پے ول زمانک
پے ول زمانک کے کردار کے ایک سے زیادہ رخ ہیں۔ ناول کے حصہ دوم میں جب وہ قاری کے رو بہ رو آتا ہے تو وہ رقص و نغمہ کے ایک گروپ کا رکن ہوتا ہے جو دیگر گروپوں کے ساتھ آزادی کی سال گرہ منانے کے سلسلے میں ہونے والے عظیم الشان جشن میں شریک تھا۔ ہیلینا بھی اسی گروپ میں شریک تھی۔ پراگ میں ہونے والے اس جشن میں اطالوی مزدور تحریک کا سربراہ تغلیاتی بھی اسٹیج پر موجود تھا۔ پے ول زمانک نے موقع محل کی مناسبت سے اس زمانے کے مقبول اطالوی گیت کو گانا شروع کردیا۔ گروپ کے دوسرے شریک موسیقاروں کو بھی اشارہ کرتا گیا کہ اس کا ساتھ دیں۔ ان کے گروپ نے وہی گیت الاپنا شروع کردیا:
اوانتی پوپیو لو رسکوسا
بینڈیریا روسا
بینڈیریا روسا
پھر یہ ہوا کہ دوسرے بھی ان کے گروپ سے ہم آواز ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد پچاس ہزار کا مجمع وہی گیت گانے لگا۔ تغلیاتی اشک آلودہ آنکھوں کے ساتھ اسٹیج پر کھڑا ہو کر گیت کے سروں کے مطابق ہاتھ ہلا کر شریکِ نغمہ ہوگیا۔ یہ ایک اعجاز تھا جو وقوع پذیر ہوا۔ اس کے عقب میں پے ول زمانک کی ذہانت اور موقع شناسی کارفرما تھی۔
جشن کے بعد ہیلینا اور پے ول دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے گھومتے پھرتے نظر آئے۔ پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ دونوں رشتۂ ازدواج میں بندھے اور ان کی ایک بیٹی بھی ہوئی۔
شادی کے سات برس بعد جب ان کی بیٹی زینا پانچ سال کی تھی، پے ول نے اپنی بیوی ہیلینا سے یہ کہا کہ اس نے محبت کی شادی نہیں کی تھی، بلکہ پارٹی ڈسپلن کے تحت شادی کی تھی۔ دونوں ایک ہی چھت کے نیچے ایک دوسرے سے جدا رہنے لگے۔
پے ول نے دوسری عورتوں سے تعلق پیدا کیے۔ اس کی محبت کرنے والی بیٹی کی محبت بھی پے ول کا راستہ نہیں روک سکی۔
پے ول زمانک کا کردار ایک خود پسند، خود پرست اور خود غرض انسان کا کردار ہے۔ وہ ایسا موقع پرست شخص ہے جو ہر اُس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے جو زندگی میں اس کو اوپر سے اوپر لے جاسکے۔ اخلاقی یا کسی نوع کی اقدار سے اسے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ وہ چہرے پر نقابیں ڈالنے اور اتارنے میں یدِ طولیٰ رکھتا تھا۔ ایک یہی حقیقت لے لیجیے کہ وہ کارل مارکس کا پروفیسر تھا، لیکن اپنے آپ کو فلسفے کا پروفیسر مشہور کیے ہوئے تھا، کیوںکہ کارل مارکس کی شہرت ماند پڑنے لگی تھی۔
