“ابے اسے تو ہوش نہیں آ رہا۔۔۔اب کیا کریے۔۔۔ سر نے تو ہمیں نہیں چھوڑنا“ اس کھنڈر نما گھر میں موجود سمیر کے آدمیوں میں سے ایک آدمی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
“بیٹھ جا چپ کر کے آ جائے گا ہوش بھی“ دوسرے آدمی نے بے زاری سے اسے ٹوکا۔
“کافی دیر ہو گئی ہے۔۔۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو سمیر صاحب نے ہمیں چھوڑنا نہیں ہے“ پہلے آدمی نے ڈرتے ہوئے اسے کہا جس پر دوسرا اسے غصے بھری نظر سے نوازتا کرسی سے اٹھا اور اس کے ساتھ کمرے کی طرف چلا گیا۔
ارشیہ کو کچھ دیر پہلے ہی ہوش آیا تھا۔ خود کو انجان جگہ پا کر اس نے ادھر ادھر دیکھا تو باہر سے آتی آوازوں اور اپنے بندھے بازوں کو دیکھ اسے کچھ کچھ سمجھ آیا تھا۔ اچانک اسے قدموں کی آواز سنائی دی جو کہ آہستہ آہستہ نزدیک آ رہی تھی۔ ارشیہ نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کی۔
“ابے یہ کیا اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا” دوسرے آدمی نے ارشیہ کی ایک طرف ڈھلکی گردن دیکھ کہا تھا۔
“تب سے میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔ سمیر صاحب کو فون کر کے بتا“ پہلا آدمی اس پر چڑھ دوڑا۔ سمیر کے کہے کے مطابق اگر اسے کچھ ہو جاتا تو وہ ان کو زندہ گاڑھ دیتا۔
“ہیلو سمیر صاحب۔۔۔ وہ ارشیہ بی بی کو ہوش نہیں آیا ابھی تک“ دوسرے آدمی نے ڈرتے ڈرتے فون کرکے سمیر کو اطلاع دی۔
“کیا مطلب ہوش نہیں آ رہا“ سمیر نے غصے سے پوچھا۔ جس پر اس آدمی نے بمشکل تھوک نگلا۔
“پتہ نہیں۔۔۔ سمیر صاحب۔۔۔۔ بی بی کو ہوش نہیں آ رہا“ آدمی نے اٹکتے ہوئے کہا۔ جس پر سمیر نے دوسری جانب دو انگلیوں سے اپنی کنپٹی سہلائی۔
“اچھا میں دیکھتا ہوں۔۔۔ کرم دین….کرم دین۔۔۔ ڈرائیور کے ساتھ جاؤ” سمیر نے فون بند کرکے کرم دین کو آواز دینا شروع کی۔ وہ آیا تو اسے ڈرائیور کے ساتھ جانے کا کہہ کر زیاد اور نمرا کو فون کرنے لگا۔
“ہیلو زیاد۔۔۔ ہاں وہ ارشیہ کا کچھ پتہ ہے۔۔۔ کافی دیر ہو گئی ہے۔۔ میں نے اسے فارم ہاوس بلوایا تھا مجھے کام تھا لیکن ابھی تک وہ آئی ہی نہیں۔۔ پلیز پتہ کرنا اس کا نمبر بھی بند جا رہا ہے“ سمیر نے مصنوعی فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے زیاد کو کہا۔
“کتنی دیر ہو گئی۔۔ اور تم نے پتہ کروایا کہ وہ کہا ہے“ زیاد نے ٹیبل سے اپنی والٹ اور کیز اٹھاتے ہوئے کہا اور ساتھ نمرا کو آنے کا اشارہ کیا۔ وہ اور نمرا اس وقت ریسٹورنٹ آئے ہوئے تھے۔
نمرا پریشان سی اس کے پیچھے پیچھے گاڑی کی طرف چل دی۔ زیاد نے کچھ ضروری باتیں اور کی ور پھر فون کاٹ کر گاڑی بھگا لی۔ دوسری طرف سمیر نے فون کاٹ کر کیز اور والٹ اٹھایا اور جہاں ارشیہ کو رکھا تھا گاڑی کو اس طرف موڑ لیا۔
“کیا ہوا ہے زیاد“ پریشانی میں زیاد بار بار کسی کو کال ملا رہا تھا لیکن وہ اٹھا نہیں رہا تھا۔ اسے پریشان دیکھ نمرا نے پوچھا۔ جس پر زیاد نے اسے سمیر کی بات من و عن بتائی۔
