“سائنس” جریدے کے ایک مضمون کی 2008 کی ایک سنسنی خیز سرخی تھی۔
Stationarity Is Dead
اس کا مطلب کیا ہے؟ خطرات کے تخمینے لگانے والوں کے بزنس کا ایک بہت ہی بنیادی اصول یہ ہے کہ نیچرل فینامینا غیریقینت کی کچھ خاص حدود کے اندر کام کرتا ہے۔ ہماری انجینیرنگ کے ڈیزائن اسی کے تحت کئے جاتے ہیں۔ اونچی عمارتیں، پُل اور دوسرا انفراسٹرکچر اسی کو مدِ نظر رکھ کر تعمیر ہوتا ہے۔ آگ، سیلاب، زلزلے، طوفان سے بچاو کی پلاننگ اسی طرح کی جاتی ہے۔ انشورنس کی پوری انڈسٹری اسی کے تحت چلتی ہے۔ ہائیڈرولوجی کے ماہرین اس مضمون میں دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ اصول مزید قابلِ عمل نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب کی مثال لیں۔ پانی کا دریاوں میں اتار چڑھاوٗ یکساں نہیں۔ نہ صرف یہ موسم کے حساب سے تبدیل ہوتا ہے بلکہ ہر سال بھی فرق ہوتا ہے۔ کسی سال زیادہ، کسی سال کم۔ کوئی کوئی سال باقی سب سے مختلف نکل آتا ہے۔ تاریخی ڈیٹا کی بنیاد پر کسی نایاب واقعے کا شماریاتی امکان نکالا جاتا ہے۔ “یہ سو سال میں ایک بار ہونے والا سیلاب ہے”۔ اگرچہ اس سٹیٹمنٹ کو عام لوگ سمجھنے میں خاصی غلطی کرتے ہیں لیکن اس نے ہمیں محفوظ تعمیرات میں مدد کی ہے۔ یہ بلڈنگ کوڈ بنانے، شہری زون ڈیزائن کرنے اور اور انجینرنگ میں راہنمائی کرتے ہیں۔
اور اس میں لی گئی ان کہی ازمپشن یہ ہے کہ مستقبل بھی ماضی کی طرح ہو گا۔ یہ stationarity ہے۔ اس کو نکال دیں تو پھر خطرات کی ساری کیلکولیشن ناکارہ ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق ہمیں دکھا رہی ہے کہ پرانی شماریات اس بارے میں ٹوٹنے لگی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں واحد قصوروار نہیں۔ بڑھتی شہری آبادی، زراعت کی تبدیل ہوتی پریکٹس اور نیم باقاعدہ موسمیاتی oscillations (جیسا کہ ایل نینو) سیلاب کے شماریاتی امکانات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ شدید سیلاب یا قحط کے شماریات متاثر ہو رہے ہیں۔ اور یہی دو چیزیں انسانوں کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
اس پیپر میں لکھا، “سٹیشنریٹی کا خیال مر چکا ہے اور یہ پانی کے رِسک اور منصوبہ بندی کے لئے ایک مرکزی ازمپشن کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس کی جگہ پر کیا کیا جائے تا کہ بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے؟ یہ ہمارے لئے ایک بہت اہم سوال ہے”۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی اچھا متبادل نہیں۔ اور اس پر کوئی خاص تحقیق بھی نہیں۔ اور یہ ممکن بھی نہیں کہ اس کے لئے ریاضی کی الگ برانچ ایجاد کی جائے اور پانی کے ماہرین کو راتوں رات اس پر تربیت دی جائے۔
ایک اور اداریے میں لیٹن مائیر لکھتے ہیں، “ہائیڈرولوجی کا شعبہ ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک کرنے کے بارے میں سست ہے”۔
ہم ابھی اس بارے میں آنکھیں کھول رہے ہیں کہ یہ مسئلہ کس قدر بڑا ہے اور ہمارے پاس پرانے اوزاروں کے سوا کچھ اور نہیں۔ اور جب تک نئے طریقے نہیں ڈھونڈ لئے جاتے، خطرات کی پیشگوئی کرنا مشکل رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمیشہ کی طرح، بزنس اس کا ادراک سائنس سے زیادہ جلدی کر لیتے ہیں۔ فلوریڈا میں انشورنس کمپنیوں نے ریاست کے ریگولیٹرز سے استدعا کی کہ چونکہ خطرات بڑھ چکے ہیں، اس لئے انہیں ساحلی علاقوں میں گھروں کی انشورنس کے ریٹ پچاس فیصد کے قریب بڑھانے دئے جائیں۔ جب اس کو 2010 میں مسترد کر دیا گیا تو فلوریڈا کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی نے اپنا بزنس بند کر دیا اور 125000 گھروں کی انشورنس منسوخ کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ان علاقوں میں طوفانوں کے خطرات بڑھنے کی وجہ سے گھروں کی انشورنس دینا ممکن نہیں رہا۔ ان کا بزنس ماڈل کام نہیں کرتا۔ طویل مدت کے لئے اس علاقے میں موسم کی صورتحال اتنی تبدیل ہو چکی ہے کہ خطرات کے لئے پرانے اعداد و شمار کام نہیں کرتے۔
قدرتی آفات کی ہیت میں ہونے والی یہ تبدیلی آنے والے وقت میں تحقیق کا بڑا چیلنج ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ
Stationarity is dead
کی سرخی اس قدر سنسنی خیز تھی۔