سمرین جب آخری پیپر دے کر فیئر ویل اٹینڈ کر کے گھر آرہی تھی اس دن شام کو تقریباً ساری یونیورسٹی خالی ہو چکی تھی اس کی بس مس ہو گئی تھی اس لیے وہ ڈیپارٹ سے پیدل ہی یونیورسٹی کے گیٹ سے نکلی تھی اس کا ڈپارٹ یونی کے کافہ اندر تھا جس کی وجہ سے یونیورسٹی کء داخلی دروازے اور ان کے ڈپارٹمنٹ کے درمیان کافی فاصلہ تھا
سمرین گیٹ تک پہنچ گئی تھی جب ایک گاڑی اس کے قریب آکر رکی تھی اور اس میں سے زمان شاہ اور دلاور شاہ باہر نکلے تھے
سمرین ان دونوں کو اپنے پاس رکتا دیکھ کر ٹھٹکی تھی اور اپنے قدموں کی رفتار تیز کی تھی تبھی زمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا تھا اور گاڑی کی طرف دھکیلا تھا سمرین کی چھٹی حس نے اسے کچھ برا ہونے کا اشارہ کیا تھا سمرین نے اس سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تھی پر وہ ناکام رہی تھی
میں کہتی ہوں ہاتھ چھوڑو میرا
سمرین نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا تھا
سویٹ ہارٹ یہ ہاتھ چھوڑنے کیلیے تھوڑی پکڑا ہے چل چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ
زمان نے انتہائی گھٹیا انداز میں کہا تھا
سمرین نے زمان کے ہاتھ پر دانتوں سے کاٹا تھا زمان نے بلبلا کر اس کا ہاتھ چھوڑا تھا اور اپنے ہاتھ کو دبایا تھا
پیچھے کھڑے دلاور کی آنکھوں میں غصہ ابھرا تھا اس نے بھاگتی ہوئی سمرین کو بالوں پکڑا تھا اور گاڑی کے بونٹ میں اس کا سر ساتھ بنے کیفے کے دروازے میں دے مارا تھا اس کا سر خون سے لہو لیان ہوگیا تھا اور وہ غنودگی میں جانے لگی تھی اسے بس آخری بار یہ یاد تھا کہ دلاور نے اسے گاڑی میں دھکیلا تھا اس کے بعد اس کی آنکھ ہاسپٹل میں کھلی تھی اور جو کچھ اس پر بیت چکا تھا وہ اس کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھا
اس ساری واقعے کی ویڈیو جو کہ کیفے کے کیمرے میں مقید ہو گئی تھی اس وقت وہ ویڈیو زین نے پروگرام میں دکھائی تھی اور اس کے علاوہ دلاور شاہ کے خلاف اور بھی ثبوت تھے جو اس نے سب کو دکھائے تھے
پروگرام کے ختم ہوتے ہی زین اور دلاور کو اپنی زندگی کے لالے پڑ گئے تھے زمان نے دلاور کو فون ملایا تھا
اب ۔۔۔اب کیا کریں گے اب تو سب کو پتہ چل گیا اب کہاں جائیں
زمان نے خوف سے کانپتی آواز میں کہا تھا
جہاں مرضی جا پر میرے پاس مت آنا اور اگر تو نے کسی کو میرے ٹھکانے کے بارے میں بتایا تو میں جان سے مار دوں گا تجھے سمجھا
کہتے ساتھ ہی دلاور نے کال کاٹ دی تھی
دلاور سیٹھ اس وقت آپے سے باہر ہو گیا تھا اسے تو اپنی زندگی کے لالے پڑ گئے تھے اس وقت اس کی عقل نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اس نے جلدی سے اپنے باپ کو فون ملایا تھا
ہیلو ابا صاحب بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے مجھے ۔۔۔مجھے جلدی سے کسی محفوض مقام پر پہنچائیں اس سے پہلے کہ پولیس مجھے گرفتار کرے
مجھے تمہارے کرتوتوں کی خبر ہو گئی ہے کتنا منع کیا تھا کہ ایسے ہی کسی لڑکی کو نہ اٹھانا کیا ساری ساری رات کوٹھوں پر گزار کر بھی تمہارا پیٹ نہیں بھرتا اب خود بھگتو الیکشن سر پر ہیں تم جانتے ہو تمہاری وجہ سے پاڑٹی کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے چپ چاپ گرفتاری دو ایک بار الیکشن ہونے دو پھر میں تمہیں خود جلد سے جلد نکلوا لوں گا
