سُربالا مالن کی بیٹی جھونپڑوں میں پلی تھی۔ اس نے کبھی محلوں کا خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ پھولوں کی سیج پر سونے میں کیا مزہ آتا ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتی تھی کہ گلے میں پھولوں کے گجرے سے کس قسم کا لطف حاصل ہو سکتا ہے۔ حالانکہ دوسروں کی سیجوں کے لیے پھول توڑنا اور دوسروں کے گلے کے لیے گجرے تیار کرنا اس کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ غنچہ و گل کی نگہت و صباحت میں اس نے اپنی زندگی کے سترہ سال گذار دیے تھے اور گذشتہ دس سال میں اس نے جتنے کنٹھے گوندھے غالباً ان کا شمار بھی مشکل تھا۔ یقیناً اس کے ہاتھوں توڑے ہوئے پھولوں کی تعداد رات کو آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی تعداد سے بڑھ گئی ہوگی۔ لیکن اس نے اپنی ذات کے لیے کبھی ایک بھی ہار بنانے کی جرات نہ کی، مرجھائے ہوئے پھولوں تک کو سونگھنا اس کے لیے حرام تھا کیونکہ وہ کنواری تھی۔ ابھی اس کا بیاہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے سہاگ کی رات آنے سے قبل پرانے لوگوں کی بنائی ہوئی رسوم کے مطابق اپنے آپ کو تمام عمدہ چیزوں سے محروم رکھنا اس کا فرض تھا۔ تاہم وہ پھولوں کی خوشبو سے ناواقف نہیں تھی۔ کیونکہ روزانہ جب باغیچے میں جاتی تو ہوا کے خوشگوار جھونکوں میں ملی ہوئی پھولوں کی مہک از خود ناک میں پہنچ کر مشامِ جان بن جاتی تھی۔ گویا وہ آسمانی ستاروں کی چمکدار گیندوں کو صرف دور سے دیکھتی تھی، ان سے کھیلتی نہیں تھی۔
علی الصبح چمن میں جانا اس کا معمول تھا۔ وہ رات بھر میں کھلے ہوئے ہر قسم کے تمام پھول توڑ لیتی۔ کچھ گجروں کے لیے، کچھ گلدستوں کے لیے، کچھ منتشر حالت میں فروخت کرنے کے لیے۔ چمن سے واپس آ کر وہ اپنے اور باپ کے لیے کھانا تیار کرتی کیونکہ ماں مر چکی تھی اور داسی رکھنے کا مقدور نہیں تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ سوئی تاگہ لے کر بیٹھ جاتی اور سہ پہر تک پھولوں کی ترتیب میں محو رہتی۔ شام ہوتے ہی اس سامانِ تزئین کو ٹوکری میں لگا کر وہ چوک چلی جاتی۔ اور شاید ہی کوئی دن ایسا منحوس ہوتا ہوگا کہ اس کا سب سامان فروخت نہ ہوتا ہو۔ بھلا کس طرح ممکن تھا کہ وہ اپنے سریلے ترنم میں پھولوں کی آواز لگائے اور جانے والوں کی توجہ اس کی طرف مبذول نہ ہو۔ بعض لوگ تو صرف اس لیے پھول خرید لیا کرتے تھے کہ بیچنے والی ایک عورت ہے اور وہ بھی نو شگفتہ غنچے کی طرح نوخیز۔ نسائیت میں یوں ہی کیا کم جاذبئیت ہوتی ہے کہ عالم شباب سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔ ان کیفیات میں ایک ہی بار جلوہ نمائی سے کچھ دیر کے لیے سنگین بت میں بھی ہم آغوشی کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے پجاری کے قدموں میں گر کر پاؤں چوم لوں۔
چوک سے واپس آ کر وہ پھر دوزخِ شکم کی آسودگی کے لیے کھانا تیار کرنے میں مشغول ہو جاتی۔ اکثر وہ سوچا کرتی کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ چکی کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوما جائے اور کبھی کوئی تبدیلی نہ ہو۔ وہ سونے کے لیے لیٹتی تو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر عمدہ بستر بھی نہ ہوتا تھا۔ تاہم اسے جلدی ہی نیند آ جاتی تھی۔ کیونکہ غیر ارادی طور پر پھولوں میں بسے ہوئے دامن اس کے دماغ کو معطّر کر دیا کرتے تھے۔ غنچوں کی نگہت میں رہتے رہتے وہ خود ایک غنچہ بن گئی تھی۔ لیکن گُل چیں کے دستبُرد سے محفوظ۔
(2)
ایک روز شام کے وقت وہ حسب معمول پھول بیچنے گئی۔ اس دن یا تو مانگ ہی زیادہ تھی یا خود اس کے اترے ہوئے چہرے کی بڑھی ہوئی رعنائیوں نے لوگوں کو گرویدہ کر لیا۔ بہرحال خلافِ توقع سب سامان بہت جلد فروخت ہو گیا۔ صرف ایک مختصر سا ہار باقی تھا۔ اس نے خیال کیا کہ ایک گاہک کے انتظار میں وقت گنوانا اچھا نہیں۔ آج کی اجرت بھی روز کی نسبت زیادہ ہو گئی ہے۔ بہتر ہے کہ یہ بچا ہوا کنٹھا مندر میں جا کر دیوی کے گلے میں ڈال دوں۔ پوجا کیے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں۔ وہ جلدی ہی اس فیصلہ پر پہنچ گئی۔ لہذا دیوی کے چرنوں میں خراج پیش کرنے کی نیت سے چوک کے شور و غوغا کو چھوڑ کر اس نے پُر سکوت مندر کی راہ لی۔
