ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی نیل پاش نے اسے چونکا دیا۔ اس نے کیلنڈر پر نظر ڈالی مہینہ ختم ہورہا تھا لیکن اس نے ناخن رنگے ہی نہیں تھے۔
تو کیا ؟
’’ناخن پر پالش لگانے سے وضو نہیں ہوتا‘‘۔ اس کی نانی نے اس سے کہا تھا اور اسی وقت ناخنوں سے پالش کھرچ دی تھی۔ نانی نماز کی پابند تھیں اسے بھی کوئی نماز قضا کرنے نہیں دیتیں تھیں۔ پھر بھی وہ موقع نکال کر رات میں ناخن رنگ لیتی پھر فجر سے قبل ناخن صاف کردیتی۔ اس طرح اس کے ناخن خراب ہوسکتے تھے لیکن شوق !
ایک روز جب اس کا جسم اچانک ہی خون اُگلنے لگا تو وہ مارے خوف کے نانی کی گود میں گھس گئی۔ نانی نے بہت سی باتیں سمجھائیں پھر کہا کہ ایسی حالت میں وہ نماز نہ پڑھا کرے۔ تب اس نے ناخن رنگ لئے۔ نانی نے ڈانٹا نہیں مسکراتی رہیں۔
ایک طرف ناخن رنگنے کی خوشی تھی تو دوسری طرف مصیبت بھی۔ نماز نہ پڑھنے پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ بھول رہی ہو ہر اذان پر چونک کر اُٹھتی پھر ناخن دیکھ کر مسکرادیتی۔ ان دنوں کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ عجیب سے بساند بھرے دن ، چپچپاہٹ کا احساس ، مضمحل اعضاء ، وہ سارا دن نانی کی گود میں گھسی رہتی نہ دعوتیں نہ کسی سہیلی کے گھر جانا۔ اکثر اسکول کا بھی ناغہ کردیتی۔ اپنے پالش سے رنگے ناخن گھورا کرتی۔ اس کے ناخن تھے بھی بہت خوب صورت ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنا کچھ بدل گیا ہے۔ اب ٹی وی کے اسکرین پر حسینۂ عالم اُچھلتی کودتی آتی ہے اور بڑی بے حیائی سے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دیتی ہے۔ کسی کو بُرا نہیں لگتا بچے بڑے سب آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔
اب تو نانی بھی نہیں رہیں۔ ان دنوں کا خوف بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ لیکن وہ ناخن ضرور رنگتی تھی۔ یہ ناخن اسے یاد دلاتے تھے کہ نماز کی چھٹی ہے۔
’’تو کیا -؟ ‘‘
مسرت کی ایک لہر پورے وجود کو گد گدا گئی۔ اگر ایسا ہے تو کتنا عجیب اتفاق ہے۔ شادی کے بعد صرف ایک ہی رات دونوں ملے تھے۔ اس کی سہاگ کی نشانی ہے یہ تو – اگر وہ جنم لے تو پھر وہ شادی کی اور اس کی سالگرہ ایک ساتھ منائے گی۔ اس کے جنم دن کے روز وہ سالگرہ نہیں منائے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ کب وہ اس کے وجود کا حصہ بنا۔ ایسا موقع کسے ملتا ہے۔ یہ سراغ ملتا ہی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ کس ساعت کے عمل کا نتیجہ ہے۔ لیکن وہ بتا سکتی ہے۔ وہ مسکرادی۔ اس نے ہولے ہولے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ خواہ مخواہ ہی اسے اپنا پیٹ اُبھرا اُبھرا سا نظر آیا۔
’’ابھی سے – ؟‘‘ وہ کھلکھلا کے ہنس دی۔
اس کی انگلیاں ناف تک پہنچیں تو ہلکا سا ارتعاش محسوس ہوا۔ باریک سی آواز آئی۔ ممی -!!
وہ چونکی۔ ہاں یہ آواز اس کی ناف سے ہی آئی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ اپنی ناف کو کان لگاکر اس آواز کو قریب سے سنے – لیکن یہ کیسے ممکن تھا۔ دوسرا سن سکتا ہے – دوسرا ؟
شام میں جب وہ ملے گا تو اسے سنائے گی آواز – !!