ایم این اے بابر جن کو اپنی کرسی ہر چیز سے بڑھ کر عزیز تھی اس وقت وہ بھی اپنے مفاد کے لیے اپنے بیٹے کا ساتھ چھوڑ گئے تھے
ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابا آپ ایسے کہسے کہہ سکتے ہیں ۔۔۔دلاور نے حیرت سے کہا تھا اسے اپنے باپ سے یہ امید نہ تھی
جتنا کہا ہے اتنا کرو بات اب اعلیٰ حکام تک جا پہنچی ہے میں اس وقت اپنی کرسی خترے میں نہیں ڈال سکتا چپ چاپ گرفتاری دے دو
کہتے ساتھ انہوں نے فون کاٹا تھا
دلاور نے موبائل دیوار میں دے مارا تھا
________________________________________
جیسے ہی پروگرام ختم ہوا تھا پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہلچل مچ گئی تھی پولیس کے اعلیٰ حکام کو خبر ہو چکی تھی۔۔۔۔
اور اس ضلع کے انسپیکٹر کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا اور پولیس کو جلد سے جلد کاروائی لینے کا حکم دیا تھا
کیونکہ پولیس ڈپارٹمنٹ کی ریپوٹیشن داؤ پر لگ چکی تھی زمان شاہ اور دلاور شاہ کو اریسٹ کرنے کے فوری وارنٹ جاری ہوئے تھے پولیس ان دونوں کو گرفتار کرنے کیلئے نکل چکی تھی
________________________________________
فوزیہ شاہ اپنے میاں اور بیٹے کی بات سن کر سکتے میں آگئی تھیں ان کا وجود صدمے سے بے حال تھا وہ اپنی جیسی زندگی اپنی بھتیجی کو نہیں جینے دے سکتی تھیں اور انہوں نے آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے تھے
اور ایک فیصلہ کرتے ہوئے اپنی چادر اورڑھ کر سب سے چھپتیں اپنے گھر کے پچھلے دوازے سے باہر نکلیں تھیں
________________________________________
آئمہ حلیمہ کو اس کے کمرے میں چھوڑ کر خود تیار ہونے اپنے کمرے میں آگئی تھی پر وہ خود بھی پریشان تھی کہ زین آئے گا بھی یا نہیں اور اگر آ بھی جاتا ہے تو کیا بی جان مان جائیں گی وہ مسلسل اسی نقطے پر سوچ رہی تھی تب اس کا فون بجا تھا اس نے فون اٹھا کع دیکھا تو کرن کی کال آرہی تھی کرن اس کی کالج کی دوست تھی اس نے فون اٹھا کر کان کے لگایا تھا
ہیلو کرن کیسی ہو کیسے ہو خیریت سے فون کیا آئمہ نے ائیر رنگ پہنتے ہوئے کہا
آئمہ زین بھائی کا شو آرہا ہے تم جلدی سے اون کر کے دیکھو اگر زین بھائی کے گھر چھوڑنے کی یہی وجہ تھی تو انہوں نے بلکل سہی فیصلہ لیا تھا ۔۔۔۔۔
کرن نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا تھا
کیا مطلب تم کا کہنا چاہتی ہو۔۔۔
آئمہ ٹھٹکی تھی
تم بس جلدی سے ٹی وی آن کر کے دیکھو تمہیں خود سمجھ آ جائے گا آئمہ نے فون سائیڈ پر رکھا تھا اور تجسس کے مارے جلدی سے حمدان صاحب کے کمرے کی طرف بھاگی تھی
حمدان صاحب اس وقت حال جانے کے لیے نکلنے والے تھے تاکہ انتظامات دیکھ سکیں تبضی ان کے کمرے میں آئمہ بھاگتی ہوئی داخل ہوئی تھی اور جلدی سے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا تھا اور چینل سرچنگ کرنے لگ گئی تھی
حمدان صاحب حیرت سے اسے ٹی وی چلاتے چلاتے دیکھ رہے تھے اس وقت بھلا وہ ٹی وی کیوں چلا رہی تھی
تبھی اس نے ایک چینل لگایا تھا اور حمدان صاحب کی نظریں سکرین پر جمی تھیں اتنے عرصے بعد اپنے بیٹے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں نم ہوئی تھیں تبھی پیچھے سے رئیسہ بیگم بھی اندر داخل ہوئی تھیں اور سامنے دیکھ کر ان کے قدم رکے تھے وہ سب اتنے محو تھے پروگرام میں کہ بی جان جو کب سے آوازیں دے رہی تھیں کہ یہ ٹی وی کی آواز کہاں سے آرہی ہے اسے بھی نظر انداز کر گئے تھے