ابھی وہ راستہ ہی میں تھی کہ ایک شخص نے اسے ٹوکا۔ سربالا اسے جانتی تھی۔ وہ غیر تھا مگر اپنوں سے زیادہ۔ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے تھے، ایک ہی باغیچہ میں ایک ہی فضا میں۔ منوہر ٹھیکیدار کا لڑکا تھا، امیر تھا۔ اسے بھی سربالا سے محبت تھی لیکن اس نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اس بات کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا کہ ایک مالن کی لڑکی کو شریکِ حیات بنایا جائے۔ وہ رسم و رواج کے مطابق رشتہ جوڑے بغیر اسے اپنا بنا لینے کا آرزو مند تھا۔ لیکن سُربالا اسے کیوں گوارا کرتی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک دفعہ لغزش ہو جانے کے بعد زندگی ہمیشہ کے لیے لائقِ نفریں ہو جائے گی۔
کچھ عرصہ ہوا منوہر کی شادی ہو چکی تھی۔ سُربالا کو اس حقیقت کا علم تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا۔ ایسی باتیں پوشیدہ نہیں رہ سکتیں۔ اس لیے اگر منوہر صرف اپنی ذات کے لیے ہار کی فرمائش کرتا تو وہ کبھی دریغ نہ کرتی۔ بلکہ اگر پھول نہ ہوتے تو اسی وقت چمن میں گل چینی کے لیے جاتی اور پھول کھلے ہوئے نہ ہوتے تو وہ اپنے قلب کی تپش سے، اپنے تنفس کے جھونکوں سے، اپنے آنسوؤں کی طراوت سے اور سب سے زیادہ اپنے حسن کی گرمی سے ان کو قبل از وقت شگفتہ کر دیتی۔ یا آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو نوچ لیتی۔ یا اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کو منجمد کرتی اور گلاب کی پتیوں کی شکل میں کاٹ کر تاگے میں پرو لیتی۔ وہ کبھی گوارا نہ کرتی کہ منوہر کا دل میلا ہو، اسے رنج پہنچے۔ لیکن اب جانتی تھی کہ وہ پھولوں کا ہار کس ہستی کے لیے طلب کر رہا ہے۔ آتشِ رقابت اس کے سینہ میں بھڑک اٹھی، اس نے تہیہ کر لیا کہ پھولوں کو مسل کر پھینک دوں گی لیکن اس کو نہیں دوں گی۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔ وجہ بھی معقول تھی اس نے کہا:
“میں نیت کر چکی ہوں کہ یہ ہار دیوی کے گلے میں پہناؤں گی۔ اس لیے مجبور ہوں، تمھیں نہیں دے سکتی۔ کسی اور جگہ سے لے لو۔”
منوہر نے کہا: “سُربالا! تمھیں ہار دینا ہوگا۔ میں بھی اپنی دیوی ہی کے لیے مانگ رہا ہوں۔ میری دیوی تمھاری دیوی سے زیادہ سندر ہے۔”
ان الفاظ سے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار منوہر کو نام لے کر مخاطب کیا: “منوہر! اپنی دیوی کے گلے میں جوتیوں کا ہار پہنا دو۔ اس سے کہنا پھول بکنے بند ہو گئے۔ چمن میں خزاں آ گئی۔” یہ کہہ کر اس نے منوہر کا ہاتھ جھٹک دیا اور بظاہر مسکراتی ہوئی چل پڑی۔ لیکن چند ہی قدم کے بعد اپنے دامن میں آنسو جذب کرنے کی خاطر رکنا پڑا۔
(3)
وہ مندر کے دروازے پر پہنچی۔ اندر داخل ہوئی اور با دلِ نخواستہ ہار دیوی کے گلے میں ڈال دیا۔ اس نے پوری طرح پوجا کی رسم بھی ادا نہیں کی۔ اس کا دل تو آنسو بہانے کے لیے بے تاب تھا۔ وہ جلدی ہی باہر آ کر گھر چلی گئی۔
اس نے صبح کی بچی ہوئی باسی روٹی اپنے باپ کو کھلا دی، خود کچھ نہ کھایا۔ باپ کے پوچھنے پر بہانہ کر دیا کہ میری طبیعت خراب ہے، سر میں درد ہو رہا ہے۔ ایک یہی عذر ایسا ہے جس کو سننے والے جلدی تسلیم کر لیتے ہیں کیونکہ کسی قسم کا درد دکھائی نہیں دیتا۔