گھر سے نکلی تو بہت سنبھل سنبھل کے قدم رکھے۔ سارا دن کام میں دل نہیں لگا۔ وہ لوگوں کو ٹالتی رہی۔ دن بھر میں کئی بار اس نے وہ باریک سی آواز سنی۔
ممی – ممی – !!
’’چپ‘‘ اس نے پیار سے ڈانٹا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس نے لنچ بھی نہیں کیا کہ کہیں کوئی وہ آواز نہ سن لے۔ سب سے پہلے وہ آواز اُسے ہی سنانا چاہتی تھی۔
شام ٹھیک وقت پر وہ اسے لینے آیا۔ وہی روٹین لائف ،دفتر سے پارک جانا چراغ جلنے تک بیٹھے رہنا۔ سڑکوں پر گھومنا …کسی ریستوران میں کھانا – کسی تھیٹر میں کوئی فلم … کوئی بھی فلم ۔ انگریزی ، ہندی ، تلگو – ساتھ وقت کاٹنا مقصد تھا – اس صورتحال سے دونوں اُوب گئے تھے۔ میاں بیوی ہوکر بھی عاشقوں کی طرح وقت گزارنا – مشکوک نظروں کی غلاظت سے گزرنا … کتنا تکلیف دہ ہوگیا تھا سب کچھ …
دونوں نے شادی تو کرلی تھی لیکن ان کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا رات وہ اسے چھوڑ کر لوٹ جاتا آج اس کا کتنا جی چاہا کہ اس کا اپنا گھر ہوتا وہ سیدھے اپنے گھر جاتے پھر وہ اپنی ساڑی ہٹاکر اپنا پیٹ ننگا کردیتی اور اس سے کہتی کہ اپنا کان اس کی ناف سے لگاکر وہ باریک سی آواز سنے … ممّی…!!
اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر وہ بہت احتیاط سے بیٹھی۔ سنبھل کر- پتہ نہیں کیوں آج اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ریش … ڈرائیونگ کررہا ہو پھر شہر کی سڑکیں بھی کتنی نا ہموار لگ رہی تھیں ویسے وہ گاڑی تیز نہیں چلاتا تھا۔ دنیا بھر کی باتیں اسکوٹر پر ہی ہوتیں اس نے رفتار دھیمی کردی۔
پارک پہنچ کر وہ اپنی خاص جگہ پر آئے تو اس وقت سورج گھنے درختوں کے پیچھے چمک رہا تھا۔ پتوں سے چھن کر کرنیں لکیروں کی طرح واضح نظر آرہی تھیں۔ یہ شعاعیں اس لیے بھی واضح ہورہی تھیں کہ کہیں قریب میں سوکھے پتوں کے ڈھیر میں آگ لگادی گئی تھی دھواں اُٹھ رہا تھا ، فضاء میں عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ ایک اونچے پیڑ کی سوکھی شاخ پر چیل بیٹھی تھی اور مسلسل چلاّ رہی تھی اور اس کا نَر اس کے اطراف اوپر ہی اوپر اس طرح گھوم رہا تھا جیسے ایرپورٹ پر کوئی طیارہ لینڈنگ سگنل کے انتظار میں چکر لگا رہا ہو۔
اس وقت اس نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھا وہ جانتی تھی اب دھیرے دھیرے اس کی انگلیاں نیچے اُتر کر اس کی ناف پر رُک جائیں گی اور پھر وہ ناف کے اطراف اُبھری ہوئی جلد کو محسوس کرے گا۔ اس نے وہی کیا – اسے محسوس ہوا جیسے اس کے بچے کا دم گھٹ جائے گا۔ اور اس نے ہاتھ ہٹادیا۔
’’کیوں ؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’کان لگاؤ یہاں‘‘ اس نے کہا – اس نے کان لگادیئے۔
’’ کچھ سنائی دیا ؟‘‘
’’کیا مطلب ؟ وہ جیسے سب کچھ سمجھ گیا – وہ شرما گئی اور انتظار کرنے لگی کہ وہ اسے چوم لے گا۔ لیکن وہ سنجیدہ تھا۔
سورج پتہ نہیں کب اور نیچے اُتر آیا تھا ، ایک کرن سیدھے اس کے گال سے ٹکرائی ایک شعلہ سا بھڑکا –
