کتنے ہی دن گزر چکے تھے مگر شفی کا کچھ پتا نہیں لگا۔۔
سب کا خیال تھا کہ پاس بہتہ پانی شاید اسے بھی ڈبا لے گیا۔۔
اوروہ مر چکا۔۔
پھر بھی انہوں نے بہت کوشش کی مگر شفی کی لاش کا کچھ پتا نہیں لگا۔۔
وصی اب تھوڑا ٹھیک ہوگیا تھا۔۔
اور فاروق صاحب اسے گھر لے آئے تھے۔۔
مگر وہ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر لہراتا۔۔جب شفی اسے چھوڑ کر چلا گیا۔۔
وہ سارا دن بس اپنے کمرے میں رہتا۔۔
گھر والے بھی زیادہ اس کے سامنے کوئی بات نہیں کرتے۔۔
وہ لوگ جانتے تھے۔۔جتنا دکھ انہیں ہوا تھا شفی کے جانے سے۔۔اس سے زیادہ دکھ وصی کو ہوا۔۔
شفی نا صرف اس کا بھائی تھا۔۔
بلکہ ایک بہت اچھا دوست بھی تھا۔۔
جس کے ساتھ ہنسنا، کھیلنا، شرارتیں کرنا۔۔
سب اس کے سامنے کسی فلم کی طرح آرہا تھا۔۔
وہ سوچتے ہی۔۔نا چاہتے ہوئے رونے لگتا۔۔
اکثر گھر والے اسے روتا دیکھتے۔۔
اسے روتا دیکھ سب کے ضبط کیے آنسوں نکل جاتے۔۔
شاید وصی کے لیے یہ دکھ بہت بڑا تھا۔۔
وہ بہت مشکل سے نور کے دکھ سے نکل کر واپس زندگی میں لوٹ آیا تھا۔۔مگر شفی کے جانے بعد وہ سنجیدہ طبیعت کا مالک ہوچکا تھا۔۔
آسمان پر بادل چھائے تھے۔۔
سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا۔۔
شام کا وقت اسے اکثر اداس لگتا۔۔
اور وہ لان میں آکر بیٹھ جاتی۔۔
وہ لان میں اداس بیٹھی تھی..
کتنی ہی دیر وہ بیٹھی رہی۔۔
سوچوں میں گم۔۔
شفی کے جانے کے بعد وہ اور بھی خاموش رہتی۔۔
کسی زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔۔
وہ اپنے دل کی بات کسی سے زیادہ شیئر نہیں کرتی تھی۔۔
وہ چپ چپ رہنے والی لڑکی تھی۔۔
مگر اب تو وہ تنہائی پسند ہوگئی تھی۔۔
شاید شفی کے جانےسے۔۔
وہ کسی سوچ میں گم تھی کہ بادل برسنے لگے۔۔
وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔۔
تبھی شائستہ بیگم وہاں آئی۔۔
“حور۔۔۔حور۔۔۔” انہوں نے پکارا۔۔
اور اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔۔
“جی۔۔جی مما” وہ ہڑبڑائی۔۔
اور ب اسے احساس ہوا کہ وہ بھیگ چکی ہے۔۔
“بھیگ کیوں رہی ہو بارش میں؟۔۔۔اندر آؤ۔۔ٹھنڈ لگ جائے گی” شائستہ بیگم نے تیز لہجے میں کہا۔۔
“جی۔۔۔” وہ کہتی اندر کی جانب بڑھی۔۔
“جاؤ۔۔کپڑے بدل کر کچن میں آؤ۔۔”
وہ کہ کر کچن کی جانب چل دی۔۔
اور وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔
وہ گزر رہی تھی کہ اسے کراہنے کی آواز آئی وصی کے کمرے سے۔۔
“کہیں۔۔وصی کو کسی چیز کی ضرورت ہو”
وہ دروازے کے باہر کھڑی سوچ رہی تھی۔۔
پھر آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔
وصی واش روم کے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔۔
اس کے بازو کی پٹی لال خون سے بھری تھی۔۔
اور اس کے چہرے سے ہی پتا چل رہا تھا کہ اسے کتنی تکلیف ہے۔۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی۔۔
