مما کو اُردو میں سب بتا کر تسلی کروا رہی تھی۔ نینی کو زبان تو سمجھ نہیں آرہی تھی مگر اُ سکی آسودہ مُسکراہٹ سے وہ سب سمجھ رہی تھیں۔
اُس نے انگلش میں نینی اور اپنی مما کا تعارف کروایا ۔ اُسکی مما انگلش سمجھ اور بول سکتی تھیں ۔ وہ اُن سے بات کرتے ہوئے اُن کا شکریہ ادا کر رہی تھیں ۔
عُنیزہ نے دیکھا اُس کی مماکافی دن بعد مطمئن اور آسودہ دکھ رہی تھیں ۔ وہ اطمینان سے مُسکرا دی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ غصہ اور بے چینی نے اُس کا احاطہ کیا ہوا تھا مگر کمال ضبط سے اُس نے اپنے تاثرات چُھپائے۔
مگر پرِیا بھانپ چُکی تھی۔ وہ بغور اُسے دیکھ رہی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھا کر چلنے لگا تو پرِیا نے بھی قدم اُسکے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ وہ اپنا کام تو فراموش کر چُکی تھی۔
” بتاؤ نا۔ تمہاری بیلرینا کھو گئی ہے ناں؟” پرِیا نے اپنا سوال دُہرایا۔
” نہیں وہ کھوئی نہیں ہے” وہ بولا تو آواز میں بھی خاموشی تھی۔ پرِیا کو اُسکی آواز سے لگا جیسے اُ سنے پُوچھ کر بُرا کیا۔ مگر اب تو پوُچھنا ہی تھا۔
” تو؟” وہ اُسکے سامنے آکر کھڑی ہو گئی ۔
” میں نے اُسے کھو دیا ہے” وہ تھکے ہوئے انداز میں چہرہ بائیں طرف موڑ کر سمندر کی لہروں پر نظریں جمائے ہوئے بولا۔
” کیا مطلب؟” وہ الجھی۔ مگر وہ کچھ نہیں بولا۔
” ایک ہی بات ہے ناں یہ۔ کہ وہ کھو گئی ہے” وہ آنکھیں سکیڑے سینے پر ایک ہاتھ باندھے دوسرے ہاتھ سے اپنے چہرے پہ آنے والے بال پرے ہٹاتے ہوئے بولی۔
” ایک بات نہیں ہے” وہ ہولے سے بولا اور وہیں گیلی ریت پر بیٹھ گیا ۔ پرِیا نا سمجھی سے اُسے دیکھ رہی تھی مگر اب کی بار وہ بولی نہیں تھی۔
” وہ میرے پاس تھی۔ میں نے خود اُسے گنوا دیا” وہ نیچے ریت پر اپنی اُنگلی سے کبھی کچھ بنا تا کبھی ہاتھ سے مِٹا دیتا۔
” ملی نہیں یا پھر تم نے کوشش نہیں کی؟” وہ بھی اُسکے سامنے ریت پر بیٹھ چُکی تھی۔
” میں نے اُسے گم کیا۔ اور پھر میں خود گم گیا” وہ بس اِتنا بولا اور خاموش ہوگیا۔ پرِیا اُلجھتی جا رہی تھی۔ وہ باتیں ہی اِتنی مبہم کر رہا تھا۔
” وہ میری دوست تھی ۔ مگر پھر مجھے وہ بُری لگنے لگی۔ وہ سمجھ رہی تھی سب۔ مگر سمجھ میں ہی نہیں سکا۔ میں اُس کو اپنے آس پاس کہیں نہیں دیکھنا چاہتا تھا”
“پھر؟” وہ خاموش ہوا تو پرِیا نے پوچھا۔
” پھر وہ واقعی نظروں سے دُور ہو گئی” وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ اُسے ریت پر ایک چھوٹا سا سیپ دِکھا جسے پکڑ کر وہ ریت پر لکیریں کھینچنے لگا۔
“وہ میری آنکھیں پڑھ لیتی تھی ۔ مجھے اُس نے بتایا میں اُس سے انکھیں چُرانے لگا ہوں۔ مجھے تب وہ اور بھی بُری لگتی کہ اُسے کیوں میرے اندر کا پتہ مل جاتا ہے” وہ بے چینی سے کبھی کوئی لکیر بناتا تھا اور کبھی مِٹا دیتا تھا۔ پرِیا اُسے دیکھ رہی تھی۔