’’تم خوش نہیں ہوئے…‘‘
’’نہیں ایسی بات نہیں ہے … لیکن کیا ہمارے حالات ایسے ہیں کہ …‘‘
’’ایک بات سنو گے تو اُچھل پڑو گے‘‘
’’کہو‘‘
’’یہ ہماری سہاگ رات کی نشانی ہے- ایسا تحفہ بہت کم ملتا ہے نا ؟‘‘ اس نے پرجوش انداز میں کہا لیکن وہ اُچھلا نہیں۔
’’میں کیری (CARRY) کروں گی‘‘ اس کے لہجے میں ٹھوس ارادہ تھا۔
’’لیکن کیسے ہوگا سب کچھ – ہمارا کوئی گھر نہیں۔ دو ایک دوستوں کے علاوہ ہماری شادی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ ہم مالی اعتبار سے بھی اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ فوراً کوئی انتظام ہوسکے۔ تمھاری دیکھ بھال – ملازمت – پھر تمھاری ممی تو گھر سے نکال باہر کردیں گی … کیسے ہوگا…؟ وہ مضطرب ہوگیا۔
’’میں سب سنبھال لوں گی‘‘۔
’’بی پراکٹیکل جان … میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے … اور پھر اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ ابھی تو ہم سنبھل بھی نہیں پائے…‘‘
اس نے سمجھایا-
’’ساری زندگی حالات نہیں سنبھلیں گے‘‘ اس نے غصے سے کہا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایسے ردعمل کی اسے توقع ہی نہیں تھی۔ اچانک ہوا چلی تو خشک پتوں کے ڈھیر میں شعلے بھڑکے …
’’پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کرو…‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام لیا۔ لیکن ایک جھٹکے سے اس نے چہرہ چھڑالیا…
سورج غروب ہورہا تھا آسمان لال انگارہ ہوگیا تھا۔ اس کی سرخی کے سامنے درخت کی ٹہنیاںاور پتیاں سیاہ لگ رہی تھیں۔ جیسے وہ سایہ ہوں… وہ پُل سے آگے بڑھ گئے … ’’میری بات سنو – دیکھو دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ ایک سرکل پورا ہورہا ہے۔ انسان ماقبل تہذیب جانوروں کی طرح رہتا تھا۔ ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہ تھا۔ پھر ذاتی ملکیت کا تصور اُبھرا۔ خاندان بنا قبیلہ بنا – رشتے ناطے بنے … وہ اپنے خاندان میں خوش رہنے لگا۔ پھر یہ خاندان بوجھ ہوگیا سنگل فیملی کا تصور اُبھرا – پھر وہ بھی سہار نہ سکا۔ کنٹریکٹ میریج ہونے لگی … لیکن اب میریج بھی نہیں۔ عورت اور مرد جب جی چاہتا ہے جنسی تقاضے پورا کرلیتے ہیں …‘‘
’’اس کے باوجود بچے ہوتے ہیں اور کوئی احتیاطی تدبیر کام نہیں کرتی وہ بچے جنم بھی دیتے ہیں‘‘۔
اس نے تلخی سے کہا۔
’’ہاں لیکن اس کا حل بھی اُنھوں نے ڈھونڈ لیا ہے -CHILD FARM ہونے لگے ہیں۔ بچے کو وہاں چھوڑ دیتے ہیں۔
’’پولٹری فارم کی طرح – کسی بچے کو علم نہیں ہوتا کہ اس کے ماں باپ کون ہیں – مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو مرغی اور انسان کے بچے میں فرق نہیں کرتے -‘‘ اس نے غصے سے کہا –
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا جان – مجھے بھی بچہ چاہئے لیکن ابھی اس کا وقت نہیںآیا۔ کیا ماحول دے پائیں گے ہم اسے -؟ کچھ دن رُک جاؤ -‘‘
