سنت پنواڑ الجھک: سنتری کی جنتری ( خود نوشت ) ،چُغد سرقہ ،کرگس نگر 2017
رسوائے زمانہ نائکہ تفسہہ کے لے پالک بیٹے سنت پنواڑ الجھک کا شجرہ نسب ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوگیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیاہی وال کے اس درندے کو سب لوگ مشکوک نسب کا ٹھگ سمجھتے ہوئے اس پر تین حرف بھیجتے ہیں ۔ نصف صدی پہلے کی بات ہے میں نے شیخ ظہیر الدین ،عبد الحلیم،فیض محمد خان ، سید مظفر علی ظفر ،دیوان احمد الیاس نصیب ، حاجی محمد ریاض ،امیر اختر بھٹی اور غلام علی خان چین کے پاس ایک پر اسرار شخص کو محو تکلم دیکھا جس کی کرگسی نگاہوں کے سامنے چغد و شپرکی چشم پوشی بھی ہیچ تھی۔ یہ شخص جھنگ کی نواحی بستی ’کُلی فقیر ‘ کا مکین اور قدیم روایات کا رہین تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ وہ قلی قطب شاہ ( 1565-1612)کے نواسے کا پڑپوتاہے ۔ اس کی پرد ادی بھاگ متی کے بھائی سنت مرلی منوہربرہمچاری نے اُنیسویں صدی کے آ غاز میں اس ویران اور بے آب وگیاہ ریگستان میں قدم رکھا اور جھنگ کی نواحی بستی کُلی فقیرمیں زندگی بھرقیام کیا ۔ جس وقت ساری دنیا محواستراحت ہوتی یہ تارک الدنیا سادھو ساری ر ات جاگ کر گزارتا اور کھیتوں کھلیانوں کے چکر لگاتا۔ رات کی تاریکی میںاس شخص کی بلامعاوضہ گلہ بانی ،نگہبانی اور پہرے داری سے غریب دہقانوں کے مویشیوں کے ریوڑ جنگلی درندوں کی غارت گری اور رسہ گیروں کی دہشت گردی سے محفوظ رہتے ۔لوگ اس لٹھ بردار تنو مند شخص کو سنتری کہہ کر پکارتے تھے ۔ یہ ضعیف سنتری دکنی زبان پڑھنا لکھناجانتاتھااس نے سب سے پہلے روزانہ خبریں لکھ کر گھر گھر پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا ۔اس اخبار کا نام اس نے’ سنتری کی جنتری ‘ رکھا جسے جھنگ کے راجے ،مہاراجے ، منتری اور مہا منتری بھی شوق سے پڑھتے تھے ۔یہ شخص چراغ کی کالک اور کیکر کی گوند کو ملا کر خشک کرکے رشنائی تیار کرتا پھر مٹی کی دوات میں اس کا محلول تیار کر کے دوات اپنے قلم دان میں رکھتا ۔زاغ و زغن کے پر اکٹھے کرتا اور اس خود ساختہ روشنائی کی دوات میںکسی طائر کا موزوں پر ڈبو کر کاغذکے ٹکڑوں یا کیلے کے خشک پتوں پر سوانح لیل و نہار اور شہر نا پرساں کے اخبار لکھتا۔اس کاخیا ل تھا کہ ایام گزشتہ کی کتاب انسان کو ہمیشہ کے لیے کبھی الوداع نہیں کہتی بل کہ اس کے اہم ترین مندرجات میں یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ اچھا دوست اگر زندگی نے وفا کی تو کسی موڑ پر پھر ملیں گے ۔ تاریخ اور اُس کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والے اُس سیلانی مزاج فقیر کا اصرار تھا کہ تاریخ کا یہی تو واحد اور ناقابلِ تردید سبق ہے کہ آج تک کسی دور میں کسی شخص نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیںسیکھا۔
سنتری تک خبریں پہنچانے میں کئی طوائفیں ،ڈومنیاں اور کٹنیاں بھی شامل تھیںجن کی چال اور ڈھال دیکھ کر سب دنگ رہ جاتے تھے۔ خرچی کی کمائی سے تجوری بھرتے ہی اُلٹا توا بھڑوا’رمنو ‘جو آبنوس کا کُندا تھا اپنے تئیں زعفران کی شاخ سمجھنے لگا۔اسے دیکھ کر سب لوگ سوچنے لگتے کہ یہ خسیس کسی اُجاڑ صحر ا کا آدم خور ہے یا کسی ویران دشت کا درندہ۔حیرت کی بات تو یہ تھی کہ قفسو جیسی ارنڈ کی جڑ بھی ہر نخل تناور کو آنکھیں دکھاتی اور قلزم خیال پر چڑھائی کرنے میں تامل نہ کرتی۔قفسو نے سنت مرلی منوہربرہمچاری کو اپنے دامِ الفت کااسیر بنا رکھاتھا۔
اپنے قحبہ خانے کے بھڑوے مردوں کو حقارت سے دیکھتے ہوئے اپنے آشنا سنت مرلی منوہربرہمچاری سے مخاطب ہو کراپنے بارے میں رعونت سے قفسو کہتی تھی : ’’ میں لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کا فن جانتی ہوں ۔ تم جیسے مر دوئے ایسی بات کہاں سے لا سکتے ہیں ؟‘‘
اپنے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے سنت مرلی منوہربرہمچاری بتاتاکہ ہر عہد کے موقع پرست سقہ سے ان کا رشتہ پکاہے ۔ چھبیس جون 1539ء کومغل بادشاہ ہمایوں کو بکسر سے دس میل جنوب مغرب میں دریائے گنگا کے کنارے پر واقع مقام چوسہ کی لڑائی میںجب شیر شاہ سوری کے مقابلے میں شکست ہوئی تو ہمایوں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلا۔شیر شاہ سوری کی فوج نے اس کاتعاقب کیا تو ہمایوں نے دریائے گنگا میں چھلانگ لگادی اور تیر کر دوسرے کنارے پہنچنے کے بعدآگرہ پہنچنے کاارادہ کیا۔ ہمایوں کی فوج کے بزدل سپاہیوں نے بھی دریا میں چھلانگ لگا دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریائے گنگا کی طوفانی لہریں ہمایوں کی فوج کے سب سپاہیوں کو بہا لے گئیں۔ایک ماشکی جس کانام نظام سقہ تھا اس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر ہمایوں کی جان بچائی اور شکست خوردہ اور مضمحل بادشاہ کو مشک کے سہارے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچایا ۔ موسمی تبدیلیوں اوربر ادران یوسف کی محسن کشی کے بعد اس ماشکی کی سرفروشی نے ہمایوں کو سوچنے پر مجبور کر دیاکہ درباری لوگ کس قدر جلدبدل جاتے ہیں مگر یہ سقہ اب تک قدیم روایات پر پکا یقین رکھتاہے ۔ ہمایوں نے اس ماشکی سے کہاکہ غم نہ کر ابھی زندگی پڑی ہے جب بھی اچھا وقت آ ئے گا وہ اس کے بہت بڑے احسان کا بدلہ ضرور اتارے گااور ماشکی کو منھ مانگا انعام ملے گا۔ حالات سے دل برداشتہ ہوکرہمایوں جیسلمیر کے راجہ کی دعوت پر سندھ پہنچامگر اسے کسی مخبر نے بتایا کہ راجہ کی نیت میں فتور ہے اور وہ اُسے گرفتار کر کے شیر شاہ سوری کے حوالے کرنا چاہتاہے ۔ اسی اثنا میں سندھ میں عالم ِ تنہائی اور عذاب در بہ دری کے دوران میں ہمایوں اپنے بھائی ہندال کے گھر ٹھہرا وہاں اس کی نگاہ ایک گھریلو ملازمہ حمیدہ بانو پر پڑی ۔ حمیدہ بانو کی نگاہ ہمایوں کے دل سے ہوتی ہوئی شکست خوردہ بادشاہ کے جگر تک اُتر گئی۔اس پہلی اتفاقی ملاقات کے بعد ہمایوں اور حمیدہ بانو دونوں شادی پر رضا مند ہو گئے ۔کچھ عرصہ بعد جب حمیدہ بانو کا پاؤں بھاری تھا تو ہمایوں کو اپنی زندگی بھاری لگتی تھی وہ حمیدہ بانو کو ساتھ لے کر امر کوٹ پہنچا ۔امر کوٹ کے راجہ نے ہمایوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیااور اسے اور اس کے اہل ِ خانہ کو بہت سے تحائف دئیے ۔ حمیدہ بانو کو امر کوٹ چھوڑ کر ہمایوں ایک اور مہم پر روانہ ہوا ۔امر کوٹ میں تئیس نومبر 1543ء کو اس اس کا بیٹاجلال الدین اکبر پیدا ہوا۔ ہمایوں سال 1543ء کے اواخر میں قندھارپہنچاتاکہ شیر شاہ کی بغاوت پرقابو پایا جاسکے مگر کوئی امید بر نہ آ ئی اور نہ ہی کسی طرف سے امداد ملنے کی کوئی صورت نظر آ ئی ۔ اس زمانے میں ایران شاہ طہماسپ( B:1514,D:1576 )کے زیر ِنگیں تھااِ یران کے شاہ طہماسپ(Tahmasp I :1524-1576) نے اس پریشاں حالی و درماندگی میں ہمایوں کی فوجی اور مالی مدد کی۔اس تعاون سے ہمایوں نے قندھار ( 1545) ،کابل ( 1547) اور دہلی ( 1555) میں فتح کر لیا۔
سنت مرلی منوہربرہمچاری نے اپنی خود نوشت ’ سنتری کی جنتری ‘ میں اس بارے میں لکھا ہے :
’’میرا پردادادا نظام سقہ کوڑی کوڑی کا محتاج تھا مگر اس نے مغل شہنشاہ ہمایوں کی فتح پر گھر گھر گڑ کی بنی ہوئی ٹانگری ، ٹکڑے ،پنجیری ،پتاشے ،الائچی دانہ اور گلگلے تقسیم کیے ۔نظام سقہ نے ایک گدھے پر سوار ہو کر بستی کا چکر لگایا اور پھر ایک کھنڈر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا :
’’ مغل بادشاہ ہمایوں جب چوسہ کی لڑائی میں شیرشاہ سوری سے شکست کھا کر بھاگا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لیے دریائے گنگامیں چھلا نگ لگا دی تھی ۔ہمایوں دریائے گنگا کے گرادب میں پھنس گیا اس وقت اس اجل گرفتہ بادشاہ کو دریائے گنگامیں ڈوبنے سے میں نے بچایا تھا۔میرے ساتھ ہمایوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ دوبارہ حکومت سنبھالے گا تو وہ میری ہر خواہش پوری کرے گا۔میں اسی دن کا منتظر تھاجو کہ اب آ چکاہے ۔میں دہلی جا رہا ہوں اور اب میں دیکھتاہو ں کہ ہمایوں اپنا وعدہ کیسے نبھاتاہے ؟‘‘
یہ کہہ کر نظام سقے نے گدھے کو ایڑ لگائی اور دہلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ دہلی میںقصر شاہی کے سامنے پہنچ کر اس نے ہمایوں کے پاس اپنا پیغام بھجوایا تو دربان نے نظام سقہ کو اندر بلا لیا ۔
نظام کو دیکھتے ہی ہمایوں خوشی سے پھولا نہ سمایااور بولا :
’’ یہ تو بہت اچھا ہواکہ تم خو د ہی یہاں چلے آ ئے ورنہ شاہی سراغ ر سانوں کو تم جیسے گم نشان خاک نشین کی تلاش میں ٹھوکریں کھانی پڑتیں اور در در کی خا ک چھاننی پڑتی ۔تمھیں کسی دیوار کے سائے تلے پڑا دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ جاتے کہ یہ ماشکی کس قدر آرام طلب ہے ۔یاد رکھو آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے بھی گڑے ہو ں تو بھی انتظار کرنے والے کھڑے رہتے ہیں ۔پاؤں اگرتھک بھی جائیںتو سر کے بل چلنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔مگر تم ہو کہ لمبی تان کر سو گئے اور نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ۔‘‘
’’ اے بادشاہ ! مجھے پہچانا؟ کیا تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے ؟‘‘ نظام سقہ نے ہمایوں سے مخاطب ہو کرکہا ’’ اگر اجازت ہو تو میں اپنی خواہش کا اظہار کردوں ؟‘‘
’’ کینہ پرور ،حاسد ،محسن کش اور احسان فراموش شیر شاہ سوری سے ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب میں نے دریائے گنگا میں چھلانگ لگائی تو تم نے مجھے پر بہت بڑا احسان کیا ۔تم اپنے زمانے کے خطرناک جوار ی ہو ۔اگرچہ تم میرے محسن ہو مگر تم نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر اپنی زندگی کی خطرناک ترین بازی کھیلی اور مجھے دریائے گنگا کی طوفانی لہروں میں ڈوبنے سے بچایا۔‘‘ ہمایوں نے ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ آج تمھاری ہر خواہش پوری کی جائے گی اور تمھیں مالا ما ل کر دیاجائے گا۔ہند و سندھ کے سارے خزانوں کے دروازے تم پر کھو ل دئیے جائیں گے ۔‘‘
’’ کافی عرصے سے میرے دِل میں ایک ہی تمناہے ۔اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ۔‘‘ نظا م سقہ نے گڑ گڑ اتے ہوئے اور گُڑ کھاتے ہوئے کہا ’’ ڈرتا ہوں کہیں مجھے جلال شاہی کا نشانہ نہ بنا دیا جائے ۔اپنی خواہش بتادوں؟‘‘
’ ’ ہاں ہاں بلا خوف و خطر اپنی خواہش بتادو ،مردوں کے عہد و پیمان میں جان ہوتی ہے ۔‘ ‘ ہمایوں نے مسکراتے ہوئے کہا
نظام سقہ نے اپنی خالی کھوپڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا’’ سچ سچ کہو میری خواہش سن کر تم برا تو نہ مانو گے ۔بتادو ں اپنی خواہش ؟ َ‘‘
ہمایوں نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا’’ اب جلدی سے اپنی خواہش بتا بھی دو ۔اس طرح آزمانا ،تر سانا اور ستانا تم نے کہا ںسے سیکھاہے ؟ اتنی دیر میںتو مردہ بھی کفن پھاڑ کر پکار اُٹھتاہے ۔‘‘
نظام سقہ ڈرتے ڈرتے کہنے لگا ’’ مجھے ایک دن کے لیے پورے ہندوستان کا بادشاہ بنا دیاجائے ۔‘‘
’’ تمھاری ہر خواہش مجھے مقدم ہے ۔‘‘ ہمایوں نے نظام سقہ کی انوکھی فرمائش سن کر کہا ’’ کل صبح سے تمھاری بادشاہت کا آغاز ہو گااور سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی تمھارا یہ ایک روزہ عارضی اقتدار بھی رخصت ہو جائے گا۔کل صبح ہند، سندھ ، برما،کابل اور قندھارمیں تمھار ا ہی حکم چلے گا،ہر طرف تمھارا ڈنکا بجے گااور تم صرف ایک دن کے لیے ہندوستان کے مطلق العنان بادشاہ بن جاؤ گے ۔‘‘
جب باتیں ختم ہوئیں اس وقت دونوں وقت مِل رہے تھے۔ نظام سقہ نے تخت شاہی پر بیٹھنے کی تمنا میں ساری رات آ نکھوں میں کاٹی ۔وہ سوچتا رہا کہ صبح ہوتے ہی تخت یاتختہ ہو کر رہے گااگر ہمایوں نے وعدہ خلافی کی تووہ مشق ستم سہنے والے سب ساقی اور ماشکی ساتھ لے کر نکلے گا وہ اپنی اپنی مشک پانی سے بھر لیں گے اور پیمان شکن حاکم کادھڑن تختہ کر دیاجائے گا۔ قصر ِ شاہی میں ہر طرف پانی ہی پانی دیکھ کر ہمایوں پانی پانی ہو جائے گا اور شاہی جلاد کا پتا بھی پانی ہو جائے گا۔صبح ہوئی تو نظام سقہ نے ہنہناتے ہوئے تخت شاہی پر سبزقدم رکھے اور چام کے د ام چلانے کا یو ں اعلان کیا :