” وہ کسی کو دُکھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ کسی کو تکلیف نہ تو دیتی تھی نہ ہی تکلیف میں دیکھ سکتی تھی۔ وہ خود میری بے چینی اور تکلیف کی وجہ بن رہی تھی اُسے سب سمجھ آرہا تھا” وہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔ پرِیا اب بھی اُسے سُن رہی تھی۔
” پھر اُس نے تھک کر مجھے اکیلا کر دیا۔ میں تکلیف میں تھا۔ اُس نے تکلیف رفع کر دی” پرِیا نے دیکھا کہ وہ بے چین ہوا ہے۔
” اب کہاں ہے وہ؟” اُس نے بات بڑھائی ۔ وہ جو آنکھیں بھینچے بیٹھا تھا۔ آنکھیں کھول کر اُسے خالی نظروں سے دیکھنے لگا ۔ مگر بولا کچھ بھی نہیں۔
” کوشش تو کی ہوگی ناں؟” وہ مزید بولی تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ پرِیا بھی اُٹھ گئی۔
” کوشش سے ‘گم’ کیا تھا۔ پھر اُسے اتنا دُور چھوڑ آیا کہ اب سامنا نہیں کر سکتا۔ کوئی وجہ نہیں تھی۔ میں نے بغیر وجہ کے فاصلہ پیدا کرنا چاہا” وہ اٹھا اور واپس مُڑ ا۔ پرِیا کچھ نہیں بولی تھی۔ بس خاموشی سے وہ دونوں چل رہے تھے۔
اپنے سامان کے پاس پہنچ کر وہ رُکی ۔ اُسے اب سب کام یاد آچُکے تھے۔ یہ بھی کہ گھر میں وہ نیمو کو اپنے اِنتظار کا کہہ کر آئی تھی۔
شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ سورج سمندر میں غوطے کھانے کو تیار تھا۔ وہ دونوں خاموش تھے ۔
” بائے دا وے! اپالو روم کا نہیں یونان کا دیوتا ہے۔ اور حُسن کا نہیں موسیقی کا دیوتا ہے ۔ محبت کا نہیں سچائی اور روشنی کا دیوتا ہے۔” وہ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑا کہہ رہا تھا جبکہ وہ جو جھکی ہوئی اپنا سامان سمیٹ رہی تھی اچانک سے سیدھی ہوئی۔
” تم نے نوٹ کیا تھا؟” وہ حیران ہوتی ہوئی مسکرائی۔
” گونگا سمجھ سکتی ہو مگر میں بہرہ نہیں ہوں اور بے عقل تو بھول کے بھی مت سمجھنا ۔ “وہ بولا جس پر پرِیا بے ساختہ ہنسی تھی۔
آنکھ پڑتی ہے کہیںــــ پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تُم کو خبر ، اپنی خبر کُچھ بھی نہیں
” اوکے اوکے۔ میں اُس دن صرف تمہیں بولتا دیکھنا چاہ رہی تھی کیونکہ مجھے لگا تمہارے منہ میں لازماً زبان تالو سے جُڑی ہوئی ہوگی” وہ اپنا سامان اُٹھائے اُسکے ساتھ ساتھ چلتی پارکنگ کی طرف آگئی تھی۔ بیک ڈور کھول کر سامان اُسی میں ٹھونسا اور اُسکی طرف مُڑی۔
” تم رات یہیں گُزارتےہو؟”
” نہیں ۔ مگر کچھ دیر مزید یہاں ‘اکیلے’رہنا مجھے اچھا لگے گا” وہ اکیلے پر زور دیتے ہوئے بولا تو پرِیا ہنس دی۔
” اوکے باس میں ویسے بھی جا ہی رہی ہوں جلتے ہی مت رہا کرو ” وہ بائے کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ جبکہ وہ وہاں اکیلا رہ گیا تھا۔
وہ واپس مُڑا اور گیلی ریت کی طرف بڑھنے لگا۔ سورج تو بہت گہرائی میں اُتر چُکا تھا۔ مگر اُسکی سوچوں کی گہرائی کہیں زیادہ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سانوں چھڈ کے کیہڑا حج کیتا ای؟
ایویں اپنی قدر، گھٹائی اے
