(Last Updated On: )
یہ پتھر مارگلہ کی پہاڑی کا
جسے نسبت ہے تاروں کے پرانے خانوادے سے
جسے نروان میں رکھا
نہ جانے کتنی صدیوں کی تپسیا میں
سماع و وجد میں مصروف پانی کے گیانی نے
گھٹا کی حبشنیں
اپنی برہنہ چھاتیوں کے دودھ کی برکھا میں نہلاتی رہیں
جس کو
ہوا کی بوسہ بوسہ لذتوں کی رات میں
اپنے بدن خود سے چراتی ناگنوں کے لمس سے
طاری رہی مدہوشیوں کی سنسنی
جس پر
سدا آتے ہوئے جاتے ہوئے موسم نے کی تحریر
جس کی لوح پر تاریخ وقتوں کی
یہ سنگ مارگلہ جس کی رگ رگ میں
گل آتش کا زیرہ بہتا رہتا ہے
اسی خورشید زادے کو
چنا ہے حادثے کے راج معماروں نے
میرے شہر کے ایوان اول میں
جہاں یہ بے بس و ناچار
قند مرتبہ پر رال ٹپکاتے ہوئے
درباریوں کی
لاڈلی سی بھنبھناہٹ سنتا رہتا ہے
کسی آتے ہوئے سائے کی آہٹ سنتا رہتا ہے
***