“اب کیا ہو گا زیاد“ نمرا نے پریشانی سے زیاد سے پوچھا۔ زیاد نے گاڑی نمرا کے گھر سے تھوڑی دور کھڑی کی۔
“کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ میں ہوں نہ۔۔۔ اور ٹیشن نہ لوں بس ایک بار ارشیہ مل جائے میں جلد ہی ماما اور بابا کو تمہارے گھر بھیجتا ہوں۔۔ ٹھیک ہے“ زیاد نے پیار سے اسے سمجھایا تھا۔ جس پر نمرا نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف چلی گئی۔ اس کے جتے ہی زیاد نے گاڑی کا رخ پولیس سٹیشن کی جانب کیا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””
“ہاں ہیلو عدیل میرا کام ہوا کہ نہیں“ زوہیب نے عدیل کو کال ملا کر پوچھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ زوہیب نے کوئی کا کہا اور عدیل نے وہ نہ مانا ہوں۔ عدیل کی بات سن اس کے ماتھے کے بل واضح ہوئے۔
“تم میرے لیے کام کرتے ہوں کہ دوسروں کے لیے۔۔۔ اگر میرا کام نہیں کر سکتے تو مجھے بتا دوں۔۔۔ آج شام۔۔۔ آج شام تک وہ میرے فارم ہاوس نہ پہنچی تو میں تمہیں کہا پہنچاؤں گا یہ تو تمہیں پتہ ہے“ زوہیب نے غصے سے کہا اور فون بند کر کے بیڈ پر پھینکا۔
“سمجھتا کیا ہے خود کو“ زوہیب نے غصے سے کمرے میں چکر لگاتے ہوئے کہا اور پھر کچھ یاد آنے پر موبائل اٹھا کر کسی کو کال کرنے لگا۔
“ہیلو۔۔۔ ہاں ایک لڑکی کی تصویر اور اس کی ڈیٹیلز بھیج رہا ہوں۔۔ شام تک مجھے وہ۔میرے فارم ہاوس میں چاہیے“ دوسری۔طرف سے فون اٹھاتے ہی۔زوہیب نے بات کا آغاز کیا۔
“ٹھیک۔ہے سیٹھ تمہارا کام ہو جائے گا۔۔۔ لیکن روکڑا اپنی مرضی کا ہو گا سیٹھ“ بھاری مردانہ آواز سپیکر سے گونجی تھی۔ دوسری طرف سے تسلی بخش جواب دیے جانے پر زوہیبکے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ کام ہونے کے بعد مل جائے گئے پیسے۔۔۔ یاد رکھا اسے ایک خراش تک نہیں آنی چاہیے۔۔۔جیسے ہو ویسے ہی میرے فارم ہاوس پر آئے۔۔۔ چہرے سے پردہ ہٹانے کی کوشش نہ کرنا“ زوہیب شاید اس شخص کی خصلت سے واقف تھا اسی لیے روبدار لہجے میں کہتے ہوئے آخر میں وارن کیا۔
“ارے سیٹھ تیرے مال کو آگے کچھ ہوا ہے۔۔ جو اب میں کروں گا۔۔ تو بے فکر رہ۔۔ لیکن یہ تصویر تو کسی حاجن کی ہے سیٹھ۔۔ آپن کیسے اسے پہچانے گا“ دوسری طرف آدمی نے ہنستے ہوئے اسے تسلی دی اور پھر فکر مندی سے پوچھا۔ کیونکہ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایسا کون سا ہیرا اس پردے کے پیچھے چھپا ہے جو زوہیب ملک کو پسند آیا ہے۔
“وہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔۔ ایڈریس دیا ہے نا۔۔۔ بس جتنا کہ ہے اتنا کرو“ زوہیب نے وارن کیا اور کھٹاک سے فون بند کر دیا۔ فون بند کرنے کے بعد آنکھیں بند کیے زوہیب آنے والے وقت کا سوچ مسکرانے لگا۔ یہ جانے بغیر کہ یہ مسکراہٹ شاید اس کے چہرے کی آخری مسکراہٹ ہو۔
