وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن اس وقت فاطمہ کی والدہ کے گھر کی طرف جارہا تھا۔ کل رات سے ہی وہ ایک بے یقینی سی کیفیت میں تھا۔ فاطمہ نے خود اسے آواز دی تھی مگر کیوں؟ کیا اس سے زبردستی کی گئی تھی؟ کیا وہ اپںے والدین کی وجہ سے مجبور ہوگئی تھی؟ کئی سوال تھے جو اس کے ذہن میں گردش کررہے تھے۔ وہ انہیں سوچوں میں گم اس کے گھر پہنچا تھا۔
دروازہ فاطمہ نے ہی کھولا تھا۔ اس نے اسے بغور دیکھا۔ وہ ہلکے فیروزی رنگ کا سوٹ پہنے ہوئی تھی۔ کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں پہنی تھیں جبکہ ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک لگائی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے اس کا ذہن ایک بار پھر ماضی میں پرواز کرنے لگا۔ ایک دم سے چہرہ تبدیل ہوا اور ہانیہ سامنے آ کھڑی ہوئی۔ کھلے بال، چہرے پر مسکراہٹ اور یہی فیروزی رنگ پہنے وہ اس کے روبرو کھڑی تھی۔
“بتائو کیسی لگ رہی ہوں میں؟” وہ اسے دیکھتے ہوئے یوں کہہ رہی تھی جیسے اس کی تعریف کی ہی منتظر ہو۔
“امم م۔ ویسی ہی جیسی روز لگتی ہو۔” وہ اسے جان بوجھ کر ستا رہا تھا اور وہ توقع کے مطابق فوراً ہی خفا ہوئی تھی۔
“کیا مطلب اچھی نہیں لگ رہی؟ مگر میں نے تو ںیا سوٹ پہنا ہے۔” اس کی چہرے پر ڈھیر ساری ناراضگی اتر آئی تھی۔ اس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
“بیوقوف لڑکی تم نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ تم روزانہ کیسی لگتی ہو۔ مجھے تو تم روز ہی بے حد پیاری لگتی ہو۔ سب سے زیادہ حسین۔” وہ اس کی ٹھوری کو ہولے سے چھوتا کہنے لگا جس پر اس کے خفا خفا چہرے پر مسکراہٹ آنے لگی۔
“اپ اندر آجائیں!” وہ اسے دروازے پر کھڑا دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ماضی ایک دم دھندھلا گیا تھا اور حال ایک بار پھر سامنے آگیا۔
یہ دل بھی کیا چیز تھا۔ اس دل کی لوجک کو سمجھنا مشکل تھا۔ وہ ہانیہ کو کبھی بھلا نہیں پایا تھا اور فاطمہ کے بغیر اب رہنا بھی کٹھن تھا۔ وہ کیسے ایک محبت کو اپنے دل میں اسی مقام پر بٹھائے دوسری محبت کر بیٹھا تھا۔
فاطمہ نے اسے بغور دیکھا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی کہیں کھو سا گیا تھا اور پھر تمام وقت کھویا کھویا سا ہی رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک بار پھر بدگمانی سی آنے لگی۔ کیوں کیا اس نے یہ فیصلہ؟ احد کو کیا فرق پڑا تھا اس کے آنے سے۔ گاڑی میں اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے اس کی تعریف تو کیا اس کا حال تک نہیں پوچھا تھا۔
گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے خود کو سنبھال لیا تھا اور اب فاطمہ پرغور کیا تو وہ واقعی اس وقت معمول سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ اس رنگ میں وہ جیسے نوخیز کلی کی طرح کھل سی رہی تھی۔
فاطمہ نے ایک نظر اس پر ڈالنے کے بعد چہرہ دوسری طرف موڑ لیا اور باہر چلتی گاڑیوں کو دیکھنے لگی۔
“پیاری لگ رہی ہو تم۔” اچانک چند لمحوں کی خاموشی کے بعد احد کی آواز گونجی تھی۔ وہ ایک دم حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ ان کی شادی کے بعد یہ پہلی بار تھا جب احد نے اسے سراہا تھا۔ اس کے دیکھتے ہی احد نے بھی اسے مڑ کر مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ دونوں کی نگاہیں ملیں اور ان نگاہوں کے ارتکاز پر وہ بے اختیار ہی نظریں جھکا گئی۔ وہ جو اس کی تعریف کی منتظر تھی اب اس کے تعریف کرنے پر اتنا ہی شرما رہی تھی۔