وہ سونے کے لیے چارپائی پر لیٹی تو برابر روتی رہی۔ کسی کروٹ چین نہیں آتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے منوہر کی بے وفائی پر اس قدر آنسو بہائے۔ اس کا دل بھرا چلا آتا تھا۔ وہ چپکے چپکے رو رہی تھی کہ کہیں باپ کو خبر نہ ہو جائے۔ کئی بار بے اختیاری کے عالم میں چیخ نکل جانے کے قریب تھی کہ اس نے ضبط سے کام لے کر اسے روک لیا۔ لیکن متلاطم سمندر کی طغیانی کہیں لکڑی کا بند لگانے سے روکی جا سکتی ہے۔ ایک زبردست سیلابِ گریہ تھا جو اسے جھونپڑی سے بہا کر ایک ایسے ساحل پر لے جانا چاہتا تھا جہاں سہارا دینے کے لیے منوہر کا ہاتھ ہو۔ اس کے رُبابِ حیات میں ترنم ریزیاں بیدار ہو رہی تھیں۔ زندگی کے تاروں میں لرزش تھی۔ کائنات کا ہر ذرہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ جب تک وہ ناشنیدہ نغمے جو اب تک بیرونِ ساز نہیں ہوئے فضا میں منتشر نہیں ہوں گے، تجھے کامل سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ بے قراریاں بڑھتی گئیں۔ اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر ہی اندر دل کو مسوس رہا ہے۔
وہ پشیمان تھی کہ اس نے منوہر کو ہار کیوں نہ دے دیا۔ فرمائش کرنے والا تو وہی تھا۔ اس سے کیا غرض کہ وہ کس کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کبھی کسی گاہک سے نہیں پوچھا تھا کہ تم پھول کیوں خرید رہے ہو۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا مصرف مختلف ہے۔ کوئی قبر پر چڑھاتا ہے تو کوئی مندر میں دیوی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ کوئی دوا بنانے کے لیے آگ پر رکھتا ہے اور کوئی لطفِ خواب حاصل کرنے کے لیے سیج پر بچھاتا ہے۔ کاش! آج اس کے دل میں پوجا کا خیال پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ وہ منوہر کو بالکل اجنبی سمجھتی اور ہار اس کے ہاتھ فروخت کر دیتی۔ یا ان سب سے زیادہ یہ کہ باغیچہ میں کوئی پھول نہ کھلا ہوتا تو بہتر تھا۔ وہ گھر سے نہ نکلتی، باہر ہی نہ جاتی، منوہر اسے نہ ملتا لیکن جو ہونا تھا سو ہو چکا۔
جوشِ اضطراب سے اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے لگے جو انسان کو لامذہب اور بے دین کر دیتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ پتھر کی بے جان دیوی پر پھول چڑھانا بالکل حماقت ہے جبکہ اس میں احساس کا مادہ ہوتا ہی نہیں۔ اس کے چہرے پر ناک ہوتی ہے مگر سونگھنے کی قوت نہیں۔ لہذا چنبیلی کی کلیاں ہوں یا دھتورے کے پھول، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔ اور پھر اس کو جاندار انسان سے زیادہ رتبہ کیوں دیا جائے۔ کسی تصویر کے نقوش جو نتیجہ ہیں مصور کی رعنائیِ خیال کا، کبھی اپنے نقّاش سے زیادہ فضیلت حاصل نہیں کر سکتے۔ لہذا مندر میں پوجا پاٹ سب لغو چیز ہے، انسان کو انسان ہی کی عبادت کرنی چاہیے۔
اس نے ایک فلسفی کی طرح یہ بھی سوچا کہ اگر منوہر بے وفا ہے تو ہوا کرے، میں اس جیسی کیوں بنوں۔ چاند سورج چھپنے کے بعد دوبارہ نکل آتے ہیں۔ ممکن ہے منوہر کا پھرا ہوا دل بھی کچھ عرصہ بعد میری طرف مائل ہو جائے۔ ہاے افسوس! گل چینی کرتے زمانہ گذر گیا۔ میری آنکھوں نے خزاں کے بعد بہار دیکھی مگر اس سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔
(4)
اس کا اضطراب بڑھتا گیا حتیٰ کہ اس نے محسوس کر لیا کہ اگر اس احمقانہ غلطی کا رد عمل نہ کیا گیا تو زندگی یقیناً دوبھر ہو جائے گی اور صبح پکڑنی مشکل ہو جائے گی۔ لہذا وہ چارپائی سے اٹھی لیکن اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ سانس روکے ہوئے، آہستہ قدم، دامن کو نہایت احتیاط سے اٹھا کر مبادا کسی چیز کے ساتھ الجھ کر کھٹکا پیدا نہ کردے۔ وہ باہر آ گئی۔ چاند کی روشنی زمین پر چھٹکی ہوئی تھی پھر بھی ہو کا عالم تھا۔ کوچہ و بازار میں بالکل سناٹا تھا، فضاے بسیط بالکل ساکت و خاموش، کائنات کا ہر ذرہ محوِ خواب تھا۔ بارہ بجے کا عمل۔ وہ تن تنہا ڈری ہوئی، سہمی ہوئی مندر کی جانب چل پڑی۔ اس نے خیال کیا کہ اگر اس سنسان میں کوئی بدمعاش، خبیث انسان اس کو سرِ بازار دیکھ لے بالکل بے باکانہ طور پر آدھی رات کے وقت جاتا ہوا اور دست درازی کر بیٹھے تو عزت بچانی مشکل ہو جائے گی۔ نیند کے ماتے اس کی چیخ پکار کو نہ سن سکیں گے۔ اس کے تمام جسم میں تھرتھری پیدا ہو گئی۔ شرم و حیا سے پسینہ آ گیا۔ رُک گئی، کچھ سوچا، پھر چل پڑی۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ اگر آج کی رات اپنے ہاتھ کےتوڑے ہوئے پھول بلکہ وہی پھول جو مندر کی چار دیواری میں دیوی کے گلے میں ڈال دیے ہیں، منوہر کی پُر شباب خلوت میں نہ پہنچا سکی تو ہمیشہ کے لیے گُل چینی ترک کر دوں گی۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ قرب و جوار کی کسی چیز پر نظر ڈالنی نہیں چاہتی تھی۔ اُس نے اپنے جسم کی تمام قوت ٹانگوں میں مجتمع کر دی اور ایسے تیز قدموں کے ساتھ جس کو دوڑے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، وہ گرتی پڑتی مندر کے دروازے تک پہنچ ہی گئی۔