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی باہر بدلیوں میں چُھپے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ چاند بھی وہی تھا اور تاریخ بھی وہی۔ بس اُس کے دیکھنے کا انداز بدل گیا تھا۔ چاند کو رات دیر تک تکے جانا تو اُس کی پُرانی عادت تھی۔ وہ آج بھی اُسے تکتی تو اردگرد بھول جایا کرتی تھی۔ مگر اب دیکھنے میں صرف بے خُودی تھی تڑپ ختم ہو چُکی تھی۔ پہلے دیکھتی تو باتیں کیا کرتی تھی۔ اب بس دیکھے جانا اور خاموش رہنا عادت میں شامل ہوا تھا۔
اُس پر سوچوں کی بوچھاڑ ہونے لگی تھی۔ وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گئی۔ اُسے سوچوں میں غرق نہیں ہونا تھا۔ اُسے حقیقت میں رہنا تھا۔
واش روم گئی وُضو کیا اور اپنا وہ جائے نماز اُٹھایا جس کے لیے وہ لوگ لڑا کرتے تھے۔ اُس نے ہر وہ راہ چھوڑ دی تھی جہاں اُس کے قدموں کی ذرا سی چاپ بھی سُنائی دیتی تھی۔ مگر ایک چیز وہ آج بھی چھوڑ نہ پائی تھی۔ نیوی بلیو رنگ کا وہ جائے نماز ۔ اُس پر اس نے کبھی ‘اُسے’نماز ادا نہیں کرنے دی تھی۔ صرف ایک بار وہ نماز ادا کر پایا تھا اِس جائے نماز پر۔ مگر اُس ایک دن کے بعد وہ جائے نماز کسی اور کے حصے میں آیا تھا نہ اُس نے شعوری کوشش سے کسی کو لینے دیا تھا۔
جائےنماز بچھا کر وہ اپنے ادا کیے جانے والے الفاظ میں دل لگانے لگی۔ وہ الفاظ اُس کے دِل پر پھاہے رکھ رہے تھے۔
بعض دفعہ اللہ آپکو آپکی سب سے پسندیدہ چیزوں اور لوگو ں سے دور کر دیا کرتا ہے ۔ مقصد آپ کا دل دُکھانا نہیں ہوتا۔ دراصل آپکا اُس رب کے قریب ہونا مقصود ہوتا ہے۔ اگر کہیں بھی محسوس ہو کہ آپ اکیلے ہو تو مت بھولنا کہ آپ کم از کم’ اکیلے’ نہیں ہو سکتے۔ اللہ کبھی بھی کسی کو اکیلا نہیں کرتا ۔ اُس کا نام ذرا دل سے لو۔ دِل کی گہرائی سے پُکارو اُسے ۔ آپ کی ماں آپکی ایک پُکار پہ اتنا تڑپتی ہے تو وہ کتنا پاس آتا ہوگا۔ کبھی اُمید نہیں کھونی، کبھی اُداس نہیں ہونا کیونکہ وہ کبھی اُمید توڑتا نہیں ہے وہ دِلوں کو جوڑ نے والا ہے۔ وہ نُور علیٰ نُور کر دیا کرتا ہے۔
وہ زاروقطار رونے لگی۔ آنسو اُس کے دوپٹے کو بھگونے لگے مگر اُسے دُھن سی لگ گئی تھی۔ اُسکا دِل کیا وہ سبز پرندہ بن کر آسمان کی طرف نکل جائے ۔ دُور بہت دُور چلی جائے جہاں وہ اور اُس کا اللہ ہو۔ سب فنا ہو جائے بس اُس کا اللہ کے ساتھ تعلق رہ جائے۔ سب ختم ہو جائے بس وہ ہو اور اللہ ہو اور وہ بس اُسے دیکھتی رہے وہ بس نظر آجائے۔ اُس کا دِل بے اِختیار ہوئے جا رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو جھڑتے جا رہے تھے۔
نماز ختم ہوئی تو وہ سجدے میں گِر گئی۔ اُسکی تڑپ بڑھنے لگی تھی۔ آنسوؤں میں شدت آگئی تھی۔ اُسکا وجود ہچکیاں لے رہا تھا۔
