وہ لڑکھڑاتے ہوئے با مشکل ہی پھولتی سانس کے ساتھ گھر پہنچی ۔۔
لاؤنج کے دروازے پر پہنچتے ہی اسکے قدموں نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ۔۔اسکے پاؤں شل ہونے لگے ۔۔
وہ بے تحاشا روتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔
امل ۔۔۔تم ۔۔۔تابی کہاں ہے ۔۔؟ اور ۔۔تم رو کیوں رہی ہو ۔۔وہ پریشانی میں انکی جانب بڑھی ۔۔
خالہ۔۔خالہ وہ ۔۔وہ تابی ۔۔۔۔روتے ہوئے اس سے کچھ بولا ہی نہ گیا ۔۔
کیا ہوا کہاں ہے تابی ۔۔۔۔تائی جان کی بلند آواز سنتے ہوئے سب کمروں سے باھر آنے لگے ۔۔
کیا ہوا ۔۔۔کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے ۔۔۔فرحان صاحب سنجیدہ تاثرات لئے بیوی سے دریافت کرنے لگے جو امل کے ساتھ بیٹھی اس سے سوال کرنے لگی تھیں ۔۔
کیا ہوا تائی امی ۔۔۔۔حدید نے شانوں سے پکڑتے ہوئے باری باری امل کی جانب دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
اس سے پوچھو ۔۔تابی کہاں ہے ۔۔۔؟لرزتے ہاتھوں کے ساتھ انہوں نے امل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
تابی ۔۔۔۔وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔۔
کہاں ہے تابی ۔۔۔وہ تو تمہارے ساتھ تھی نہ ۔۔۔امل کو اس طرح روتے دیکھ کر اب حدید کو بھی تشویش نے آگھیرا تھا ۔۔۔
وہ تابی کو ۔۔۔تابی کو کوئی لے گیا اپنے ساتھ ۔۔۔روتے ہوئے اسکی ہچکی بندھ گئی ۔۔
کیا مطلب لے گیا ۔۔کون لے گیا ۔۔۔فرحان صاحب غصے میں دھاڑے ۔۔۔
امل انکے غصے کے ڈر کی وجہ سے سارا واقعہ بتایا ۔۔جسکو سنتے ہوئے فرحان صاحب سمیت سب کے پیروں سے زمین کھسک گئی ۔۔
وہ صدمے کا شکار زمین بوس ہوتے اس سے پہلے شہیر نے انھیں مضبوط ہاتھوں سے تھام لیا ۔۔
دوسری جانب بیہوش تائی جان کو حدید کی امی سمبھالے ہوئے تھیں ۔۔
جوان بیٹی کا معملہ تھا ۔۔اور جب بیٹی پر بات آجائے تو سب سے زیادہ فکر ماں باپ کو بیٹی کی عزت کی کھائے جاتی ہے ۔۔
تم چلو میرے ساتھ ۔۔حدید غصے اور بے بسی کے ملے جلے تاثرات چہرے پر طاری کئے امل کو اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔
۔**************۔
اہ ۔۔۔۔۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔درد کے مارے وہ چیخی ۔۔۔
بہتے آنسوؤں میں تیزی سے روانی آگئی ۔۔۔
خبردار ۔۔۔۔! جو آواز بھی نکالی تو ۔۔۔ورنہ گدی سے زبان کھینچ لوں گی ۔۔۔ایک عورت اسے جبڑوں سے پکڑتے ہوئے غرائی ۔۔۔
تم جیسی لڑکیوں نے ماحول خراب کر رکھا ہے ۔۔۔اب ہم تمہیں بتائیں گے کہ اس بے حیائی کا انجام کیا ہوتا ہے ۔۔۔تابی کو دیکھتے ہوئے اسنے آگ کے شعلوں میں تپتی ہوئی شیخ اٹھائی ۔۔
نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔ایسا مت کرنا ۔۔۔۔دور سے ہی تپی ہوئی شیخ کی تپش محسوس کرتے ہوئے وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے پاگلوں کی طرح کہنے لگی ۔۔۔