(5)
کواڑ بند تھے لیکن اچھی طرح نہیں۔ کیونکہ اندر جلنے والے چراغ کی مدھم روشنی جِھری میں سے ہو کر باہر آ رہی تھی اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کنڈی کھلی ہوئی ہے۔ اور کنڈی لگانے سے فائدہ بھی کیا تھا۔ وہ سومناتھ کا مندر تو تھا ہی نہیں جس میں جواہرات کے بُت تھے۔ وہاں کی کل کائنات کی قیمتِ اصلی ان کو چُرا کر لے جانے والے کی مزدوری سے بھی زیادہ نہ ہوتی۔ ایسی صورت میں کس سلطانِ غزنی کا ڈر تھا کہ اس مذہبی متاعِ خاص کی رکھوالی کی جاتی۔ دروازے کے قریب نگہبان پجاری کی چارپائی تھی، مگر وہ بے خبر محوِ خواب تھا۔
سُربالا کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے سوچا اگر یہ مذہبی پیشوا بیدار ہو گیا تو اپنی بریت میں کس حیلے سے کام لوں۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ پوجا کا بہانہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ آدھی رات آ چکی تھی اور اس وقت دیوتا اور دیویاں بھی سو جاتی ہیں۔ نذر کون قبول کرے۔ وہ سچ بات بھی بیان نہیں کر سکتی تھی، کیونکہ وہ بوڑھا جس کے جذبات فنا ہو چکے تھے یہ تسلیم کرنے سے معذور تھا کہ جب محبت دل میں گھر کر لیتی ہے تو آنکھوں پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے اور ایسی صورت میں سواے مسلکِ عشق کے مذہب و ملت کا کوئی آئین نظر میں نہیں جچتا۔ ہزاروں دلیلیں اور سینکڑوں نظریے سُن لینے کے بعد بھی وہ یہ نہ مانتا کہ محبت کی خاطر مقدس معبد میں کسی قسم کی چوری جائز ہو سکتی ہے۔ تاہم سُربالا نے پس و پیش میں زیادہ وقت نہیں گذارا اور دور اندیشی کی تمام احتیاطوں کو بالائے طاق رکھ کر دروازے کو کھولنے کی غرض سے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ کواڑ پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ سر چکرا رہا تھا اور دماغ اسی کیفیت میں مبتلا تھا جو تیز جھولے میں سے گر جانے کے بعد طاری ہو جاتی ہے۔ اس نے لبوں پر زبان پھیر کر سانس کو سنبھالا اور دو چار بار پلکوں کو جلدی جلدی جھپکا کر قوتِ بینائی میں وہ لوچ پیدا کر لیا جس سے انسان معمول سے زیادہ دیکھنے لگتا ہے۔ اس نے ہاتھ کے دباؤ میں اضافہ کیا اور اس کے ساتھ ہی جِھری میں بتدریج فصل پیدا ہونے لگا۔ اس کا دل چور تھا۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ میں ایک جرم کا ارتکاب کر رہی ہوں جو دنیا والوں کی نگاہ میں نا قابلِ معافی ہے۔ لیکن محبت کی خاطر جس کی دنیا میں ہر مجلس قانون ساز کے آئین بدل جاتے ہیں، سب کچھ روا ہے۔
دروازہ کھل گیا۔ لیکن اس قدر آہستہ گویا وہ کُھلا ہی نہیں۔ وہ اندر داخل ہو گئی ایک غیر مرئی سایہ کی طرح۔ مدھم روشنی تھی، چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی۔ کڑوے تیل کا دیا جل رہا تھا اور اس کی لو کے ارتعاش پیہم کے باعث پتھر کی مورت سے لے کر چھت میں آویزاں گجر تک ہر چیز کا سایہ سامنے کی دیواروں پر رقص کر رہا تھا۔ اس نے ان میں سے کسی چیز پر نگاہ نہیں ڈالی۔ اس وقت افسانوی رنگ سے زیادہ اس پر ذاتی جذبات کا بھوت سوار تھا۔
اس نے ادھر اُدھر نگاہ ڈالی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھی اور مورت کے بالکل قریب جا کر اس نے پُر سکوت لہجہ میں کہا:
“دیوی! میں قربان، تو اپنے گلے کا ہار مجھے دے دے۔ میں یہ اپنے محبوب کو پیش کروں گی۔ اور ہاں اے پتھر کی بے جان مورت!” اس نے مستفسرانہ لہجہ میں کہا: “کیا کبھی تجھ کو بھی کسی سے محبت ہوئی ہے۔ لیکن نہیں، میں بھولی۔ تیرے پاس تو وہ دل و دماغ ہی نہیں ہیں جن پر محبت کے نقوش ثبت ہو سکتے ہیں۔ تیرا جسم تو پتھر کا ہے، سخت پتھر کا۔” گویا اس نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا۔