’ ’ تاریخ کا نیاموڑ سامنے ہے آج چغتائی دور نہیں رہا بل کہ سقہ شاہی کا دور آ گیا ہے ۔ جبر اور حبس کا دور ختم ہو چکاہے اب یہاں ہر کسی کو آزادی ہوگی اور اپنی اپنی ڈفلی اور اپنااپنا راگ سب کا بھاگ بن جائے گا۔ اب سارے ملک کے سقے اور ماشکی اپنی مشکیں کاٹ کر چام کے دام چلائیں گے۔ جنگل میں مور ناچیں گے اور ان مورو ںکا رقص ساری دنیا دیکھے گی ۔اونٹوں کی ہر کل سیدھی کر دی جائے گی اور ہاتھیوں کو یہ حکم دیاجائے گا کہ وہ اپنے چبانے کے دانت اوردکھانے کے دانت اکٹھے سامنے لائیں ۔ گندی مچھلیاں،کالی بھیڑیں ،سفید کوے ، نو سو چوہے ڈکارنے والی بھیگی بلیاں اور بگلابھگت اپنی اوقات میں رہیں ۔ جو حکم عدولی کرے گا اس کی مُشکیں کس کر پا بہ جولاں عقوبت خانوں میں پھینکوا دیا جائے گا۔جس شخص کے دماغ کے پیچ کچھ ڈھیلے ہوں گے وہ بھی خوب کس دئیے جائیں گے ۔‘‘
نظام سقہ کی بیوی تف سو بھی خوب بن سنور کر آ ئی ،اس نے ملکہ کا لباس پہنا اور اپنے شوہر کے کندھے سے کندھا ملا کر دربار میں تخت شاہی کے قریب بر اجمان تھی ۔نظام سقہ کی بیوی تف سو نے کہا:
’’ اب تک ہم ماشکیوں کو چھلنی میں ڈال کر چھاج میں اُڑا دیا جاتا تھا۔ اتنی زندگی بیت گئی اور اب تک ہم صرف داغ دیکھتے رہے اور داغ ہی کھاتے رہے کبھی فراغ کی شکل نہ دیکھی ۔اب ہمارے دِن بدل گئے ہیں آج سے مجھے ملکہ ٔ عالم او رحسینہ ٔ عالم کہا جائے اور میرے شوہر کو ظل تباہی کہا جائے ۔‘‘
لٹھ بردار چوب دار نے سر جھکا کردل ہی دل میں کہا اب تو عجب حا ل ہے کہ چیونٹی کے بھی پر نکل آ ئے ہیں۔ اس کے بعد وہ عاجزی و انکسار سے بولا :
’’ آج کے دِن تو شہنشاہ ہند اور ملکہ عالیہ کے ہر حکم کی تعمیل ہو گی ۔‘‘
نظام سقہ نے اپنی خالی اور گنجی کھوپڑی پر تاج سجایا اور گرج کر کہا:
’’ اب ہم دریا ئے گنگاکے کنارے ایک دیہی علاقے کی بوسیدہ جھونپڑی اور ٹوٹی ہوئی چارپائی پر جا کر نہیں لیٹیں گے۔اب ہم پتھر کے زمانے کے ماحول میں زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ دہلی کے قصر شاہی کے ایک پر سکون گوشے میںہمارے مستقل قیام کے فوری انتظامات کیے جائیں ۔ ‘‘
نظام سقہ کی بیوی نے کہا:
’’ میں شاہی خاندان کی عورتوں سے کم نہیں مجھے بھی ان جیسا لباس درکار ہے ۔‘‘
نظام سقہ کے فاتر العقل اور مخبو ط الحواس بیٹا شمسو بھی چھیلا بنا ہوا تھااس نے للچائی ہوئی نگاہ سے تخت شاہی کی طرف دیکھا اور اپنے باپ سے مخاطب ہو کر کہا :
’’ مجھے بھی کوئی ہزاری منصب دیاجائے اور کسی صوبے کی حکومت مجھے دی جائے ۔‘‘
’’بے ادب، بے ملاحظہ ،بے اعتبار ظل تباہی نظام سقہ ابھی کچھ ہیجانی فرمان جاری کرنے والے ہیں ۔‘‘ جلاد نے اعلان کیا
اپنے پاؤں میں کھڑاؤں پہنے نظام سقہ اپنی ناک میں انگلی اور کان میں تنکا ڈال کر کھجاتے ہوئے زمین کا بوجھ بنا کھڑا تھا۔ سامنے کھڑے روتے اور بسورتے ہوئے حاضرین سے اس نے کھانستے ہوئے مخاطب ہو کر کہا:
’’میں نظام سقہ ہوں مجھے قصر شاہی میں دیکھ کر ہرشخص ہکا بکا رہ گیا ہے ۔اے مگر مچھ کے آ نسو بہانے والو اور بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر رقص ِ مے اور ساز کی لے میں مست رہنے والواب ہوش کے ناخن لو۔دشمنوں سے تو میں جو جو کا حساب لوں گا مگر ملک بھر کے ماشکی اب سو سو کی عنایات کے حق دار ٹھہریں گے ۔ سقہ شاہی میں کوئی بھی سقہ باروزگار نہیں ہو سکتاوہ بے روزگار رہ کر بھی مفت کی روٹیاں توڑے گا۔اب ملک بھر میں جوتیوں میں دال بٹے گی اور سب سقے بے پر کی اُڑائیں گے ،ہوا میں گرہ لگائیں گے ،گل چھرے اُڑائیں گے اور خیالی پلاؤ پکائیں گے ۔ میرے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ماشکی یہ بات پلے باندھ لیں کہ اب سقہ شاہی ہے۔سب سقے خچر بیچ کر اور مُردوںکے ساتھ شرط باندھ کر لمبی تان کر سو جائیں ۔ ابھی اپنی اپنی مشکیں کاٹو اور اپنی زندگی کے دِن آرام سے کاٹو۔ جب مشکیں ختم ہو جائیں تو نو دولیتیوں کی جیبیں کاٹو جب لوگوں کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی بھی باقی نہ رہے تو فراعنہ کی گردنیں کاٹو۔‘‘
بے لگام نظام سقہ کا یہ مجنونانہ اعلان سنتے ہی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی پرورش کرنے والے سب فاقہ کش ماشکی اپنی مشکیں کاٹنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے چام کے دام چل گئے اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ دام بنائے کام کے بجائے اب توچام بنائے کام ہی سکۂ رائج الوقت تھا۔شہر کا جو ماشکی نظام سقہ کا ہیجانی فرمان سننے کے باوجود اپنی مشک کاٹنے میں تامل کرتا لٹھ بردار چوب دار اُسے کاٹنے کو دوڑتے ۔پل بھر میں عجب ماجرا ہو گیا لوگ کہتے سنے گئے کہ دمڑی جاتی ہے تو جائے مگر چمڑی نہ جائے ۔معاشرے کی منافقت کا یہ حال تھاکہ سہ پہر تک جو لوگ ہمایوں کی اطاعت کر رہے تھے سورج غروب ہوتے ہی نظام سقہ اُس کی حریص بیوی تف سو کٹنی اور اس کے جاہل بیٹے شمسو سقہ کے گن گانے لگے ۔
نظام سقہ نے اپنے ایک روزہ اقتدار کے لیے جس مجلس مشاورت کاانتخاب کیا ان کے نام اور کام مندرجہ ذیل ہیں :
ہیہات دھونسوی : شعبہ انسداد عدل،شُوم صحرائی : شعبہ خزانہ،بُوم بیابانی : شعبہ آبادکاری،ڈُوم ریگستانی: شعبہ فنون و رقص،تلچھٹ ویرانی :حسن و جمال کی ارزانی ،تلپٹ خفقانی : شعبہ نظم و نسق ،جھنجھٹ جھنجھانوی : شعبہ زراعت اور مس بی جمالو کو قحبہ خانوں کا نگران بنایا گیا۔
دو فریادی لڑتے اور جھگڑتے ہوئے دربار سقہ میں پہنچے ۔ایک لاغر و ناتواں فریادی نے بھینس کی رسی اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھی تھی جب کہ دوسرے فربہ شخص نے ایک مضبوط لاٹھی اپنے ہاتھوںمیں تھام رکھی تھی ۔ باہم دست و گریباں یہ دونوں اشخاص ایک ہی بھینس کا مالک ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے ۔
اچانک چوب دار نے چِلّا کر کہا:’’ردِ ادب ! بے ادب ،بے ملاحظہ ،بے وقار ۔‘‘
نظام سقہ نے فریادیوں کی حالت دیکھ کر شعبہ ٔ انسداد عدل کے نگران ہیہات دھونسوی کو للکارتے ہوئے کہا :
’’ اب بے وقت کی راگنی بندکی جائے اس سے پہلے کہ یہ فریادی کاغذی پیرہن پہن لیں ان کی التجا پر توجہ دی جائے ۔ اس عہد ِ نا پرساں میں چور کی مونچھوں میں تنکا ہونا ضروری ہے ،چور جب چاہے چوری کرے گا اور ساتھ ہی اسے ہیرا پھیری کی بھی کھلی چھٹی ہو گی۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی پر نظر رکھنے والوں کو میں خبر دارکرتا ہوں کہ میرے دور میں بھاگتے چور کولنگوٹی سے ہر گز محروم نہیںکیا جائے گا بل کہ اُسے لُنڈے بازار سے خریدا گیا ایسا لباس فراہم کیا جائے گا جوکسی مرے ہوئے گورے کی یادگار ہو گا۔چوروں کو بھی آداب معاشرت کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور متمول طبقے کے گھر کی دیوار میںنقب لگاتے وقت لنگوٹی پہن کر نہ جائیں بل کہ موزوں ترین جامہ کاانتخاب کریں خواہ وہ واسکوڈے گاما ہی کا ہو ۔ اے فریاد کرنے والو ! اپنے شکوے ہماری میزان جبر میں نہ تولو بل کہ اپنے بند منھ کو کھولو اور کچھ بولو ۔ہیہات دھونسوی تم نہ جانے کس جہاں میں کھو چکے ہو ؟ساری دنیا ہی ہکا بکا ہے یہی تو دور سقہ ہے ۔‘‘
ہیہات دھو نسوی نے سر جھکا کر روتے ہوئے کہا:’’ عجیب معاملہ ہے کہ آج فریاد کرنے والے دو ہیں جب کہ بھینس صرف ایک ہے ۔ ایک بھینس کے دو مالک بن گئے ہیں اور ہر شخص کایہی دعویٰ ہے کہ یہ بھینس اُسی کی ملکیت ہے ۔‘‘
’’ اونہہ ! چھوٹا منھ اور بڑی بات تمھیں فہم و فراست کی باتیں سمجھانا تو بھینس کے سامنے بین بجانے والی بات ہے ۔ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے جس معاشرے میں صرف ایک انار کے سو بیمار بن کر اسی ایک عدد انار کے طلب گار بن جائیںوہاں ایک فربہ بھینس کے دو طلب گار کیوں نہیں ہو سکتے ؟نظام سقہ کے دور میں کسی چور کو شور مچانے کی بالکل ضرورت نہیں پڑے گی ۔ چور ،اُچکے ،رہزن ،قزاق اور جیب تراش سب کے سب ہمارے قبیلے کے ہنرمند افراد ہیں۔میں چور کی محنت کسی صورت میں رائیگاں نہیں جانے دوں گا۔چور معاشرے کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا اس لیے اب وہ نہایت اعتماداور راز داری سے گلی محلے والوں کو اپنی ہر رات کی جانے والی واردا ت سے بر وقت آ گاہ کر دے گااور کہے گا:
آج کی رات نہ رونا لوگو
آج ہم ساتواں گھر لُوٹیں گے
اس کا ٹھو س کے بجائے مائع اور گیس نتیجہ یہ نکلے گا کہ ڈکیتی سے متعلق سب معاملات احسن طریقے سے پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گیاور چوری کی لذیذ اشیا کی فراوانی ہو جائے گی ۔جب چور اور مالک راضی تو پھر کیسی شطرنج کی بازی ۔یاد رکھو میرے دور میں چوری کا مال موری میں ہر گز نہیں جائے گا بل کہ ہم سقوں کی تجوری میں جمع ہو گا۔سمجھ گئے میری بات اب فریادی حاضر ہوں ۔‘‘
ایک فریادی جس نے بھینس کی رسی تھام رکھی تھی وہ بھینس کو لے کر آگے بڑھاتو بھینس کے گوبر کے ڈھیر ہر طرف بکھرگئے ۔اسی اثنا میں جب بھینس نے دم ہلا ئی تو ہر طرف بھینس کے پیشاب اور گوبر مِلے چھینٹے اُڑنے لگے۔ دو اشخاص کے اس تنازع کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر بھرے دربار میں ہلچل پیداہوگئی ۔رُلدو جاروب کش اور رمی تسمہ کش جھاڑو لیے صفائی کے لیے آ گے بڑھے تو نظام سقہ کی بیوی تف سو آگ بگولا ہو گئی اور آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھو ں سے بھینس کا گوبر سنبھالتے ہوئے بولی:
’’ ٹھہرو! اس و قت یہ صفائی ہر گز نہیں ہو سکتی ۔میں بھینس کے اس گوبرسے اُپلے خود بناؤں گی اور ان کی تھاپیاں قصر ِ شاہی کی دیواروں پر لگاؤں گی ۔خشک ہو جانے پر ان اُپلوں کو سجانے کے لیے شاہی محل کے سامنے کچی مٹی اور بھینس کا پیشاب ملا کر سروڑ بناؤ ں گی ۔اس کے بعد اس کی لپائی کروں گی تا کہ اُپلے بارش میں بھیگنے سے محفوظ رہیں ۔ اپنے شاہی محل میں مٹی کے چو لھے میں اُپلوں کی دھیمی ا ٓ گ پر مٹی کی روغنی ٹھیکری رکھ کر مولی کے پراٹھے پکا کر میں نظام سقہ کو کھلاؤں گی اور شیشوں والی پنکھی سے اپنے شوہر کو ہوا دوں گی۔شدید سردی کے موسم میں برساتوں میں ان اُپلوں کی آگ سے اپنے کمرے کو گرم رکھوں گی اور شوہر کی سر د مہری کا مداوا کروں گی۔‘‘
دربار میں موجود کچھ نازک مزاج لوگ ناک بھوں چڑھانے لگے تو نظام سقہ نے سخت ناگواری کا اظہار کیا۔اس موقع پر نظام سقہ نے ناک لپیٹنے اور پالتو جانوروں سے نفرت کا اظہار کرنے و الوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا:
’’ بھینسوں کے باڑے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
کوڑے کے ڈھیر و گوبر ہے سقہ نشاں ہمارا
اے بھینسوں کی خاطر مرنے مارنے پر تُل جانے والو! اب اس آفت نا گہانی کا احوال بتاؤ جس نے تمھیں اس حال اور جنجال تک پہنچایا ۔‘‘
جس شخص نے بھینس کی رسی تھام رکھی تھی وہ بولا :
’’ جہاں فنا !میرا نام تلا خطائی ہے یہ بھینس میری ملکیت ہے جب کہ اپنے علاقے کا یہ رسہ گیر ٹُلا بٹ مار طاقت کے بل بوتے پر مجھ سے یہ بھینس چھین کر مجھے اور میرے بچوں کے لیے دودھ دینے والی اس واحد بھینس سے محروم کر کے اپنے باڑے میں اپنی سوبھینسیں پوری کرنا چاہتاہے ۔ یہ رسہ گیر اس قدر ظالم و سفاک اور موذی و مکار ہے کہ یہ میرے کم سِن بچوں کے منھ سے نوالہ بھی چھین لینا چاہتاہے ۔ ‘ ‘
اس کے بعد وہ شخص اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتاہوا آگے بڑھا جس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط لاٹھی تھا م رکھی تھی ۔اکڑ کرسینہ تان کر وہ یوں ہرزہ سرا ہوا:
’’ ظل تباہی ! میرا نام ٹُلا بٹ مار ہے میرے سامنے کوہ و دمن اور دشت و صحرا کا ہر شخص زبون و خوار ہے۔میری لاٹھی ہی میری پہچان ہے یہ شخص اس حقیقت سے ان جان ہے کہ میرے بازوؤںمیں کس قدر جان ہے ۔یہ سچ ہے کہ میں اپنے باڑے میں سو بھینسیں پوری کرنا چاہتا ہوں جب کہ اس مفلس و قلاش شخص کے پاس محض یہی ایک بھینس ہے ۔میں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ چپکے سے اپنی یہ بھینس تحفے کے طور پرمیرے حوالے کر دے اور ہر قسم کے فکر سے آزاد ہوکر یک سوئی سے اپنے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال کرے ۔ ‘‘