” اے میرے اللہ! میں بہت گنہگار ہوں۔ میں تو اِس قابل بھی نہیں کہ کچھ مانگ سکوں۔ اللہ مجھے تُو چاہیے ہے۔ مجھے بس تُو چاہیے ہے۔ وہ جِسے تُو نے میرا محرم بنایا وہ تو مجھے خاک کر گیا اللہ۔ یا اللہ میں اُس کی چاہ نہیں مانگتی۔ میں تیری چاہ مانگتی ہوں۔ مجھے تیرادر چاہیے۔ مجھے اُس شخص سے بے نیاز کر دے اللہ۔ یا اللہ میں دلدل میں ہوں مجھے نکال۔ میں بھنور میں پھنس چُکی ہوں مجھے سہارا دے۔ میں لوگوں کی نگاہیں نہیں سہہ سکتی اللہ۔ میں اپنی ماں کو روتا ہو ا نہیں دیکھ سکتی۔ میں اپنے باپ کو سوچوں میں گم نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے سبب دے ایسا کہ میں تیری چاہ پہ رشک کروں”
سجدہ اُسے سکون دینے لگا تھا۔ اُسے لگا کوئی پاس بیٹھا اُسے تھپکیاں دے رہا ہے۔ دِل میں سکون اُترنے لگا۔ یہ لمحہ بہت پُر کیف تھا۔ وہ سجدے سے اُٹھی تو وہیں جائے نماز پر سجدے کی جگہ ہاتھ پھیرنے لگی۔ اُسے جیسے کسی چیز کی تلاش تھی۔ آنکھیں ایک بار پھر سے بھیگنے کو تیار تھیں جب اُسے دروازے پر کھٹکا سُنائی دِیا۔ اُس کا ہاتھ بے اِختیار آنکھوں تک گیا اور چہرے سے آنسوؤں کے نشان مٹانے لگی۔
مگر آنکھیں تو چُغلی کھا ہی جایا کرتی ہیں ناں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عائشہ بیگم آج کل چُپ چُپ تھیں ۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے کترائے پھرتے۔ نظریں ملانا بھی دُشوار لگ رہا تھا۔ دوسری طرف اُنہوں نے سعدیہ کو بھی آنے سے منع کر دیا تھا کہ اگر وہ آتیں تو یقینی طور پر جمال صاحب اپنا فیصلہ سُنا دیتے جو کہ اب صرف یہی ہو سکتا تھا کہ عُنید کی طرف سے طلاق کے کاغذات بنوا لیے جاتے اور بچی کو آزاد کر دیا جاتا تا کہ جلد یا بدیر کبیر صاحب اپنی بیٹی کے لیے کوئی اچھابَر ڈھونڈ سکتے۔ اُن کا عُنید چھبیسویں سال میں لگ چُکا تھا بھانجی بھی تو بس دو سال ہی چھوٹی تھی اُن کے بیٹے سے۔ ہاہ ! کتنے چاؤ سے دونوں بہنوں نے مِل کر نکاح کیا تھا ۔ کتنے ناز اٹھواتے تھے دونوں۔ اور اب۔۔۔
اُن کی آنکھیں چھلکنے لگی تھیں ۔ دِل ہولتا تھا۔ اِس لیے نہیں کہ بیٹا دُور ہو جایئگا، اِس لیے بھی نہیں کہ بھانجی دُور ہو جائیگی۔ بلکہ اِس لیے کہ بہن سے دُور رہنا اُنکو گواراہ نہیں تھا۔ اُن کے شوہر تو ٹھنڈے مزاج اور دماغ کے اِنسان تھے مگر سعدیہ کو ہمیشہ کبیر سے دھیما رہنا پڑتا تھا کیونکہ وہ بہت غصہ ور تھے۔ اگر یہ رِشتہ ٹوٹتا تو نُقصان اُن بہنوں کا ،اُن کے خاندان کا ہونا تھا۔ دراڑ پڑ جاتی تو شاید ہی کوئی اِس دراڑ کو بھرتا۔
وہ سوچوں میں گم تھیں جب اُنہیں فون کی گھنٹی نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ فون اُٹھایا تو وہ پُھوٹ پُھوٹ کر رو دیں۔
” مما کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک تو ہے ناں؟ آر یو آل رائٹ؟” وہ ایک دم سے پریشان ہوتا سوال کررہا تھا ۔
“عُنید تُو آتا کیوں نہیں ؟ تیرے بابا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں۔ تیرے چھوٹے پاپا تجھ سے الگ ہو جانا چاہتے ہیں۔”وہ بلکنے لگی تھیں۔