(6)
وہ سیڑھی پر چڑھ گئی اور اپنا دایاں ہاتھ مورت کی طرف بڑھا دیا۔ اس کی انگلیاں جو باوجود موسمِ گرما کے سخت سرد ہو رہی تھیں، ہار کے پھولوں سے مَس ہوئیں۔ فوراً قوتِ برق کی سی ایک تیز لہر سر کی چوٹی سے پاؤں کی ایڑھی تک تمام جسم میں جسم کے ہر رونگٹے میں ایک ارتعاش پیدا کر گئی اور جس طرح ساحلِ دریا پر کھڑے ہو کر پانی کی روانی کو دیر تک دیکھتے رہنے سے چکر آنے لگتے ہیں، وہی کیفیت اس پر بھی طاری ہو گئی۔ اگر اس وقت وہ ہوشیاری سے کام لے کر مورت کے آگے بڑھا ہوا ہاتھ نہ پکڑ لیتی تو یقیناً توازن کے بگڑ جانے کے باعث نیچے گر پڑتی۔ اس وقت خدا جانے کیا حشر ہوتا، کیونکہ لازمی امر تھا کہ اس دھماکے سے نگہبان پجاری کی آنکھ کھل جاتی اور پھر سارا حال بھی منکشف ہو جاتا۔
اس نے سوچا کہ یہ ارادہ ترک کر کے واپس چلا جانا چاہیے۔ لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ کہ تمام محنت اکارت جاتی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے وہی بے چینی، وہی جان لیوا اضطراب، بھلا وہ کب ساتھ چھوڑے گا۔ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ لہذا اس نے اپنی ہمت بلند کی۔ استقلال سے کام لیا۔ اور اس طرح جیسے بلی چوہے پر جھپٹا مارتی ہے، اس نے دیوی کے گلے میں سے اپنا پیش کیا ہوا ہار اتار لیا۔
اب دوسری مہم مندر سے باہر جانے کی تھی۔ اس نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ آنکھوں کی آخری سوئیاں نکالنے میں غفلت ہو جائے اور حصولِ مقاصد سے محروم رہ جاؤں۔ لیکن خود ہی عقائد کی غیر مدلّل قوت کو بروے کار لا کر اس نے خیال کیا کہ جس پرمیشور نے یہاں تک پہنچنے میں کامیابی دی ہے وہی میری دلی آرزو کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دے گا۔ عقائد خواہ کتنے ہی ناقص اور غیر بنیادی کیوں نہ ہوں، وقت پر عزم کو راسخ کرنے کے لیے کام آ ہی جاتے ہیں۔ بھلا سوچنے کی بات ہے، اگر کوئی شخص سُربالا سے سوال کرتا کہ کیا پرمیشور ہی چوریاں کراتا ہے تو اس کے پاس اپنی ناقص منطق کا کیا جواب ہوتا۔
چنانچہ اندر داخل ہوتے وقت اس نے جس احتیاط سے کام لیا تھا، اسی طرح آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر دبے پاؤں باہر نکل گئی۔ اور صبح ہونے کے بعد بھی پجاری کے فرشتوں کو علم نہ ہوا کہ رات کے وقت مندر میں چوری ہو گئی ہے۔ کیونکہ پھولوں کا معمولی ہار کچھ ایسی زیادہ وقعت نہیں رکھتا کہ اس کی غیر موجودگی کسی کی نظر میں کھٹکے۔
(7)
وہ ایک بار پھر ڈرتی سہمتی اسی راستہ سے واپس پلٹی جس پر سے خوف و ہراس کے عالم میں گذری تھی۔ اس کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ بدن کے ایک ایک عضو میں کپکپی تھی۔ وہ اپنے جھونپڑے کے سامنے سے ہو کر منوہر کے مکان پر پہنچی کیونکہ وہ زیادہ دور نہیں تھا۔ ہر قدم پر ہیجان جذبات میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ جب اس نے دروازے کی جھری کے قریب آنکھ کی اور جھانک کر صحن میں دیکھا تو اس کے جوش میں کبھی نہ ساکن ہونے والے سیماب کی طرح ایک جان سوز تڑپ پیدا ہو گئی۔ شاید وہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب میں بھی جوان ہو گئی ہوں۔
اس نے دیکھا کہ منوہر اپنی شریک حیات کے گلے میں بانہیں ڈالے محوِ خواب ہے۔ اس نے ایک لمحہ کے لیے سوچا کہ اب کیا تدبیر کرنی چاہیے۔ دستک دے کر انھیں بیدار کر دینا نہ صرف زبردست حماقت بلکہ ایک حد تک غیر موزوں امر بھی ہے۔ اور بغیر تکمیلِ مقصد کے واپس چلے جانا گویا ہلاکت آرزو اور پامالیِ تمنا کے مترادف تھا جس میں شکستگیِ جذبات کی تھوڑی سی تلخی بھی شامل ہو اور یہ کوئی شخص بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ لہذا اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں تھی کہ باہر سے کھڑے ہو کر ہار کو صحن میں اس طرح پھینکے کہ وہ منوہر کے اوپر جا پڑے۔ لیکن اندیشہ تھا کہ اندازہ ٹھیک نہ ہو اور وہ کسی دوسری طرف جا گرے، یا ممکن ہے بالا خانہ کی چھت پر جا پڑے۔ وہ سوچتی رہی، سوچتی رہی یہاں تک کہ مرغانِ سحر کے چہچہے اسے سنائی دینے لگے۔ صبح کی سفیدی نمودار ہونے والی تھی۔ وہ گھبرا گئی، پریشان ہوئی۔ اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگی کہ تمام وقت سوچنے ہی میں گذار دیا۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ تھوڑی دیر میں لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو جائے گی۔
اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور ہاتھ بڑھا کر دیوار کے اوپر سے ہار صحن میں پھینک دیا۔ اس کے گرنے کی آواز سنائی دی لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں۔ وہ اب بالکل ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی۔ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔ اس کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ کہیں پتا جی بیدار نہ ہو جائیں۔ اگر انھوں نے دیکھ لیا کہ سربالا کی چارپائی خالی ہے تو صدہا قسم کے شکوک ان کے دل میں پیدا ہو جائیں گے۔ کبھی خیال کریں گے کہ لڑکی آوارہ ہو گئی ہے، کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ کبھی سوچیں گے کہ شاید پریشانیوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی، قریب کی ندی میں جا کر ڈوب مری۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئے گی کہ وہ محبت بھرے دل کے ساتھ بارگاہِ عشق میں اپنا پہلا خراج پیش کرنے گئی ہے۔ کیونکہ انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کے حافظہ کی کمزوری رفتہ رفتہ سابقہ رنگینیوں کے نقوش کو لوحِ قلب سے مٹاتی جاتی ہے۔
وہ ہانپتی کانپتی اپنے جھونپڑے میں پہنچی اور اطمینان کا سانس لیا یہ دیکھ کر کہ ابھی بوڑھا باپ بیدار نہیں ہوا ہے۔ اس نے جلدی سے منہ دھویا، آنکھیں صاف کیں تاکہ بے خوابی کے باعث ان کے اندر نمودار ہو جانے والے سُرخ ڈورے غمازی نہ کرنے لگیں۔
اس کام سے فارغ ہو کر اس نے اپنی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی چمن میں چلی گئی۔ نہیں معلوم فریبِ نظر تھا یا کیا۔ آج کائنات کا ایک ایک ذرہ اسے درخشاں نظر آ رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا گذشتہ رات ہی سے موسمِ بہار شروع ہوا ہے اور اس سے قبل خزاں تھی۔ اس نے دیکھا کہ غنچے غیر معمولی طور پر زیادہ متبسّم ہیں، شاید اس کی کامرانی پر ہنس ہنس کر مبارکباد دے رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کے پروں میں قوس قزح کا رنگ بھر گیا تھا اور بازوؤں میں بجلی کی سی قوت پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ بادلوں سے ترکیب پانے والے پہاڑوں کی وادیوں میں فرشتے رقص کرتے اور گاتے دکھائی دیے۔ وہ کبھی کبھی کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس وقت میرا ہی وجود اس آسمانی مخلوق کے لیے موضوع رقص و موسیقی بنا ہوا ہے۔ لیکن آخر یہ تمام تغیّر نظامِ قدرت میں کس وجہ سے ہے اور کائنات کے ذرے کس کے دل کی دھڑکن اور کس کی ضرباتِ نبض کے ساتھ ہم آہنگ ہو جانے کے لیے بے تاب ہیں؟
قبل اس کے کہ اس کا ذہن ان سوالات کے جواب کی تحقیق کرے، شرم کا پسینہ اس کے چہرے پر نمودار ہو گیا۔ لجاتے ہوئے اس نے اپنا دامن سنبھالا اور گلاب کی پتیوں کو چٹکی میں مسلتی رہ گئی۔ افسوس ہے کہ اس فضاے نگہت و صباحت میں اس رنگِ رُخ کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہاں کوئی اتنا بھی نہیں تھا کہ اگر اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائے تو اس تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کر کے اظہارِ ہمدردی کرنے لگے۔
(8)