لڈوک جاہن نے پے ول زمانک کو دشمن کا روپ دے رکھا تھا اور اس کو اپنے مصائب کا ذمے دار قرار دے رکھا تھا۔ معروضی نقطۂ نظر سے کام لیتے ہوئے سارے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ پے ول زمانک نے لڈوک جاہن کے خلاف جو مؤقف اختیار کیا وہ لڈوک جاہن سے دشمنی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا اور تمام متعلقہ افراد پر اپنی قابلیت کا سکہ جمانا تھا۔ چناںچہ قوم پرست مفکر اور آئیڈیل ہیرو فیوکک کی کتاب کا حوالہ دے کر اور اقتباسات پڑھ کر وہ ہر کس و ناکس کو متأثر کرتے ہوئے لڈوک جاہن کے خلاف ایک متفقہ فیصلۂ جرم و سزا منظور کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ لڈوک جاہن کے مارکٹا کو ارسال کیے ہوئے پوسٹ کارڈ کی تحریر مشکوک تھی اور اس کا دفاع کیا جانا ممکن نہ تھا۔
ناول کے کسی بھی مرحلے پر پے ول زمانک، لڈوک جاہن کے خلاف اپنے کسی اقدام پر نادم ہوتا ہوا یا لڈوک جاہن پر ترس کھاتا ہوا، قاری کے سامنے نہیں آتا۔
پے ول زمانک کے کردار میں ندامت کا عنصر نہیں ملتا۔ وہ اپنی شاگرد/ محبوبہ کو اپنی بیوی ہیلینا سے ملاتے ہوئے قطعی نہیں جھجکتا۔ وہ لڈوک جاہن سے بھی بے جھجک ملتا ہے۔
وہ اپنی بیوی ہیلینا کو لڈوک جاہن کے ساتھ دیکھ کر بھی مطمئن رہتا ہے، بلکہ تھوڑا بہت خوش بھی۔ اس کے کردار میں خود احتسابی کا عنصر نہیں ہوتا ہے۔ اس کے ہاں ضمیر کا، ضمیر کی خلش کا شائبہ نہیں ملتا۔ اس کو ایک دنیا دار آدمی کہنے کے علاوہ ہم کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔
مارکٹا
مارکٹا انیس برس عمر کی سال اوّل کی طالبہ تھی۔ صورت شکل کی ٹھیک ٹھاک، لیکن حد سے زیادہ سادہ، بھولی بھالی لڑکی تھی۔ حسِ مزاح نام کو بھی نہیں تھی۔ دوسروں کے مزاح کو بھی سمجھ نہیں پاتی تھی۔ ہر بات کو سنجیدگی سے لیتی تھی۔ ساتھی طالب علم اس کو اپنی شرارت کا نشانہ بنائے رکھتے۔ مثال کے طور پر جب چند لڑکوں نے اس سے باجماعت ایک فرضی بونا قوم کا ذکر کیا تو مارکٹا نے یقین کرلیا۔
زمانہ ۱۹۴۸ء کے آس پاس کا تھا۔ اس زمانے کو مؤرّخین نے تاریخی رجائیت (Historical Optimism) کا زمانہ بتایا ہے۔ اس زمانے میں سنجیدگی اور کبیدہ خاطر ناپسندیدہ تھی۔ اجتماعیت کا زمانہ تھا اور انفرادیت معتوب گردانی ہوئی تھی۔
مارکٹا مارکسزم سے زیادہ نباتات میں دل چسپی لیتی تھی، لیکن پارٹی کو پوری اہمیت دیتی تھی۔ جب اسے موسمِ گرما کی چھٹیوں میں، دو ہفتوں کے ایک تربیتی کورس میں بھیجا گیا تو اس نے کامریڈوں کے اس فیصلے کو کسی چون و چراں کے بغیر قبول کیا۔ لڈوک گرما کی چھٹیاں مارکٹا کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ اسے اس فیصلے سے بڑی کوفت ہوئی۔