وہ عورت ایک جھٹکے سے تابین کی کلائی پر قلم کی طرح وہ شیخ پھیرتے ہوئے لطف اٹھانے لگی ۔۔
درد کی شدت بڑھ گئی ۔۔وہ زاروقطار روتے ہوئے چیخنے لگی ۔۔میری مدد کریں ۔۔اللہ جی ۔۔۔۔۔۔بچائیں مجھے ۔۔کوئی مدد کرو ۔۔۔یوسف ۔۔۔نہ جانے وہ کیا کیا کہنے لگی ۔۔
دوسری عورت اسکے ایک ایک بال کو ہاتھ سے کھینچتے ہوئے بڑبڑانے لگی ۔۔۔ان زولفوں کو کندھے پر پھیلائے تم سب کو پنے جلوے دکھاتے ہوئے اپنی جانب راغب کرتی تھیں نہ ۔۔
درد کی شدت بڑھنے لگی ۔۔۔موت کے کنویں میں جاتے ہوئے وہ خود ک صاف دیکھ سکتی تھی ۔۔جبھی پانی کی رٹ لگاتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔
چلو بہت ہو گیا ۔۔۔۔انکی لیڈر نے تالی بجاتے ہوئے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانی چاہی ۔۔
اسے کمرہ نمبر 3 میں لے جاؤ ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں انہیں روانہ کیا جائے گا ۔۔۔
۔*****************۔
پولیس اپنے طریقے سے تابی کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔اور یہاں گھر والے الگ پریشان ۔۔سب میں تابی کی جان بسی تھی ۔۔کوئی جاں نماز بچھا کر اسکی سلامتی کی دعائیں کر رہا تھا تو کوئی روتے ہوئے اللہ سے فریاد کر رہا تھا ۔۔۔
وہ اس سڑک کے کنارے بیٹھا اس جگہ کو یک ٹک تکے جارہا تھا (جہاں سے تابی کو اغوا کیا گیا )
حدید اسکے ساتھ کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھا جبھی تابی کے چیخنے پر دونوں نے اسکی جانب دوڑ لگا دی ۔۔
وہ گھٹنہ پکڑے زمین پڑ بیٹھی رو رہی تھی ۔۔
کیا ہوا ۔۔۔۔۔؟ دونوں نے بیک وقت پوچھا ۔۔۔
سائیکل سے گر گئی ۔۔۔۔؟ اس نے پیار سے پوچھا ۔۔
بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس نے روتے ہوئے جواب دیا ۔۔
چلو اٹھو ۔۔۔اندر چلو ۔۔مرہم لگاتے ہیں ۔۔حدید نے اسے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے کہا ۔۔
اہ ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔مجھ سے نہیں چلا جارہا ۔۔۔وہ درد سے چیخی ۔۔۔
میں خود چھوٹا ہوں اب تم جیسی بھینس کو اٹھانے سے رہا میں ۔۔۔وہ دور ہوتے ہوئے کہنے لگا ۔۔
جبھی آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس نے تابی کو گود میں اٹھاتے ہوئے اندر کا رخ کیا ۔۔۔
حدید کی پوری آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔اور تابی حدید کو ناک چڑاتے ہوئے مسکرا دی ۔۔۔
صرف تابی نہیں ۔۔۔کئی ایسی لڑکیاں ہیں جنکو اغوا کیا گیا ہے ۔۔کسی کو سڑک سے تو کسی کو کالج سے ۔۔۔وہ تابی کی جوتی ہاتھ میں لئے سوچوں میں گم تھا جبھی حدید اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسے حالات سے آگاہ کر رہا تھا ۔۔۔