فریادی جب اپنی رودا دسنا چکے تو نظام سقہ اپنی گنجی کھوپڑی پر صرف ایک روز کے لیے دیا گیا تاج رکھے اور کندھے پر مشکیزہ لٹکائے آگے بڑھااور ہنہناتا ہوا بولا :
’’ ٹُلا بٹ مار ! تم غلط کہہ رہے ہو ، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تلا خطائی وہ ایک سوئی کہاں سے لائے گا ؟فریادیوں کی روداد اور درباریوں کی بیداد سننے کے بعدما بہ ذلت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بھینس کا مالک ٹُلا بٹ مار ہی ہے ۔ آج اتوار ہے اور نظام سقہ کے دور میں جنگل کے قانون کے تحت اس گھنے جنگل میں منگل کے بجائے اتوار کو ہر فریادی خوار ہو گا۔اس جھگڑے کو حل کرنے کے لیے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا ضابطہ لاگو ہو گااور ٹُلا بٹ مار اپنی مضبوط لاٹھی سے اس بھینس کو ہانک کر اپنے باڑے میں لے جائے گا ۔مابہ دہشت نے میزان عدل کو ٹُلا بٹ مار کی جانب اس لیے جھکایا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق فوراً اپنے باڑے میں اپنی بھینسوں کا میزان سو تک اونچا کر سکے۔جہاں تک نِیچ اور ہیچ تُلّا خطائی کا تعلق ہے یہ مصلحت نا آشنا سا بندہ ہے اور اِس کی ہر بات جھوٹ کا پلندہ ہے ۔یہ شخص نہیں سمجھتا کہ یہاں کیا گورکھ دھندا ہے اسی لیے ڈیر ی فارم کے کام میں بہت مندا ہے ۔‘‘
تلا خطائی بڑ بڑاتا ہوا وہاں سے نکلااور دل ہی دل میں کہنے لگا اس فیصلے سے میرا تو پلیتھن اور جیوڑا ہی نکل گیاہے اور ٹُلّا بٹ مار مکے لہراتا ہوا چلا جا رہاہے ۔ یہ فیصلہ سن کر تُلا خطائی سمجھ گیا کہ جرم ضعیفی کی سزا ہمیشہ مرگِ مفاجات کی صورت میں ملتی ہے ۔ نظام سقہ کے دربار سے تلا خطائی کمر پر ہاتھ رکھ کر یوں اُٹھا جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے ۔
ہیہات دھونسوی نے نظام سقہ کو بتایا کہ نخاس بازار لکھنو کی پرندہ مارکیٹ میں مہنگے داموں پرندے بیچنے کی شکایت موصول ہوئی ہے ۔ ایک چغد شناس تاجر نے شکایت کی کہ وہاں تشفی نامی ایک سفاک بُو م صیاد گھنے جنگلوں ،کھنڈرات اور ویران مقامات پر جال لگاکر بڑی تعداد میں اُلّو پکڑ کر اپنی دکان میں لاتاہے ۔تشفی صیاد اس قدر شوم ہے کہ سلطنت میںہر طرف اس کی نحوست ،منافقت ،حسد ،کینہ پروری ، ذلت اور تخریب کی دُھوم ہے ۔ سفہا اور اجلاف و ارذال کا پروردہ مشکوک نسب کایہ متفنی ٹھگ منھ مانگے داموں اُلُّو فروخت کر کے سادہ لوح لوگوں کو اُلّو بناتاہے اور اپنا اُلّو سیدھا کر کے اپنی راہ لیتاہے ۔ہیہات دھونسوی نے نظام سقہ سے التجا کی کہ فریادی اور صیاد کو طلب کیا جائے ۔
نظام سقہ کی اجازت ملتے ہی ایک بوڑھا صیاد تشفی دو پنجرے لیے دربار میں پہنچا ۔بڑے پنجرے میں تو گدھ کی جسامت کا چغد تھا جب کے دوسرے پنجرے میں چڑیا جتنا ایک چھوٹا سا اُلّو سہما بیٹھاتھا۔کالا باغ سے تعلق رکھنے والا چغد شناس تاجر جھابوجھنکار دس دس آنسو رونے لگا اور بولا :
’’ ظل نا گہانی !میری کہانی طولانی ہے جس میں بہت روانی اور ہمہ دانی ہے ۔ اگرچہ ہوائے جورو ستم نے میری زندگی کو ورق ورق کر دیا ہے مگر میری زندگی کا ایک ہی اصول رہا ہے کہ لاکھ جائے مگر صیاد کی ساکھ نہ جائے ۔ میں کالا باغ کے لوگوں کو سبز باغ دکھاکر انھیں اُلّو کے کرشموں سے آگا ہ کر کے زرومال بٹورتا ہوں ۔اُلّو کے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو جاتاہے اور وہ بڑے شوق سے اُلّو پالتے ہیں ۔ میرے گاؤں میں رہنے والے اُلّو شناس لوگ چھوٹے اُلّو کوبہت پسند کرتے ہیں ۔تشفی صیاد بڑے اُلّو تو سستے بیچتاہے مگر چھوٹے اُلّو بہت مہنگے فروخت کرتاہے ۔‘‘
نظام سقہ نے یہ بات سنی تو اس نے تشفی صیاد سے پوچھا :
’’ ارے او چڑی مار تشفی! تو نے لکھنو کے نخاس بازار میں من مانی کیوں شروع کر ر کھی ہے ؟ اب سوچ سمجھ کر مجھے ان اسیر قفس طیور ِ آوارہ و ناکارہ کے نرخ بتانا۔‘‘
پرندوں کے ظالم صیاد تشفی نے کہا: ’’ جہاں تباہ ! اس جہاں گرد نے دنیادیکھی ہے اور پرندوں کی دنیا کا سب احوال میرے سامنے ہے ۔ میں نے کھنڈرات کے خراباتوں میں اُڑتی خاک چھانی ہے تب بُوم و شپر اور زاغ و زغن سے سنگت کی ٹھانی ہے ۔عبرت سرائے دہر کا حال بھی عجیب ہے جہاں سرابوں کے عذابوں نے جینا دشوار کر رکھاہے ۔
دُھول ہے کھنڈرات میں یا گدھ قطار اندر قطار
منتشر بُوم و شِپر،زاغ و زغن کے پیرہن
ہمارے خاندان کی مہمان نواز ی مشہور ہے کہ ہم نسل در نسل اس علاقے کے لوگوں کو خشک دَھنیاکے ایک کھوپے میں پانی پلاتے چلے آ رہے ہیں ۔اگرچہ اس ایک روزہ عہد حکومت میں میری جان کو بہ ظاہر کوئی خطرہ نہیںاس کے باوجود اگرمکر کی کسی تدبیر سے مجھے زنجیر کرنا ہے تو بے شک کر لو ۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ ان طائران ِ بد نوا کی قدر و قیمت پر میں سودے بازی نہیں کر سکتا۔ بڑے اُلّو کی قیمت صر ف پانچ روپے جب کہ چھوٹے اُلّو کی قیمت پچاس روپے ہے ۔‘‘
’’ اے جلاد منش صیاد !آدمیت پکڑو ،تم کسی اُجڑے ہوئے صحرا کے آدم خور ہو یا کسی گھنے جنگل کے خونخوار درندے ؟ اُلّو تو ہر حال میں اُلّو ہی ہوتاہے اس میں چھوٹے اور بڑے کا امتیاز کیا معنی رکھتاہے ؟چھوٹے اُلّو اور بڑے اُلّو کی قیمت میں اس قدر فرق کی وجہ بیان کی جائے ۔‘‘ ہیہات دھونسوی نے غیظ و غضب کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ’’ عجیب صیاد ہو کہ تین کلو وزن کا مہا اُلّو تو صرف پانچ روپے میں بیچ رہے ہو جب کہ وہ لاغر اُلّو جو صرف پاؤبھر کا ہے اس کی قیمت پچاس روپے بتا رہے ہو ۔اگر تم شہنشاہ ہندنظام سقہ کو مطمئن نہ کر سکے تو تمھارے سارے خاندان کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا اور تمھیں کو لھو میں پلوا کر تمھار ابھرکس نکا دیاجائے گا۔‘‘
’’ آہ ! آج میرا دل حزیں صحرا صحرابھٹکتاہے کاش پُر خار دشت خوار میں قدم ر کھنے سے پہلے کسی نے مجھے سمجھایا ہوتا ۔میرا نام بھی تشفی صیاد ہے مکروال کے سب اہل دِل جانتے ہیں کہ اُلّو کو زیر ِ دام لانے ،اُلّو بنانے اور اُلّو بیچنے میں مجھے کس قدر مہارت حاصل ہے ۔اُلّو شناسی،اُلّو فروشی اور ضمیر فروشی ہمارا سو پشت سے پیشہ ہے ۔یہ وزنی اُلّو جس کی قیمت صر ف پانچ روپے ہے وہ چراغ سحری ہے ۔یہ بوڑھا اُلّو اگر آج مرا تواگلے روزیہ اجنبی اور بے نشاں بن کر رزق خاک ہو جائے گا۔یہ پانچ روپے بھی اپنی باری بھر کر مرتے ہوئے بوڑھے اُلّو کے پر ہی سہی ،اب رہ گیاچھوٹے اُلّوکی قیمت کا معاملہ تو یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ چھوٹے پنجرے میں منقار زیر پر بیٹھا چھوٹا سا سہما ہو ا طائر اُلّو کاپٹھاہے ۔اس اُلّو کے پٹھے کے سامنے سیکڑوں آ شیاں اور بھی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بہت بڑ ا چغد اور مہا اُلّو بنے گااور اہلِ عالم کی حماقتوں پر سر دُھنے گا۔ باطن ایام پر نظر ر کھنے والے جانتے ہیں کہ جو سیکڑوں دور ِ فلک آنے والے ہیں اُن میں سادیت پسندی کے مریض اس قماش کے اُلّو کے پٹھے ہی رواقیت کے داعی بن کر سالہاسال تک زندگی کی رُتوں کو بے ثمر کرتے رہیں گے ۔اُلّو کے پٹھوں کی خست و خجالت کے عرصہ کی طوالت کی کہانی ہی باعث گرانی ہے ۔‘‘
’’ بہت خوب ! تشفی صیاد تم پر جو اُفتادپڑی ہے ما بہ ذلت اس کی داد دیتے ہیں ۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تمھارے آبا و اجداد بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے ۔قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہہ کر تم نے اپنی ژولیدہ بیانی کی دھاک بٹھا دی ہے ۔تمھاری ہر بات پتھر کی لکیر ہے جب تک اس معاشرے میں اُلّو کے پٹھے من مانی کرتے رہیں گے مہا اُلّو سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ر ہیں گے۔اے جہاں دیدہ شقی القلب صیاد ! تم نے ضمیر فروشی اور طیور فروشی کے کاروبار میں جو طرز فغاں اپنائی ہے وہی مستقبل میں طرز اد اٹھہرے گی ۔ مجھے خبر ہے کہ میں چراغ ِ آخر ِشب ہوں اور میرے بعد میرا بیٹا شمسو ہی اُلّو کا پٹھا بنے گا۔زاغ و زغن ،شپر اوربُوم و چغد کی نحوست کی وجہ سے دنیادائم برباد رہے گی ۔یہ نہ رہیں گے تو بوسیدہ کھنڈرات سے کوئی ان جیسا اور سادیت پسندچغد نکلے گا جو در کسریٰ کے زینوں پر چونچ رگڑ کر ان کا آموختہ دہرانے لگے گا۔‘‘
چیتھڑوں میں ملبوس ایک خستہ حال مداری ڈگڈگی بجاتا ہوا ،سر کھجاتا اپنے بندر وں کو نچاتاہوا قصر شاہی کے دروازے پر پہنچا اور شرف باریابی کی التجاکی ۔بندر اور بندریا نے لُنڈے بازار سے خریدی گئی کسی امیر گھرانے کی لڑکی اورلڑکے کی دیدہ زیب ریشمی اُترن پہن رکھی تھی۔دربان نے نظام سقہ کو اس فاقہ کش مداری کی آمد سے مطلع کیاتو نظام سقہ نے کہا :
’’ یہ دربار ہے یا سرکس کا کھیل یہاں ڈُوم ڈھاری اور مداری کہاں سے آ گئے ؟ کٹھ پتلیوں کایہ تماشا کب تک چلے گا؟ بندروں کا رقص دیکھ کر خوش ہونے والے کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر بندروں کے فن کی داد نہ دیں بل کہ یہ تو مداری ہے جومُورکھ بندروں کو رقص کے طریقے بتاتاہے۔ معمولی مفاد کی خاطر بندروں کوخوشامد ،چاپلوسی اور اہلِ ثروت کے قدموں میںسر رکھنے کے ڈھنگ سکھاتاہے ۔ایسے مداری واقعی مبار ک باد کے مستحق ہیں جوشریر ،شوخ اور شاطر بندر کو چقندر کھلا کر اپنا تابع بناتے ہیں۔ چلو اس مداری کو بھی بلالو وہ بھی تماشا دکھالے اور درباریوں کو تماشا بناکر چلتا بنے ۔‘‘
مداری کے ساتھ شاہی طویلے کاسائیس بھی کئی گھڑ سوار وں اور ترکی و تازی گھوڑوں سمیت وہاں آ پہنچا۔مداری،گھڑ سوار اور سائیس سب ایک دوسرے کی طرف معنی خیزنظروں سے دیکھ رہے تھے ۔نظام سقہ نے فریادیوں سے کہا:
’’ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کاطومار باندھنے کے بجائے سچ بولو اور اپنے سب مسائل سے مجھے آ گاہ کرو۔میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیاہے اگر تم یہاں جھوٹ بولو گے تو میں تم سب کو کالے پانی بھجوا دو ںگا اور فریب کاری کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اُتار دو ںگا۔یہ مداری تو مجھے کسی مفلس و قلاش دھوبی کا ایسا پالتو سگ لگتاہے جو نہ تو گھر کا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا۔‘‘
مداری بنسی لال نے بندر اور بندریا کولاٹھی کا اشارہ کیا تو دونوں رقص کے لیے تیا ر ہو گئے ۔مداری نے بندر کو بانسری تھما دی بندر نے بانسری بجائی نے تو بندریا جھومنے لگی اور یہ گیت گایا :
سن ونجھلی دی مٹھڑی تان میں تے ہو ہو گئی قربان
ترجمہ : اے مداری تیری بانسری کی سریلی تان سُن کر میں تجھ پر قربا ن ہو گئی ہوں۔
بندریاکے اس گیت کو سُن کرنظام سقہ نے بھی ناچنا شروع کردیا اس کے ساتھ ہی ،اس کی بیوی تف سو ،بیٹا شمسو،مصبہابنو اور مس بیہی بنو کے ساتھ درباری بھی دھما ل میں اپنے کمال کامظاہرہ کر رہے تھے ۔قصر سقہ سے کچھ دُور کُوڑے کے ڈھیر سے جا و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگان اور کاتک کی کتیائیں بھی دُم ہلا کر اپنی پسند کا اظہار کر رہی تھیں۔سب لنگوروں اوربندروں کا رقص تھم گیا تو نظام سقہ پھر سے اپنے تخت پر جم گیااور اس نے مداری سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ اے مداری تم تو گلی کوچوں اور بازاروں میں کرتب دکھاتے ہو آج تم کس لیے یہاںپہنچے ہو ؟ تمھارے بندر وں کو کیا معلوم کہ اَدرک کا مزا کیا ہوتاہے ؟ اور تمھیں بھی یہ اِدراک نہیں کہ نظام سقہ کا ذوق کیسا ہے ؟تم گلشنِ ہستی میںشبنم کے قطروں سے اپنی تشنگی کی تسکین چاہتے ہو یہی تمھاری حماقت کی دلیل ہے ۔‘‘
مداری اپنے بندر اور بندریا کی رسی تھام کر آگے بڑھا اور سر پر پیٹتے ہوئے بولا:
’’ ظلِ تباہی ! شاہی فیل خانے اور طویلے میں موجود جانوروں کو ایک خطرناک جلدی بیماری لگ گئی ہے ۔فیل بان ،گھڑ سوار اور سائیس میرے بندر اور بندریا کو اس جِلدی بیماری کے پھیلانے کا الزام دیتے
ہیں ۔سب بندر خور درندے میرے بندراوربندریا کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔مجھے اور میرے بندروں کی جان کو جو خطرہ لاحق ہے ہمیں اس سے نجات دلائی جائے ۔‘‘
