نوری : ہائے میں مر گئی۔۔ یہ ہے
آفتاب : ہوں
نوری: اسے سمندر کہتے ہیں
آفتاب: دیکھ لے
نوری : پانی ہی پانی
آفتاب : یہ گاؤں کی کی پتلی سی بل کھاتی ہوئی ندی نہیں ہے۔ سمندر ہے سمندر
نوری : نام تو پہلے بھی سنا تھا۔۔ پر آنکھوں سے آج دیکھا
افوہ۔۔۔ ایک بات پوچھوں
آفتاب : ہوں
نوری : یہ جگہ جہاں ہم کھڑے ہیں نا
آفتاب : ہوں ہوں
نوری : یہ زمین کا آخری سرا ہے۔۔۔ ہے نا
آفتاب : زمین کا آخری سرا
نوری : ہوں
آفتاب : زمین گول ہے۔۔ اس کا شروع اور آخر کچھ نہیں
نوری : اچھا ہوتا میں لالی کو بھی ساتھ لے آتی۔۔۔ وہ سمندر بھی دیکھ لیتی
آفتاب : تو کیوں نہیں لائی
نوری: بابا نے منع کر دیا۔۔ بولے شہر والے ہنسیں گے۔۔ اوئی کتنی بڑی لہر تھی
آفتاب : تیرے پاؤں چومنے آئی تھی
نوری : میرے پاؤں۔۔۔ کیوں کیا بات ہے میرے پاؤں میں
آفتاب : تیرے پاؤں۔۔ یہ دو کبوتر ہیں دو سفید کبوتر
نوری: ارے بھاگو ایک اور لہر آ رہی ہے (دونوں تھوڑا بھاگتے ہیں)
آفتاب: بس اب ٹھیک ہے
نوری : کتنی بڑی لہریں ہیں
آفتاب : کچھ لہریں ان سے بھی بڑی ہیں ان کا تجھے پتہ نہیں
نوری : دکھاؤ۔۔۔ اور بڑی لہریں کہاں ہیں۔۔۔ کدھر ہیں
آفتاب : آں۔۔۔ وہ دراصل وہ تو ابھی دیکھ نہیں سکتی
نوری: کیوں نہیں دیکھ سکتی
آفتاب : وہ لہریں سمندر کی گہرائی میں ہیں۔ سطح پر نہیں ہوتیں
نوری: تھوڑی سی سیپیاں جمع کر لوں۔۔ گاؤں واپس جا کے بانٹوں گی سب کو
ارے بھاگو۔۔۔ اوئی
آفتاب : میرا ہاتھ نہ چھوڑنا
نوری اوئی
آفتاب : گھبراؤ نہیں
(مختصر وقفہ)
نوری: (ہنستی ہے) یہ لہروں کی دادی تھی۔ اللہ میرے کپڑے بھیگ گئے
رضیہ : (دور سے) ہیلو۔۔۔ آؤ آفتاب
آفتاب: (دور سے) ہیلو
نوری : یہ ہیلو کیا ہوتا ہے
آفتاب : آں۔۔۔ کچھ نہیں
نوری: یہ کون ہے
آفتاب : آں۔۔ کوئی نہیں
رضیہ : (قریب آ کر) ہیلو آفتاب۔۔۔ خوب ملے تم آج سمندر کے کنارے کہاں؟
آفتاب : بس یونہی چلا آیا تھا
رضیہ : ڈیڈی تمھاری بہت تعریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں بڑے ہارڈ ورکنگ ہو تم۔
آفتاب : اچھا اب میں چلوں۔۔ وہ دراصل
رضیہ : ہمیں دیکھا اور چلے
آفتاب: وہ در اصل۔۔۔
رضیہ : اتنا خوبصورت سمندر اور تم ونڈر فل
نوری: یہ ونڈر فل کیا ہوتا ہے
رضیہ : آئیں۔۔۔ کیا یہ دیہاتن۔۔ تمھارے ساتھ ہے آفتاب؟
نوری: منہ سنبھال کے بات کرو میم صاحب
آفتاب : اوہ۔۔ یہ نوری ہے۔۔۔ نوری گاؤں سے آئی ہے، ہمارے گاؤں سے
رضیہ : اسی لئے اَن کلچرڈ ہے
نوری : یہ کیا ہوتا ہے
رضیہ : uneducated بھی ہے
آفتاب : یہ نوری ہے
نوری : یہ کیا گٹ پٹ گٹ پٹ کر رہی ہے
رضیہ : اے لڑکی اپنے ہوش میں رہو
نوری: ارے جا بہت گٹ پٹ کرنے والی لڑکیاں دیکھی ہیں میں نے
رضیہ : تم سن رہے ہو آفتاب۔۔۔
آفتاب : میں اس لئے جاتا ہوں۔۔۔ چلو نوری
نوری: نہیں چلتی۔۔۔ میں کوئی ڈرتی ہوں اس سے۔۔ بڑی آئی کہیں سے طرم باز خان
رضیہ : تم میری insult کرا رہے ہو
آفتاب : نوری
نوری : پتہ نہیں کیا ہوا ہے انسلٹ انسلٹ
رضیہ : ایڈیٹ
نوری: میں تیری انگریجی کے رعب میں نہیں آؤں گی
آفتاب : یو ڈونٹ مائنڈ رضیہ
نوری : اے لو۔۔۔ اب تم نے بھی گٹ پٹ شروع کر دی
رضیہ : میں کہتی ہوں اپنے ہوش میں رہو
نوری : تم بھی ہوش میں رہو
رضیہ : تمھیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے
نوری : تمھیں بڑی تمیز ہے۔۔۔ چلی آ رہی ہے مردوں کے کپڑے پہن کے
رضیہ: مردوں کے کپڑے
نوری : دور سے دیکھ کے میں سمجھی تھی کہ کوئی چھوکرا ہے
رضیہ : کیا کہا چھوکرا
نوری : چھوکروں کے سے کپڑے۔۔۔ چھوکروں کے سے بال۔۔ وہ تو میں آواز سے پہچانی کہ عورت ذات ہے
رضیہ : its too much آفتاب
نوری : پھر انگریجی کی ٹانگ توڑنے لگی
رضیہ : میں تیری ٹانگ توڑ دوں گی
آفتاب : رضیہ
نوری : ٹانگیں توڑ دے گی۔۔ اری جا ایک ہاتھ کی تو ہے نہیں۔۔ ایک پھونک ماردوں تو سمندر میں جا کے گرے
آفتاب : نوری
رضیہ : میں تجھے ایسا سبق دوں گی کہ زندگی بھر یاد رکھے گی
آفتاب : ارے ارے
نوری : ہڈی پسلی ایک کر دوں تو میرا نام نہیں
رضیہ : آفتاب
آفتاب : نوری
رضیہ : ہائے میرے بال
آفتاب : چھوڑ دو نوری
نوری : تم مت بولو۔۔ نہیں چھوڑوں گی۔۔ اسے گٹ پٹ کا مزہ چکھاؤں گی اچھی طرح سے
رضیہ : مدد آفتاب مدد
نوری: ابھی تو بڑی شیرنی بن رہی تھی اب کیوں بکری کی طرح ممیا رہی ہے
آفتاب : نوری
رضیہ : آفتاب
(میوزک)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...