سارہ شہر تھرتھلے میں آگیا ہے ۔۔پولیس خود پریشان ہے سب کو تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔۔اور ان میں سب بڑے بڑے گھروں کی لڑکیاں شامل ہیں ۔۔اور ۔۔۔
ابھی حدید کی بات مکمل نہ ہوئی تھی جبھی وہ بےدردی سے آستین سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا ۔۔
کہاں جارہے ہو ۔۔۔۔۔؟ حدید نے کھڑے ہوتے ہوئے پریشانی سے پوچھا ۔۔
حزیفہ کے قدم تھم گئے ۔۔۔اس نے ایک نظر حدید کو دیکھا ۔۔۔
اسکی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے ایک پل میں حدید کو خوف محسوس ہونے لگا ۔۔۔
پتا نہیں ۔۔۔۔سر سری سا جواب دیتے ہوئے ۔۔گاڑی کا دھوواں چھوڑتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا ۔۔۔
نہ جانے یہ شخص کیا کرے گا اب ۔۔۔یہ سوچتے ہوئے حدید بھی بھی گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اسکے پیچھے لپکا ۔۔۔
۔***************۔
وہ نیم غنودگی میں تھی جبھی اسے دوسرے کمرے میں لاکر پھینک دیا گیا ۔۔جہاں اس جیسی اور بھی کئی لڑکیاں موجود تھیں ۔۔
با مشکل ہی اسنے آنکھیں کھولتے ہوئے اپنے آس پاس دیکھنا چاہا ۔۔۔جہاں کچھ لڑکیوں کے کپڑے پھٹے تھے تو کسی کے چہرے پر زخم کے نشانات تھے ۔۔تو کوئی گھٹنوں میں سر دیئے اللہ سے مدد کا طلبگار تھا ۔۔۔
اسکے دماغ گھومنے لگا ۔۔۔اسے گھر کی یاد ستانے لگی ۔۔اپنے اندر بے شمار ہمت مجتمع کرتے ہوئے وہ اٹھتے ہوئے چیخنے لگی ۔۔۔
نکالو مجھے یہاں سے ۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔وہ دروازے کو لاتیں مارتے ہوئے چیخی ۔۔۔
خدا کے لئے چپ کر جاؤ ۔۔۔ورنہ تمہارے ساتھ ساتھ ہم بھی مشکل میں پڑ جائیں گے ۔۔ایک لڑکی روتے ہوئے اسکا پاؤں پکڑ کر بیٹھ گئی ۔۔
وہ کرنٹ کھاتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔۔۔۔
اپنا سر پکڑ کر ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگی ۔۔
یہ بے بسی کی وہ انتہا تھی جہاں آنے کے بعد ہر شخص خواہ وہ عورت ہو یا مرد ۔۔۔طلبگار ہوتا ہے تو صرف اللہ کا ۔۔۔جو معجزات کے ذریعے اپنے بندے کو اپنے ہونے کہ احساس دلاتا ہے ۔۔ڑ اسی معجزے کی طلبگار ہی تو وہ سب تھیں ۔۔۔
تمہیں پتا ہے ۔۔۔یہاں آنے سے پہلے میں بہت بدتمیز ۔۔ضدی اور انا پرست لڑکی تھی ۔۔اپنے ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد ۔۔۔وہ لڑکی جو اسکے پاؤں پکڑ کر اسے روکنا چاہ رہی تھی ۔۔وہی لڑکی اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسے اپنا حال دل بیاں کر رہی تھی ۔۔۔
