نہیں ہارون جہانزیب نہیں تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے اور ثناء اور مہرماہ تم۔۔
تم دونوں کو تو میں ایسی مات دوں گی کہ تم کبھی جان بھی نہیں پاو گی کہ اخر میں نے کونسی چال چلی۔۔
تم مجھے جھٹکا دینے آئی تھی نا مجھے منہ کے بل گرانا چاپتی تھی نا اب دیکھو میں کیا کرتی ہوں۔۔
اور پھر اگلے ہی دن وہ انکے گھر پہنچ گئی تھی۔۔
اسلام و علیکم پھوپھو۔۔
وعلیکم اسلام بیٹا کیسی ہو؟
ایک دم پرفیکٹ یہ بتائیں کہ ہارون کہاں ہے؟
وہ تو آفس میں ہے۔۔
ہمم اور آپ حویلی کب جا رہے ہیں ایگیمجننٹ کے لئے؟
ہاں بیٹا بس سات دن ہی رہ گئے ہیں لیکن ہم تو پہلے ہی جائیں گے نا بس تین دن بعد جمعرات کو چلے جائیں گے اگر تم چاہو تو تم بھی چلو نا ہمارے ساتھ اسی بہانے گاوں کی سیر بھی کر لو گی۔۔
نہیں میں ہارون کے ساتھ آوں گی۔۔وہ معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔
اور اسکی اس مسکراہٹ کو دیکھ کر عاصمہ ٹھٹکی تھی۔۔
ہارون کے ساتھ کیا مطلب؟
مطلب وہ مجھے آف نہیں ملے گا نا کالج سے کیونکہ سٹوڈنٹس کے ایگزامز سر پر ہیں اور جلد از جلد سلیبس کور کروانا ہے تو میں آف نہیں کر سکتی اسی لئے میں ایک دن پہلے ہارون کے ساتھ ہی آ جاوں گی نا کیونکہ سب گھر والے بھی تو دو دن پہلے ہی جا رہے ہیں نا آپ کے اسرار پر۔۔
ہاں مگر تم سے یہ کس نے کہا کہ ہارون ایک دن پہلے آئے گا؟
اس نے خودی بتایا۔۔
اور تبھی تو ہم دونوں نے پلین کیا یہ۔۔
کیسا پلین؟
اف اوہ یہی کہ ہم دونوں ساتھ ہی آ جائیں گے نا کیوں آپ کو ہارون نے نہیں بتایا؟
نہیں۔۔
چلیں کوئ بات نہیں پھوپھو اب میں نے تو بتا دیا نا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر ٹھیک تین دن بعد وہ سب حویلی پنہچ گئے تھے سوائے ہارون اور وقار احمد کے ان دونوں کو ہی اپنے بزنس کے سلسلے میں وہاں رکنا پڑا تھا تو تہہ یہ پایا تھا کہ وقار احمد جمعہ کی رات کو حویلی پنہچ جائے گا جبکہ ہارون ہفتے کی شام کو وہاں پنہچے گا۔۔
وہاں پنہچتے ہی سب ایگیمجننٹ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے اور پھر پتا ہی نا چلا تھا وقت کیسے گزرا اور ہفتے کا دن آ پنہچا سفیان اور وقار احمد حویلی کی ڈیکوریشن کے کاموں میں مصروف تھے جبکہ تمام عورتیں اپنے کپڑے اور زیورات پہن پہن کر دیکھ رہی تھی۔۔
سب کو تیاریوں میں مصروف دیکھ کر ثناء بھی مہرماہ کو حویلی کے مین ہال میں لے آئ جہاں ساجدہ ، عارفہ ، نائلہ اور عاصمہ رنگ برنگے کپڑوں کا پھیلاوا لئے بیٹھی تھیں انکے ساتھ ہی ثناء کی دونوں ممانیاں بھی بیٹھی تھیں۔۔
میں مہرماہ کو بھی لے آئی ہوں مما اسے بھی تو اسکی ایگیمجننٹ کا ڈریس ٹرائی کرنے کے لئے بولیں نا۔۔
ارے لڑکی پاگل ہو گئی ہے کیا ایسے پہلے ہی پہن کر دکھا دت گی تو روپ نہیں آئے گا بس کل ہی پہنے گی تبھی دیکھ لینا۔۔