شاہی فیل خانے ، باڑے اور طویلے کا نگران ناہنجار خراباتی غصے سے آ گ بگولا تھا۔اس نے نظام سقہ کو شاہی طویلے کے مسائل سے آ گاہ کیا :
’’ سلطنت کے ماہر سلوتریوں نے بتایا ہے کہ بنسی لال کے بندر ایک خطر ناک متعدی جلدی مرض میں مبتلا ہیں۔اِن بندروں کی کھال اُدھڑ رہی ہے اور وائرس ہوا میں بکھر رہاہے ۔ شاہی فیل خانے ،طویلے ،باڑے اور طیور کے قفس میں بھی اس وائرس کے اثرات پہنچنے کا خطرہ ہے ۔کئی خچر،ٹٹو،گدھے اوراستر ایسے ہیں جن کی جلد بھی مداری بنسی لال کے بندروں کی جلد کے مانند خشک ہو کر اُدھڑ رہی ہے ۔بندر وں کے اس جلدی وائرس کی وجہ سے طویلے پر جو بلاآئی ہے وہ صرف اُسی صورت میں ٹل سکتی ہے کہ بنسی لال کو دیس نکالا دیاجائے اور اسے کالا پانی بھیج دیاجائے ۔بنسی لال کے بیمار بندر وں کو کسی دُور دراز صحرا میں ہلاک کر کے اُن کے ڈھانچوں کو دہکتی آ گ کے شعلوں میںپھینک دیاجائے ۔‘‘
’’ ظل تباہی !یہ میرے بے گناہ اور کم زور بندر وں پر جھوٹااور من گھڑت الزام ہے ۔‘‘ مداری بنسی لال نے روتے ہوئے کہا’’ اصل معاملہ یہ ہے کہ طویلے کے جانوروں کو جلدی بیماری تو نا ہنجار خراباتی کی وجہ سے لگی ہے ۔سلوتریوں سے مشورہ کر لیا جائے نا ہنجار خراباتی کی جلد بھی اسی طرح خشک ہو کر اُدھڑ رہی ہے ۔میںایک عاجزبھکاری ہوں ،میںنے اور میرے کم زوربندر وں نے تو آج تک شاہی طویلے میں کبھی قدم تک نہیں رکھا ۔ایک ماہ قبلنا ہنجار خراباتی نے میرے بندر اور بندریا کو اُٹھایا تھا اور پاس بٹھا کر پیار بھی کیا تھا۔اس روزسے میر ابندر اور بندریا دونوں کو یہ جلدی مرض لاحق ہو گیاہے ۔طویلے کی بلانا ہنجار خراباتی کے سر ہے ۔‘‘
’’ بنسی لال تمھاری عقل چرنے گئی ہوئی ہے جب تم حنظل کاشت کروگے توحنظل کی بیلوں سے خربوزے کیسے توڑو گے ؟ تم پیشہ ورآدم خوروں کو بندر خور کہہ کر نہ صرف اُن پر بہتان لگا رہے بل کہ اُن کہنہ مشق ،شقی القلب اور سفاک درندوں کی توہین ،تذلیل اور تضحیک کر ر ہے ہو ۔ اِن آدم خوروں کو جب مظلوم انسانوں کی شہ رگ کا صاف خون پینے کے فراواں مواقع میسر ہوں تو اُنھیںبندروں کا عفونت زدہ خون پینے میں خجل ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ڈُگڈگی بجابجا کر تم اپنی اوقات بھول گئے ہو اور ناحق شاہی طویلے کے سائیس پر الزام لگا رہے ہو ۔ تمھاری یہ سب باتیں مجذوب کی بڑ ہیںجن پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔‘‘ نظا م سقہ کے منھ سے جھاگ بہہ رہاتھا اُس نے غراتے ہوئے کہا’’ شیخ سعدی سے لے کر شیخ چَلّی تک ہر دانش ور کے مطابق یہ تو ایک طے شدہ ضابطہ ہے کہ طویلے کی ہر بلا ہمیشہ بندر ہی کے سر ہوتی ہے ۔طویلے کے جھمیلے سے نمٹنے کے لیے جنگل کے قوانین کے مطابق بندروں اور ان کے مالک مداری بنسی لال کو کیفر کردار تک پہنچاناضروری ہے ۔سقہ شاہی حکم ہے کہ بندروں کو دُور ویرانے میں ہلاک کر کے ان کے ڈھانچوں کو سپردِ آتش کیا جائے ۔بنسی لال کو فی الفور کالے پانی بھیج دیا جائے تاکہ وہاں کوئلوں کی دلالی کر کے اپنی روسیاہی کو یقینی بنائے اور سیاہی وال میں مقیم اپنے عزیزوں ،بہرام ٹھگ کی اولاد تفسواور مصبو کو اپنی داستانِ عسرت سناسنا کے زندگی بھر گریہ و زاری کرتا رہے ۔‘‘
داروغہ نے آگے بڑھ کر بنسی لال کو گرفتار کر لیااور اُسے زندان میں بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بندروں کو جلاد کے حوالے کردیا گیا تاکہ نظام سقہ کے احکامات پر عمل کیا جاسکے ۔
جلاد نے نظام سقہ کو بتایا کہ مالوہ سے راجہ بھوج ، گنگو تیلی اور رادھاباہر موجود ہیں اور دربار میں حاضر ہو کر اپنے اپنے غم کا فسانہ سنانے کی التجا کرتے ہیں ۔
نظام سقہ نے ملاقات کے لیے آنے والوں کو طلب کیاتو ایک شخص وارد ہوا جو اپنے آپ کو راجا بھوج کہتا تھا۔ اس نے کہا :
’’ میرا نام راجہ بھوج ہے اور ریاست پارمارا کے حاکم راجا وکرما دتیا کے شہر میں سال 980ء میں گھر پیداہوا ۔میں پندرہ سال کی عمر میں مالوہ کا حاکم بنا ۔اس زمانے میں جو علاقے میرے زیر نگیں تھے ان میں مالوا ،کوکان ،بھلسہ،ڈنگار پور ،بنسوار ،چیتوڑ اور گوادری وادی کے کچھ حصے شامل ہیں ۔میں نے تینتالیس سال ( 1010-1053)حکومت کی ۔میں نے کئی شہر بسائے اور بہت سے نئے مندر بھی بنوائے۔ مدھیہ پردیش میں واقع جھیلوں کا شہر بھوج پال میری یادگار ہے یہ شہر اب بھوپال کہلاتاہے ۔‘‘
’’اپنی کہانی جلد سناؤ اور یہ بھی بتاؤ کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے انسان کی زندگی کو کس قسم کے بکھیڑے میں ڈال دیتے ہیں ۔بھوپا ل سے یاد آیا کہ اس شہر سے تعلق رکھنے والی ایک رقاصہ کے نام پر ایک فلم ’’ ثریا بھوپالی ‘‘بھی بنی تھی ۔ میں دھکم پیل کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت سنیما ہال میں گھس گیااور یہ فلم مفت دیکھی ۔اس فلم کے رقص ،گیت ،مکالمے اور حسن و رومان کے جلوے آج بھی یادآ تے ہیں۔ کیا تم نے اس قسم کی فلموں کے بارے میں کبھی سناہے ؟اب مس بیہی بنو سے فلم ثریا بھوپالی کا ایک گیت سنو اور سر دُھنو :
نیم عریاں لباس پہنے رذیل طوائف اور درباری رقاصہ مس بیہی بنو نے دھمال ڈالی اور نغمہ سر ا ہوئی :
تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی
تم سے ہوویں گی ملاقاتاں کبھی
’’ آج کی رات کی یہ ملاقات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی خا ص طور پر اس درباری رقاصہ مس بیہی بنو کی دھمال نے تو گوالیا ر کی طوائفوں ، کٹنیوں اورڈُومنیوں کی یاد تازہ کر دی ۔میرا گمان ہے کہ یہ رقاصہ لا ل کنور اور نعمت خان کلانونت کی چہیتی ہے ۔گردشِ ایام اور سیل ِزماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے خس و خاشا ک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔میرے عہدِ حکومت میں میرے خلاف جنوبی ہند کے دو حاکموں راجہ گنگا کلا چری نریش (Ganga Kalachuri’ Naresh) اور راجہ شلوکا نریش تلیا (Chaluka Naresh Telayya)نے بغاوت کر دی اور مغربی مدھیہ پردیش کے شہر دھر پر جہاں میں نے بھوج شالا تعمیر کرایا تھا دھاوا بو ل دیا ۔میرے مسلح دستوں نے دونوں باغی راجاؤں کی بزدل سپاہ کو شکست فاش دی اور اُن کا غرور خاک میں ملا دیا ۔میری فتوحات کے بعد لوگوں نے پہلے باغی راجا کے نام سے لفظ ’ گنگا ‘لے لیا اور دوسرے مہم جو اور طالع آزماراجا کے نام سے لفظ ’ تیلایا ‘منتخب کیا ۔ اس طرح یہ بات زبان زد عام تھی کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگا تیلایا۔ سارے حقائق ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہوتے چلے گئے اورآج لوگ یہ کہتے ہیں ’’ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی ‘‘۔میرے ساتھ انصاف کیاجائے اورمیری کردا ر کشی کا سلسلہ بند کیا جائے ۔‘‘
’’ تمھاری چرب زبانی سے ما بہ ذلت بالکل متاثر نہیں ہوئے ۔یہاں دال میں کچھ کالا ضرور ہے بل کہ ساری کی سار ی دال ہی کالی ہے۔اب اگلا فریادی گنگو تیلی اپنی داستان غم سنائے اور جو کچھ راجہ بھوج نے کہا ہے اس کے متعلق اپنے ذاتی تجربات بیان کر ے ۔‘‘
’’ ظل ِ تباہی !یہاں کے حالات دیکھ کر اور راجہ بھوج کی بے سروپا باتیں سن کر میں دنگ رہ گیا ہوں یہاں تو عجیب تماشا ہے کہ ہر شخص راست گوئی کا داعی اور گامن سچیار بنابیٹھا ہے اور کوئی بھی جھوٹا نہیں ہے ۔میرا نا م گنگو ہے اور میں ایک غریب تیلی ہوں۔سو پشت سے میرا آبائی پیشہ کولھو میں سرسوں پیل کر تیل نکالنا ہے ۔میرے ساتھ کولھو کابیل بھی دِن بھر کولھو میں جُتا گھومتارہتاہے اور یہ چکر یوں ہی جاوداں چلتا رہتاہے ۔اس انتہائی مغرور اور طاقت ور مہا راجہ نے مہاراشٹر میں کولھا پور سے بیس کلو میٹر شمال مغرب میں پنہالہ کے مقام پر ایک بلند پہاڑی پر ایک مضبوط اور ناقابلِ تسخیرقلعہ تعمیر کرانے کا قصدکیا۔ جیسے ہی قلعہ کی دیواریں زمین سے اُٹھتیں سب کچھ بیٹھ جاتااور دیواریں ٹوٹ ٹوٹ جاتیں ۔جب اس مہاراجہ کی امیدوں کی فصل غارت جانے لگی اور معماروں کی سب محنت اکارت چلی گئی تو در و دیوار پر حسرت و یاس کے بادل امڈ آئے ۔ قلعہ کی تعمیر کے سلسلے میں جب اس راجہ کی کوئی امید بر نہ آئی اور اسے تعمیراتی کام کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہ آ ئی تو اس نے ریاست کے سب جوتشی ،قیافہ شناس ،رمال ،نجومی اور جادوگر طلب کیے ۔ دونو ںوقت مِل رہے تھے اُس وقت سب نے یہی کہا کہ جب تک اس قلعے کی بنیاد میں کسی زچہ اور اس کے نومولود بچہ کو زندہ پھینک کر قربانی نہیں دی جاتی اس وقت تک قلعہ کی تعمیر ممکن ہی نہیں ۔اُسی شام میری نوجوان اور حسین و جمیل بیوی نے میرے پہلوٹھی کے اکلوتے بیٹے کو جنم دیا۔جلاد منش درندوں نے راجہ بھوج کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میری بیوی اور نومولود بچے کو قلعہ کی دیواروں میں زندہ دفن کر دیا ۔راجہ بھوج کا فلک بوس قلعہ تو تعمیر ہو گیا مگر اس کے بعد میں مکمل طور پر زمیں بوس ہو گیا اور بے بسی کی تصویر بنا بہاروں کے سوگ میں ہوائی قلعے بنانے لگا۔جب میرا سینہ و دِ ل حسرتوں سے چھا جاتا اور میں یاس و ہراس کے باعث زندگی سے بیزار ہو جاتا تو بے اختیار پکار اُٹھتاکہ راجہ بھوج فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل نہ رہے ۔وہ اپنی فرد ِعمل سنبھالے یہ ظالم راجا بھوج جلد حالات کی زد میں آئے گااور اس جو روستم کا خمیازہ اُٹھائے گا۔جب یہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے گا اور تلملائے گاتو میرے دل کو سکون آئے گا۔میری مظلومیت اس پر عرصۂ حیات تنگ کر دے گی میراکم سِن بچہ اور بے گناہ اہلیہ کی آہیں اسے جینے نہ دیں گی ۔میری آہ و فغاں ہر وقت اس موذی و مکار راجہ کا تعاقب کر ے گی اور شقی القلب درندے کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔بے حس لوگ میر ا تمسخر اُڑاتے اور کہتے’’ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی ؟وہ دِن اور آج کا دِن میری توہین، تذلیل او رتضحیک کا سلسلہ جاری ہے ۔‘‘
اسی اثنا میں کڑی کمان کے تیر جیسی چا ل چلتی ہوئی رادھا نامی ایک نوجوان رقاصہ نمودار ہوئی جس نے نیم عریاں لباس پہنا ہوا تھا ۔وہ ایک واجبی شکل کے نوجوان لڑکے کی ہم رقص تھی ۔اپنے دِ ل میں کئی ارمان چھپائے وہ لڑکا ترنگ میں آ کر جس گیت کے بول الاپ رہا تھا وہ کچھ یوں تھا:
میرے من کی گنگا او ر تیرے من کی جمنا کابول رادھا بول سنگم ہوگا کہ نہیں
اس کے جواب میں رقص کرنے والی لڑکی صاف کہہ دیتی نہیں ۔۔نہیں ۔۔ نہیں
یہ بول سنتے ہی نظام سقہ آگ بگولا ہو گیااور غرایا :
’’ یہ من موجی کہاں سے آ گئے ؟ انھیں اپنے من کی غواصی کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ نوجوان لڑکے کی روح اورمن کی گنگااور لڑکی کے جگراور من کی جمنا میں دو سو نواسی کلو میٹر کا فاصلہ ہے ۔تیز رفتار کار بھی دو دریاؤں کے درمیان یہ فاصلہ پونے چھے گھنٹے میں طے کرتی ہے۔لڑکی سچ کہہ رہی ہے یہ سنگم نہیں ہوسکتا۔تم جغرافیہ سے نا بلد ہوتمھیں چاہیے کہ طویل سفر کی تکلیف گوارا کرو جھنگ کے نواح میں واقع تریموں ہیڈ ورکس کا نظارہ کرو جہاں خوشاب سے آنے والا دریائے جہلم اور چنیوٹ سے آنے والے دریائے چناب کا سنگم ہوجاتاہے ۔تریموں سے جنوب کی جانب جو دریا ملتان کی جانب بہتاہوا جاتاہے وہ دریائے چناب ہے دریائے جہلم تو اس سنگم میں اپنی ہستی اور پہچان بھی مٹا دیتاہے ۔یہ لڑکا تو بالکل بُدھو ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے :
ہو گئے لوگ کیا سے کیا بُدھو
تُو وہیں کا وہیں رہا بُدھو
یہ رومان پرورلڑکااگر کسی عاشقانہ موسم میں تریموں کے مقام پر پہنچے اور وہاں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم کے مقام پر کُنڈی سے پکڑی گئی تازہ مچھلی کے کباب لڑکی کو کِھلا کر یہ گیت گائے:
میرے من کے جہلم اور تیرے من کی چناب کا بول رادھا بول سنگم ہو گاکہ نہیں
تریموں کے مقام پر یہ سریلے بول سنتے ہیں ہر لڑکی بلا تامل یہی کہے گی سنگم ہو گا۔۔۔ہوگا ۔۔۔ہو گا اور سنگم ضرور ہو گا۔
رقص کرنے والی لڑکی آگے بڑھی اور نظام سقہ سے کہنے لگی:
’’ حیف صد حیف !گنگو تیلی کی خست و خجالت کی وجہ سے ہمارا سنگم نہ ہو سکا۔ناجائز منافع خوری کے عادی اور سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا اس تیلی نے اپنے کولھو میں تیار کیا ہواسرسوں کا تیل کئی بڑے بڑے مٹکوں میں ذخیرہ کر رکھا ہے اور کالی کٹ ، کالا شاہ کاکو ،کالا باغ ،کالا خطائی اور کالام کے تیل کے سوداگروں کو سرسوں کا تیل مہنگے داموں فروخت کر کے کالا دھن کماتاہے ۔‘‘
’’ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والا گنگوتیلی حسن و رومان کی وادی میں قدم رکھنے والوں کا رقیب یا بیلی کیسے بن سکتاہے ؟‘‘
غم عشق سے نڈھال نو جوان لڑکا رونے لگااور اس نے آ ہ بھر کر کہا:
’’ میں نے شہر کی طوائفوں سے سنا ہے کہ رادھا کا رقص بے مثال ہے ۔یہ سنتے ہی میں رادھا کا رقص دیکھنے کا شیدائی ہو گیااور اسے اپنی تمنا سے آ گاہ کیا تو بھاری معاوضہ لینے کے بعدرادھا میرے وسیع گھر کے آنگن میں رقص کرنے پر رضا مند ہو گئی۔اس کی فرمائش پر میں پشاور سے انتہائی مہنگاسنگ ِ مر مر خرید کر لایا اور اسے گھر کے سارے آنگن میںلگوا دیا ۔اس نے میرے گھر کے آنگن میںجب سبزقدم رکھا تو بولی کہ میں یہاں کیسے ناچ سکتی ہوں یہ توآ نگن ہی ٹیڑھاہے ۔اپنے گھر کے آنگن میں لگی یہ سنگلاخ چٹانیں فوراً اُکھاڑ کر کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دو اور آنگن کو سوہنی کے شہر گجرات سے لائی گئی کچی مٹی سے ہموار کر دو تب میں یہاں ناچنے پر تیار ہوں۔مرتا کیا نہ کرتا میں نے رادھا کی یہ خواہش بھی پوری کر دی ۔اب رادھا کا باپ جو تیل کا بہت بڑا سوداگرہے وہ رکاوٹ بن گیا ۔اس نے مجھے کہا کہ اگر میںنو من تیل اُسے تحفے کے طور پر مہیا کر دوں تورادھا اس کی شریک حیات اور ہم رقص بن کر اس کا بازو تھام لے گی ۔ یہ ایک کڑی آزمائش تھی میں گنگو تیلی سے نو من تیل حاصل نہ کر سکا ۔اسی لیے شہر بھر میں میری رسوائی کی
نوبت آ گئی اور ہر شخص یہی کہتاکہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ ہی رادھا ناچے گی۔‘‘
’’ردِ ادب !اب ظلِ تباہی نظام سقہ اس سارے جھگڑے پر اپنا جغرافیائی فیصلہ صادر کرنے والے ہیں ۔‘‘جلاد نے نعرۂ مجنونانہ بلند کیا
’’ آج کی برخواست میں جو درخواست میرے پیش گو ش رہی اس نے مجھے خواب خرگوش میں مست کردیا۔یہاں کئی مست آئے جو ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر اور شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے یہاں مجنونانہ انداز میں محو رقص تھے ۔اگر فیصل آباد پہنچو تو جس بازار میں دیکھو سامنے گھنٹہ گھر ایستادہ ہے ۔اسی طرح ہمارے معاشرے میں گنگو تیلی ہی ہر جگہ خرابی کا سبب ہے ۔ہر عہد میں کسی نہ کسی ایسے کم زور گنگو تیلی کا وجود ملتاہے جسے جرم ضعیفی کی سزا ملتی رہی ہے ۔ راجہ بھوج نے تمھیں قلعے کی دیواروں میں نہ پھینک کر تمھاری جان بخشی کی کیا یہ کم احسان ہے ؟اپنے محسن کے خلا ف زہر اُگلتے ہو یہ تمھارا بہت بڑا جرم ہے ۔میں حکم دیتاہوں کہ گنگو تیلی کو کالا پانی بھیج دیا جائے ۔جہاں کالی دیوی اس کی منتظر ہے وہ اپنی کالی زبان کھولے گی اورگنگو تیلی کے سب افعال کو میزان قہر و غضب میں تولے گی ۔گنگو تیلی وہاں صر ف تیل اور تیل کی دھار ہی نہیں بل کہ تیل کے وار چلنے اورتیل کی مار پڑنے کے مناظر بھی دیکھے گا۔گنگو تیلی اس قدر سادہ ہے کہ یہ ذہن و ضمیر کی نیلامی کے عذاب سے ناواقف ہے۔گنگو تیلی اور مداری کے بندر افسو س ناک حد تک تن آسان اور ذہنی قلاش ہیں۔اے مداری تم اپنے فربہ بندروں کو سکھا دو کہ رقص کف گیر پکڑ کر بھی کیاجاتاہے۔ گنگو تیلی کی وجہ سے رادھا اور اس کے عاشق نامرادنے جو سزاجھیلی ہے اس کا مداوا کرنے کے لیے ما بہ خست رادھا کو اپنی منظور نظر کنیز مقرر کرتے ہیں ۔ سولہ سالہ رادھا اب بتیس سالہ مس بیہی بنو کے ساتھ مِل کر شاہی محل میں مرکز مساج چلائے گی اور اپنے رقص و سرودسے اس ضعیفی میں میرا دِل بہلائے گی اور من کی مراد پائے گی۔رادھا کا نامرادعاشق فرہاد حسب ِ معمول اب بھی پہاڑ کھودے گاجہاں سے اُسے خشک گھاس کے تنکوں میں لپٹا مردہ چوہا ہی ملے گا۔‘‘
’’ جہاں فنا!میں مظلوم ہوں مجھ پر رحم کیا جائے ۔‘‘ گنگو تیلی نے چیخ مار کرکہا ’’ہم آبلہ پا مظلوموں کو ہر دور میں صعوبتوں کے دشت ِخار میں پا برہنہ سفر کرنے پر مجبور کر دیاگیا۔ہم الم نصیب مظلوموں کے قبیلے میں انار کلی ،عباسہ ،دُلا بھٹی ،پورن بھگت،زیب النسا مخفی اور مہر النسا شامل ہیں ۔‘‘
’’ خاموش رہو گنگو تیلی تم اپنی حد سے آگے بڑھ رہے ہو اور کسی ماہر گورکن،کفن دُزداور استخواں فروش کی طرح گڑے مردے اُکھاڑ رہے ہو ۔‘‘ نظا م سقہ نے گنگو تیلی کو للکارتے ہوئے کہا ’’ دنیا کے ہر علاقے میں راجے اور مہاراجے ہی مظلوموں کی قسمت کے مالک ہیں ۔میں بھی سرسری اقتدار کے ایوان سے گزرا ہوں یہاں تو ہر جگہ اک نیا جہان جلوہ گر ہے مگر میں نے تو خوب حلوہ کھایا ہے اور چام کے دام چلا دئیے ہیں ۔اب تمھارا کالا پانی جانے کا ارادہ ہے یا دنیا سے جانے کی تمنا ہے ۔مجھے جلد اپنے فیصلے سے آگاہ کرو ۔‘‘
نظام سقہ کا یہ حکم سنتے ہی رادھا تو ہنسی مسکراتی ہوئی مس بیہی بنو کے ساتھ مِل کر قصر شاہی کی جانب چلی گئی مگر فرہادنے تیشہ اپنے سر پر دے مارا۔نظام سقہ نے فرہاد کی روداد سنی اس کی فریاد پر بھی توجہ دی مگر اس کا انجام دیکھ کر کہنے گا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مرنے کے لیے اب اسے تیشے کی کیا ضرورت تھی ۔اس قدررسوائی ،جگ ہنسائی ،توہین ،تذلیل ،بے توقیری ،تضحیک اور عقوبت سہنے کے بعد تو انسان گردشِ مدام ہی سے دم توڑ دیتاہے ۔
اچانک دربار میں کہرام مچ گیااور لوگوں کا ازدحام دیکھ کر نظام سقہ غرانے لگا۔
’’ یہ کیا معاملہ ہے ایک روزہ اقتدار میں اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے کے بعد اب بھی فریادیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔مجھ سے پہلے یہاں کیا ہوتا رہا ہے؟ شاہوں کو رعایا کی کچھ خبر ہی نہیں سب اپنی اپنی تجوری بھرنے کی فکر میںرہتے ہیں ۔ میں نے آج جو اذیت وعقوبت برداشت کی ہے میں اس کی فریاد کس سے کروں ؟‘‘
سب مشیر بے تدبیر ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے ہیہات دھونسوی نے کہا:
’’ اے آفت ِ نا گہانی ! ایک پیشہ ور چور اور ڈاکو ’’جُھلا سو پیازہ ‘‘ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اگر اجازت ہو تو اُسے دربار میں پیش کیا جائے ۔‘‘
نظام سقہ نے یہ سن کر بے چینی اور تعجب سے کہا:
’ اونہہ ! پیشہ ور چور اور ڈاکو’ جُھلا سو پیازہ ‘ اگرچہ ملک بھر کے چور، اُچکے ،تلنگے اور لُچے میرے ہی قبیلے کے فرد ہیں مگر اس نام کے چور اور ڈاکو سے میں بھی آج تک واقف نہ ہو سکا ۔یہ چھپارابن ہڈ کہاں سے نکل آیا ۔جُھلا سو پیازہ کو فوراً دربار میں پیش کیا جائے میں یہ دیکھوں گا کہ اُسے کیامسئلہ درپیش ہے ؟‘‘
ایک فربہ شخص جس کے ہاتھ مونج کی رسی سے بندھے ہوئے تھے ، پیٹھ پر ایک غلیظ سے جُھلے میں بندھی گٹھڑی تھی اور پاؤں میں بیڑیا ں تھیں۔پیہم رونے اور چیخ پکار کی وجہ سے اس چور کی گھگھی بندھ گئی تھی ۔اُسے داروغہ ٔ زنداں گھسیٹتا ہوا لا یااور ہاتھ جوڑ کر نظام سقہ سے کہا:
’’ یہ شخص عادی دروغ گو ،پیشہ ور چور اور خطرناک ٹھگ ہے ۔ اس کا نام تشفی ہے اورپیشے کے اعتبار سے یہ کنجڑا ہے روزانہ آدھی رات کے بعدیہ خطرناک ڈاکو اور سفاک لٹیراکھیتوں سے سو پیاز روزانہ چوری کر کے اپنے عفونت زدہ جُھلے میں بھر لاتاہے اور گلی محلے کے گھروں میںایک آنہ فی پیاز بیچتا پھرتاہے ۔اسی حوالے سے اس دہشت گرد کا نام جُھلاسوپیازہ پڑ گیاہے ۔آج رات کی تاریکی میں جب میں حسب معمول اپنے گھر کی ضروریات کے لیے سبزی کے کھیت سے چوری چھپے کچھ بینگن توڑنے گیاتو اِس جَھلے کو اُس جُھلے سمیت جس میں چوری کے سو پیاز موجود ہیں جائے وارادت سے رنگے ہاتھوں دھر لیا۔سبزیاں اُگانے والے دہقان ہاتھ پرہاتھ دھرے انصاف کے منتظر بیٹھے ہیں۔اِس خطرناک چور کو عبرت ناک سزا دی جائے ۔‘‘
’’ میرے بارے میں جو بات ہیہات دھونسوی نے کہی ہے وہ سچ ہے ۔میرے جُھلے میں اس وقت سو پیاز موجود ہیں۔سب سے پہلے تو ہیہات دھونسوی کی جُھلی منگوائی جائے جس میں وہ خود چوری کے بینگن توڑ کر لایا ہے ۔‘‘
’’ ردِ ادب ! شاہی دربار کو ڈکٹیشن دے کر نظام سقہ کے انتقام کو دعوت نہ دو۔‘‘ نظام سقہ نے غیظ و غضب کے عالم میں کہا’’ میں وہی فیصلہ کروں گاجو جنگل کے قانون کے مطابق ہو گا۔ہیہات دھونسوی نے خود ہی کھیتوں سے چوری بینگن توڑکر اپنے گھر لانے کا اعتراف کر لیاہے ۔حالانکہ اُس کا فرض تھا کہ کچھ بینگن قصر سقہ میں بُھرتے کے لیے پیش کرتا۔ہیہات دھونسوی کوآج سے تھالی کا بینگن بنا دیا گیا ہے ۔اب رہا جُھلا سوپیازہ کی پیاز چوری کا جرم تو اپنے لیے سزا یہ کنجڑ اخود منتخب کر ے گا۔اِس بد بخت کنجڑے کو یا تو اپنی پیٹھ پرایک ایک کر کے سو جوتوں کی مار سہنی پڑے گی یا پھر ایک ایک کر کے سو پیاز کھانا ہوں گے ۔ ‘‘
نظام سقہ کے حکم پر تشفی کنجڑے کا جُھلاکھولا گیا تو اُس میں سے پُورے ایک سو پیاز بر آمد ہو ئے ۔ شاہی مطبخ کے خانساماں نے پاؤ بھر کے ہر پیاز کو صاف کر کے ایک بڑے تھال میں سجا دیا ۔ساتھ ہی تنورا تسمہ کش ہاتھ میں ایک بھاری جوتالے کر کھڑا ہو گیا۔
تشفی کنجڑ ے نے ایک نظر پیاز کے تھال پر ڈالی اور ساتھ ہی کنکھیوں سے مسٹندے جلاد تنور اتسمہ کش کو بھاری جوتا تھامے دیکھا ’’ میں تو ایک سو پیاز ہی کھاؤں گا۔‘‘تشفی کنجڑا ہنہناتے ہوئے بولا
یہ کہہ کر پیٹو تشفی کنجڑے نے جلدی سے پیازخوری کاآغاز کر دیا ۔ اُس نے ابھی دس پیا زہی کھائے تھے کہ وہ اُبکائیاں لیتے ہوئے چیخا ’’ میں ایک سو جوتوں کی مار تو برداشت کر سکتا ہوں مگر باقی نوے پیاز کھانا میرے بس سے باہر ہے ۔‘‘
نظا م سقہ کے اشارے پر تنورا تسمہ کش آگے بڑھا اور اس نے تشفی کنجڑے کی پیٹھ پر جوتے برسانے شروع کر دئیے ۔تڑ تڑ پیزاریں پڑنے لگیں ابھی دس جوتے ہی پڑے تھے کہ تشفی کنجڑا چیخ اُٹھا ’’ بس کرو !میں باقی بچے پڑے نوے پیاز تو کھا لوں گا مگر اب مزید جوتوں کی مارسہنا میری برداشت سے باہر ہے ۔‘‘
اپنی پیٹھ سہلاتے ہوئے تشفی اُٹھا اور کچھ دُور تھال میں پڑے باقی پیاز کھانے میں جُت گیا۔ابھی اُس نے مزید دس پیاز ہی کھائے تھے کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔وہ خود ہی تنورا تسمہ کش کے پاس پہنچااور اُسے اپنی پیٹھ پر باقی نوے جوتے لگانے کا اشارہ کیا ۔اپنی ننگی پیٹھ پر مزید دس جوتے سہنے کے بعد تشفی کنجڑا پھر پیاز کھانے کے لیے تھال کی جانب لپکا ۔یہ سلسلہ چلتارہا یہاں تک کہ تشفی کنجڑا سو پیاز بھی کھا گیااور سو جوتے بھی اس نے اپنی خوشی اور ر ضا مندی سے اپنی پیٹھ پر برداشت کیے۔تنورا تسمہ کش اپنی مونچھوں کو بَل دے رہا تھایہ دیکھ کر تشفی کنجڑا بولا :
اِک کفش اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے
سزا یافتہ فریادیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد نظام سقہ نے کہا:
’’ سب جانتے ہیں کہ میرے فیصلوں کے پیچھے کس کاہاتھ ہے اور کس کے ایما پر فریاد کی بے داد کی گئی ۔اپنے بارے میں یہی کہوں گا:
ناحق ہم سقوں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمت بدلنا،بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اور چڑھتے سورج کی پرستش کرناسنت مرلی منوہربرہمچاری کے خاندان کا سو پشت سے پیشہ تھا۔اس ابن الوقت خسیس،طالع آزما حریص اورسفاک مہم جوکی یادداشت بہت مضبوط تھی ۔وہ رسوائے زمانہ ڈاکو حبیب اللہ کلکانی ( B:1891.D:1929 )جسے دنیا بچہ سقہ کے نام سے جانتی ہے کابہت بڑا مدا ح اور پیروکار تھا۔ وقت کے سانحہ کے نتیجے میں جس عرصے میں( 17-01-1929-17-10-1929 ) بچہ سقہ افغانستان کاحاکم بناسنت مرلی منوہربرہمچاری کا ایک محسن تشفی کنجڑاجو زہرہ کنجڑن کا نواسہ تھا اپنی بدقسمتی کے داغ دھونے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ تشفی کنجڑا نے شہر کی کچھ رذیل طوائفوں ،رقاصاؤں اور خواجہ سراؤں کو ساتھ لیا اورکابل کا رخ کیا اور بچہ سقہ کو چُلّو میں اُلّوبنا کر خون رنگ رلیاں منائیں ۔تشفی کنجڑا کی طوائف بیٹی قفسہ اپنی لے پالک بیٹیوں کو لے کر کابل میں کیا وارد ہوئی ہر طرف کرگس، زاغ و زغن اور چغد کی اُڑانیں عام ہو گئیں۔ مکر وال کی رذیل طوائف مس بیہی بنو نے اپنے خاندان کے مورث ادنیٰ نظام سقہ کے بارے میں کہا :