’’دیکھو تم ابارشن پر اصرار کرو گے تو میں ابارشن کے ساتھ آپریشن بھی کروالوں گی‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’کرلینا کسی سے جنسی معاہدہ اور چھوڑ آنا اپنے بچے کو چائیلڈ فارم میں‘‘۔
’’میری بات تو سنو -‘‘
’’شٹ اپ‘‘ اس نے غصے سے کہا اور قدم تیز کردیئے – دونوں پارک سے باہر آگئے – وہ اسکوٹر پر بیٹھی تو اس کے زانو پر ہاتھ نہیں رکھا اور نہ اس سے لگ کر بیٹھی – روزانہ وہ پورے وجود کو اس کے ساتھ مدغم کردیتی تھی۔ اتنا چمٹ کر بیٹھتی تھی کہ راہ چلتے لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھتے۔ وہ اپنی نشست پر اس کے جسم کی نرمی اور گداز کو محسوس کرنے کا عادی ہوگیا تھا۔ لیکن جب وہ اس سے ناراض ہوجاتی تو الگ ہوکر بیٹھتی تھی۔ یہ اس کی خفگی کی علامت تھی – راستہ بھر دونوں نے گفتگو نہیں کی۔ اسکوٹر سے اُترتے ہی وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ اس سے پوچھا بھی نہیں کہ کل وہ کب آئے گا ، کچھ دیر وہ رُکا رہا پھر مایوسی سے لوٹ گیا۔
گھر جانے کے بعد وہ لباس تبدیل کئے بغیر بستر پر گر گئی۔ کتنا مختلف انسان لگا آج وہ – اس نے سہاگ رات والی نشان کی بات کو اہمیت ہی نہیں دی – بعد میں جنم دیں گے بچے کو – چائیلڈ فارم!! فلاسفی بگھارنا کتنا آسان ہے۔ جیسے ہم مغربی دنیا کا حصہ ہیں۔ چائیلڈ فارم تو ہمارے بعد والی نسل بھی نہیں دیکھے گی۔ خدانخواستہ یہاں ایسا ہوگا ہی نہیں – ابھی ہماری نانی ، دادی زندہ ہیں۔ رشتوں کا احترام باقی ہے-
رفتہ رفتہ اس کا دماغ ٹھنڈا ہونے لگا – ڈھیر سارے برتن اور کپڑے رکھے تھے – ماں کا رویہ – ! کیسی ماں ہے اس کی۔ گھر کی ملازمہ بنا رکھا ہے۔ نوکری بھی کرے اور یہ کام بھی – کب اس جہنم سے نجات ملے گی کب ؟ تین برس سے وہ کوشش کررہے ہیں لیکن الگ سے گھر نہیں لے پائے – اب تو شادی بھی کرلی – لیکن گھر – ؟ کہیں اس نے سچ تو نہیں کہا – ایسے ماحول میں وہ کیسے CARRY کرے گی۔ ماں تو گھر سے نکال باہر کرے گی۔ پھر وہ کہاں جائے گی – گھر ؟ – اس کی دیکھ بھال کون کرے گا کیسے ہوگا سب کچھ –
اس نے چادر اُٹھائی اور سر سے اوڑھ کر سیدھے لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ ’’فرسٹ بے بی ہے؟‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’رکھ کیوں نہیں لیتیں-؟‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’GAP چاہئے-‘‘
’’پہلا بے بی آنے دو پھر GAP رکھنا -‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے کہا
’’نہیں – وہ ………..‘‘ ڈاکٹر نے گولیاں لکھ دیں۔ وہ گولیاں لے آئی۔ گولیاں کھانے کے لئے اس نے پانی بھرا گلاس اُٹھایا تو وہی باریک سی آواز آئی – ممی!!
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے گلاس میز پر رکھ دیا۔
کتنا کہا کرتا تھا کہ دونوں کی نشانی ہونی چاہئے – اِس کے فیچرز ، اس کا کلر، اس کی آواز اس کا لہجہ – اس کی شوخی اس کی سنجیدگی ، اس کی ذہانت اس کی علمیت – ! پھر کیا ہوگیا ؟
نہیں ، چاہتا تو شاید وہ اب بھی ہے لیکن حالات سنبھلنے کے بعد ……..حالات !!