بی جان بھی کمرے میں داخل ہوئی تھیں اور ان کی نظریں بھی ٹی وی پر جم گئی تھیں زمان شاہ کے بارے میں اس قدر سفاک حقیقت جان کر بی جان صدمے سے گنگ رہ گئی تھیں بی جان نے دروازے کی دہلیز کا سہارا لیا تھا
پروگرام ختم ہو چکا تھا پر سب لوگ ساکت کھڑے تھے
حمدان صاحب نے پیچھے مڑ کر بی جان کی طرف شکوہ کنا نظروں سے دیکھا تھا
بی جان نے ان سے نظریں چراتے ہوئے منہ دوسری طرف موڑا تھا
تبھی پیچھے سے روتی بلکتی فوزیہ اندر داخل ہوئی تھیں اور اپنی ماں کے گلے لگ کر رو رو کر ساری داستان بیان کر دی تھی
بی جان صدمے سے نڈھال ہو گئی تھیں ان کی بیٹی اتنے سال سے تکلیف میں رہ رہی تھی اور ان کو پتہ نہ چل سکا
بی جان کاضبط بیٹی کی تکلیف پر جواب دے گیا تھا اور ان کا وجود نیچے زمین پر ڈھے گیا تھا
اماں ۔۔۔۔اماں کیا ہوا اٹھیں اماں۔۔۔۔۔۔
فوزیہ ایک دم چیخی تھیں حمدان صاحب نے جلدی سے ایمولینس کو کال کی تھی اور فوری طور پر ان کو ہاسپٹل لے جایا گیا تھا
________________________________________
زمان شاہ کو اس کے گھر سے اریسٹ کر لیا گیا تھا اور اس سے دلاور سیٹھ کے ٹھکانے کا پتہ بھی اگلوا لیا گیا تھا اور دلاور سیٹھ بھی پکڑا گیا تھا دلاور کے گرفتار ہونے کے بعد دلاور کے والد کو بھی پارٹی کی سہٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا اور اب ان کے پاس نہ عزت بچی تھی نہ شہرت اب صرف پچھتاوا ان کا مقدر رہ گیا تھا وہ سیٹ کے پیچھے اپنے بیٹے کو بھی جیل بھجوا چکے تھے اور اب سخت پچھتا رہے تھے کیونکہ اب ان کے کرتوتوں کا بھابڈا بھی بیٹے کے ذریعے پھوٹ جانا تھا
________________________________________
ایمبولینس کی آواز پر حلیمہ چونکی تھی اور جلدی سے نیچے کی برف بڑھی تھی پر تب تک حمدان صاحب بی جان کو ایمبولینس میں ہاسپٹل لے جاچکے تھے حلیمہ کے ہاتھ پاؤں پھولے تھے وہ دوڑتی ہوئی روتی ہوئی آئمہ کے پاس آئی تھی آئمہ کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے نہ سب۔ ۔۔۔
حلیمہ نے پریشانی سے پوچھا تھا
آئمہ نے اسے شروع سے آخر تک سب کچھ بتا دیا تھا اور حلیمہ سب سن کر ساکت کھڑی رہ گئی تھی
________________________________________
زین سارے ثبوت پولیس کے حوالے کر کے اب گھر جارہا تھا آج اسے بی جان سے اپنے رویے کہ معافی مانگنی تھی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ یہ فیلڈ چھوڑ دے حا آج اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا ایک معصوم لڑکی کو انصاف دلوا دیا تھا اگلے اتوار کورٹ میں اس کیس کے حوالے سے پہلی سنوائی تھی زین اس طرف سے مطمیئن تھا
زین اس فیلڈ کے لیے کبھی اپنے گھر والوں کو نہیں چھوڑنا چاہتا تھا پر اس وقت حالات ایسے تھے کہ اسے چھوڑنا پڑا بی جان اس وقت کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھیں پر اسے یقین تھا کہ وہ آج بی جان کو منا لے گا پر تبھی حمدان صاحب کا فون آیا تھا اور جو خبر انہوں نے اسے سنائی تھی وہ اس کو حواس باختہ کر گئی تھی
________________________________________