اپنی کسی بھی خواہش کو پانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی میں ۔۔۔میرے لئے اگر سب کچھ تھا تو میرا غرور میرا مان صرف پیسہ ۔۔جسکے نشے کہ شکار بنتے ہوئے میں یہ تک بھول گئی کہ اس سے بڑھ کر بھی اس دنیا میں سب سے بڑی ذات ہے ۔۔اور وہ ہے صرف اللہ پاک ۔۔۔روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئی ۔۔
میں دنیاوی کاموں میں اتنا ملوث ہو گئی یہ تک بھلا دیا کہ یہ سب چیزیں تو فانی ہیں ۔۔جو کبھی بھی دھوکہ دے سکتی ہیں ۔۔۔
آس پاس بیٹھی سب لڑکیاں اسکی داستان سنتے ہوئے اپنا غم بھلا کر اسے غور سے سننے لگے ۔۔
لیکن یہاں آنے کے بعد پتا چلا ۔۔کہ بے بسی کیا ہوتی ہے ۔۔۔یہ غرور ۔۔انا ۔۔اور پیسہ کوئی معینے نہیں رکھتا ۔۔۔میں نے تو جیتے جی اپنی موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے ۔۔۔
اگر اللہ نے مجھے ایک اور موقع دیا نہ تو میں شکر ادا کرونگی ۔۔لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے ۔۔کہ میں اس قابل نہیں کہ اب اور اس دنیا گردن اکڑا کر چل سکوں ۔۔لیکن میں کسی کے ہاتھوں کا کھلونہ بنتے ہوئے اپنی عزت کو پامال ہونے نہیں دے سکتی ۔۔اس سے بہتر تو میرے لئے موت بہتر ہے ۔۔
تم اکیلی نہیں ہو ۔۔۔ہم سب ساتھ ہیں ۔۔۔ہم نکلیں گے یہاں سے بہت جلد ۔۔۔تابی نے اسے تسلی دینا چاہی ۔۔
یہ اب ممکن نہیں ۔۔۔کیوں کہ کچھ ہی دیر میں ہمیں یہاں سے دوسرے ملک اسمگل کیا جائے گا ۔۔۔اسکی یہ بات سنتے ہی تابین کو شاک لگا ۔۔گویا پیروں تلے زمین ہی نکل گئی ۔۔
ایسا کیسے کر سکتے ہیں یہ لوگ ۔۔؟آخر یہ ہیں کون؟ اور چاھتے کیا ہے ۔۔؟بیک وقت اس نے ڈھیروں سوال کر ڈالے ۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں پتا ۔۔۔لیکن انکے اور انداز سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ مسلمان تو نہیں ۔۔کیوں کہ مسلمان دوسرے مسلمان کو اتنی اذیت نہیں دے سکتا ۔۔ایک لڑکی نے کڑھتے ہوئے کہا ۔۔
اچانک ۔۔۔دھڑام سے دروازہ کھلا ۔۔۔۔وہ سب سہم کر بیٹھ گئیں ۔۔۔
۔***************۔
دس منٹ میں وہ ظفر کے گھر پہنچ گیا تھا ۔۔۔گاڑی سے چھلانگ لگاتے ہوئے وہ اندر کی جانب بڑھ گیا جبھی چوکیدار نے اسکا راستہ روکنا چاہا ۔۔۔
غصے میں وہ تہذیب کو بھول بیٹھا ۔۔ایک تھپڑ اسے رسید کرتا ہوا وہ دوڑ کر اندر کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
جونہی اس نے اندر کی جانب قدم بڑھائے آس پاس سیگریٹ کا دھوواں اور شراب کی بو پھیلی تھی ۔۔
ظفر نشے میں دھت صوفے پر نیم بیہوشی کی حالت میں پڑا تھا ۔۔۔
ایک منٹ بھی زائع کئے بغیر ظفر کا کالر پکڑتے ہوئے اسے پیٹنے کے ساتھ ساتھ دھاڑ بھی رہا تھا ۔۔
تو نے تابی کو کہیں چھپایا ہے نہ ۔۔۔بتا کہاں ہے وہ ۔۔بول کمینے ۔۔۔۔
ہاہاہا ۔۔۔۔۔۔فائنلی ۔۔۔تابی بھی اپنے انجام کو پہنچی ۔۔۔
ابھی اسکے الفاظ منہ میں ہی تھے جبھی حزیفہ اسے زمین پر دھکیلتے ہوئے اسے لاتوں سے پیٹنے لگا ۔۔۔