حالات – کیا حالات ایسے تھے کہ دونوں کو نکاح کرنا ضروری تھا ؟ کیا سہاگ رات منانا بھی ضروری تھی۔ پھر اب حالات کہاں سے آگئے – وہ جھلاّ گئی-
جیسا اب تک ہوتا آیا ہے۔ یہ بھی ہوگا۔
لیکن اپنے ماں بننے کی علامتیں وہ کیسے چھپا پائے گی ؟ شاید اسی لئے اس نے منع کیا ہو –
اس نے گولیاں حلق سے اُتار لیں – اب وہ باریک سی آواز بند ہوجائے گی۔ اس کا دل بھر آیا۔ کیسی بدقسمت عورت ہے وہ – صبح وہ ناخنوں کو پالش لگالے گی ۔ !! لیکن ناخن رنگے بغیر ہی وہ آفس چلی گئی – کام میں دل نہیں لگا۔ شام میں وہ اسے لینے آیا وہ چپ چاپ اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کل کی طرح فاصلہ رکھ کے – پارک آگیا۔
پُل پر ابھی دھوپ تھی وہ اس درخت کے پاس آگئے جس کی پھلیوں میں سرخ بیج ہوتے تھے پھلیاں سوکھ کر تڑخ جاتیں تو وہ بیج سبز لان پر اِدھر اُدھر بکھر جاتے اور بیر بہوٹی کی طرح جھانکنے لگتے۔ بڑی مشکل سے اُنھوں نے یہ درخت دریافت کیا تھا پورے پارک میں ایسا ایک ہی درخت تھا۔ وہ سرخ بیج اکٹھا کرنے لگی۔ دراصل وہ کانچ کے ایک گلدستے میں سرخ بیج بھر کے اس میں سرخ گلاب لگانا چاہتی تھی۔ ڈھیر سارے بیج جمع ہوگئے تھے – وہ بھی بیج چننے لگا لیکن آج بہت کم بیج تھے – وہ پُل پر آگئے –
’’بات نہیں کرو گی ؟‘‘ اس نے پوچھا –
’’کیوں ایسا خیال کیوں آیا تمھیں -‘‘
’’تمھیں شاید میری کل والی بات ، میرا رویہ ٹھیک نہیں لگا -‘‘
’’اب اس ذکر کو نہ چھیڑو تو بہتر ہے – وہی ہوگا جو تم چاہتے ہو۔ ہماری کوئی بچہ نہیں ہوگا -‘‘
’’میں نے یہ کب کہا‘‘۔
’’لیکن میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں ابارشن کے ساتھ آپریشن بھی کروالوں گی-‘‘
’’تم ایسا نہیں کروگی‘‘۔ اس نے غصے سے کہا
’’میں ایسا ہی کروں گی -‘‘
’’یہ کیا ضد ہے -‘‘ اس نے جھلاّ کر کہا‘‘۔ اچھا تو پھر کچھ نہ کرو ۔ کیری کرلو -‘‘
’’فار یور انفارمیشن میں کل ہی لیڈی ڈاکٹر سے مل چکی ہوں اور گولیاں بھی کھا چکی ہوں -‘‘
’’اوہ -‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔
پھر خاموشی رہی – اس نے ماحول کا تناؤ توڑنے کے لئے ٹی وی سیرئیل کا ذکر چھیڑ دیا – پھر دونوں فلموں کی ، اپنی اپنی ملازمتوں کی باتیں کرنے لگے ، لیکن سب کچھ کتنا مصنوعی اور کھوکھلا سا تھا۔ گولیاں ختم ہوگئیں اتنے دن انتظار بھی کرلیا جتنے دن ڈاکٹر نے کہے تھے لیکن ممی ۔ ممی کی آواز مسلسل آتی رہی۔