مارکٹا جس تربیتی مرکز میں بھیجی گئی تھی وہ بوہیمیا کے ایک قلعے میں رکھا گیا تھا۔ مارکٹا کو وہاں کا ماحول اور فضا اچھی لگی اور اس نے لڈوک کو جو خط لکھا تو اپنے محسوسات لکھ بھیجے۔ لڈوک پر اس کے خط کا الٹا اثر ہوا۔ وہ جل بھن گیا۔ اس نے اپنے اسی تیکھے موڈ میں مارکٹا کو وہ پوسٹ کارڈ لکھ بھیجا جو فساد کی جڑ ثابت ہوا اور لڈوک جاہن کی بربادی کا باعث بنا۔ مارکٹا نے اس پوسٹ کارڈ کو پارٹی کے کرتا دھرتا یا حکومت کے افسروں کو نہیں بھیجا۔ ایسے شواہد نہیں ملتے۔ ڈاک کے سنسر کے شعبے نے اس پوسٹ کارڈ کی تحریر کی نقل متعلقہ مقتدران حکومت اور پارٹی کو بھجوائی۔
مارکٹا نے اس پوسٹ کارڈ کا جواب مختصر اور رسمی دیا۔ البتہ لڈوک سے خط کتابت بند کردی۔ لڈوک ہر روز اس کو خط روانہ کرتا رہا، جن میں اس کو منانے اور رجھانے کے مضمون ہوتے، لیکن مارکٹا نے اس کے کسی بھی خط کا جواب نہیں بھیجا۔
پھر یہ ہوا کہ وہ پراگ میں مارکٹا کے گھر جاپہنچا اور اپنی اکیلی ماں سے ملنے کے معاملے کو پسِ پشت ڈال دیا۔ مارکٹا، لڈوک سے ملتی رہی۔ اس کے ساتھ چہل قدمی کرتی رہی۔ اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن ایک دن جب اس نے فون کیا تو جواب ملا مارکٹا پراگ سے باہر چلی گئی ہے۔ مارکٹا نے لڈوک کو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ مارکٹا کے اس رویے کا تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ وہ لڈوک سے بات چیت بند نہیں کرتی ہے۔ اس سے جھگڑنے سے پرہیز کرتی ہے۔ اس کے ساتھ روز کی چہل قدمی بند نہیں کرتی ہے، لیکن اسے بتائے بغیر گھر سے چلی جاتی ہے۔ صاف لگتا ہے کہ اس کا اندرون لڈوک سے تعلقات رکھنے، نہ رکھنے، کس نہج رکھنے کے مسائل پر کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے۔
نیچرل سائنس کے جرم و سزا کے اجلاس میں پے ول زمانک، لڈوک جاہن کو مجرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ حاضرین میں سب کے ہاتھ لڈوک کے خلاف اٹھتے ہیں۔
اس اجلاس سے قبل مارکٹا نے لڈوک سے تفصیلی بات چیت کی۔ اس کا مؤقف یہ تھا کہ وہ اس کو بے گناہ نہیں سمجھتی، مجرم مانتی ہے، لیکن وہ یہ بھی مانتی ہے کہ غلطی آدمی سے ہوتی ہے اور وہ کسی کے منع کرنے پر دھیان نہیں دے گی۔ اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ ملتی رہے گی۔ لڈوک جاہن، مارکٹا سے ملتے رہنا چاہتا تھا، کیوںکہ مارکٹا اس کو اپنا سب کچھ دینے پر مائل نظر آرہی تھی، لیکن وہ یہ چاہتا تھا کہ مارکٹا، کم از کم مارکٹا اس کے مذاق کو مذاق سمجھے اور مجرم نہ مانے۔ یوں دونوں میں کسی قسم کا سمجھوتا ہونے کا امکان باقی نہیں رہا۔ مارکٹا کا یہ مؤقف اس کے نائیو (naive) ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