وصی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔۔
اس کے چہرے پر یک دم ناگواری اتری۔۔
جبکہ حور اس کے بازو کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ گھبرا کر یک دم اس کی طرف بڑھی۔۔
“یہ۔۔آپ کا۔۔خون۔۔” وہ پریشان ہوئی۔۔
“کس سے پوچھ کر اندر آئی ہو؟”
وصی نے کاٹ کھانے والی نظروں سےاسے دیکھا۔۔
وہ خاموش رہی۔۔
“کیا تمہیں اتنی تمیز نہیں کہ دروازہ نوک کر کے اندر آتے ہیں؟۔۔۔” وصی نے غصہ سے کہا۔۔
“وہ مجھے لگا آپ کو ضرورت ۔” حور نے سہم کر کہا۔۔
“جاؤ۔۔۔” وصی نے غصہ ضبط کرتے ہوئےکہا۔۔
“مگر۔۔۔یہ۔۔خون۔۔آپ۔۔”
“جاؤ۔۔۔” وہ زور سے چیخا۔۔۔
وہ یک دم سہمی۔۔اس کی آنکھوں میں آنسوں امڈ آئے ۔۔۔اور وہ پلٹ کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔۔
اس کے جانے کے بعد وصی کو احساس ہوا۔۔
“یہ کیا ہوگیا ہے تجھے وصی۔۔۔؟”
وصی نے سر پر ہاتھ رکھا۔۔
وہ دوڑتی ہوئی کچن کی طرف بڑھی۔۔
آنسوں اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔
شائستہ بیگم کچن میں چائے بنا کر کپ میں انڈیل رہی تھی۔۔
“مما۔۔۔” حور کی بھری آواز ان کے کانوں میں پڑی۔۔
وہ یک دم پلٹی۔۔
“حور۔۔۔” وہ گھبرا کر اس کے پاس آئی۔۔
“مما۔۔۔مما وہ ۔۔” حور نے روتے ہوئے کہا۔۔
“کیا ہوا حور۔۔رو کیوں رہی ہے؟”
وہ پوچھنے لگی۔۔
“مما۔۔وصی۔۔۔کے بازوں سے خون نکل رہا ہے۔۔ ”
حور نے انہیں ساری بات بتا دی۔۔
“میں دیکھتی ہوں۔۔۔”
وہ کہ کر کچن سے باہر نکل گئی۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا۔۔بیڈ پر ایڈ بوکس رکھے۔۔
ایک ہاتھ سے اپنی پٹی بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
“وصی۔۔۔” تبھی پھپھو کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔
اور وہ اندر آئی۔۔
“وصی۔۔۔یہ۔۔کیسے کرلیا تم نے۔۔۔مجھے بلا لیتے۔۔۔ کوئی وزن اٹھا لیا ہوگا۔۔۔اس ہاتھ سے ابھی کام نہیں کرنا تمہیں۔۔”
وہ اس کے پاس بیٹھ کر بے جارہی تھی۔۔
“مجھے دیکھاؤ۔۔۔”
وہ اس کے بازو پر خود پٹی کرنے لگی۔۔
وہ خوموش رہا۔۔
“وصی۔۔۔تم نے کیا حال کرلیا۔۔ زخم بھرا نہیں ہے ابھی۔۔”
انہوں نے فکر ظاہر کی ۔
“زخم کبھی نہیں بھر سکتا پھپھو۔۔”
وصی نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“وصی۔۔۔کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔”
پھپھو نے اسے دیکھا۔۔
“پھپھو۔۔۔کاش اس دن شفی کی جگہ۔۔میں چلا جاتا۔۔
ان۔۔۔ان گولیوں کی بوچھاڑ۔۔۔۔”
وصی کی آواز بھر آئی۔۔
اور مزید اس سے کچھ کہا نہیں گیا۔۔
“وصی۔۔۔کیوں کہ رہا ہے ایسا۔۔۔کیوں کر رہا ہے ایسا۔۔کتنے دن ہوگئے تجھے۔۔مگر۔۔۔”
پھپھو نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں سمویا۔۔
“میں جب جب۔۔۔حور کو۔۔آپ کو، ددا، ددو۔۔آپ۔۔آپ سب کو اداس دیکھتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے میں مر۔۔۔”