شام کے وقت حسبِ معمول وہ گجرے وغیرہ لے کر چوک گئی۔ لیکن آج شاید سُرمہ در گلو تھی، اس کی آواز ہی نہ نکلتی تھی۔ اور اگر نکلتی بھی تو اس پرندہ کی طرح جو یکایک اسیرِ دام ہو جانے کے باعث چہچہانا بھول گیا ہو۔ اس نے گاہکوں کے ساتھ بے التفاتی برتی۔ وہ معمولی ہار کی قیمت اس قدر زیادہ بتاتی کہ لوگ بگڑ کر چلے جاتے۔ دو ایک منچلے نوجوانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پھولوں کا مول کر رہی ہو یا خود اپنے حسن کا۔ اور اگر سُربالا اپنے خیالات میں محو نہ ہوتی تو یقیناً یہ ناشائستہ الفاظ اسے برہم کر دیتے۔
وقت گذرتا گیا اور ایک پیسے کی بھی بونی نہ ہوئی۔ لیکن اس نے واپس جانے کا نام نہ لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کی منتظر ہے۔ اور یہ تھی بھی حقیقت، کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد منوہر آن پہنچا۔ اسے دیکھ کر سُربالا نے زمین پر ٹوکری رکھ دی اور خود اس طرح علاحدہ کھڑی ہو گئی گویا نظر بچا کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ منوہر نے ایک گجرا اٹھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں اس طرح آنکھیں ڈال کر گھورا کہ سُربالا کی نوکِ مژگاں پر جمے ہوئے آنسو جو نہیں معلوم کب تڑپ کر باہر نکل آئے تھے، ضبط کی تاب نہ لا سکے۔ اس نے یہ سب کچھ دیکھا مگر ظاہر کیا گویا کچھ نہیں دیکھا۔ اور بے شک مصلحت اسی میں تھی۔ کیونکہ اگر وہ معمولی طور پر اتنا ہی پوچھ لیتا کہ “سُربالا! تم کیوں رونے لگیں؟” تو نہیں کہا جا سکتا کہ خود اس کے جذبات کی بر انگیختی اس کے نظامِ ہستی میں کس قسم کی تبدیلی پیدا کر دیتی۔
منوہر نے گجرا ٹوکری میں رکھ دیا اور کسی قدر طنز کے ساتھ کہا:
“اونھ! یہ تو کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ رات ہم سو رہے تھے تو کسی آسمانی دیوی نے ہمارے اوپر ہار ڈال دیا۔ وہ اتنا عمدہ اور اتنا اچھا تھا کہ تعریف نہیں کی جا سکتی۔ سمجھیں سُربالا؟ مجھے یقین ہے کہ آج بھی کوئی دیوی ہار پھینک جائے گی۔ لہذا میں تم سے کیوں خریدوں؟ ٹھیک ہے نا؟”
سُربالا کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، سواے اس کے کہ اپنے آنسوؤں کی جھڑی میں ایک مصنوعی تبسّم کی جھلک پیدا کر دے۔
منوہر چلا گیا اور وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ کر بھی کیا سکتی تھی۔ نسائیت مانع تھی۔ اتنی ہمت نہ تھی کہ بھاگ کراس سے کہتی کہ “رات کو ہار پھینکنے والی دیوی میں ہی ہوں”۔ چند منٹ تک وہ گُم سُم بنی کھڑی رہی اور اس کے بعد واپس لوٹ گئی۔ حسبِ معمول باپ نے پوچھا کہ پھول کتنے بیچے ہیں۔ اس نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے فوراً کہہ دیا کہ سب بک گئے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کو پہلے ہی سے باغیچہ میں ایک محفوظ جگہ چھپا آئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ باپ تو روپے پیسے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ وہ خود ہی ہر قسم کے آمد و خرچ کی مختار تھی۔ اگر وہ یہ کہہ دیتی کہ آج چوک پر پھول کی ایک پتی بھی فروخت نہیں ہوئی تو بہت ممکن تھا کہ دوسرے دن وہ اسے نہ جانے دیتا، اس خیال سے کہ اب پھولوں کی مانگ کم ہو گئی ہے۔
)9(
رات کے خاموش لمحے گذرتے چلے جا رہے تھے مگر سُربالا کو کسی عنوان نیند نہ آتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود اس ہی کی مرضی نہیں ہے کہ آنکھ لگے۔ وہ بیدار رہنا چاہتی تھی۔ وہ ایک مخصوص وقت کی منتظر تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ منوہر کے قول کے مطابق میں آج پھر ایک دیوی بن کر چین سے سونے والوں پر پھولوں کی بارش کروں گی۔ چنانچہ جب بارہ بجے کے گھنٹے کی بھیانک آواز نے رات کے طلسمِ سکوت کو توڑا تو وہ فوراً اپنی چارپائی سے کھڑی ہو گئی۔ باپ کے خراٹوں کی تیز آواز آسودگیِ خواب کا تسلی بخش ثبوت تھی اور ظاہر تھا کہ بازاروں میں آمد و رفت کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہوگا۔