یہ کیا بات ہوئ دادو اور اگر وہ اسے فٹ نا آیا تو؟
وہ ٹرائی کر چکی ہے بلکل ٹھیک ٹھاک ہے۔۔
کب ہم نے تو دیکھا نہیں؟
میں نے ہی منع کیا تھا کہ بس واش روم میں جا کر پہنیں اور وہی سے چینج کر کے باہر آ جائے کسی کو دکھائے نا۔۔
یہ کیا بات ہے بئ؟
اچھا یہ بتائیں کہ عالیہ پھپھو کب آ رہی ہیں؟
وہ تو کل ہی آئے گی۔۔
کل کیوں آج کیوں نہیں؟
پردیس سے آنا کوئ آسان کام تو نہیں ہے نا شکر کرو کے کل بھی ٹائم سے پنہچ جائے گی شریک ہو جائے گی خوشی میں۔۔
اور فاطمہ پھپھو اب مہرماہ بولی تھی۔۔
وہ نہیں آ سکیں گے لیکن تمہاری شادی پر ضرور آئیں گے اسکی بات کا نائلہ نے جواب دیا تھا۔۔
اچھا مہرماہ اپنا سوٹ ٹرائ نہیں کر سکتی تو کیا ہوا؟ یہ دوپٹہ تو میں اسے اوڑا سکتی ہوں نا اور یہ کہتے ہوئے ثناء نے آگے بڑھ کر پیور کا ایک کامدار ریڈ دوپٹہ اٹھا کر اسکے سر پر دے دیا تھا۔۔
اوہ کتنی پیاری لگ رہی ہو تم مہرماہ۔۔
نائلہ کو یہ سب دیکھ کر وہ دن یاد آ گیا تھا جب عالیہ نے اسے ایسے دوپٹہ اوڑایا تھا اور اس نے دل ہی دل میں دعا کی تھی اے میرے رب مہرماہ کو کبھی کوئی دکھ نا دینا۔۔
توبہ یہ لڑکی تو خوشی سے پاگل ہی ہو جائے گی۔۔
عارفہ بیگم ثناء کی حرکتیں دیکھتے ہوئے بولی تھیں۔۔
وہ سب اسکی حرکتوں پر مسکرا رہی تھیں جب ہارون علیشا کے ساتھ وہاں نمودار ہوا تھا۔۔
ہارون بھائ آپ بلکل ٹھیک وقت پر ائے ہیں دیکھیں مہرماہ کیسی لگ رہی ہے اس دوپٹے میں؟
ہارون نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی جو اس دوپٹے میں چاند کی طرح دمک رہی تھی اور پھر اپنی نظریں جھکا کر علیشا کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔
بھائ کیا ہوا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے اور یہ علیشا کا ہاتھ کیوں پکڑ رکھا ہے؟
اس کی یہ بات سنتے ہی عاصمہ اور نائلہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر ہارون کے سامنے آ کھڑی ہوئ تھیں۔۔
یہ کیا حرکت ہے ہارون علیشا کا ہاتھ چھوڑو یہ کس قسم کا مذاق ہے عاصمہ دبی دبی آواز میں دھاڑی تھی۔۔
مما آئ ایم سوری میں علیشا کا ہاتھ نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ یہ میری بیوی ہے۔۔
اسکی یہ بات اندر آنے والے سفیان اور وقار احمد نے بھی سن لی تھی۔۔
اور یہ بات سنتے ہی سفیان بجلی کی سی تیزی سے اسکی جانب بڑھا تھا اور اسکے منہ پر ایک زوردار تھپڑ دے مارا تھا۔۔
اور پھر علیشا کی ماما بھی اٹھ کر اب وہاں آ گئ تھی علیشا یہ سب کیا ڈرامہ ہے تمھیں زرا برابر بھی احساس نہیں اپنی بیوہ ماں کا کچھ پھوٹتی کیوں نہیں ہو اپنے منہ سے؟
آنٹی پلیز اس سے ایسے بات مت کریں کیونکہ اب یہ صرف آپکی بیٹی ہی نہیں بلکہ میری بیوی بھی ہے اور اسکی انسلٹ میں یوں برداشت نہیں کر سکتا۔۔