وصی کچھ کہتا اس سے پہلے ہی پھپھو نے ٹوکا۔۔
“وص۔۔۔نہیں۔۔۔اللہ کی یہی رضاتھی۔۔
اب بس۔۔اور نہیں کر ایسی باتیں۔۔ہم تجھے کھونا نہیں چاہتے”
پھپھو نے اسے گلے لگایا۔۔
اور کو ایک بار پھر سے دکھ نے رونے پر مجبور کیا۔۔
رات گہری ہوگئی تھی۔۔
مگر نیند اس کی آنکھوں سےکوسوں دور تھی۔۔
وہ بیڈ کراؤں سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔
ہلکی روشنی کمرے میں چھائی تھی۔۔
بارش رک چکی چکی تھی۔۔
ٹھنڈی ہوائیں کھڑکی ے ٹکرا کر اندر آرہی تھی۔۔
کھڑی کے دروازے ہوا سے بج رہے تھی۔۔
وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئی۔۔
یک دم ہی ایک ٹھنڈے جھونکے نے اس کا اس کا استقبال کیا۔۔
چاند کی روشنی پھیلی تھی۔۔
اس نے چاند کی طرف دیکھا۔۔
جو اپنی روشنی کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔۔
چاند کبھی بادلوں میں چھپ جاتا کبھی نکل آتا۔۔
وہ چاند پر نظر ٹکائے۔۔اپنی زندگی پر نظر ثانی کرنے لگی۔۔
شفی کی ایک ایک بات اس نے ان دنوں کئی بار سوچی تھی۔۔
“کیا میرے لیے میرے نصیب میں یہی تھا۔۔۔؟”
وہ سوچنے لگی۔۔
“میں اسے پسند نہیں کرتی تھی۔۔دور رہتی تھی۔۔
پھر وہ خود قریب آیا۔۔جب اسے جانا ہی تھا تو اتنا قریب کیوں آیا وہ۔۔۔کیوں مجھے سپنے دکھائے۔۔؟”
وہ خود کلامی کرنے لگی۔۔
“میرے نصیب میں خوشیاں نہیں ہیں۔۔۔
اگر ہوتی تو پے میرے پاپا۔۔اور اب شفی بھی۔۔مجھے چھوڑ کر نہیں جاتے۔۔”
وہ خود کو کوسنے لگی۔۔
دو آنسوں اس کے گال کو بھگو گئے۔۔
“اماں۔۔۔یہ لیں آپ کی دوا کا ٹائم ہوگیا”
شائستہ بیگم نے انہیں دوا تھمائی۔۔
“شائستہ میرے دل میں ایک بات ہے”
ددو نے انہیں گلاس تھماتے ہوئےکہا
“کیا بات؟”
شائستہ بیگم نے پوچھا
“اگر ہم وصی کی شادی حور سے کردیں تو۔۔؟”
ددو نے اپنے دل کی بات بتائی
“مگر اما یہ کیسے ہوسکتا ہے؟”
انہوں نے حیرت سے پوچھا
“کیوں نہیں ہوسکتا؟”
اماں نے حیرانی سےالٹ پوچھا
“اماں۔۔وصی۔۔ مانے گا۔۔؟”
شائستہ بیگم نے سوال داغا
“کیوں نہیں مانے گا؟۔۔۔میں منا لوں گی اسے۔۔تو اپنا بتا تجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔؟”
ددو نے پوچھا
“نہیں اماں۔۔۔مکھے کیا اعتراض ہوگا۔۔وصی اچھا لڑکا ہے۔۔
یہ الگ بات تھی کہ ہم نے ہمیشہ حور اور شفی کو ایک ساتھ دیکھنا چاہا تھا۔۔
مگر قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔۔”
شائستہ بیگم نے اداسی سے کہا۔۔
“آپ وصی سے بات کر کے دیکھیں۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا
“ہاں میں کرتی ہوں۔۔۔”
اماں نے اثںات میں سر ہلایا۔۔۔
وصی کا بازوں اب ٹھیک ہوگیا تھا۔۔
دو دن بعد اسے ڈیوٹی جوئن کرنی تھی۔۔
وہ لاؤنج میں بیٹھا تھا۔
جب شائستہ بیگم کمرے میں آئی۔۔
“حور۔۔کہاں ہے؟”
ددو نے پوچھا۔۔
“کمرے میں ہے۔۔بخار ہے اسے۔۔کچھ کھا بھی نہیں رہی”
شائستہ بیگم نے فکرمندی ظاہر کی۔۔