“عُنید تیری ماں تو یہ برداشت کر لے گی مگر تیری ماں کی ماں جائی مر جائے گی۔ وہ نہیں برداشت کر پائے گی ” وہ روتے ہوئے سب بتا رہی تھیں جبکہ دوسری طرف اُس کا دِل سُکڑا تھا۔
” کونسا فیصلہ مما؟” آواز ڈوبتی ہوئی تھی۔
” طلاق چاہتا ہے کبیر ۔ بیٹی والے ہیں عُنید۔ بیٹی چاہے دو سال کی بھی ہو ایک فرض سر پر پڑا رہتا ہے۔ اور کبیر کے غصے کا بھی تمہیں معلوم ہے۔ صرف تم غصے میں اسے ہینڈل کر پاتے تھے۔ اب دیکھو، کیسا ناراض کر گئے ہو اُسے” وہ روتی ہوئی شکوہ کُناں ہوئیں۔ عُنید چُپ ہو گیا تھا۔ وہ کیا بولتا۔ کچھ تھا ہی نہیں بولنے کو۔ الفاظ یہیں تو ساتھ چھوڑتے تھے۔ اُس کی خاموشی پر اُنہیں لگا کہ لائن کٹ گئی ہے تو وہ بے چین ہوتی ہیلو ہیلو کرنے لگیں۔
” جی مما!”
” کیا ہوا؟” وہ پریشان ہوئیں۔” آنی نے کچھ کہا تھا؟” وہ آہستہ سے بولا۔
” بیٹی کے ماں باپ اپنے منہ سے نہیں کہا کرتے۔ ہمیں خود احساس ہونا چاہیے” وہ چُپ رہا تو عائشہ اُسے دھیما دیکھ کر خود بھی سنبھلیں تا کہ سمجھا سکیں۔” عُنید میری تربیت کی کچھ تو لاج رکھو۔ ہم فورس نہیں کر رہے۔ اگر کوئی شکایت ہے تو بتاؤ ۔ تب بھی تمہارے اچھے کے لیے فیصلہ لیا تھا۔ تم تب بھی نہیں سمجھے تھے۔ اب تو کچھ کہو” وہ روہانسی ہوئیں۔
” ایسی کوئی بات نہیں ہے مما” آواز بہت تھکی ہوئی تھی۔
” تو کیوں ہمیں اِتنا پریشان کر رکھا ہے؟ اگر نہیں نبھانا چاہتے تو بتا دو بیٹا ! اُس معصوم کی زندگی خراب نہ کرو” وہ اُسے سمجھا رہی تھیں۔ مگر وہ اب کی بار بھی خاموش ہی رہا۔
” میں تمہارے بابا کو ٹھنڈا رکھوں گی اور تمہیں بھی لاسٹ وارننگ دے رہی ہوں ۔ مجھے ایک دو دن کے اندر بتاؤ تُم چاہتے کیا ہو۔ اگر نہیں نبھا سکتے تو ٹھیک ہے طلاق دے دو تاکہ اُس کے ماں باپ اُس کے لیے بہترین جگہ پر ‘بہترین’ جوڑ ڈھونڈ سکیں” وہ ذرا سختی سے بولیں۔ اُن کے لہجے میں موجود طنز بھی وہ محسوس کر سکتا تھا۔ وہ حق بجانب تھیں۔
“بابا کہاں ہیں؟” اُس نے بات بدلی۔
” آفس گئے ہوئے ہیں۔ آج کل گھرپر کم ہی ہوتے ہیں۔ تمہاری مصروفیت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا عُنید”
“مما !آ پ کو معلوم ہے میں۔۔۔”
” سب معلوم ہے ۔ اب جو کہا ہے اُس پر سوچ لو، اِس سے پہلے کہ تمہارے بابا اپنا فیصلہ سُنائیں ” اُنہوں نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔
“میں کچھ دِن تک بتا۔۔۔”
“تُمہارے یہ کچھ دِن بہت طویل نہ ہوں یہ میں آخری بار کہہ رہی ہوں۔ ہم چاہیں تو زبردستی بھی کر سکتے ہیں” اُس کی بات ایک بار پھر کاٹتے ہوئے اُنہوں نے اُسے ڈپٹا تھا۔
” آپ نے چیک اپ کروایا؟” اُس نے اصل بات سے ہٹانا چاہا۔
“بات بہت گول کرنے لگے ہو تُم ” اُسے شرمندہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہنس دیا۔ اِتنے میں ڈور بیل ہوئی تو وہ بولیں ” تُمہارے بابا آگئے ہیں ۔ میں اب فون رکھتی ہوں بس دو دن کے اندر مجھے جواب چاہیے۔ اور جواب مثبت ہو تو تُمہاری ماں کا مان رہ جائیگا عُنید۔ رکھتی ہوں اب۔ اللہ حافظ!”