بکواس بند کر اپنی ۔۔۔اب انجام کو تو ۔۔تو پہنچے گا ۔۔۔
حزیفہ ۔۔۔کیا کر رہا ہے پاگل تو نہیں ۔۔۔چھوڑ اسے ۔۔۔بروقت حدید وہاں پہنچتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچتے ہوئے کہنے لگا ۔۔
پاگل مت بن ۔۔۔۔اسنے کچھ نہیں کیا ۔۔۔چھوڑ اسے ۔۔۔
میں نہیں چھوڑوں گا ۔۔جان سے مار دوں گا اسے ۔۔۔اسکے سر پر تو مانو خون سوار تھا ۔۔
ہوش میں آ ۔۔۔۔۔اگر یہ مر گیا تو ۔۔تو بھی زندہ نہیں بچے گا ۔۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا تو سمجھا ۔۔اس سے بہتر نہیں کہ ہم تابی کو تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔۔حدید بھی غصے میں اسکا کالر پکڑتے ہوئے اسے سمجھانے لگا ۔۔
اب غصے کی جگہ بے بسی نے لے لی تھی ۔۔۔وہ مل تو جائے گی نہ ۔۔۔؟ اسنے کسی معصوم بچے کی طرح حدید سے سوال کیا ۔۔۔جس پر ظفر بھی حیران رہ گیا ۔۔
بھروسہ رکھ ۔۔۔۔اللہ پر ۔۔۔حدید ضبط کی آخری انتہا پر تھا ۔۔اس نے حزیفہ کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے اسے تسلی دینا چاہی ۔۔۔
وہ نہیں ملے گی ۔۔۔۔ملے گی تو اسکی خون میں لپٹی لاش ۔۔۔یا پھر اسکا کبھی نہ سنا گیا نام ۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے ظفر نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔
وہ حزیفہ کو لیتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔****************۔
رات کا آخری پہر تھا ۔۔پوری رات گزر گئی تابی کو تلاش کرتے کرتے ۔۔۔مگر تابی کی کوئی خبر موصول نہ ہوئی ۔۔
یا اللہ میری بیٹی کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا ۔۔طائ جان بار بار روتے ہوئے گڑ گڑائے جارہی تھیں ۔۔۔
مگر فرحان صاحب کہ نقطہء نظر کہیں اور اٹکا تھا ۔۔
اگر صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے تابی کی کوئی خبر نہ ملی ۔۔تو سمجھ لینا ہماری کوئی بیٹی نہیں ۔۔۔وہ درشتگی سے گویا ہوئے ۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔؟ بھائی جان ۔۔۔۔
تائی جان تو سکتے کی سی کیفیت میں صوفے پر ڈھے گئیں ۔۔مگر تایا نے کہہ ہی ڈالا ۔۔
صبح کہ بھولا ہوا اگر شام کے بجائے رات کو گھر لوٹ آئے تو وہ بھولا ہوا نہیں کہلاتا ۔۔بلکہ بدنامی کہ ٹھپا لگ جاتا ہے خاص کر جوان بیٹی پر ۔۔۔
لیکن اس میں تابین کہ تو کوئی قصور نہیں بھائی جان ۔۔۔رباب تڑپ اٹھی ۔۔
سہی کہا ۔۔۔قصور تو میرا ہے جو اسے سلیقے سے زندگی گزارنے کے طور طریقے سے آگاہ نہ کرسکا ۔۔۔وہ آنکھوں میں چھائی نمی کو چھپانے کے لئے باھر کی جانب بڑھ گئے ۔۔
لیکن میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دونگی بھائی جان ۔۔۔یہ آپ اچھے طریقے سے جان لیں ۔۔۔انکے جاتے ہی رباب نے کہا ۔۔۔
۔**************۔