“کمزور اتنی ہوگئی ہے۔۔کچھ کھاتی کہاں ہے یہ۔۔
پتا نہیں کیا ہوتا جارہا ہے”
ددو نے کہا
“پھپھو ڈاکٹرکے پاس بھیج دو۔۔”
وصی نے سنجیدگی سے کہا
“ہاں میں لے جاتی ہوں۔۔۔۔”
پھپھو اٹھ کھڑی ہوئی
“میں چلوں۔۔۔؟” وصی نے پوچھا
“نہیں میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں گی تم آرام کرو”
شائستہ بیگم نے مسکرا کر کہا اور باہر نکل گئی۔۔
“وصی ایک بات کہوں؟”
ددو نے کہا۔۔
جی ددو۔۔کہیں” وصی نے انہیں دیکھا۔۔
“وصی۔۔ تو جانتا ہے شفی کے جانے بعد۔۔حور بہت بدل گئی ہے۔۔ناہنستی ہے ، نا کسی سے بولتی ہے، نا کھاتی پیتی ہے ٹھیک سے۔۔۔۔” ددو نے اس کے چہرے پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا۔۔
“ہمم۔۔۔سہی کہ رہی ہیں آپ۔۔”
وصی نے کہا
“وصی میں سوچ رہی ہوں۔۔۔حور کی شادی کر دینی چاہیے ہمیں۔۔۔ہوسکتا ہے وہ اپنی نئی زندگی میں مصروف ہوکر شفی کو بھلا دے۔۔” ددو نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“جی۔۔دیکھ لیں۔۔۔جو سہی لگتا آپ لوگوں کو۔۔”
وصی نے جواب دیا۔۔
“ہم چاہتے ہیں حور کی شادی تم سے ہوجائے۔۔”
ددو نے یک دم بم پھوڑا
“کیا؟” وصی چونکا
“ہاں ہم سب کی۔۔تمہارے ددا کی بھی یہی مرضی ہے۔۔
ہم نہیں چاہتے گھر کی بچی کہیں اور جائے۔۔”
ددو نے اسے سب کا فیصلہ سنایا۔۔
“نہیں میں نہیں کرسکتا۔۔۔”
وصی نے انکار کیا۔۔
“کیوں۔۔۔کیا تمہیں حور نہیں پسند؟”
ددو نے پوچھا
“پسند ناپسند کی بات ہی نہیں ہے۔۔میں نے حور کے بسرے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں۔۔۔اور مجھے تو کسی سے بھی شادی نہیں کرنی۔۔”
وصی نے انہیں سمجھانا چاہا
“تو اب سوچ لے۔۔میں نہیں چاہتی حور کہیں اور جائے۔۔
اچھی طرح سوچ کر مجھے جواب دے دینا۔۔”
ددو کہ کر اٹھ کر باہر نکل گئی۔۔
اور گہری سوچ میں الجھ گیا۔۔
وہ چائے کا کپ ٹیبل پر رکھے۔۔
اسے گھور رہا تھا۔۔
کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا۔۔
ارد گرد سے لاپرواہ۔۔۔
تبھی گیٹ سے گاڑی اندر داخل ہوئی۔۔
اور اس کی سوچوں کا مہور ٹوٹا۔۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
شائستہ بیگم کے ساتھ حور گاڑی سے اتری۔۔
اور چل کر اس کے قریب آئے۔۔
“کیا ہوا۔۔۔طبیعت کیسی ہے اب؟”
وصی نے پھپھو سے پوچھا۔۔
جبکہ۔ نظر اس کی اب حور پر تھی۔۔
زرد چہرے کے ساتھ۔۔۔دوپٹہ سر پر لیے وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی۔۔
چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔۔
“ٹھیک ہے اب۔۔” پھپھو نے جواب دیا۔۔
“بیٹھ جاؤ حور۔۔” وصی نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔۔
“نہیں۔۔میں کمرے میں جارہی ہوں مما”
حور نے اسی انداز میں جواب دیا۔۔
اور اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔
“یہ بس ایسے ہی رہتی ہے
زیادہ بات نہیں کرتی کسی سے۔۔اپنے کمرے کی ہوکر رہ گئی۔۔” شائستہ بیگم نے وصی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