“اللہ حافظ” اُس نے بھی کہا اور لائن کٹ گئی۔
عائشہ اب بہت حد تک مطمئن تھیں۔ وہ اُٹھیں اور دروازہ کھولنے چل دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُس نے آنکھ کھولی تو پہلے اِردگِرد دیکھا۔ پھر بیڈ کے بالکل سامنے لگے ہوئے وال کلاک پر ٹائم دیکھا۔ وہاں دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی۔
” میں اِتنی دیر تک کیسے سو سکتی ہوں” وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی خود سے ہم کلام ہوئی۔
” پاگل رات تُم دیر سے سوئی تھیں ” کُچھ یاد آنے پر وہ بولی اور اپنے سر پر خود ہی چپت لگا کر ہنس دی۔
بستر سے نیچے چھلانگ لگائی اور بال باندھ کر واش روم کی طرف چل دی۔ فریش ہو کر وہ سیدھی کمرے سے باہر آئی تھی جہاں نینی یقیناً بیلن لے کر اُسکا بے صبری سے اِنتظار کر رہی تھیں۔
مگر وہاں کا منظر کُچھ یوں تھا۔
نینی صوفے پر دراز تھیں ۔ ہاتھ میں ٹیب پکڑا ہوا تھا اور کسی سے کھلکھلا کر باتیں کر رہی تھیں۔ وہ یقیناً اُن کی نواسیاں تھیں۔ جبکہ اُسنے کچن میں کُچھ کِھٹر پٹر محسوس کی تو وہ تھوڑا آگے آئی۔ وہاں عُنیزہ بُری طرح کچھ بنانے میں مصروف تھی۔ وہ اُس کے پاس چلی گئی۔ پرِیا نے ایک پُل اوور کے ساتھ ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ جبکہ عُنیزہ نے ہلکے گُلابی رنگ کا فراک پہن رکھا تھا جس کے بازو اُس نے فولڈ کر رکھے تھے اور بُھورے بال چُٹیا میں قید کر رکھے تھے ۔ سر پر میرون اور گُلابی رنگ کا مفلر اوڑھا ہوا تھا۔
“زندگی میں سکون کیسا لگ رہا ہے میڈم روز پیٹل؟” وہ کاؤنٹر پر بیٹھ چُکی تھی۔ اُس کے بولنے پر عُنیزہ کام سے ہاتھ روک کر نا سمجھی میں اُسے دیکھنے لگی ۔
” وہ توپ کی گولہ باری نہیں ہے یہاں اُداس تو نہیں ہوگئیں تُم ؟ “وہ آنکھوں میں شرارت لیے ہوئے بولی تھی۔
” اُس کو تُم یاد بھی نہیں ہو گی اور تُم ہو کہ ہر دوسرے دِن اُسے یاد کرتی ہو” وہ بات سمجھ کر ہنستی ہوئی پھر سے کام میں مصروف ہوئی۔ پرِیا بھی ہنسنے لگی تھی۔ وہ کاؤنٹر پر پڑی ٹوکری میں سے سیب نکال کر کھانے لگی تھی۔ اُس نے مُڑ کر نینی کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی بات کر رہی تھیں۔
” یہ نینی کو آج کیا ہو گیا ہے؟ آج بیلن نہیں پکڑا ہوا” وہ حیران تھی۔
” وہ میری مما سے بات کر رہی ہیں” اُس نے بتایا تو پرِیا منہ کھولے اُسے دیکھنے لگی۔
“میری تو بات نہیں کروائی تم نے اور نینی سے ایک دِن کے تعارف میں ہی ماما سے بات کروا دی” وہ اُسے گھور رہی تھی۔
” ابھی کروا دیتی ہوں” وہ خوامخواہ شرمندہ ہوئی تھی۔
” تم یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ تم لیٹ آئی تھی۔ یا ایسا کچھ بھی۔ خود بھی شرمندہ ہوتی ہو اور مجھے بھی کرتی ہو” پرِیا نے افسوس سے سر ہلایا۔ اِتنے میں نینی بھی چلی آئی تھیں۔
