میکسیکو 1810 میں آزاد ہوا تھا۔ یہاں نئے پاور سٹرکچر بنے تھے جبکہ عثمانی سلطنت میں صدیوں پرانے سٹرکچر مضبوط تھے۔ میکسیکو میں صنعتکار بزنس مین کا ریاست پر بہت اثر تھا۔ میکسیکو میں دھاگے اور کپڑے کے ٹائیکون ایسٹیبان اینٹونانو کا حکومتی پالیسوں پر بھی بہت اثر تھا۔ ان کے کاروباری مفادات ریاستی پالیسی پر حاوی تھے۔ 1870 میں میکسیکو کی پیداوار کا 60 فیصد مقامی صنعت (مشینی یا غیرمشینی) کو جاتا تھا جبکہ عثمانی سلطنت میں یہ 11 سے 38 فیصد کے درمیان تھا۔ (ہندوستان میں 35 سے 42 فیصد تھا)۔
صنعتی کیپٹلزم کا انحصار ریاست کی صلاحیت پر تھا کہ وہ کس طرح ایسے فریم ورک بنا سکتی ہے جس میں کاروباری initiative لئے جا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے کالونیل دور میں کالونیل پاورز نے اپنے قبضے سے فائدہ اٹھایا۔ برٹش کے علاوہ فرانسیسی، ڈچ اور ہسپانوی صنعت کو افریقہ، ایشیا اور امریکاز میں سپلائی اور منڈیوں پر رسائی میسر تھی۔ مثال کے طور پر نیدرلینڈز نے جاوا (انڈونیشیا) پر 1816 میں دوبارہ قبضہ کیا تھا۔ 1824 کو نیدرلینڈز کے بادشاہ کنگ ولیمز نے ایک فرمان کے تحت برٹش تاجروں کو نیدرلینڈز کے علاقوں سے بین کر دیا تھا اور 1829 تک جاوا کی درآمد ہونے والی مصنوعات میں 68 فیصد نیدرلینڈز سے آتی تھیں۔ کنگ ولیم کے فرمان پر ایک کمپنی بنائی گئی تھی جس کا کام جاوا اور نیدرلینڈز کے درمیان کاروبار کرنا تھا اور اس کمپنی میں بادشاہ ایک بڑے حصہ دار تھے۔ جب بلجیم 1815 میں کانگریس آف ویانا کے نتیجے میں نیدرلینڈ کی سلطنت میں ضم ہو گیا تو اس سے بلجیم کے بزنس کا فوری فائدہ ہوا۔ اور یہ منڈی اس کے لئے اتنی جلد اہم ہو گئی کہ جب 1830 میں بلجیم نے آزادی حاصل کی تو ڈچ منڈیوں کے کھو جانے سے یہاں پر شدید معاشی بحران آ گیا۔ کئی بلجین اپنا کاروبار لپیٹ کر ہالینڈ چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر یورپی ملک کالونیل پاور نہیں تھا۔ غیرکالونیل ممالک میں بھی صنعت پھیلتی رہی۔ سوئٹزرلینڈ کے لئے اسلامی دنیا کی مارکیٹ بہت اہم رہی۔ سوئس صنعت سے بنا ہوا باتک جو جنوبی ایشیائی مارکیٹ میں جاتا تھا۔ اور چیک والا کپڑا جو عرب سر پر باندنے والے کوفیہ کے لئے استعمال کرتے تھے، ایک بڑی سوئس مارکیٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکہ دنیا میں ہونے والی اس ٹرانسفورمیشن سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ مہارت، منڈیاں، سرمایہ اور ٹیکنالوجی دنیا کے بہت سے حصوں میں موجود تھی۔ لیکن جو ممالک ابتدا میں صنعتی لیڈر بنے، ان میں منڈیوں تک رسائی کی طاقت، مقامی صنعتکاری کی حوصلہ افزائی، سرحدوں کی حفاظت، مضبوط ریاست جو قانون کی حکمرانی اور معاہدوں پر عمل درآمد کروا سکے۔ ملکیتی حقوق اجرت پر لوگوں کی دستیابی، پراپرٹی کے قوانین، ورکنگ انتظامیہ اور بیوروکریسی اور انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ کی ضرورت بھی تھی۔
اور یہ وجہ ہے کہ ان سب میں سے انقلابی ایجاد، صنعتی کیپٹلزم، دنیا میں ہر جگہ یکساں طریقے سے نہیں پھیلا۔
ساتھ تصویر میں مشرقِ وسطیٰ میں سر پر پہننے والا کاٹن کا روایتی لباس ہے۔ یہ کوفیہ یا مشدة یا حطة یا شماغ یا چفیہ کہلاتا ہے۔ اس کو بنانے کی مارکیٹ اس وقت چین کے پاس ہے۔ کسی وقت میں یہ سویٹزرلینڈ کے لئے بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...