یہ سوال آیا مارکٹا، لڈوک سے محبت کرتی تھی یا نہیں؟ قاری کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ لڈوک کے سلوک میں جو ہم دردی اور ہر کس و ناکس کو فیض پہنچانے کا عنصر ہے وہ مخالف جنس پر کیسے اثرات مرتب کرتا ہے؟ اس کا تجزیہ کیے بغیر اس سوال کے جواب تک پہنچنا ممکن نہیں۔ مارکٹا حسین ہونے کی حد تک قبول صورت ہونے کے باوجود اس لائق نہیں تھی کہ اسے چاہا جائے، کیوںکہ نائیو ہونے کے ساتھ ساتھ بور ہونے اور بور کرنے کی حد تک سنجیدہ تھی۔ لڈوک کی توجہ مارکٹا کے لیے ایک ایسا قیمتی سرمایہ تھی جسے وہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اس کو قاری کیا نام دے سکتا تھا؟ قاری شاید کسی فیصلے پر نہیں پہنچے گا۔
لوسی
ناول کے تیسرے حصے میں قاری لوسی سے پہلی بار متعارف ہوتا ہے، لڈوک جاہن کے وسیلے سے۔ لڈوک جاہن جبری کان کنی کی سزا کاٹنے کے دوران ایک چھٹی کے دن ٹراموں میں اسٹار وک جاپہنچتا ہے۔ وہاں گھومتے پھرتے ایک بے نام سینما کے قریب اس کی نظر لوسی پر پڑتی ہے۔ لڈوک اس کے پیچھے چلنے لگتا ہے اور شاید پہلی ہی نظر میں اسے چاہنے لگتا ہے۔ سینما میں لڈوک اس کے برابر والی نشست پر بیٹھ جاتا ہے۔ فلم ختم ہونے پر لڈوک، لوسی کو اووَر کوٹ پہننے میں مدد دیتا ہے۔ پھر دونوں میں بات چیت بھی ہوتی ہے۔ دونوں میں کی اس بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ لوسی ایک فیکٹری میں ملازم ہے اور ایک قریبی ڈورمیٹری میں رہتی ہے۔ رخصت ہوتے سمے یہ طے پاتا ہے کہ لڈوک چاہے تو اپنی چھٹی کے بارے میں پوسٹ کارڈ بھیج کر لوسی سے ملنے آسکتا ہے۔
لوسی اس کے بعد سے لڈوک کے لیے ہمہ انتظار تھی خواہ وہ ہفتوں نہ مل سکیں۔ لڈوک اس پر اعتماد کرنے لگا تھا یا لوسی نے اس پر ایسا تأثر قائم کردیا تھا۔ لوسی کی شخصیت اور زندگی سیاست کے پورے دائرے اور اس کے داؤ پیچ سے یکسر باہر تھی۔
لڈوک کی نظروں سے دیکھا جائے تو لوسی، لڈوک کے گم شدہ گل زار میں ایک غریب ترس کھانے کے لائق لڑکی تھی، ایسی لڑکی جو چاہے جانے کے لائق بھی تھی۔
لوسی مغربی بوہیمیا کی ایک نوجوان انیس سالہ دل کش قد و خال کی لڑکی تھی۔ اس کی ماں اور سوتیلا باپ اسے مارتے پیٹتے تھے۔ ایک مرتبہ اس پر پیسے چرانے کا الزام بھی لگایا تھا۔ اس نے اسکول پاس کرتے ہی گھر چھوڑ دیا اور ملازمت کرلی۔
وہ سنجیدہ مزاج کی تھی۔ لڑکیاں ڈانس پارٹیوں میں جاتیں اور لڑکوں کو ڈورمیٹری میں لاتی تھیں۔ لوسی کو یہ سب ناپسند تھا۔ وہ اکیلے سینما دیکھا کرتی۔ اس کا لڈوک سے دوستی کرلینا جو اس کے لیے ایک اجنبی فوجی تھا، قاری کی سمجھ میں آسانی سے نہیں آسکتا۔
موسمِ گرما کی فضا میں ایک دن لڈوک نے لوسی کو مشہور چیک شاعر ہالاس کی ایک نظم سنائی جس کے آخری تین مصرعے تھے:
مفہوم سے تہی الفاظ میں تمھیں پیش نہیں کررہا، خاموشی نذر کرتا ہوں
حسن سے زیادہ، کسی بھی چیز سے زیادہ
ایک نوع کا جشنِ شناسائی!