” تمہاری مما کلازیم کے بارے میں بھی جانتی ہیں ۔کیا تُم جانتی ہو؟ ” وہ پرِیا کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہوئیں عُنیزہ سے مُخاطب ہوئیں۔وہ اٹلی کے دارلحکومت روم کے بالکل مرکز میں موجود ایک قدیم تھیٹر کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ آواز میں محسوس کیےجانے والا خوشی اور جوش تھا۔
” جی” وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ نینی اُس کے ساتھ کام کروانے لگی تھیں۔ پرِیا سیب کترتی ہوئی اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
” تمہیں معلوم ہے۔ اور میں سمجھتی تھی ایسا نہیں ہو گا ” اب نینی بول رہی تھیں۔
” نینی آپکو ایک اور بات بتاؤں ، پرِی آپ کے بیلن کا اِنتظار کر رہی تھی” وہ شرارتاً بولی تو وہ اپنی جون میں واپس آئی ۔” جی نہیں نینی۔ جھوٹی ہے یہ ایک نمبر کی” وہ اُسے گھورتی ہوئی بولی۔
” اللہ جانتا ہےاس وقت تم خود جھوٹ صفائی سے بھی نہیں بول پائی” نینی بولیں۔ پری تو ہنس دی تھی مگر عُنیزہ جو بہت پُر سکون تھی اچانک چونک کر دونوں کے چہرے کھوجنے لگی۔ اب وہ سوچوں میں گم ہو چُکی تھی ۔ جب اچانک سے پرِیا نے اُس کے بازو پر چُٹکی بھری تھی۔ وہ سِی کرتی ہوئی متوجہ ہوئی۔
” ہر وقت گم رہتی ہو تم ،حاضر بھی رہ لیا کرو” وہ اُس کی چُٹیا کھینچتے ہوئے وہ بولی تو وہ ہنس دی۔
” خود بھی تو ابھی گم تھیں” اُس نے بھی پریا کے گال پر چُٹکی بھری۔
“کل تم جیسا ہی ایک نمُونہ بھگتا کے آئی ہوں” وہ اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی تو عُنیزہ گھورتے ہوئے گویا ہوئی”
کیا مطلب نمونہ؟”پرِیا نے اُس کے سامنے سے ٹرے اُٹھائی جس میں نینی نے فِش سجا کر رکھی ہوئی تھی۔ خوشبو اِشتہا انگیز تھی۔ وہ کھانے کو بے تاب ہوئی، ڈائیننگ ٹیبل کی طرف چل دی تھی۔ عُنیزہ بھی اُس کے پیچھے گئی تھی۔
“مطلب رہنا کسی اور دُنیا میں مگر اِس دُنیا کی بھی پوری خبر رکھنا” وہ دونوں اب ٹیبل کے اِرد گِرد نینی کے دائیں بائیں بیٹھ گئی تھیں۔ عنیزہ تھوڑا سا آگے ہوئی اور کھانا سرو کرنے لگی۔
” جاب سے کس وقت آؤ گی؟” پرِیا نے پوچھا۔
“منحصر ہے کام پر۔ کوئی فکسڈ ٹائمنگ نہیں ہوتی” وہ کندھے اُچکاتے ہوئے بولی۔ نینی اِس دوران خاموش تھیں۔
” آج پھر کسی بھی طرح جلدی آجانا۔ رات میں اِکٹھے بیٹھیں گے” پرِیا نے کہا تو اُس نے سر اثبات میں ہِلا دیا۔
وہ یوں ہی ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھیں۔ کھانے سے فارغ ہو کر پرِیا اور عُنیزہ جانے کے لئیے تیار ہوئیں۔ پرِیا نے پہلے عُنیزہ کو ڈراپ کرنا تھا پھر اپنے کل کے ادھورے کام کو مکمل کرنا تھا۔
اُن کے جانے کے بعد نینی ایک کھڑکی کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور نِٹنگ کرنے لگیں۔ یہ اُن کا پسندیدہ کام تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...