’’ ہم سب بیداد کرنے والے نظام سقہ کی اولاد ہیں۔ نظام سقہ اور بچہ سقہ میں پیشے اور حرص وہوس کاجو رشتہ ہے وہ کسی سے بھی دہن دریدہ سے پوشیدہ نہیں۔ قحبہ خانوں میںہمارے پیشے سے وابستہ عورتوں نے اپنے جسم و جاں کو داؤ پر لگا کر افلاس کے بیشے کاٹنے کی کوشش کی ہے ۔ ہماری عشرتوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔الاماں بینگن دُھول پوری نے اپنی تاریخ غرائب و عجائب میں ہمارے خاندان کے کارہائے پنہاں سیاہ حروف میں لکھے ہیں۔الاماں بینگن دُھول پوری کاخاندان کئی نسلوں سے سقہ شاہی کا نمک کھاتا رہاہے اور ان کے گیت گاتا رہاہے ۔‘‘
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ الاماں بینگن دُھول پوری اپنے عہد کاتھالی کا بینگن ہی تھا۔اس موم کی ناک نے شرم ناک اور من گھڑت انداز میں حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کو وتیرہ بنا لیا اور اپنی تاریخ نویسی کو پشتارۂ اغلاط بنا دیا۔ الاماں بینگن دُھول پوری کی مبالغہ آمیزتحریروں نے تاریخ نویسی کو داستان فقیر ہمزہ کا مضحکہ خیز رُوپ دے دیا۔ تاریخ ہر دور میں ایسے مفسدین کے کام پر تین حرف بھیجتی رہے گی جنھوں نے زندگی کے مسلمہ حقائق کسے چشم پوشی کی اور ارفع ترین صداقتوں سے انحراف کر کے اپنے ذہنی افلاس کا ثبوت دیا۔
دِ ن ڈھل چکاتھا مگر نظام سقہ کا طائر خیال ابھی تک تاریخ کے ایک روزہ مختصر ترین اقتدار کے سفر میں تھا ۔اس حریص،خود غرض ، موقع پرست، ابن الوقت اور طالع آزماکرگس کے بال و پر میںاس کے بدن کا سار ا عفونت زدہ خون جمع ہو چکاتھا۔شام ڈھلتے ہی ہمایوں نے قصر شاہی میں قدم رکھا اور نظام سقہ کو چلتا کیا ۔ ایک روزہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جب نظام سقہ اپنی اوقات یاد کرتا تو دل تھام لیتا۔لوگوں کے سوالات کا جواب دینا اس کے بس سے باہر تھا۔ پورا ایک دِ ن وسعت ِ افلاک میں محوپرواز رہنے کے بعدتپتی ہوئی زمین پر اُترا تو سب موسم بدل چکے تھے ۔لٹھ بردار چوب دار نگاہیں بدل گئے تھے اور داروغۂ زندان نے نظا م سقہ اور اس کے ساتھ موجود موقع پرستوں کے سادیت پسند ٹولے کو قصر شاہی سے جلد نکل جانے کاحکم دے دیا تھا۔وہ سوچنے لگا مشکیں تو کٹ گئیںاب زندگی کے باقی دن کیسے کٹیں گے ؟کئی یگانے اور بیگانے جب اس سے ایک دن کی شاہی کے بارے میں پوچھتے تووہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر انگاروں پر لوٹنے لگتا۔مفلس وقلاش نظام سقہ ایک روزہ اقتدار کے مزے چکھنے کے بعدجب ان اجڑے ہوئے لوگوں سے سب لوگ گریزں رہنے لگے تو پریشانی کے عالم میں وہ ہر وقت اوندھے منھ زمین پر لیٹارہتا۔ نظام سقہ کا دل بہلانے کی خاطر مکر وال کی رذیل طوائف مس بیہی بنو ساحر لدھیانوی کی یہ غزل جو بھارتی فلم بہو بیگم (1967)میں شامل ہے ، ترنم سے گاتی تو وہاں موجود سب ماشکی زارو قطاررونے لگتے :
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دل کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
کس کس سے اپنا رشتہ ٔ جاں توڑ آئے ہیں
مشکل ہو عرض ِ حال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دردِ وفا کون د ے گیا
راتوں کو جاگنے کی سزا کون دے گیا
کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں ٓٓئے
نظام سقہ جب ایک روزہ اقتدار سے فارغ ہوا تو عہدِ گُل ہوا ہو چکا تھااوراُس کے شہر ِ آرزو میں نیاگُل کِھلاہواتھا۔وہ مٹی کامادھو سوچتا کہ بے ضمیر جب بھی کسی سے جعلی پیمانِ وفا باندھتے ہیں تو قحبہ خانے کے دروازے پر پہنچ کر اپنے گھر کو پھونک کر تماشا دیکھنے کی تمنا میں نائکہ قفسو اور رذیل طوائف مس بیہی بنو کوسلام کرتے ہیں۔ یہ خانہ جنگ طوائفیں روزگھر کی چھت پرچڑھ کرہر راہ گیر سے مصروف ِ جنگ رہتیں ۔مکڑوال کے نواحی علاقے میں واقع قحبہ خانے سے کچھ فاصلے پر ندی کے کنارے کھڑے ہو کر سیلانی مزاج فقیر اور لوک گلوکاریارا سازندہ نے اپنے عہد کی ممتاز مغنیہ بیگم اختر(1914-1974) کی گائی ہوئی مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر سُدرشن کرما فاکرؔ(1934-2008)کی لکھی ہوئی یہ غزل ترنم سے پڑھی اور رونے والوں سے مخاطب ہو کر گلو گیر لہجے میں یہ شعر پڑھے تو نظام سقہ کے پڑ پوتے اور طباقی سگ تنورا، رذیل طوائف لا ل کنور کی نواسی مس بیہی بنو اور نائکہ قفسو سمیت سب حاضرین دھاڑیں مارمارکر رونے لگے:
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو اُ ن کا بھی رونا رولیں
جن کو مجبوریٔ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگی ٔ وقت ِ ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہرروز کے صدمات نے رونے نہ دیا
افغانستان میں رسوائے زمانہ ڈاکو حبیب اللہ بچہ سقہ نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کے دور میں بھی مس بیہی بنو اور نائکہ تفوسی کی پانچوں گھی میں تھیں ۔مس بیہی بنو کو اس بات کا بہت گھمنڈتھا کہ ماشکی کے اس ڈاکو بیٹے نے اُس کے اسلاف نظام سقہ اور بہرام ٹھگ کی یاد تاز ہ کر دی ۔ ایک ماشکی کے ڈاکوبیٹے نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کر کے ثابت کر دیا کہ نمود و نمائش کی جرأت ہو تو اس کے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔جب نادر خان نے بچہ سقہ کی سرکوبی کا فیصلہ کیاتوبزدل لٹیرا بچہ سقہ بھاگ نکلا مگر نادرخان کے بہادرسپاہیوں نے اس ڈاکو کا تعاقب کیا اور گرفتار کر کے اُس درندے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔بچہ سقہ کی ہلاکت کے بعد مس بیہی بنو نے اپنی ماں تفوسی کے ساتھ کابل سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا اور مکڑوال آ پہنچی ۔
سنتری کی جنتری کے مشمولات اور مندرجات کا مشاہدہ کرنے والے محقق مایہ ناز ماہر نفسیات حاجی حافظ محمد حیات اور حاجی محمد ریاض نے بتایا کہ اس خود نوشت میں کئی ایسے حقائق تھے جو تاریخ کے طوماروں میں دب گئے ہیں۔قلی فقیر کے بارے میں لکھا ہے کہ جھنگ سے پانچ کلو میٹر مشرق میں فیصل آباد روڈ پر آسودۂ خاک اس پر اسرار شخص کا نام قلی فقیر ہی تھا۔ اپنے باپ قلی قطب شاہ (1555-1612)کی وفات کے بعد اس فقیرنے اپنی ماں بھاگ متی کی اجازت سے قصر شاہی کو چھوڑا اور ترک دنیاکی راہ منتخب کی۔کچھ عرصہ یہ سیال کوٹ کے نواح میں واقع پورن بھگت کے کنویں کے پاس بیٹھ کر تپسیا کرتارہا۔اس پُر اسرار فقیر کے کشف و کرامات کا ایک عالم معترف تھاملک بھر سے لوگ اس سے اکتساب ِ فیض کرتے ۔سیلِ زماں کے تھپیڑے اس سیلانی مزاج فقیر کو یہاں لائے اور اس کی خاک وہیں پہنچی جہاں کا خمیر تھا۔یہ کہناکہ یہ شخص محکمہ ریلوے میں قلی تھا قطعی غلط ہے ۔ریلوے تو سال 1857ء کے بعد یہاں پہنچی مگر یہ قلی فقیر تو 1612ء کے بعد یہاں پہنچ چکا تھا۔علم بشریات ،نفسیا ت اور تاریخ کے پیہم رواں عمل پر گہری نظر رکنے والے دانش ورپروفیسرحاجی حافظ محمدحیات نے اِ س پُر اسرار فقیر کی درویشی اور شان استغنا کے بارے میں بابا فرید الدین مسعو د گنج شکر (1173-1266)کا یہ شعر مع اردو ترجمہ سنایا تو امیر اختر بھٹی نے اِسے ’ کُلی فقیر‘ میں آسودۂ خا ک فقیرکے حسب ِ حال قرار دیا:
مت ہوندی ہوئے ایانا ،تان ہوندے ہوئے نتانا
اَن ہوندے آپ ونڈائے ،کوئی ایسا بھگت سدائے
ترجمہ : ہمہ دانی کے ہوتے ہوئے جو اپنی نادانی جتلائے
قوت رکھنے کا باوجود بھی جو اپنی بے بسی دکھلائے
اپنی مفلسی میں بھی جو حاجت مندوں کے کام آئے
کوئی ایسا بھگت بلائے
ممتاز محقق اور ماہر آثار قدیمہ پروفیسر احمد بخش ناصر نے کُلی فقیر کے بارے میں مقامی لوگوں کے خیالات اور تخمین و ظن سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ لفظ ’ کُلی ‘ کا قلی قطب شاہ یا محکمہ ریلوے کے’قلی ‘ سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دوآبے کے وسیع علاقے میں پنجابی زبان بولنے والے والے لوگ آ ج بھی جھونپڑی کو ’ کُلی ‘ کہتے ہیں ۔کئی لوک گیتوں میں لفظ ’ کُلی‘ جھونپڑی کے معنوں میں مروّج ہے:
اللہ ہُو دا آواز ہ آوے کُلی نی فقیر دی وچوں
نہ کر بندیا میری میری دم دا وساہ کوئی نہ
ترجمہ: اللہ ہوُ کی آوا زفقیر کی جھونپڑی میں سے آ رہی ہے
اے انسان دنیاوی حرص و ہوس سے بچ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں
آج بھی جھنگ میں مقیم مقامی زبان کے اکثر شاعر اپنے کلام میںلفظ ’ کُلی‘ کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کے ممتاز شاعر مہر ریا ض سیا ل نے بھی اپنے ایک پنجابی دوہڑے میں لفظ ’ کُلی ‘ کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کیا ہے :
نِت اپنی بال کے سیکی کر ،تو ں آس کسے دی رکھ نئیں
جَداں سَیت نو ں آ اُگھلا ویندائے ،کوئی پرت کے ویدھا اَکھ نئیں
جِتھے عزت دا یار سوال ہووے ،کائی چیز بچا کے رکھ نئیں
ککھ ریاض ؔ شریکاں اِچ رہ جاوِن ،بھاویں رہے کُلی دا ککھ نئیں
ترجمہ:
روزانہ اپنی محنت شاقہ سے رزق ِ حلال کماؤ کسی غیر پر انحصار نہ کرو
مشکل وقت میں سبھی طوطاچشمی کرتے ہیں کسی کا اعتبار نہ کرو
حریت ِ ضمیر کا مسئلہ ہو جہاں کوئی چیز بچانے پر دِل کو تیار نہ کرو
گھر لُٹ گیا مگر رقیبوں میں عزت رہی اس پر دُکھ کا اظہار نہ کرو
اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں صدیوں پہلے کسی فقیر کی ’کُلی ‘ ( جھونپڑی) تھی۔اقلیم معرفت کے اس درویش منش فقیر کے ہزاروں مرید اور عقیدت مند اس مقام کو کُلی فقیر کے نام سے آج بھی یاد کرتے ہیں ۔اِسے کَلی یا قلی نہیں بل کہ کُلی ہی کہناچاہیے ۔
غلام علی خان چینؔ نے پروفیسر احمد بخش ناصر ؔ کی آثار ِ قدیمہ میں دلچسپی کو سراہتے ہوئے کہا:
’’ اس پر اسرار درویش کی آخر ی آرام گاہ کے بارے آپ کی تحقیق سے ہم سب کُلی طور پر متفق ہیں۔ یہ شہر بھی عجیب ہو رہا ہے جو قحط الرجال کے مسموم ماحول میں آہستہ آ ہستہ کوفے کے قریب ہو رہاہے ۔کاش کوئی محکمہ شاہرات کے مہتمم کو بھی اس دُور کی کوڑی سے مطلع کرے جو اِس شہر نا پرساں کا یہ عبقری ماہر آثار قدیمہ یہاں لایا ہے ۔محکمہ شاہرات کی طرف سے اس مقام کی نشان دہی کے لیے جھنگ سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر جو بورڈ نصب کیا گیاہے اُس پرجلی حروف میں ’’ قلی فقیر ‘‘ ہی درج ہے ۔اب آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کُلی اور قلی کہاں سے آئے ہیں بادل اور باد کا کیا تعلق ہے اور کذب و افترا کی سزا کیا ہے ۔‘‘
سجاد حسین نے اردو زبان کے الفاظ اور ان کے اعراب کے حوالے سے اس عالمانہ گفتگو کوبہت پسند کیااورکہا کہ یہ بات تو اب طے ہوگئی کہ کرم والا کاف اور اُس پر پیش ہی اس بستی کے نام سے وابستہ ہے ۔اس موقع پر اِس پُر عزم اور وسیع المطالعہ نوجوان نے مرزا اسداللہ خان غالبؔ کا یہ شعر پڑھاتو سب حاضرین نے اسے بر محل قرار دیا:
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کاف ِ کرم ہے ہم کو
سنتری نے بتایا کہ مس بیہی بنو بھی اکثر اس دربار پر نذر و نیاز کے چاول اُڑانے ،حرص و ہوس کی چاہت کی پینگیں ڈالنے ،اپنے حسن و جمال کے جال بچھا کر عشاق کو پھانسنے ،دل بہلانے اورصدقہ اُتارنے پہنچ جاتی ۔ درباروں ،مندروں اور گردواروں پر حاضری دینے والے عقیدت مند طیور آوارہ کے لیے اکثر اجنا س خوردنی کے دانے بھی زمین پر بکھیر دیتے تھے، اس کٹنی کے بزرگوں کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے اسلاف مزاروں سے اجناس خوردنی کے وہ سب دانے اکٹھے کر کے چڑی ماروں کو فروخت کر دیتے۔اس طرح ان خسیس ٹھگوں کی تجوری تو بھر جاتی مگر پرندے بھوکے رہ جاتے اور مایوس پرندے کھیتوں اور کھلیانوں کی طرف پرواز کر جاتے ۔اسی لیے عادی دروغ اور پیشہ ور ٹھگوں کے اس ٹولے کے بارے میں یہ بات اکثر کہی جاتی تھی ۔
بچ کے رہو اُن عیاروں سے
جو دانے چُرالیں مزاروں سے
قحبہ خانے کی بھینگی آنکھوں والی رذیل طوائفمس بیہی بنو اپنی ماں اور نائکہ تفسو کے پہلومیں کسی شکار کی تلاش میں بیٹھی تھی ۔وہ تلملاتی ہوئی یہ سب باتیں سن رہی تھی،اُس نے پہلو بدلا اور وہاں موجود سنجیدہ محققین اور ماہرین آثار قدیمہ کو گُھور گُھور کر دیکھنے لگی ۔ کالی دیوی کی اِس بد طینت اور کریہہ شکل والی پجارن نے اپنا بھاڑ جیسا منھ کھولا اور قینچی کی طرح اپنی کالی زبان چلاتے ہوئے غرائی:
’’ یہ بھی تو ہو سکتاہے کہ تارک الدنیا اور گوشہ نشین درویش لنگر سے کھانا کھانے کے بعد اِس مقام پر کُلی کرتا ہو ۔ ممکن ہے کِھلنا کم کم کَلی نے اِسی شب بیدار تارک الدنیاسادھو سے سیکھا ہوگا۔ابھی پنجابی زبان کا ذکر ہوا ہے تو میں یہاں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ دیوار کی درز میں ٹھونسی جانے والی لکڑی کی کھونٹی کو پنجابی زبان میں کِلّی کہا جاتاہے ۔گمان ہے کہ اِس مقام پر اِس سادھو نے دیوار میں کِلّی گاڑ ی ہو جس پر وہ اپنے کپڑے لٹکاتا ہو ۔اِن حوالوں سے یہ آسیب زدہ جگہ کِلّی فقیر ،کَلی فقیر یا کُلی فقیر بھی تو کہلا سکتی ہے ۔‘‘
امیر اختر بھٹی نے مس بیہی بنوکی یہ بات سُنی تو دِل تھام لیا اور کہا ’’ اونہہ ! مان نہ مان میںتیرا مہمان میں تو یہی کہوں گا کہ بصارت سے محروم افراد کوبسنت کی بہار کے رنگ کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ؟ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دیکھنے کے لیے بصیرت کی احتیاج ہے اور وہی مِس بیہی بنو کے ہاں عنقا ہے ۔اِس مقام پر کوئی کُلّی کرے یا مِسی لگائے،کِلّی گاڑے یا کَلی کو سُونگھے ہماری بلاجانے ۔مس بیہی بنو! ہم یہ کِل کِل جھک جھک سننے کے عادی نہیںتُو اپنی آپ نبیڑ اور یہاں پرائی بات ہر گز نہ چھیڑ۔ ‘‘
محفل کے شرکا کے تیور دیکھ کر مس بیہی بنو کھسیانی بِلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے اپنی ماں تفسو کو ساتھ لے زلفوں کا جال جھٹکتے ہوئے کسی نئے پنچھی کو پھانسنے کے لیے وہاں سے نو دو گیار ہ ہو گئی۔
امیر اختر بھٹی نے اپنے نعتیہ کلام ’’ توشۂ آخرت ‘‘کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ایک ملاقات میں بتایا :
’’ میرے درویش ساتھی حاجی حافظ محمد حیات ، رام ریاض ،سجاد حسین ، گدا حسین افضل ،احمد بخش ناصر ،شفیع ہمدم ،شفیع بلوچ ،حاجی محمد ریاض اورمعین تابش مجھے ساتھ لے کر اکثر اس پُر اسرار فقیر کی آخری آرام گاہ پر کُلی فقیر پہنچتے اور دیر تک سوچتے کہ تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیل ِ زماں کے ایک تھپیڑے میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں۔ اس مقام پر موسیقی کی محفلیں اکثر جاری رہتی تھیں اور شائقین دور دراز سے یہاں پہنچتے اورکلاسیکی موسیقی ،رقص اور ڈھول بجانے والے شوقیہ فن کاروں کے فن سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ دسمبر کی اکتیس تاریخ تھی اور سال 1995ء اپنے اختتام کو پہنچ رہاتھا۔اس بار چہک چھلک نام کی ایک مغنیہ نے اپنی ساتھی مس بہک ڈھلککے ساتھ مِل کر ہار مونیم بجا کر نہایت پُرسوزآواز میں واصف علی واصف ( 1929-1993) کا کلام سنا یا ۔چہک چھلک جب جوش میں آتی تو اپنی ہم رقص سہیلی مس بہک ڈھلک کے گلے لگ جاتی اور رقص بھی کرنے لگتی۔ جنسی جنون کر بڑھانے والے ایسے مناظر کو دیکھ کر سب عیاش نو دولتیے اِن رذیل طوائفوں پر کرنسی نوٹوں کی بارش کر دیتے ۔ مسحور کن موسیقی اور سریلے بولوں کے آ ہنگ سے محفل جب رنگ پر آئی تو سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر ایک گونہ بے خودی اور سر مستی کے عالم میں دھمال ڈال ر ہے تھے ۔ چہک چھلک اور مس بہک ڈھلک کے ساتھ یارا سازندہ اور اس کے ساتھی مہندر اور بلوندر ڈھولک ،الغوزہ اور بین بجاتے تو سما ںبندھ جاتا۔اس روزساز کی لے اور رقص کے اثر سے وہاں موجود سب تماشائیوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی :
میں نعرۂ مستانہ ،میں شوخیٔ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں ؟پی کر بھی کہاں جانا
میں سوزِ مَحبت ہوں ،میں ایک قیامت ہوں
میں اَشکِ ندامت ہوں ،میں گوہر ِ یک دانہ
میں طائر ِ لاہوتی ،میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو اِس حال میں پہچانا
میں شمع ِ فروزاں ہوں ،میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں ،میں منزلِ پروانہ
کس یاد کا صحراہوں ؟کس چشم کا دریا ہوں ؟
خود طُور کا جلوہ ہوں ،ہے شکل قلبہانہ
میں حسنِ مجسم ہوں ،میں گیسوئے برہم ہوں
میں پھول ہوں ،شبنم ہوں،میں جلوۂ جانانہ
میں واصفِ ؔ بسمل ہوں ،میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دِل ہوں ،میں شہر میں وِیرانہ
معرفت و تصوف کے موضوع پر اہم کتاب ’’ نور حیات ‘‘ کے مصنف حاجی حافظ محمد حیات کے واصف علی واصف کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ۔ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے واصف علی واصف نے حاٖ فظ حاجی محمد حیات کے جذبہ ٔ انسانیت نوازی کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ حاجی حافظ محمد حیات نے بتایا کہ اپنی زندگی میں واصف علی واصفؔ کئی بار جھنگ آ ئے اور انھوںنے جھنگ میں مدفون اقلیم معرفت کی جن نہایت باوقار اور پر اسرار ہستیوں کے مر قد پر حاضر ی دی ان میں پنج پِیر،زندہ پیر ،حافظ برخوردار ،شاہ جیونہ ،سلطان باہو ،لوہلے شاہ ،دُڑکی شاہ ،میاں موچڑا ،لال مرید اور پیر عبدالرحمٰن شامل ہیں ۔قصبے مکڑوال سے کچھ دُو رٹلاں والا دربار کے نواح میں ایک کچی آبادی کا مکین جھارااکثر ایک ایسی حسینہ کو لے کر سیر گاہوں میںگھومتانظر آتا تھا جو نیم عریاںلباس پہنے ہوتی تھی۔خادم ظرو ف ساز نے بتایا کہ اس لڑکی کانام مس بہک ڈھلکہے اور جھارا رشتے میں اس لڑکی کا بہنوئی ہے ۔اس چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزدحسینہ کی جسارت سارقانہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ اس بے فیضی کٹنی نے مبشر نامی ایک
ضعیف معلم کی بہو بننے کا ڈرامہ کر کے اس سے ضلع فیض آباد کی جامعہ ایودھیا کی سندی تحقیق کے لیے سال (2015-2017)میں’’موجودہ اُردو اور دکنی زبان کے افعال کا مطالعہ ‘‘کے موضوع پر اپنا ایم۔فل اردو کا چار سو صفحات پر مشتمل پورا مقالہ لکھوا لیا ساتھ ہی اس سے زندگی بھر کی کمائی بھی اینٹھ لی ۔ضعیف معلم مبشر کے گھر کا صفایا کرنے کے بعد اس بروٹس قماش محسن کش چڑیل نے اپنے کیے گئے عہد و پیمان سے صاف انکار کر دیااور نئے پنچھی پھانسنے کے لیے نیاجال لگادیا۔ڈگری ملنے کے بعد اس عیار جعل ساز ڈائن کو کر ناٹک کی ایک جامعہ نے اس کی جہالت کا انعام شعبہ ٔ تدریس میںملازمت کی صورت میں دے دیا۔ یہاں بھی وہ ایک بہت بڑے صنعت کار کی بہو بننے کا ناٹک رچا کر اسے لُوٹ رہی ہے ۔اب تک یہ چڑیل کئی کارخانے ،محلات ،جاگیریں اور باغات ہڑپ کر چکی ہے ۔ محل کی منڈیر پر بیٹھ کر اس کر گس نے اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور بلند ہوا میں لمبی اڑانیں بھرنے لگی اور بے بس و لاچارزندہ انسانوں کو نوچنے اور بھنبھوڑنے میں منہمک ہو گئی ۔اپنی زندگی کی بتیس بہاریں دیکھنے کے بعد یہ زہریلی ناگن اپنے افعی بہنوئی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی پھرتی تھی ۔ اس کی ڈھٹائی اور بے شرمی کا یہ حال تھاکہ وہ یہ بات بر ملا کہتی کہ اس کی چھوٹی بہن تو جھارا کی بیوی اور جھارا کے چار بچوں کی ماں ہے مگر وہ صرف جھارا کی محبوبہ ہے اور جب تک وہ زندہ ہے اس پیمان وفا کو اپنی زندگی کے لیل و نہار کی تنہائیوں کا واحد آسرا سمجھ کر اسے ہر حال میں استوار ر کھے گی ۔
حیران کن بات یہ تھی کی قحبہ خانے کی نائکہ قفسونے اپنے قحبہ خانے میں رقص و سرود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی طوائفوں کی ڈھلتی عمر کو پیشِ نظررکھتے ہوئے مناسب دام ملنے پر ان کی شادی کر دی اور خرچی کی آمدنی سے اپنی تجوری بھر لی ۔اسی طرح مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی بڑی بہنوں اور چھوٹی بہنوں کی شادی بھی ہو گئی مگر یہ دونوں ابھی تک شادی کے بندھن میں نہ بندھ سکیں ۔مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی کئی بار منگنی ہوئی مگر جوں ہی شادی کی تاریخ قریب آتی قفسو سب عہد و پیمان توڑ دیتی اور اس کے بعد کسی نئے شکار کی تلاش شروع ہو جاتی ۔شادی بیاہ کی تقریبات میں چہک چھلک اورمس بہک ڈھلک کی جوڑی بہت مقبول ہوئی اور انھیں ہر محفل موسیقی میں دعوت ملتی تھی ۔
بے غیرتی ،بے شرمی ،بے حیائی اور بے ضمیری سے لتھڑی ہوئی عفونت زدہ کریہہ چادر اوڑھے جب مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک جنسی بھوک مٹانے کے طلب گار عقل کے اندھے مگرگانٹھ کے پورے گاہکوں کی تلاش میں اپنے آبائی قحبہ خانے سے باہر نکلتیں تو دو طرفہ ندامت اورسب پڑوسیوں کی ملامت ان کی ہم رکاب ہوتی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان رذیل طوائفوں کا حسن و جمال اور صحت تیزی سے گھٹ رہی تھی مگر اثاثے حیران کن انداز میں بڑھ ر ہے تھے ۔ ہر مر حلۂ زیست پرمکر کی ظالمانہ چال چلتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا ان رذیل طوائفوں کا وتیرہ بن گیا تھا۔وہ اس حقیقت سے بے خبر تھیں کہ اپنے جسم و جاں کو گروی رکھ کر اپنی توہین، تضحیک ،تذلیل اور بے توقیری کو گوارا کرکے حاصل کی جانے والی مسرت و کامیابی سے بہتر ہے کہ انسان اُس ناکامی کو بہ صد شوق گوار کر لے جس میں عزت نفس اور انا پر کوئی حر ف نہ آئے ۔ جعلی خلوص و مروّت ،وفا و ایثار اور عجزو انکسار کا لبادہ اوڑھ کر یہ عیار طوائفیں اس صفائی سے اپنے عشاق کی آ نکھوں میں دُھول جھونکتیں کہ کئی فریب خوردہ نوجوان اپنا گھر پھونک کر تماشا دیکھنے پر تیار ہوجاتے ۔ جھانسی کے انتہائی متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کرشن کو مس بہک ڈھلک نے شادی کاجھانسہ دیااور اُس سے سب زروما ل ہتھیا لیا ۔ ان رذیل طوائفوںکے دام الفت میں پھنس کر نو جوان کرشن سب کچھ لٹو ابیٹھا اورغربت و افلاس کی دلدل میں دھنس گیا۔آغازِ سفر ہی سے ان عیار طوائفوں نے کرشن کے اعصاب پر عشوہ و غمزہ وادا کے پہرے بٹھا دئیے تھے۔ اپنی متاع ِدیدہ و دِل اور بیش بہا آبائی میراث گنوانے کے بعد جب کرشن سہانے خوابوں کے پر ہول جزیرے سے نکلااور کچھ سنبھلا تو اُس نے دیکھا کہ پُر حبس اور بھیانک تاریک راتوں میں متاعِ دیدہ و دِل لُٹ چکی تھی۔ہجر کے سُونے صحرا میں سرابوں کے عذابوں سے جان بچاکر نکلا تو ہوس پرستوں کی مصنوعی چاہت کے دریا خشک ہو چکے تھے۔ اس نے اپنی داستان غم سے اپنے دوست موہن کو آ گاہ کیا ۔ موہن نے اسے دلاسا دیتے ہوئے سمجھایا :
’’ کرشن!یہ آزمائش کی گھڑی ہے تم حوصلے اور اعتماد سے کام لو اور دِ ل بُرانہ کرو۔اس دنیا میں مکر و فریب اور دغا و دُزدی کی راہ پر چلنے والے عادی دروغ اور پیشہ ور ٹھگ بڑے بڑے سگھڑ سیانے لوگوں کو جُل دے کر زرو مال بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ان رہزنوں کے ہاتھوں لُٹنے کے بعد تم نے ایک عرصے سے لب اظہار پر تالے لگا رکھے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے ۔یہ بھی ایک فریب ہے جو تم اپنی ذات کے ساتھ مسلسل کر ر ہے ہو ۔اجلاف و ارذال کے پروردہ ٹھگوں کے جورو ستم برداشت کرنا اور مزاحمت نہ کرنامنافقت کی دلیل ہے ۔‘‘
کرشن کو مکمل انہدام کے قریب پہنچانے کے بعد مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کے کبر و نخوت میں بہت اضافہ ہو گیا۔ وہ اکثر یہ بات کہتی تھیں کہ اس شہر میں کرشن جیسے ہزاروں جنسی جنون میں مبتلا نوجوان ان کی نگاہوں کے تیر کھا کر گردش ِ حالات کی زد میں ہیں ۔اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں وہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولتی تھیں ۔ان طوائفوں کا کہنا تھا:
’’ قلی قطب شاہ اور قلی فقیر کے ساتھ ہمارے اب بھی گہرے خاندانی مراسم ہیں۔یہ دونوں کئی بار ہماری دعوت پر ہمارے گھر مکڑوال آ ئے اور ہمارے ہاں قیام کیا ۔دکن کے بارے میں ہمیں سب کچھ معلوم ہے اور ایک مقامی جامعہ کے لیے مس بہک ڈھلک کے ایم فل ۔اردو کے سندی تحقیقی مقالے بہ عنوان ’’ اردو و دکنی افعال کا تقابلی جائزہ ‘‘ ( 2015-2017) کی سب معلومات ہمیں قلی قطب شاہ اور قلی فقیر نے خود سال 2017میں فراہم کی تھیں۔‘‘