نظم اور خاص طور پر اس کے آخری تین مصرعوں کے سننے کے بعد اچانک لوسی رونے لگی۔ وہ لڈوک کی گردن سے کسی بچی کی طرح لپٹ گئی تھی۔ اس کا سر لڈوک کے سینے پر پھیلے ہوئے سبز یونی فارم کے کپڑے میں دھنس گیا تھا۔ وہ روتی چلی گئی، روتی چلی گئی۔
لوسی کا اشعار سن کر رو پڑنا اور لڈوک سے لپٹ کر رونا قاری کو متأثر کرے یا نہ کرے، لیکن سوچنے پر ضرور اکسائے گا۔ یہ رونا لوسی کے ماضی سے ہم رشتہ ہوکر اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اس کے اندرون میں کوئی بند ٹوٹ گیا اور سیلاب سا آگیا۔ جہاں تک لڈوک جاہن کا تعلق ہے اس رونے اور لپٹنے سے لوسی اس کے قریب ہوگئی اور اس کو اپنے قریب کرلیا۔ ایک عجیب تجربے سے یہ دونوں گزرے کہ لڈوک لوسی کو خط بھیجتا تو لوسی خط کا جواب نہیں دیتی۔ البتہ ہر ملاقات میں اسے پھول دیتی۔ دستور کے مطابق مرد عورت کو پھول پیش کرتا ہے۔
لڈوک نے یہ محسوس کیا کہ لوسی کے پاس صرف تین جوڑے کپڑے ہیں جن کو وہ بدل بدل کر پہنتی ہے۔ وہ پرانے بھی ہوچکے ہیں۔ اس سبب سے وہ لوسی کو ڈپارٹمینٹل اسٹور لے جاکر کپڑے دلا دیتا ہے۔ لوسی نئے لباس میں بالکل نئے روپ میں ڈھل گئی۔ جب وہ نائٹ گاؤن پہن کر سامنے آئی تو لڈوک اسے شناخت نہ کرسکا۔
ڈورمیٹری میں لوسی کے ساتھ جو تین لڑکیاں رہتی تھیں، ان کو ایک ماہ کے لیے جبریہ زراعتی بریگیڈ میں بھیج دیا گیا۔ لڈوک کو جب یہ معلوم ہوا کہ لوسی تنہا رہے گی تو اس نے خواہش ظاہر کی وہ لوسی کے ساتھ اس کے روم میں کچھ وقت گزارنا چاہتا ہے تو لوسی تھوڑی سی پس و پیش کے بعد راضی ہوگئی، لیکن لڈوک کے کمانڈنگ افسر کا تبادلہ ہوا۔ نئے سی او نے بہانے بہانے سے ان لوگوں کے پاس (pass) بند کرنے شروع کردیے۔
پاس ملتے ہی لڈوک نے لوسی کی طرف دوڑ لگائی (اس کو اطلاع دے کر)۔ لوسی کی کمرے کی ساتھی لڑکیوں کی واپسی اگلے دن متوقع تھی۔ لڈوک کو چند گھنٹوں کا وقت میسر آیا تھا۔
لوسی بڑے چاؤ سے ملی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر خود کواڑ کے پیچھے چھپ گئی۔ اس کے بدن پر وہی لباس تھا جو لڈوک نے خریدوایا تھا۔ کمرے کو پھولوں اور ہری ٹہنیوں اور پتوں سے سجایا ہوا تھا۔ بستر کی چادر کو اسپرے کیا ہوا تھا۔ کمرہ کیا تھا اچھا خاصا حجلۂ عروسی تھا۔ دونوں میں بوس و کنار کا لامتناہی سلسلہ چل رہا تھا۔ اس تمام دوران لوسی کا رویہ ایسا تھا کہ صرف اور صرف حساس، بلکہ غیر معمولی حساس آدمی کی گرفت میں آسکتا تھا۔ وہ رویہ تھا بہ یک وقت سپرد کرنے اور نہ کرنے کا۔ لوسی اپنے آپ کو لڈوک کے سپرد کر بھی رہی تھی اور بچا بھی رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بچانے میں مزاحمت سے کام بھی لے رہی تھی اور وہ بھی جم کر۔ اس طرح دونوں کو دستیاب وقت گزر گیا۔ البتہ لوسی نے آئندہ کے لیے لڈوک سے وعدہ کرلیا۔