اور خاموش رہا۔۔
وہ گہری نیند سورہا تھا کہ تیز تیز دروازہ بجنے سے
اس کی نیند ٹوٹی۔۔
وہ یک اٹھا۔۔۔
دروازہ ابھی بھی بج رہا تھا۔۔
وہ تیزی دروازے کی جانب بڑھا۔۔
اور دروازہ کھولا۔۔
سامنے شائستہ بیگم کھڑی تھی۔۔
“وصی۔۔حور کو پتا نہیں کیا ہوگیا۔۔”
شائستہ بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔
“کیا ہوا حور کو؟”
وہ پریشان ہوا۔۔
“پتا نہیں اٹھ نہیں رہی۔۔”
شائستہ بیگم نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
وصی سنتے ہی حور کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔
حور بیڈ پر آنکھیں موندے بے سدھ پڑی تھی۔۔
وہ اس کی طرف بڑھا۔۔
“حور۔۔حور۔۔۔” وصی اس کا گال تھپتھپانے لگا۔۔
اس کے گال کو چھوتے ہی اسے گرمائش محسوس ہوئی۔۔
“اسے بخار ہے۔۔۔ہسپتال چلتے ہیں۔۔۔”
وصی نے کہا۔۔۔اور باہر نکل گیا۔۔
“دیکھیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔۔
انہیں تیز بخار تھا۔۔کھانے پینے کا دھیان نا رکھنے کی وجہ بہت کمزوری آگئی ہے ان میں۔۔۔”
ڈاکٹر نے وصی کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
“جی ہم دھیان رکھیں گے۔۔”
وصی نے کہا۔۔اور ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔۔۔
تبھی شائستہ بیگم وہاں آئی۔۔
“کیا کہا ڈاکٹر نے؟”
انہوں نے پوچھا۔۔
“نہیں کچھ نہیں بس کھانا پینا وقت پر نا لینے کی وجہ سے کمزوری ہوگئی۔۔”
وصی نے جواب دیا
“جب سے شفی گیا ہے نا حور کو پتا نہیں کیا ہوگیا۔۔
اب کوئی بچی تو نہیں ہے جو زبردستی کھلا دوں۔۔”
شائستہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“ہوجائے گی ٹھیک” وصی نے تسلی دی
“ہاں۔۔۔انشاءاللہ” شائستہ بیگم نے کہا۔۔اور وصی پلٹا ہی تھا شائستہ بیگم نے پکارا۔۔
“وصی۔۔۔” شائستہ سنجیدگی چہرے پر سموئے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“جی پھپھو۔۔” وصی نے پوچھا
“تمہیں حور پسند نہیں۔۔؟” شائستہ بیگم نے سوال کیا۔۔
“میں نے ایسا کب کہا؟” وصی نے الٹ سوال کیا
“تو پھر۔۔۔؟” شائستہ بیگم نے سوالیاں نظروں سے اسے دیکھا۔۔
“میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔” وصی نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔
“میں جانتی ہوں نور کے بارے میں سب۔۔”
شائستہ بیگم کی بات پر وہ چونکا۔۔
“کسی کے جانے سے زندگی کو ختم نہیں کرتے وصی۔۔۔
جس جگہ تم کھڑے ہو آج اسی جگہ حور بھی کھڑی ہے۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
وصی خاموشی سے ان کی بات سن رہا تھا
“وصی۔۔حور کی حالت سے تم واقف ہو۔۔
میں جانتی یہ تمہارے لیے آسان نہیں۔۔مگر تم ایک بار حور کی طرف دیکھو۔۔وصی میری بیٹی سے شادی کرلو۔۔۔”
شائستہ بیگم نے نم آنکھو سے کہا۔۔
اور وصی کے پاس شاید الفاظ نہیں تھے۔۔