اس کے اس طرح شرمانے پر وہ بے حد محظوظ۔ ہوا تھا۔ کاش میں اس کی پہلے ہی تعریف کر دیتا تو یہ منظر بہت پہلے ہی دیکھنے کو مل جاتا۔ مسکراتے ہوئے سوچتا وہ اب اسے مزید تنگ کررہا تھا۔
” ویسے اصولی طور پر میرے تعریف کرنے پر تمہیں بھی جواباً میری تعریف کرنی چاہیئے۔”
اس کی بات پر اس نے شرمیلی سی نگاہ اس کی جانب ڈالی۔ اس نے سیاہ پولو شرٹ پر خاکی رنگ کی پینٹ پہن رکھی تھی۔ بال جیل سے سیٹ کیے تھے جبکہ ہاتھوں میں سلور رنگ کی گھڑی پہن رکھی تھی۔ اس کی گھنی مونچھیں اور داڑھی اس کہ وجاہت میں اضافہ کررہی تھیں۔ وہ بلا شبہ بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا۔
“آپ بھی پیارے لگ رہے ہیں۔” اس نے آہستہ سے کہا تھا۔
“کیا؟ کیا کہا؟ ذرا پھر سے کہنا۔” وہ کان اس کے چہرے کے ذرا قریب لاتا جان بوجھ کر اسے چھیڑ رہا تھا۔
“اب آپ مجھے تنگ کررہے ہیں ناں۔” وہ کچھ نروس سے انداز میں کہہ رہی تھی۔ چہرہ ابھی تک شرم سے لال تھا۔ اس کے اس انداز پر وہ ایک بار پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا جبکہ وہ اس کے اس طرح ہنسنے پر مزید نروس ہونے لگی تھی۔
________
اس کے گھر آنے کے اگلے ہی دن اس نے خالہ کو گھر پر ڈنر کے لئے مدعو کرلیا تھا۔ ان کے آنے سے گھر پر رونق سی ہوجاتی تھی۔ اس نے ڈنر کے لئے خوب تیاری کی تھی۔ جلدی جلدی شام تک تمام کھانا تیار کر کے اب وہ خود بھی کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی تھی۔
وہ چینج کر کے نکلی تو دیکھا احد آچکا تھا اور بستر پر جوتوں سمیت ہی لیٹ گیا تھا۔
ایک دم سے پرانے وقت کا منظر اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا
“عمر! میں نے آپ کو کتنی بار کہا ہے اس طرح جوتوں سمیت بیڈ پرمت لیٹا کریں۔” وہ عمر کو دیکھتے ہوئے خفگی سے کہہ رہی تھی۔ عمر نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنے پیروں سے ہی جوتے اتار کر دور اچھال دیے۔ جوتوں کو ادھر ادھر گرتا دیکھ کر وہ مزید تپ گئی تھی۔
“یہ کیا ہے۔ میں آپ کو منع کررہی ہوں آپ اور کررہے ہیں۔” وہ غصے سے کہتی بیڈ کے قریب آئی اور جوتا اٹھانے لگی۔ اس کے قریب آتے ہی عمر نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
“سوری!” اس کی ناک کو پیار سے کھینچتا وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ روز ایسے ہی کرتا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے سے اسے تنگ کرتا اور پھر جب وہ خفا ہوتی تو فورا سوری کہہ دیتا۔ “آپ بھی ناں۔ روز ایسے کرتے ہیں۔” اس کے سوری کہہ دینے پر وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ہنس پڑی جبکہ وہ۔بس محبت سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
” کہاں کھو گئی میڈم۔” احد نے اس کی آنکھوں کے اگے چٹکی بجائی جس سے وہ ایک دم ہوش میں آئی تھی۔ عمر اور وہ خوبصورت منظر سب غائب ہوگیا تھا۔ اس کے گلے میں آنسووں کا پھندا لگنے لگا۔
“نہیں کچھ نہیں۔ آپ جلدی سے فریش ہوجائیں۔ خالہ آنے والی ہوں گی۔” وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ وہ اب بھی اس کے کچھ دیر پہلے کے تاثرات کو جانچنے کی کوشش کررہا تھا۔
جب تک احد فریش کو کر آیا وہ کھانا لگا چکی تھی ۔ خالہ بھی آ چکی تھیں اور اب ڈائننگ ٹیبل پر سجی ڈھیر ساری ڈشز کو دیکھتے ہوئے وہ اسے ڈپٹ رہی تھیں۔
“فاطمہ تمہیں کیا ضرورت تھی اتنا سارا کھانا بنانے کی؟ میں بھلا کیا کوئی مہمان ہوں۔”
“نہیں خالہ۔۔۔۔” وہ خالہ کو جواب دینے ہی لگی تھی کہ احد بیچ میں بول پڑا۔