اپنی بکواس بند کرو ہارون تمہاری ہونے والی بیوی وہ وہاں بیٹھی ہے سفیان نے گم صم سی صوفے پر بیٹھی مہرماہ کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔
ڈیڈی اب کچھ نہیں ہو سکتا میں علیشا سے نکاح کر چکا ہوں اب یہ فیصلہ آپکو کرنا ہے کہ آپ اسے میری بیوی کی حیثیت سے قبول کریں گے یا نہیں ورنہ میرے لئے اپنا الگ بزنس سیٹ کرنا کوئ مشکل کام نہیں یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔۔
اوہ تو تم اتنے بڑے ہو گئے ہو ہارون جہانزیب۔۔
لیکن اس لڑکی کا کیا؟ اسکا کیا قصور تھا اس کے ساتھ تم نے کیوں یہ سب کیا؟ کیا ہم نے تم سے تمہاری مرضی پوچھی نہیں تھی کیا تمہاری مرضی سے یہ سب نہیں ہو رہا تھا؟
لیکن اب میرا مائینڈ چینج ہو چکا ہے۔۔
مائنڈ چینج ہو گیا تم کیا کوئ شاپنگ کر رہے ہو ہارون جہانزیب جو تمہارا مائنڈ چینج ہو گیا کہ ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری کا انتخاب کر لو گے اور پسند نا آنے پر چینج کر لو گے؟
مہرماہ گم صم سی بیٹھی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی ثناء نے اسکے قریب آ کر اسے اسکے کندھوں سے تھاما تو اس نے چونک کر سامنے کھڑے سبھی افراد پر ایک نظر ڈالی جن میں بہت پیچھے وقار احمد اپنا سر جھکائے کھڑا تھا۔۔
اور پھر وہ اپنے بابا جان کو دیکھتے ہی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئ تھی اور اب وہ ہارون جہانزیب کے سامنے آ کھڑی ہوئ تھی اسکے سر پر جو ریڈ دوپٹہ ثناء نے دیا تھا وہ اس کے سر سے سرک کر نیچے گر گیا تھا اس نے اپنے سوٹ کے ساتھ کے دوپٹے سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ لیا تھا۔۔
اسے دیکھتے ہی ہارون نے کچھ بولنے کے لئے اپنے ہونٹوں کو ہلکی سی جنبش دی تھی مگر اس سے پہلے کے وہ کچھ کہہ پاتا مہرماہ بول پڑی تھی۔۔
اوہ تھینک گاڈ۔۔ ہارون آپ نے تو میری سب سے بڑی مشکل آسان کر دی یو نو وٹ مجھے آپ میں کبھی بھی کوئ انٹرسٹ نہیں تھا مطلب میں نے کبھی آپکو اپنے لائف پارٹنر کے حیثیت سے سوچا ہی نہیں مگر یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ میں کچھ سوچ ہی نا سکی آپ سب تو جانتے ہیں نا کہ میں اپنی آپی ، گرینی اور اپنے بابا جان سے کتنی محبت کرتی ہوں اور وہ چاہتے تھے کہ میں ہارون سے شادی کے لئے ہاں کر دوں تا کہ ہم سب پھر سے ایک ہو جائیں پھر میں نے سوچا ضروری نہیں مہرماہ وقار احمد کہ تمہارے لئے کوئی شہزادہ ہی آئے خاموشی سے ہارون جہانزیب کے ساتھ ہی گزارہ کر لینا لیکن یہ تو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ میری مشکل یوں آسان کر دے گا تو مسٹر ہارون جہانزیب آپ مجھے کیا ریجیکٹ کریں گے میں تو بہت پہلے ہی آپکو ریجیکٹ کر چکی ہوں تو یوں شرمندہ مت ہوں کیونکہ آپکے اس عمل سے میرا تو نقصان کی بجائے الٹا فائدہ ہو گیا ایسا کہتے ہوئے وہ بہت دل سے مسکرائی تھی آپ نے کوئ غلط کام نہیں کیا بلکہ اٹز ٹائم فار دی سیلیبریشن ۔۔وہ کبھی بھی کسی سے ہاری نا تھی تو پھر آج وہ اپنا اور اپنے بابا کا وقار کس طرح ہار جاتی۔۔