وہ سب سے پہلے باغیچہ میں گئی اور وہاں پوشیدہ ٹوکری میں سے چند گجرے نکال کر دامن میں چھپا لیے۔ وہ کچھ دیر ٹھٹکی، ٹہری اور گہرا سانس لے کر ہر چیز پر مسرت کی نظر ڈالی، پھر چل پڑی۔ کچھ ایسے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ گویا ایک مخصوص منزلِ مقصود اس کی نظر کے سامنے نہیں ہے۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نبض تیز تر تھی۔
وہ چوروں کی طرح چھپتی چھپاتی اور گلیوں میں دکانوں کے ساتھ لگے ہوئے تختوں کے نیچے سونے والے کتوں سے کتراتی، منوہر کے مکان کے قریب پہنچ گئی۔ پہلے سوچا کہ ہاتھ بڑھا کر گجرے پھینک دوں، مگر فوراً خیال آیا کہ جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ منوہر کس شان سے سو رہا ہے۔ چنانچہ اس ارادے کے ساتھ وہ دو قدم اور آگے بڑھی، چاہتی تھی کہ جھری میں سے جھانکے کہ اچانک کواڑ کھل گئے۔ منوہر اُس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ سر سے پاؤں تک کپکپا اٹھی، روئیں روئیں میں تھرتھری تھی۔ دل کی دھڑکن میں اختلاج کی حد تک اضافہ ہو گیا۔ ہر شے اس کی نگاہ میں رقص کرتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ پاؤں شل ہو گئے۔ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں اور ہاتھ آنچل سنبھالنے میں مصروف تھے۔ چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔
آخر منوہر نے طلسمِ سکوت کو توڑا:
“سُربالا! کیا تم میرے پاس آئی ہو؟ مجھ سے کوئی ضروری کام ہے؟ اور یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے؟”
یہ کہہ کر اس نے ساری کے نیچے سے سُربالا کا وہ ہاتھ پکڑ لیا جس میں گجرے تھے اور انھیں دیکھ کر اظہارِ تنفّر کے ساتھ کہا:
“میں تو آج ایک بھی پھول نہیں خریدوں گا، اگر خریدنے ہوتے تو چوک پر ہی لے لیتا۔ ہاں اگر تم بطور تحفہ پیش کرو تو میں قبول کر سکتا ہوں۔”
سُربالا کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور اگر منوہر نہ سنبھالتا تو یقیناً سب پھول زمین پر گر جاتے۔ لیکن وہ منہ سے نہ بولی۔ اس کی زبان بند ہو گئی تھی۔ اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھر منوہر بولا: “سُربالا! اندر آ جاؤ۔ دہلیز پر کھڑے رہنا مناسب نہیں ہے۔ میری بیوی میکے چلی گئی ہے، آج گھر میں کوئی نہیں ہے۔”
پہلے تو وہ اندر جانے کے لیے تیار ہو گئی مگر یہ سن کر کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، پھر ٹھٹک کر رہ گئی۔ “گھر میں کوئی نہیں ہے” ایک تیز اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ یہ جملہ اس کی زبان سے صداے بازگشت کی طرح نکل گیا۔
“آ بھی جاؤ، کیا حرج ہے۔ تمھاری موجودگی اس تنہائی کو دور کر دے گی۔”
یہ کہہ کر اس نے سربالا کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گیا۔ وہ اس طرح چل رہی تھی گویا اس میں جان ہی نہیں ہے، بلکہ بجلی کی قوت لوہے کی مشین کو چلا رہی ہے۔ صحن میں پلنگ بچا ہوا تھا لیکن چادر پر ایک بھی شکن نہیں تھی جس سے ظاہر تھا کہ اس وقت تک کوئی اس پر نہیں لیٹا۔ وہ چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ مگر منوہر نے گھسیٹ کر اپنے قریب بٹھا لیا۔
“مجھے معاف کر دو سُربالا! میری غلطی تھی کہ میں نے تمھاری محبت کو ٹھکرا دیا۔ لیکن کل سے محسوس کر رہا ہوں کہ تمناؤں میں تجدید ہو رہی ہے۔ اب تم میری ہو اور میں تمھارا۔ لو میرے ہاتھ سے یہ کنٹھا پہن لو۔”
“نہیں نہیں، میں ہرگز نہیں پہنوں گی۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ پھول صرف سہاگنوں کے لیے ہوتے ہیں اور میری ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ میں کس طرح پہن لوں۔ کیا تم نہیں جانتے؟”
“میں جانتا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں لیکن غالباً تم یہ نہیں جانتیں کہ آج کی رات تمھارے لیے سہاگ ہی کی رات ہے۔ اس لیے اپنے پریمی کے ہاتھ سے پھول پہننے میں تامّل نہ کرو۔”
(10)
منوہر نے پھونک مار کر چراغ گل کر دیا۔ اس کی رہی سہی مدھم روشنی بھی غائب ہو گئی۔ سُربالا کو پہلے تو یقین نہ آتا تھا لیکن نمودِ سحر سے قبل اسے بھی تسلیم کر لینا پڑا کہ بے شک وہ رات اس کے لیے سہاگ کی پہلی رات تھی۔