گھر جا کر سمرین نے اپنے گھر والوں کو اس رشتے پر اپنی رضامندی دے دی تھی ان کے گھر میں کافی عرصے بات خوشی کی لہر دوڑ آئی تھی
اگلے اتوار ان کا نکاح ہونا طے پایا تھا اور کچھ ماہ بعد رخصتی زین اور حلیمہ سمرین اور شایان کے تعلق جڑنے پر دل سے خوش تھے زین کو آج سچ میں اپنے دوست پر فخر محسوس ہوا تھا اگر آج شایان زین کے ساتھ نہ ہوتا تو شاید وہ کبھی اتنی آسانی سے اپنے مقصد کو نہ پاسکتا اور وہ اس بات کے لیے شایان کا شکر گزار تھا
________________________________________
بھابھی پلیز صرف پانچ منٹ کے لیے ملنے دیں نا اتنی پابندی تو نہ لگائیں ظالم سماج کیوں بن رہی ہیں بس صرف پانچ منٹ کی تو بات ہے
شایان نے منت بھرے لہجے میں حلیمہ سے کہا تھا
کیا یاد کریں گے شایان بھائی کس سخی سے پالا پڑا ہے
حلیمہ نےشرارت سے کہا تھا اور شایان مسکراتا اندر کی طرف بڑھا تھا
ابھی کچھ دیر پہلے ہی شایان اور سمرین کا نکاح ہوا تھا اور کچھ دیر کے لیے ان کو ساتھ لا کر بٹایا گیا تھا پھرسمرین کو اندر لے جایا گیا تھا پر شایان اس سے اکیلے میں پانچ منٹ ملنا چاہتا تھا اور اب وہ حلیمہ کی منت کر رہا تھا
سامنے بیڈ پر سمرین آرام دہ انداز میں ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر بیٹھی تھی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولی تھیں اور سامنے شایان کو دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا رشتہ کیا بدلہ تھا دل الگ ہی لے پر دھڑکنے لگا تھا تبھی شایان اس کے پاس آ کر بیٹھا تھا اور وہ جلدی سے سیدھی ہو کر بکٹھی تھی اور نظریں جھکائیں تھیں آپ۔ ۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
سمرین نے گھبراتے ہوئے پوچھا تھا
کیوں کیا اب میں اپنی بیوی سے بھی نہیں مل سکتا ۔۔۔شایان نے لہجے میں ناراضگی سموتے ہوئے کہا تھا
نہین نہیں میرا یہ مطلب تو نہیں ہے ۔۔۔سمرین نے جلدی سے گھبراتے ہوئے کہا تھا
شایان نے اس کی گود میں رکھا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا تھا اور اس کے سرد ہوتے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں سے گرمائش دینے لگا تھا
مین صرف تمہیں نظر بھر کر دیکھنا چاہتا تھا اسی لیے آیا ہوں آج تم بہت ۔ خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔کہتے ساتھ ہی شایان نے ایک ہاتھ سے اپنی جیب میں سے ایک ڈبہ نکالا تھا اور اس میں سے ہیروں سے چمکتا بریسلیٹ نکال کر سمرین نے اس کے ہاتھوں کی زینت بنا دیا تھا اور اس کے ہاتھ پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑتا باہر کی طرف بڑھ گیا تھا اور سمرین اتنا اچھا جیون ساتھی ملنے پر اپنے رب کی بے حد شکر گزار تھی
____________________________________________
تین ماہ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔
زین جلدی گھر آجانا آپ کو یاد ہے نہ آج شایان بھائی کی مہندی ہے دیر نا ہو جائے
حلیمہ ایک ہاتھ سے اپنے کپڑے پریس کرتی دوسرے ہاتھ سے فون پکڑے زین سے بات کرنے میں مصروف تھی
ہاں ہاں جاؤں گا تم بس تیار رہنا جیسے ہی میں آؤں گا فوراً چلیں گے اوکےاور تمہیں ایک خوشخبری بھی سنانی ہے آج دلاور اور زمان کے غلاف کیس کی سنوائی تھی اور ان کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے تم جانتی ہو آج میں بہت خوش ہوں
زین نے خوشگوار لہجے میں کہا تھا
سچی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے
حلیمہ نے چہکتے ہوئے کہا تھا
اب پروگرام شروع ہونے والا ہے اوکے اللّه حافظ
اوکے اللّه حافظ