ہارون کے اندر بہت زور سے کچھ ٹوٹا تھا اس نے کبھی بھی کسی کے سامنے اتنی آسانی سے یوں ہار نہیں مانی تھی لیکن آج اسکے سامنے کوئی اور نہیں مہرماہ وقار احمد تھی جب وہ اسکے مقابل تھی تو پھر فتح کیسی وہ آج اپنی سب جیتیں اس پر وار کے ہار گیا تھا۔۔
مگر یہ کوئ نہیں جانتا تھا کہ وہ آج وہ ہار کر بھی جیت گیا تھا۔۔
اب وہ وقار احمد کی جانب بڑھی تھی جسکا جھکا ہوا سر اب اٹھ گیا تھا بابا جان پلیز آئ ایم سوری مگر سچ میں مجھے ہارون میں کوئ بھی انٹرسٹ نہیں آپ تو مجھے اپنی پرنسز کہتے ہیں نا تو پھر میرے لئے تو کوئی پرنس ہی ہونا چاہئے نا؟
یس مائ پرنسز میں تمہارے لئے پرنس ہی لاوں گا۔۔
چلو ہم واپس چلتے ہیں اپنے گھر۔۔
کیوں بابا اب تو شام ہو گئ ہے اور ویسے بھی ہم کسی کے گھر تھوڑی نا آئے ہیں جو یوں چلے جائیں صبح آرام سے جائیں گے نا اور آپ سب اتنے اداس ہو کر کیوں کھڑے ہو گئے ہیں اتنے عرصے بعد ہم سب اس حویلی میں اکٹھے ہوئے ہیں ہمیں تو خوش ہونا چاہئے آئیں بابا ہم ادھر بیٹھتے ہیں اور ثناء تم کیوں وہاں بت بنی کھڑی ہو آجاو یہاں وہ بلکل ایسے react کر رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔
اور پھر باقی سب بھی دھیرے دھیرے وہاں آ کر بیٹھ گئے تھے مگر کسی کے پاس بھی بولنے کے لئے کچھ نا تھا ہر کوئ اپنی سوچ میں گم تھا۔۔
ہارون علیشا کو لے کر وہاں سے اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔۔
اور پھر دھیرے دھیرے سبھی افراد وہاں سے اپنے اپنے کمروں کا رخ کرنے لگے وہاں پر اب صرف مہرماہ ، وقار اور نائلہ رہ گئے تھے۔۔
چلیں بابا جان آپ بھی اپنے کمرے میں جائیں میں آپ کے لئے دودھ لے کر آتی ہوں وہ مسکراتے ہوئے ان سے مخاطب ہوئ تھی۔۔
اور پھر وقار اور نائلہ وہاں سے چلے گئے تھے۔۔
خاموشی سے کمرے میں داخل ہوئے تھے اور پھر اسی خاموشی کے ساتھ وہ وہاں بیٹھ گئے تھے۔۔
کچھ دیر بعد مہرماہ اپنے ہاتھوں میں دودھ کا گلاس لئے وہاں آئی تھی۔۔
اور ان دونوں کو یوں گم صم بیڈ کے آگے رکھے گئے سٹر پر بیٹھے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں نمی آ گئ تھی جسے اس نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے اندر ہی اتار لیا تھا۔۔
اور پھر وہ دودھ کا گلاس بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر رکھ کے انکے پاس آ گئ تھی۔۔
اور اپنے دو زانو زمین پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے بابا جان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے تھے بابا۔۔
مہرماہ تم یہاں کیوں بیٹھ گئی۔۔
بابا آپی آپ دونوں ایسے کیوں اداس ہو گئے ہیں؟ آپ ایسے اداس مت ہوں کیونکہ نا تو میں اپنی محبت کھو جانے کے دکھ میں نائلہ بنوں گی اور نا ہی وقار احمد۔۔اسکے اس استفسار پر نائلہ نے اسے شدید حیرت سے دیکھا تھا۔۔