اس مرحلے پر قاری کو یہ ادراک حاصل ہونا عین ممکن ہے کہ لوسی کسی اندرونی کش مکش سے دوچار ہے جس کے تحت وہ اپنے آپ کو لڈوک کے سپرد نہیں کرپارہی ہے۔ لڈوک کے ہر کردار کی خود مرکزیت اسے اِس ادراک سے محروم رکھے ہوئے ہے یا شاید عجلت پسندی، کیوںکہ وہ جنسی بھوک میں مبتلا ہے اور اس کے صبر و ضبط کا پیمانہ بھر چکا ہے۔
دوسری جانب جبریہ کان کنی کے مرکز میں حالات، کان کنی کی سزا بھگتنے والوں کے حق میں (بشمول لڈوک جاہن) زیادہ سے زیادہ ناسازگار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سنیچر کی چھٹیوں اور اجازت ناموں کے حصول میں رکاوٹیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ لڈوک جاہن اور لوسی کے تعلقات ان رکاوٹوں کے زیرِ اثر مشکل ترین دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان مشکل حالات میں لڈوک کے خطوط کے جواب بھجوانے کے بجائے لوسی خود اس سے ملنے پہنچ گئی (وہ خط نہیں لکھتی تھی شاید وہ بدخط ہوگی۔ لڈوک کا یہی خیال تھا)۔ پھول پیش کیے، باتیں کیں۔ باڑھ کے سوراخ میں دونوں کے لب بھی آپس میں ملے۔ ایک معمول سا بن گیا۔ لڈوک صبح کی شفٹ میں تھا۔ لوسی ہر رات تاروں کی باڑھ کے پاس لڈوک سے ملتی۔ قاری لوسی کے اس التفات اور اس خصوصی توجہ کو کیا مفہوم و معنی پہنائے گا، سوچنے کی بات ہے۔ جب کہ لڈوک جاہن کے کان کنی کے ساتھیوں میں سے چند لوسی پر باجماعت عاشق ہوئے جارہے تھے۔ بالآخر لڈوک جاہن نے باڑھ کے قریب ایک چھوٹی سی کوٹیج کا انتظام کیا۔ وہاں لوسی سے لڈوک جاہن ملنے گیا۔ واچ ٹاور، کتے کے ساتھ گشت سے بچتے بچاتے۔ ان کے ایک ساتھی ہونزا نے ایک جگہ باڑھ کے تاروں کو کاٹ کر راستہ سا بنایا تھا، اس راستے کا لڈوک جاہن نے استعمال کیا تھا۔ اس کوٹیج میں لڈوک برہنہ ہوگیا، لیکن لوسی نے اپنے ملبوس کو ہاتھ لگانے نہیں دیا اور زبرست مزاحمت کی۔ لڈوک اس ردِعمل کو جو خلافِ توقع تھا، برداشت نہ کرسکا اور لوسی کو باہر نکال دیا۔ وہ ہمیشہ کے لیے لڈوک کی زندگی سے نکل گئی۔ لڈوک دل سے یہ چاہتا رہا کہ اسے روک لے، منالے اور اس کے جسم کا خیال ترک کرکے، اس کی مرضی کے مطابق رشتہ استوار رکھے، لیکن اس نے لوسی کو اپنی زندگی سے نکل جانے دیا۔ یہ سارا معاملہ بھی قاری کے لیے ناقابلِ فہم رہا۔ لوسی نے اس دوران لڈوک سے کہا تھا، ’’تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ہو۔‘‘ لوسی کے اس فقرے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بغیر محبت کے جنسی عمل کو برداشت نہیں کرسکی تھی۔
تاہم اس نے لوسی کو خط لکھے۔ ایک خط اسے واپس ملا۔ لفافے پر تحریر تھا ’’گھر چھوڑ دیا، پتا نہیں چھوڑا۔‘‘
لوسی ایک مرتبہ پھر اس کے دل و ذہن پر مسلط ہوگئی اور دن کی روشنی میں باہر نکل بھاگا۔ ڈورمیٹری سے اور جوب کی جگہ سے لوسی کے بارے میں کوئی خبر اسے نہ مل سکی۔ واپس ہوا تو وہ پکڑا گیا۔ کورٹ مارشل ہوا۔ دس ماہ کی جیل ہوئی۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...