خدا کے لئے ہمیں جانے دیں ۔۔۔
باری باری ان سب کے ہاتھ پشت کی جانب باندھتے ہوئے ۔۔منہ پر ٹیپ لگاتے ہوئے اعداد کی مہر لگاتے ہوئے انھیں بڑی سی وین میں بٹھایا جانے لگا جبھی لڑکیاں گڑگڑاتے ہوئے منتیں کرنے لگی تھیں ۔۔
چل اندر چل ۔۔ایک عورت نے اس لڑکی کے منہ پر ٹیپ لگاتے ہوئے وین کے اندر دھکا دے دیا ۔۔۔
خدا کا خوف نہیں تم لوگوں کو ۔۔۔یا تمہاری آل اولاد نہیں ۔۔۔تابی نے آخر سوال کر ہی ڈالا ۔۔۔
کس خدا کو مانتے ہو تم ۔۔۔؟
تیری ہمت کیسے ہوئی ہمیں ہمارا خدا یا د دلانے کی ۔۔۔؟ وہ تابی کو بالوں سے پکڑتے ہوئے غرائی ۔۔
ہم اپنا کم اچھی طرح سے کرنا جانتے ہیں ۔۔چلو مرو اندر ۔۔۔۔اسے مظلوموں کی طرح باندھتے ہوئے اس پر 11 نمبر کی مہر لگا دی گئی تھی ۔۔
بس اللہ جی ۔۔۔۔۔مطلب ہمارا اختتام ہی یہیں ہونا تھا ۔۔۔گلے میں آنسوؤں کا پھندا اٹک گیا ۔۔
۔***************۔
کن لفظوں میں کروں بیاں اہمیت تیری
کہ بن تیرے ہم اکثر نا مکمل رہتے ہے۔۔”-
تابی کی تلاش میں وہ بھٹکتا ہوا نہ جانے کہاں پہنچا تھا ۔۔۔پانچ منٹ وہ اسٹئیرنگ پر سر رکھے یونہی بے جان سا پڑا رہا ۔۔
یا اللہ ۔۔۔میں کچھ نہیں مانگتا ۔۔صرف تابی کو ایک بار مجھ سر ملا دے ۔۔۔اسکے بعد جو تو چاہے گا ویسا ہوگا ۔۔۔اسکے گناہوں کی سزا اسے اس طرح سے مت دے میرے مالک ۔۔تو رحم فرما ۔۔آنسو اسکا چہرہ بھگوگئے ۔۔شاید معافی تلافی کا وقت بھی گزر چکا تھا ۔۔اب صرف پچھتاوے کے علاوہ باقی کچھ نہ رہا تھا ۔۔۔ چہرہ صاف کرتے ہوئے اس نے سنسان سڑک کی جانب دیکھا ۔
جہاں راستے دو تھے مگر انکی منزل کا پتا اسے ہر گز نہ تھا ۔۔گاڑی میں دم گھٹنے کے باعث وہ کچھ دیر کے لئے سڑک پر کھڑا راستہ تلاش کرنے لگا ۔۔
اب بھی انکے پاس موقع تھا بچ نکلنے کا ۔۔مگر راستہ نہ تھا ۔۔۔وہ گاڑی میں ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے راستہ تلاش کرنے لگیں ۔۔مگر ہر بار مایوسی انکا مقدر بنی ۔۔کیوں کے وہ جس گاڑی میں جارہے تھے وہ چاروں طرف سے بند تھی سوائے انکے آس پاس جالی جیسی کھڑکیوں کے جہاں سے انھیں آکسجن کی کمی محسوس نہ ہو ۔۔
اچانک گاڑی کے موڑ کھانے سے وہ سیدھا کھڑکی سے جالگی ۔۔۔
باھر کی جانب نظر پڑتے ہی وہ سکتے کی کیفیت میں آگئی ۔۔
ہاں ۔۔۔کچھ ہی پل کا تو فاصلہ تھا اس میں اور حزیفہ میں ۔۔گلے میں آنسؤں کا پھندا اٹک گیا ۔۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی ۔۔چیخ کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی تھی ۔۔مگر وہ بے بس تھی ۔۔۔
۔****************۔
اشرف یعقوبی: جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کا شاعر
اشرف یعقوبی کا کولکاتا مغربی بنگال سے ہے، آپ جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کے شاعر ہیں ان کی غزل...