میں سب کچھ جانتی ہوں آپی اور یہ سنتے ہی نائلہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔
آپ دونوں یقینن یہی سوچ رہے ہوں گے نا کہ میری یہ کیسی محبت ہے کہ جس کے چھن جانے پر نا تو میں نے کوئ ماتم منایا اور نا ہی کوئ تماشا کیا۔۔اور آپ یقینن میرے چہرے پر وہ اضطراب ڈھونڈنے کی بھی کوشش کر رہے ہوں گے نا جو محبت کے چھن جانے پر ہوتا ہے۔۔
تو بابا اضطراب تو آپ کے چہرے پر بھی ہے آپ کو تو محبت مل گئ تھی نا پھر کیوں آپکے چہرے پر اضطراب ہے؟آپ کو کیوں قرار نہیں ملتا؟کیونکہ انسان کی محبت میں کبھی کسی کو قرار نہیں ملتا یہ سب عارضی ہے قرار تو اللہ کی محبت میں ملتا ہے بابا جان تو پھر میں کیوں ان مٹی سے بنے پتلوں کے پیچھے بھاگوں مجھے اللہ نے کتنی محبتیں دی ہیں آپ شکل میں آپی کی شکل میں تو پھر انکا شکر ادا کرنے کی بجائے اک محبت کے چھن جانے پر گلہ کیوں کروں؟
اور ایک بات اور آپ جانتے ہیں کیا وہ یہ کے میرے لئے میرے بابا کی عزت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے اور آج پہلی دفع ان دونوں نے آگے بڑھ کر ایک ساتھ اسے گلے سے لگا لیا تھا۔۔
اب پلیز روئیے گا مت آپکی بیٹی بہت سٹرانگ ہے۔۔اور آپی دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہے بابا جان کو دے دیجئے گا میں چلتی ہوں۔۔گڈ نائٹ۔۔
وہ جا چکی تھی۔۔اور اب وہ دونوں ایک دوسرے کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔
مجھے معاف کر دو نائلہ مجھے معاف کر دو ایسا کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔۔اور نائلہ نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا تھا نہیں وقار ایسا مت کہیں آپ نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا جس کے لئے آپ کو معافی مانگنا پڑے۔۔
میں نے تمہاری زندگی کے بائیس سال ضائع کر دئیے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں نے کچھ نہیں کیا؟
نہیں وقار صرف بائیس سال نہیں میں تو بچپن سے آپ سے محبت کرتی آئ ہوں تب سے جب ابھی میں محبت کے نام سے بھی ناواقف تھی لیکن اس میں آپکا تو کوئ قصور نہیں وقار آپ نے تو کبھی مجھے ایسا کرنے کو نہیں کہا آپ نے تو کبھی مجھے جھوٹے خواب نہیں دکھائے نا ہی کبھی آپ نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا غلطی شاید میری ہی تھی ۔۔وہ آج اپنا آپ اسکے سامنے کھول رہی تھی ۔۔
نہیں تمہاری کوئ غلطی نہیں تھی میں جانتا ہوں انسان محبت کے آگے کتنا بے بس ہو جاتا ہے میں جانتا ہوں پھر بھی میں مہر کو نہیں بھول سکتا نائلہ نہیں بھول سکتا۔۔اور جب تک اسے نہیں بھلاوں گا تمہیں کیسے کچھ دے سکتا ہوں میں؟
میں انتظار کروں گی اس دن کا جب وہ ہمارے بیچ نہیں ہو گی۔۔