وہ لیڈی ڈاکٹر سے ملی۔
’’رکھ لو – بڑا ڈھیٹ لگتا ہے‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے کہا
’’نہیں -‘‘ اس نے سختی سے کہا۔
اس بار انجکشن دیا گیا۔ اسے محسوس ہوا انجکشن کا سیّال پورے وجود میں پھیلتا جارہا ہے اس کا بچہ اب دم توڑ دے گا۔ وہ رات بھر بے چین رہی۔ روز کی طرح شام وہ پارک آئے تو اس نے نہ اپنی کیفیات بتائیں اور نہ اپنی سوچوں کا اظہار کیا۔
پُل پر دھواں تھا وہ مصنوعی جھیل کے پاس پڑی بنچ پر بیٹھ گئے۔ یہ جھیل کشتی رانی کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس کے دونوں کناروں پر ناریل کے درخت جھکے ہوئے تھے۔ جھیل کا پانی گدلا تھا۔ ایک جانب کچرا جمع ہوگیا تھا۔ مینڈک کے بہت سارے بچے پانی کی سطح پر تیر رہے تھے۔ وہ اپنی دم پانی پر مارتے تو دائرے بن جاتے – پانی کی سطح پر کئی دائرے پھیلے ہوئے تھے – جب کوئی کشتی اِدھر سے گزرتی تو سارے دائرے مٹ جاتے وہ بچے پھر سے دائرے بنانے میں مصروف ہوجاتے۔
اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ چپکے سے اس کے ناخن دیکھے پالش نہیں تھی – وہ کندھے سے لگ گئی۔ کیسا ٹینشن ہے یہ – ؟ اگر حالات اچھے ہوتے تو یہ تناؤ نہ ہوتا دونوں اپنے پہلے بچے کا کتنی خوشی سے استقبال کرتے۔ وہ سچ بھی کہہ رہی تھی کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ بچے کے وجود میں آنے کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے –
’’بہت TENSION ہے؟ اس نے پیار سے پوچھا۔
اس نے بڑی بڑی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔ کچھ نہیں کہا۔
’’نہیں – تم کیری کرلو -‘‘ اس نے کہا۔ لیکن وہ چپ رہی۔ واپسی میں وہ اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تو اس سے چمٹی ہوئی تھی راستے بھر دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔
گھر جاکر وہ بستر پر لیٹ گئی-
’’ممی -‘‘ باریک سی آواز آئی –
وہ چونکی – تو کیا انجکشن بھی –
وہ لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھاگی – دو تین دن انتظار ورنہ M.T.P -!! اس کے علاوہ کوئی صورت نہ تھی۔ تین دن گزر گئے – آواز آتی رہی – کچھ بھی نہیں ہوا – اس موضوع پر دونوں نے بات بھی نہیں کی – وہ اکیلی سارا کرب جھیلتی رہی –
کل لیڈی ڈاکٹر نے وقت دیا تھا۔ رات بھر وہ کروٹیں بدلتی رہی – پتہ نہیں کیا ہو –
ممی – ممی – !!