“اچھا ہے ناں خالہ!! اتنے عرصے بعد تو ڈھنگ کا کھانا نصیب ہوا ہے۔” خان بابا کے پھیکے پکوان کی طرف اشارہ کرتا وہ خالہ کی پلیٹ میں بریانی نکال کر اب اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا۔
“تم کیوں کھڑی ہو فاطمہ! آجائو ناں۔” اپنے پاس والی کرسی پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا اب کھانا شروع بھی کر چکا تھا۔ اسے یوں رغبت سے کھاتے دیکھ کر بے اختیار ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کسی معصوم بچے کی طرح دو دن بعد اس کے ہاتھ کے بنے کھانے کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔
_______
ڈنر کر کے وہ تینوں باہر لان میں آ بیٹھے۔ لان چئیرز پر کھلے آسمان تلے بیٹھے وہ چائے کا مزہ لینے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کررہے تھے۔
“خالہ بتائیں ناں۔ آپ کو کھانے میں سب سے زیادہ کیا اچھا لگا۔” وہ ان کے برابر میں بیٹھی لاڈ سے پوچھ رہی تھی۔
“فاطمہ بیٹی اللہ نے تمہارے ہاتھ میں بہت ذائقہ دیا ہے۔ ماشاءاللہ سے سب بہت اچھا بنا تھا۔” وہ اس کے سر پر پیار کرتی کہہ رہی تھیں۔
“مجھ سے نہیں پوچھو گی کہ مجھے سب سے اچھا کیا لگا۔” احد نے کہا تھا۔
“میں جانتی ہوں آپ کو سب سے اچھا کیا لگا۔ بریانی۔”
وہ اس کے کہنے پر فوراً بول پڑی جس پر وہ حیران رہ گیا۔
“ہیں! تمہیں کیسے پتا چلا؟”
“آپ نے سب سے زیادہ کھائی ہی بریانی۔” وہ اس کے جلدی جلدی کھانے پر اشارہ کرتی کہہ رہی تھی جس پر وہ کچھ جھینپ سا گیا۔
“اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔” وہ شرمندہ سا ہنستا ہوا کہہ رہا تھا جبکہ اس کے انداز پر وہ بھی بے اختیار ہی ہنس پڑی۔ خالہ ان کو یوں ہنستا مسکراتا دیکھ کر بے حد خوش ہوئی تھیں اور انہوں نے اس خوشی کا اظہار بھی کیا تھا۔
“ماشاءاللہ اللہ تم دونوں کو یوں ہی ہنستا مسکراتا رکھے اور جلد از جلد تم لوگوں کو اولاد کی نعمت سے بھی نوازے۔” وہ انہیں دیکھتے ہوئے دعا دے رہی تھیں مگر اولاد کا ذکر سنتے ہی ایک تاریک سایہ احد کے چہرے پر لہرایا تھا۔ اولاد کی نعمت پانے کی خوشی کیا ہوتی ہے وہ ٹھیک طرح سے محسوس کرنے سے بھی پہلے چھن گئی تھی۔ وہ تو ابھی اس لطیف احساس کو صحیح سے محسوس بھی نہیں کر پایا تھا کہ ہانیہ اور اس کا بچہ موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔
” اور خالہ اب آپ کے گھٹنے کا درد کیسا ہے؟” وہ فوراً ہی بات بدل گیا تھا۔ فاطمہ اور خالہ دونوں نے ہی اس کا یوں بات بدلنا نوٹس کیا تھا مگر کہا کچھ نہیں اور یوں موضوع بدل کر کسی اور طرف چلا گیا۔
__________
وہ اس وقت کچن میں کھڑی برتن دھونے میں مصروف تھی جب احد کی آواز پیچھے سے گونجی تھی۔
“سنو!” احد کے یوں اچانک آنے اور آواز دینے پر وہ جو اپنی سوچوں میں گم تھی ایک دم ڈر کے پلٹی تھی۔
“کیا ہوا؟ آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔” وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ اس نے جواباً کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ اسے بے حد گہری نگاہوں سے تک رہا تھا جس پر وہ کچھ جزبز ہوئی۔ احد کا بے حد سنجیدہ انداز اور گہری نگاہیں اسے کنفیوز کررہی تھیں۔ کچھ دیر اسے یوں ہی دیکھنے کے بعد اس نے کہا تھا۔
“تم یہ کام نبٹا کر جلدی سے کمرے میں آئو! مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔” اسے حکم دیتا کچن سے نکل گیا تھا جبکہ وہ یوں ہی کھڑی رہی تھی۔ آخر احد کو کیا بات کرنی تھی اس سے۔ احد سنجیدہ مزاج کا مالک تھا مگر آج اس کی غیر معمولی سنجیدگی اسے ڈرا رہی تھی۔ جلدی جلدی تمام کام نبٹا کر وہ اب اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...