وہ تو مجھ میں ہے نائلہ مجھ میں جانتی ہو میں سانس لیتا ہوں تو وہ مجھ میں سانس لیتی ہے میں بولتا ہوں تو وہ مجھے جواب دیتی ہے میں چلتا ہوں تو وہ میرے ساتھ ساتھ قدم رکھتی ہے جانتی ہو وہ کب ہمارے درمیان نہیں ہو گی؟جب میں نہیں ہوں گا۔۔کہیں تمہیں اس دن کا تو انتظار نہیں؟
نہیں وقار پلیز ایسا مت کہیں ضروری تو نہیں کہ آپ بھی مجھ سے محبت کریں کیونکہ کچھ رشتوں کا نام نہیں ہوتا مگر پھر بھی وہ بہت خوبصورت ہوتے ہیں ان پر ہمارا حق خودبخود اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ ہر حال میں ہمیں اپنے ساتھ چاہئے ہوتے ہیں بنا کسی لالچ کے بغیر کسی غرض کے بس انکا ہماری زندگی میں ہونا ہی ایک سکون ایک تسلی کا باعث ہوتا ہے۔۔۔
اور شاید ہمارا رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرماہ اپنے کمرے میں پنہچی تو ثناء وہاں بیٹھی ٹپ ٹپ آنسو بہا رہی تھی۔۔(وہ دونوں حویلی میں ایک ہی کمرے میں رہ رہی تھیں)
اور مہرماہ کو دیکھتے ہی وہ پھٹ پڑی بھائی ایسا کیسے کر سکتے ہیں مہرماہ انہوں نے ایسا کیوں کیا اور وہ بھی اس بے حیا علیشا کے لئے نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے کبھی نہیں یہ ضرور اس چالاک لومڑی کی ہی کوئی چال ہے۔۔
جو بھی ہو ثناء جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب وہی ہارون کی بیوی ہے اور میں کچھ نہیں۔۔
مائ فٹ وہ میری کچھ نہیں لگتی میں جانتی ہوں مہرماہ بھائی ایسا کبھی نہیں کر سکتے وہ تو تم سے بہت محبت کرتے تھے۔۔
اچھا واقعی؟
ہاں مہرماہ بلکل ویسے جیسے تم ان سے محبت کرتی ہو۔۔
اگر ایسا ہوتا تو آج یہ سب نا ہوتا ثناء ۔۔
اچھا کیا تو تم نے بھی نیچے کچھ ایسا ہی تھا کہ جس کے بعد کوئ یہ یقین نہیں کر سکتا کہ تم ہارون بھائی سے محبت کرتی ہو۔۔لیکن پھر بھی میں یہ جانتی ہوں کہ تم ان سے محبت کرتی ہو ٹھیک ایسے ہی میں ہارون بھائ کو بھی جانتی ہوں کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔۔
وہ میں نے اپنے بابا کی عزت کی خاطر کیا کیونکہ میں انکا جھکا ہوا سر کبھی نہیں دیکھ سکتی۔۔
کیا پتا مہرماہ بھائ کی بھی کچھ ایسی ہی مجبوری ہو؟
اس سب سے کیا فرق پڑتا ہے اب ثناء؟
کیا واقعی تمہیں اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا مہرماہ؟
نہیں۔۔
کس سے چھپا رہی ہو مہرماہ کیا تمہیں مجھے بھی کچھ بتانے کی ضرورت ہے؟
اور پھر وہ ثناء کے گلے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔
شاید ہماری یہ محبت ایسے ادھوری ہی رہنا تھی ثناء وہ روتے روتے بولی تھی۔۔
نہیں مہرماہ نہیں تم دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
شاید اسے ہی قسمت کہتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆معصوم جانتے ☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...