قفسو کے قحبہ خانے کی سب رونقیں چہک چھلک اور مس بہک ڈھلککے دم سے تھیں ۔دِن کی روشنی میںتو یہ دونوں طوائفیں مختلف نجی اداروں میں ملازمت کرتی تھیںمگر رات کی تاریکی میں یہ قحبہ خانوں اور چنڈوخانوں میں رقص و سرود کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ اِن دونوں طوائفوں کی خرچی کی کمائی سے بڑے شہروں میں اِن کے وسیع عشرت کدے تعمیر ہو رہے تھے اورہر طرف رنگ و روشنی کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ اڑتیس سالہ چہک چھلک اور بتیس سالہ مس بہک ڈھلککی جوانی ڈھل رہی تھی مگر شادی کا نام سنتے ہی اس کی بھویں تن جاتیں اور چہرے کا رنگ بدل جاتا۔رقص و موسیقی کے سارے انداز مس بہک ڈھلک نے اپنی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز طوائف سہیلی چہک چھلک ہی سے سیکھے تھے ۔ اپنی عمر کی اس حد تک پہنچتے پہنچتے مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی دو سو کے قریب پسند کی منگنیاں ہوئیں مگرہر بار یہ منگنیاں پر اسرار انداز میں ٹو ٹ جاتیں ۔ان منگنیوں کے ٹوٹنے کے پس پردہ کیا مسائل تھے کوئی بھی ان کی تہہ تک نہ پہنچ سکا۔ واقفِ حال لوگ حیران تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان دو رقاصاؤں اور سریلے بول الاپنے والی حسیناؤں کے لیے ہم پلہ مناسب رشتے کیوں نہیں آ رہے ۔انجمن اصلاح معاشرہ کے سر گرم کارکن بھی ان طوائفوں کو شہرسے نکالنے کے لیے بے چین تھے مگر ان کی کوششیں ثمر بار نہ ہو سکیں ۔ حسن و رومان کے خلجان میں مبتلا سنتری نے بھی نہایت رازداری سے مس بہک ڈھلککے ساتھ پیمان وفا باندھ رکھاتھا۔اپنی خود نوشت ’ سنتری کی جنتری ‘میں اس نے لکھاہے :
’’ مس بہک ڈھلک نے جب ہوش سنبھالا توگوجرانولہ سے تعلق رکھنے والی امرتا پریتم( 1919-2005 )کی زندگی کو اپنے لیے مثالی قرار دیا۔ ساحر لدھیانوی ( عبدالحئی: 1921-1980)کو امرتا پریتم ٹوٹ کرچاہتی تھی مگر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ سال 1935ء میں امرتا پریتم کی شادی لاہور میں مقیم انار کلی بازار کے ایک ہوزری مالک کے بیٹے پریتم سنگھ سے ہو گئی ۔ان کے دو بچے ( ایک بیٹا اور
ایک بیٹی ) پیدا ہوئے ۔مقدر نے امرتا پریتم کے ساتھ عجب کھیل کھیلا کہ اس کا شوہر پریتم سنگھ بھی ساحر لدھیانوی کا مداح نکلا اسی بنا پر سال 1960ء میں یہ شادی علاحدگی پر منتج ہوئی۔ساحر لدھیانوی کے ساتھ غیر متعلق سی محبت امرتاپریتم کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی ۔اسی اثنا میں جب ساحر لدھیانوی کی زندگی میں گلوکارہ سدھا ملھوترا کی آمد کی اُڑتی سی ایک غلط خبر پھیلی تو امرتاپریتم نے بھی آٹھ جنوری 1964ء کو ادیب اورمصورامروز ( اندرجیت ) کو مرکز نگاہ بنا لیا اور اس کی معتبر رفاقت میں چالیس سال تک پناہ لیے رکھی وہ بغیر آنسوؤں کے گریہ و زاری اور آہ و فغاں کرتی مگر اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا ۔ساحر لدھیانوی کی یاد میں وہ صبر و ضبط کا دامن تھام کر ہجوم ِغم میں دِل کو سنبھالنے کی مقدوربھر کوشش کرتی تھی ۔ سدھا ملھوترا نے گریدھار موٹوانی سے شادی کر لی مگر ساحر لدھیانوی نے اپنی تنہائیوں سے سمجھوتہ کر لیااور کبھی شادی کا نام بھی نہ لیا۔ ساحر لدھیانوی کی زندگی کا سفرتو اُفتاں و خیزاں کٹ گیا مگر تنہائیوں کی اس اذیت ناک اور کٹھن مسافت کے بعداس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔پھر وہ کڑا وقت آ پہنچا جب امروز کی موجودگی میں اکتیس اکتوبر 2005ء کو پریم بھگتی کے قلزم میں غرق اَمرتاپریتم کی آ نکھیں مُند گئیں اور وہ ردائے خاک اوڑھ کر سو گئی ۔ ابن ا لوقتی کو عیاری اور منافقت سے رو بہ عمل لانے والے،انسانیت اور مقصدِ حیات کو خبط کرنے والے وفا کے ہر ریاکارنقیب کو متوجہ کرتے ہوئے امرتا پریتم نے سچ کہا تھا:
میں نے خاموشی کے پیڑ سے یہ حرف نہیں توڑے
یہ تو جو پیڑ سے جھڑتے تھے میں وہی چُنتی رہی
نہیں ،آپ سے یا کسی اور سے میںکچھ نہیں کہتی
یہ تو جو خون میں بولے میں وہی لفظ سُنتی رہی
ایک طویل برقی لکیر تھی جو سینے سے گزری تھی
یہ کچھ وہی برق پارے ہیں میں اُنگلیوں پر گنتی ر ہی
چاند نے چرخے پر بیٹھ کر بادلوں کی روئی کاتی
یہ کچھ وہی دھاگے ہیں میں کھڈی پر بُنتی رہی
میں نے خاموشی کے پیڑ سے یہ حرف نہیں توڑے
مس بہک ڈھلک نے سنتری کو بتایا کہ وہ جھارا کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ سنتری تو اپنے دِل پر جبر کر کے امروز بننے پر بھی تیار تھا مگر شادی کا نام سنتے ہی مس بہک ڈھلککے جسم و جاں میں آگ لگ جاتی اور وہ ماہی ٔ بے آب کے مانند تڑپنے لگتی ۔ اس کی شادی شدہ چھوٹی بہن اچھی طرح جانتی تھی کہ نوجوان اور امیر جھارا بے شک اس کاشوہر ہے مگر وہ صرف اور صرف مس بہک ڈھلک کا عاشق ہے۔مس بہک ڈھلک بر ملا یہ بات کہتی کہ ساحر لدھیانوی کی طرح وہ بھی تنہا زندگی گزار لے گی مگر جھاراکے علاوہ کسی سے پیار نہیںکر سکتی ۔ سال 2010ء میں بے حس اور بے درد لوگوں نے ممبئی کے نواح میں’ جوہو ‘کے شہر خموشاں کی توسیع کرتے وقت ساحر لدھیانوی کی قبر کا نشاں تک مٹا دیا تومس بہک ڈھلک نے کہا کہ وہ تو زندہ رہے گی جھارا کے بچے اس کا نام زندہ رکھیں گے ۔سب لوگ محو حیرت تھے کہ شادی سے گریز ایک ایسا معمہ ہے جو نہ تو سمجھنے کا ہے اور نہ ہی سمجھانے کا۔مس بہک ڈھلک کی چاہت میں اُس کے سیکڑوں عشاق کی زندگی دیوانے کا خواب بن کر ر ہ گئی ۔
سنتری کی جنتری میںایک جگہ یہ بھی لکھاہے کہ مس بہک ڈھلککے قحبہ خانے ،چنڈو خانے اور عشرت کدے میں ہر شب رقص و موسیقی کی محافل کا انعقاد ہوتا۔سال 2019 ء کے آغا زمیںخانیوال کی ایک محفل موسیقی میں نیم عریاں لباس پہنے مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک نے جنسی جنون سے مغلوب ہو کر شرم و حیا ،صبر و ضبط ،حوصلے اور بصارت کو روندتے ہوئے دھمال کا آغاز کیا۔ایک طویل عرصے کے بعد خوددار کرشن بھی اس محفل میں شامل ہوا اوراپنے مستقبل کے بارے میں گہری سوچوں میں گم ایام گزشتہ کی کتاب کے منتشر اوراق پلٹ رہاتھا۔ کرشن مایوسی کے عالم میں خود سر مس بہک ڈھلک کے رستے میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ مس بہک ڈھلک کا یہ الم نصیب جگر فگار عاشق سب کچھ دیکھ رہا تھامگر خاموش تھا۔ مس بہک ڈھلک وہاں سے گزری جب اس نے اُچٹتی سی نگاہ خستہ حال کرشن پر ڈالی جو ملتجیانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کرشن کی درماندگی ،شکستگی اور خستگی کو دیکھ کر مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک دونوں ٹھٹھک سی گئیں مگر دوسرے ہی لمحے چہک چھلک کے اشارے پر مس بہک ڈھلک نے کرشن کو زور سے اپنے پاؤں کی ٹھوکر ماری۔اس کے ساتھ ہی دونوں طوائفیں قہقہے لگاتی اور تھوکتی ہوئی آگے بڑھ کر سٹیج کی جانب چلی گئیں ۔ مس بہک ڈھلک کی ٹھوکر کھا کر تباہ حال کرشن ایسے تڑپا جیسے اُسے برقی جھٹکا لگا ہو۔مس بہک ڈھلک کی سفاکی دیکھ کرکرشن نے ماضی کی یادوں کی مشعل گُل کر دی اوراُس کی آ نکھوں میں خون اُتر آیا ۔ تھوڑ ی دیرکے بعداُس نے ایک ہاتھ اپنے دِل پر رکھا اور دوسر ا ہاتھ اپنی قمیص کی جیب میں ڈال کر کچھ ٹٹولنے لگا ۔چند لمحوں کے بعدوہاں موجود عیاش سرمایہ داروں،جواریوں ، مے خواروں اور جنسی جنونیوں کی پُر زور فرمائش پر اِس فلمی گیت سے رقص کا آغاز ہوا۔ مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک نے اپنی زلفوں کے جال میں پھنسنے والے ایک نوگرفتار ہم رقص نوجوان لڑکے کو اپنے ساتھ مِلا کر گیت کا پہلا مصرع پڑھا:
اَج نچ لے، نچ لے میرے یار اَب تو سجاہے بازار
مُجھ کو نچا کے نچ لے جھنک جھنک جھنکار
رقاصاؤں کی پائل کی جھنکار اور گیت کی لے سے پوری محفل جھوم اُٹھی ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک نے شرم و حیا کو غرقاب کر دیاہے ۔ان طوائفوں کا نیم عریاں رقص دیکھ کر محفل موسیقی میں شامل گھٹیا عیاش نو دولتیوں کے قلب ،روح اور جسم کے تار متحرک ہو گئے ۔ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ زندگی کے نشیب و فراز پرنظر رکھنے والے اس وقت پائل کی جھنکار میںاس طرح کھو گئے ہیں کہ انھیں کچھ سُجھائی نہیں دے رہا۔ رقاصاؤں پر بے دریغ کرنسی نوٹ نچھاور کیے جارہے تھے، فرش زمین پرہر طرف کرنسی نوٹ بکھر گئے ۔ اسی اثنا میں نشے میں دھت تماشائیوں سے الگ اور خاموش رہنے والا وہی خستہ حال نوجوان اُٹھا جو غبار ِراہ کے مانند رستے میں بیٹھا تھا۔ اُس نے مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک پر اپنے پستول کی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور ساتھ ہی اپنی کنپٹی پر گولی چلا کر اپنی زندگی کی شمع بھی بجھا دی ۔ خود کشی کرنے والے نو جوان کی جیب سے ایک کاغذ نکلاجس پر مرزا اسداللہ خان غالب ؔ کا یہ شعر لکھا تھا:
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو،کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا
محفل موسیقی میں فائرنگ اور ہلاکتوں کی خبر سنتے ہی پولیس فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔پولیس نے خود کشی کرنے والے نوجوان اور مس بہک ڈھلک اور چہک چھلک کی لاشوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ شہر کے بڑے ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد تینوں لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں ۔دوسرے دن مقامی اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی :
’’ محفل موسیقی میں ایک نو جوان کی فائرنگ سے دو خواجہ سرا ہلاک ہو گئے بعد میںنوجوان نے خود کشی کر لی ۔ ‘‘
سنتری کی جنتری کا آخری صفحہ فطرت کی سخت تعزیروں کے احوال کو سامنے لاتاہے ۔ اپنی خود نوشت کے اس آخری صفحہ پر اُس نے لکھاہے :
’’ جنوری کا مہینا تھامیں نے چاندنی چوک پردیکھاکہ چیتھڑوں میں ملبوس ایک ضعیف اور اندھی بھکارن ہاتھ میںکشکول تھامے بھیک مانگ رہی تھی۔اُس بڑھیا کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ لاٹھی ٹیک کر اُس کے سہارے کھڑی تھی ۔ ضعفِ پیری اور رعشہ کی وجہ سے وہ ضعیفہ تھر تھر کانپ رہی تھی ۔ چوک پر لوگوں کی بھیڑ تھی اورہر کوئی اپنی فضا میں مست گھومتا پھرتا تھا۔اس شہر ِ ناپرساں میں کوئی بھی راہ گیر اِس اندھی اور لاغر بھکارن کی طرف آ نکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتاتھا۔‘‘ اسی اثنامیں اندھی بھکارن نے روتے ہوئے کہا:
’’ میں دو دِن کی بُھوکی اور پیاسی ہوں ۔اس دنیا میں اب میرا نہ تو کوئی نام لیوا ہے اورنہ ہی پانی پلانے والا۔مجھ غریب ،محتاج اور اندھی بھکارن پر ترس کھاؤ اور مجھے کھانا کھلا دو۔جو بھی مجھ دُکھیاکوایک وقت کا
کھاناکھلائے گامیں اس کے لیے دعا کروں گی ۔‘‘
میں اس فاقہ کش اندھی بھکارن کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں ابھی شش و پنج میں مبتلا تھاکہ ایک بوڑھے شخص نے مجھے رازدارانہ لہجے میں کہا:
’’ یہ بڑھیا تو آفت کی پُڑیاہے اس کے مکر کی چالوں سے فریب نہ کھانااپنی جان عزیز ہے تو اِس اندھی بھکارن سے چار گز کے فاصلے پر کھڑے ہونا۔یہ اس شہر کے قحبہ خانوں کی بے رحم نائکہ قفسو ہے جس نے اس شہر کے سیکڑوں نوجوانوںکی زندگی کی سہانی رُتوں کو بے ثمر کر دیا۔ ایڈز کے بعد اس رذیل نائکہ کو اب کورونا وائرس نے دبوچ رکھاہے۔ اسے نوجوان طوائفوں نے اکتیس مارچ 2020ء کی شام کو اپنے قحبہ خانے سے د ھکے دے کرنکال باہر کیاہے ۔سادیت پسندی کی عادی یہ احمق بڑھیا کل شام قرنطینہ کے معا لجین کو جُل دے کر وہاں سے چوروں کی طرح نکل آ ئی ۔کل تک تخت و تاج کادماغ رکھنے والی یہ رذیل طوائف اب زمین کا بوجھ بن چکی ہے۔ کورونا وائرس کے ماہر معالج کہتے ہیں کہ اس اندھی بھکارن کا جانا ٹھہر گیاہے اب یہ صبح گئی کہ شام گئی۔ فطرت کی تعزیروں اور حالات کی زد میں آنے کے بعد یہ نائکہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے ۔‘‘
اپنی خود نوشت کے آخری صفحہ کی اختتامی سطور میں مخطوطہ ’’ سنتری کی جنتری ‘‘کے وارث نے لکھا ہے :
’’ یہ سنتے ہی میں لرز اُٹھا اور وہاں سے بہت دُور نکل آیا۔میں اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچنے لگا کہ یقیناً انسان خسارے میں ہے ۔ ‘‘