___________________________________________
زین اور سیٹھ دلاور کو ایک معصوم اور مظلوم لڑکی کے ساتھ ذیادتی کرنے پر عمر قید سزا سنا دی گئی تھی بے شک زین نے سچ کو سامنے لانے کیلئے بہت مشکلیں اٹھائی تھیں تو وہیں سمرین نے بھی ایک درد ناک اذیت جھیلی تھی جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں ایسی لڑکیوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے حالانکہ سارے حالات واقعات میں وہ بے قصور ہوتی ہے کوئی مرد اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا کیوں وہ اس لڑکی کو ہزار بار رد کرتا ہے حالانکہ وہ ایک اسی جیسے مرد کی ہوس کا نشانہ بنی ہوتی ہے آج کل ہم روز سنتے ہیں کہ کبھی کوئی بچی کبھی کوئی عورت آئے دن ایسے واقعات کی زد میں آتی ہے آخر کیوں ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی طرف چل پڑا ہے کبھی ہم نے اپنی ذات کو پرکھا ہے کبھی سوچا ہے ہم نے اس بارے میں آج کل نیٹ پر جہاں علم وادب کا لاتعداد خزانہ ہے وہیں پر اس پر ہمیں ہر بری چیز ہر فحش چیز بھی مل جاتی ہے اسی انٹرنیٹ پر ہمیں تمام قسم کی اسلامی تعلیمات بھی مل جاتی ہیں تو فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہی ہے کہ ہم اچھائی کی طرف جاتے ہیں یا برائی کی طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تربیت پر منحصر کرتا ہے تربیت جو ماں باپ کرتے ہیں پر میں یہاں پر کہوں گی بے شک ہماری زندگی میں بہت سے مرحلے ماں باپ کی تربیت پر انحصار کرتے ہیں پر اولاد کے برے کاموں کا ذمہ دار ماں باپ کو نہیں ٹھہرایا جانا چاہیئے پر اجتماعی تربیت کے ساتھ ہم سب کو انفرادی تربیت کی ضرورت ہے ہم سب موبائل پر کیا دیکھ رہے ہیں کیا سن رہے ہیں ہیڈ فون لگا کر ہمارے ساتھ بیٹھے ماں باپ یا بہن بھائی کو نہیں پتا کہ ہم کب اس موبائل پر غلط چیز میں پڑ جائیں ہم گھر سے باہر جاتے ہیں ہمارے ماں باپ کو نہیں پتہ کہ ہم چھپ کر کوئی نشہ کرتے ہیں یا کیسے کوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں پر ہمارے والدین ہم پر بھروسا کرتے ہیں اور ہم اس بھروسے کو توڑ دیتے ہیں تو بات وہی ہے کہ ہم سب کو اپنی اپنی خود تربیت کرنی ہے وہ کیسے؟ یقیناً اپنے دین اسلام پر چل کے اللّه اور اس کے پیارے آخری رسول حضرت محمّد کی اطاعت کریں قرآن صرف پڑھیں ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کریں اپنے مفس کر قابو پانا سیکھیں تو یقیناً ہم بہترین انسان کے ساتھ مسلمان بھی بن سکتے ہیں اپنے رب کو راضی کریں یہ دنیا عارضی ہے اس کو عارضی حد تک ہی رکھیں اور آخرت کی تیاری میں لگ جائیں نہ جانے کس وقت موت آجائے یہ صرف ایک کہانی تھی ایسی لڑکیاں ساری عمر اپنے ناکردہ جرم کی سزا بھگتتی ہیں اور لوگوں کی کینہ توز اور ترحم بھری نظروں کا شکار ہوتی رہتی ہیں پر حقیقت میں ہماری عدالتوں میں ایسے کیس سالہا سال چلتے رہتے ہیں جن کا کوئی فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا اور کچھ امیر لوگ جج کو خرید کر اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں ہمارے معاشرے میں لوگوں کے ایمان اس قدر کمزور ہو چکے ہیں ہیں کہ چند پیسوں پر بِک جاتے ہیں اور اپنے لیے جہنم خرید لیتے ہیں خدارا اپنے ایمان کو چند پیسوں کی خاطر مت بیچیں اور ایمان پر قائم رہیں اس دنیا سے ہم سوائے اپنے عمالوں کے کچھ ساتھ لے کر نہیں جائیں گے ابھی بھی وقت ہے اپنے آپ کو بدلنے کا اللّه کی طرف لوٹ آنے کا وقت کی قدر کریں اور ایمان پر ہمیشہ ہر صورت قائم رہیں سچ کی خاطر لڑیں چاہے آخری حد تک جانا پڑے اور یاد رکھیں کہ ظلم کرنے والے سے زیادہ ظلم چپ چاپ سہنے والا قصور وار ہوتا ہے
آخر میں میں ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے میری تحریر پڑھی اسے پسند کیا اور میری حوصلہ افزائی کی شکریہ
_______________________________________________
ختم شد