برازیل میں کپڑا بنانے کی طویل تاریخ بھی تھی اور اچھی کپاس بھی بڑی تعداد میں اگتی تھی۔ پرتگال کے 1785 میں جاری کردہ شاہی فرمان کے تحت یہاں کاٹن کے کارخانے لگانا منع کر دئے گئے لیکن جب پرتگالی شاہی فیملی نے یہاں گھر بنایا آئی تو 1808 میں یہ فرمان واپس لے لیا گیا۔ کئی کاٹن مل لگیں لیکن ماہر لیبر نہ ہونے کے سبب برٹش ٹیکسٹائل سے مقابلہ نہ کر سکیں۔ 1865 میں پورے برازیل میں کاٹن کے صرف نو کارخانے تھے۔ برازیل میں صنعتکاری انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی۔ برازیل میں صنعت ڈویلپ نہ ہونے کی بڑی وجہ یہاں کی سیاست تھی جن میں بڑے جاگیردار تھے بااثر تھے، جو غلاموں سے مشقت کروا کر گنا اور کپاس پیدا کرتے تھے۔ ان طاقتور اور بااثر لوگوں کے خیال میں برازیل ایک زرعی ملک تھا۔
برازیل میں باہیا کی ریاست کوئلہ، سرمایہ، ٹرانسپورٹ کا انفراسٹرکچر اور خام کپاس ۔۔۔ سب کچھ تھا جو صنعت لگانے کے لئے درکار تھا۔ لیکن حکومتی سپورٹ نہیں تھی۔ باہیا کی اشرافیہ کی دلچسپی چینی اور کافی کو عالمی منڈی میں بیچنے کی تھی۔ اور باہیا کمرشل ایسوسی ایشن نے ایسی کسی بھی حکومتی پالیسی کی مخالفت کی جو مقامی صنعت بنا سکے۔
برازیل میں صنعتکار کو ایک اور مسئلہ قرضے کی دستیابی اور مالیاتی نظام کا تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ اجرت پر مزدور میسر نہیں تھے جو فیکٹری میں کام کر سکیں۔
جن ممالک میں غلاموں کی بہتات تھی، ان سب میں صنعتکاری دیر سے ہوئی۔ مثلاً، انیسویں صدی کے آغاز پر کیوبا میں ایک بھی فیکٹری نہیں تھی۔
صنعتکاری سے قبل انڈیا کپاس کی پری ماڈرن پاور تھی۔ لیکن نہ صرف یہ مشینی صنعتکاری کے دور میں داخل نہیں ہو سکا بلکہ اس کی قدیم صنعت ختم ہو کر رہ گئی۔ برطانیہ سے آنے والے سستا دھاگے اور کپڑے نے مقامی صنعت تباہ کر دی۔ اس کے حکمرانوں کو (جو خود برطانوی تھے) اس یلغار کا مقابلہ کرنے کی کسی حکمتِ عملی میں دلچسپی نہیں تھی۔ ستم ظریفی یہ کہ ہندوستان نہ صرف عالمی صنعت میں اپنا مرکزی مقام کھو بیٹھا بلکہ برٹش کے لئے سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا۔
انڈیا میں فرنچ نے ایک کاٹن مل پانڈی چری میں 1830 میں لگائی تھی لیکن اس کے بعد طویل عرصے تک کوئی اور کارخانہ نہیں لگا۔ پہلی بار باقاعدہ کارخانہ لگانے والے پارسی تارج کاوس جی نانا بھائی داوڑ تھے جنہوں نے ممبئی میں پہلی جدید کاٹن مل لگائی۔ ہندوستان میں باقاعدہ صنعتکاری کا آغاز 1870 کی دہائی کے بعد ہوا۔
انیسویں صدی میں کے پہلے نصف میں بہت سے ایسے خطے تھے جہاں کاٹن کا مضبوط سیکٹر مشینی انقلاب میں نہ بدل سکا۔ ہر جگہ پر مختلف عوامل رہے جن کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں میں بیوروکریٹ اور سرمایہ کار مل کر صنعت سے دولت کمانے کے لئے اکٹھے نہیں ہو سکے۔
کمزور ریاستیں، بغاوتیں اور شورش زدہ علاقے، صنعتکاری نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ رہے۔ صنعت کی کامیابی طاقتور ریاست سے مشروط تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ صنعتی کیپٹلزم کا صرف ایک راستہ نہیں تھا۔ غلامی کا نظام یا کالونیل طاقت ہونا اس کے لئے لازم نہیں تھے۔ نظام خود میں تبدیلیاں لاتے رہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد مختلف ریاستوں میں اسے اپنایا گیا۔ نئے ادارے اور سٹرکچر بنے۔ سرمایہ اکٹھا کرنے، سرمائے سے پیداوار، لیبر کا استعمال، منڈیاں بنانے اور وسائل کے استعمال کے لئے طریقے آتے رہے۔ ایک وقت کے سبق اور صلاحیتیں اگلے وقت کی بنیاد بنتی رہیں۔ یہ مسلسل تبدیل ہوتا رہا ہے۔
جنگی کیپٹلزم کے دور کو ختم ہوتے ہوتے ایک صدی لگ گئی۔ ہیٹی کی بغاوت سے امریکہ میں غلامی کے زوال تک وقت لگا۔ رفتہ رفتہ جنگی کیپٹلزم کے دو بڑے ستون، غلامی اور کالونیل ازم، ختم ہو گئے۔
ان کی جگہ افرادی قوت کے تنظیم کے نئے طریقوں نے لی۔ اگرچہ ایسا نہیں کہ اجرت اور تنخواہ کی لیبر کا نظام غیرقانونی جبر سے خالی تھا لیکن یہ لیبر موبلائزیشن کا ایک بالکل مختلف طریقہ تھا۔ اس کے لئے ایک مختلف قانونی، سماجی اور اداراتی بنیادی کی ضرورت تھی۔ اور صنعتی کیپٹلزم میں سب سے بڑی جدتوں میں سے تھی۔
ساتھ لگی تصویر کاوس جی نانابھائی داوڑ کی ہے۔ برِصغیر میں پہلی کاٹن انہوں نے لگائی یہ بومبے سپننگ مل تھی۔