اس کا دل بھر آیا – بیٹا ہماری دنیا ایسی نہیںہے کہ تم آؤ – دیکھو ہمارا اپنا کوئی گھر نہیں ہے – میری اور تمھاری دیکھ بھال کون کرے گا۔ جب میں جاب کرنے چلی جاؤں گی تو تم اکیلے کیسے رہو گے ؟-
’’ممی – ممی -‘‘ ایک آواز آتی رہی –
ساری رات وہ جاگتی رہی – صبح اس نے چھٹی کی درخواست بھیجی – پرس میں نوٹ رکھے اور دواخانے آگئی۔ جی بہت گھبرا رہا تھا۔
’’اکیلی ہو؟‘‘
’’ہاں -‘‘
’’ممی – یاہسبنڈ-؟
’’کوئی فرق نہیں پڑتا-‘‘ اس کے لہجے کو سن کر لیڈی ڈاکٹر چونک گئی۔ اچھا کیا صبح صبح آگئیں-‘‘ ڈاکٹر نے کہا – جیسے اس لہجے کی چبھن کو سہلا رہی ہو-
اسے آپریشن تھیٹر لایا گیا – ’’چپل باہر چھوڑ دیئے‘‘ نرس نے کہا۔ اس نے چپل چھوڑ دیئے۔ عجیب سی کیفیت تھی۔ جیسے کسی مقتل میں جارہی ہو – اسے لٹادیا گیا – نرس نے ڈیٹال سے پیر دھوئے- کپڑے اُتار کر گون پہننے کو کہا – بال کھول کر سکارف باندھ دیا – اے سی روم تھا لیکن گھٹن سی تھی پورے بدن سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا –
’’کیا بات ہے‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے کہا –
’’کچھ نہیں -‘‘
’’اتنا پسینہ کیوں بہہ رہا -‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے دونوں چھاتیوں کے بیچ کی خلا میں بہتے ہوئے پسینے کے قطروں کو انگلی کے پور پر لے کر کہا – اب بھی سوچ لو تم -‘‘
’’جی سوچ لیا -‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا –
گلوکوز چڑھانے کے لئے نرس رگ تلاش کرنے لگی۔ بڑی مشکل سے رگ ملی – ایک بوتل رکھی تھی۔ یہی بوتل اس کا قتل کرے گی۔ ڈاکٹر نے بے ہوشی کا انجکشن دیا۔ کچھ دیر بعد بوتل دھندلی ہوتی گئی ’’تھوڑا نیچے آؤ -‘‘ ڈاکٹر نے کہا – اس کا ذہن ڈوب رہا تھا وہ تنہا تھی بالکل تنہا – اس کا اپنا وہاں کوئی نہیں تھا جسے وہ آواز دیتی –
آواز -؟
بے ہوشی کا انجکشن دینے کے بعد بھی وہ آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی –
ممی – ممی –
ممی – ممی –
پھر رفتہ رفتہ آواز دور ہوتی گئی۔ آخری بار اس نے وہ آواز سنی تو ایسا لگا جیسے کوئی گہرے کنویں سے پکار رہا ہو – پھر اسے ہوش نہیں رہا۔ ہوش آیا تو دیکھا کے کمرے میں اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ایک سنّاٹا تھا – عجیب سا خالی خالی پن محسوس ہورہا تھا – پھر کوئی آیا – ڈاکٹر تھی۔ گھنٹہ بھر آرام کرلو – طبیعت سنبھل جائے تو چلی جانا -‘‘ ڈاکٹر کی آواز سائیں سائیں کررہی تھی۔ اس کے وجود کا ایک حصہ گم ہوگیا تھا۔ وہ پوری نہیں ہے – وہ نامکمل ہے – کہیں کچھ کم ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر چلی گئی تو وہ جی بھر کے رونے لگی – کتنی دیر تک روتی رہی۔ جب ڈاکٹر نے کہلوایا کہ اب وہ جاسکتی ہے تو اس نے آٹو منگوایا اور لڑ کھڑاتے قدموں سے چلی گئی۔ وہ سیدھے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر نیل پالش رکھی تھی۔ اس نے نیل پالش کی شیشی اُٹھائی – ناخن رنگنے کے لئے ڈرا کھولا تو چکنائی بھرا مادہ باہر آیا – عجیب سی چپچپاہٹ تھی – اس نے برش ناخن پر رکھا تو لگا جیسے تازہ تازہ خون ہو – خون … وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ شاید اس کے بچے کو کنویں میں ڈھکیل دیا گیا ہے۔
شاید وہ محفوظ ہے – کوئی قافلہ اِدھر سے گزرے گا تو اسے باہر نکالے گا … اس کی وجاہت نازک انگلیوں کو زخمی کرے گی ، اور پھر وہ سات مقفل دروازوں کی پرواہ کئے بغیر بھاگے گا تو دروازے خود بخود کھل جائیں گے لیکن قید خانے پر اس کی دوڑ ختم ہوگی – پھر وہ قید خانے سے معبّر بن کر نکلے گا۔ اس وقت تک وہ بینائی کھوچکی ہوگی۔ اس کا بیٹا اسے اندھیروں سے نکالے گا۔
٭٭٭