””””””””””””””””””””””””””””””””’
“سمیر صاب نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔۔۔ تم لوگ جاؤں۔۔ میں دیکھتا ہوں“ ادھیڑ عمر کرم دین نے دونوں آدمیوں کو اس کمرے سے جانے کا کہا جس پر ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کرم دین میڈیکل کے بارے میں جانتا تھا اسی لیے سمیر نے اسے بھیجا تھا
“ہم کہی نہیں جائے گئے۔۔۔ تم دیکھو اسے کیا ہوا ہے“ ان دونوں میں سے ایک آدمی تن کر بولا۔
“ٹھیک ہے۔۔ میں سمیر صاحب سے کہہ دوں گا کہ انہوں نے مجھے اس کا علاج نہیں کرنے دیا“ کرم دین ان کو وہاں سے بھیجنے کے چکروں میں تھا۔ وہ آتے ہی دیکھ چکا تھا کہ ارشیہ ہوش میں ہے اسی لیے انہیں وہاں سے جانے کا کہا۔
وہ دونوں منہ بسورتے اسے گھوریوں سے نوازتے دوسرے کمرے میں آ گئے۔
“مجھے پتہ ہے بی بی آپ بے ہوش نہیں ہیں۔۔۔ اٹھ جائے جلدی۔۔ میں آپ کو کھولتا ہوں آپ یہاں سے بھگا جائے“ کرم دین نے ان کے جاتے ہی ارشیہ کی رسیاں کھولنی شروع کردی اور آہستہ آواز میں اسے پکارا جس پر آنکھیں بند کیے ارشیہ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
“آپ مجھے کیوں بچا رہے ہیں۔۔ اور سمیر۔۔ سمیر نے مجھے کیوں کڈنیپ کیا ہے“ کب سے کرسی پر بندھے ہونے کی وجہ سے اب اس کی ٹانگیں درد کرنا شروع ہوگئی تھی۔ حلق میں تو جیسے کانٹے اگ آئے تھے۔
“کیوں کہ ایک وقت میں میں نے آپ کے گھر کا نمک کھایا تھا۔۔ اور سمیر صاحب کسی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔۔ ان کو لگتا ہے کہ آپ کی وجہ سے ان کے بھائی کی موت ہوئی ہے“ کرم دین نے جلدی جلدی اسے مختصر سا بتایا۔ سی دوران وہ۔اس کی رسیاں کھول چکا تھا۔
“سمیر کا بھائی۔۔ میری وجہ سے اس کی موت۔۔۔ سمیر کا کوئی بھائی بھی تھا“ ارشیہ نے حیرت سے اٹکتے ہوئے کرم دین سے پوچھا۔ آواز حلق سے نکلنے سے انکاری تھی۔ ٹانگیں الگ درد کر رہیں تھیں۔
“رحمان احمد“کرم دین نے اتنا کہتے ہوئے باہر ان دونوں کو ایک نظر دیکھا تھا۔ لیکن ارشیہ وہ اس نام پر ہی اٹک گئی تھی۔ ماضی کی یادیں اس کے ذہین میں ابھر رہی تھی لیکن اس نے سر جھٹکا۔ اسے فلحال یہاں سے نکلنا تھا۔
“بی بی۔۔۔ آپ ادھر سے چلے جائے۔۔ وہ آپ کو نہیں دیکھ پائے گئے۔۔ جلدی جائے۔۔۔“ کرم دین نے اسے پیچھے کے راستے سے جانے کا کہ اور پھر اسے وہاں سے نکال کر جلدی سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔
“تھوڑی دیر تک انہیں ہوش آجائے گا“ یہ کہتے ہی کرم دین نے بھی باہر کی راہ لی اور گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو چلنے کا کہا۔
””””””””””””””””””””””””””””””””’
“عبیرہ۔۔۔ عبیرہ آج تم یہاں ہی رک جاؤں“ حائقہ نے عبیرہ کو نقاب کرتے دیکھ کہا جس پر عبیرہ کے نقاب کرتے ہاتھ رکے تھے۔
“کیا ہوا حائقہ آپی۔۔۔ کوئی بات ہے“ عبیرہ نے فکر مندی سے پوچھا تھا۔
“نہیں بات تو کوئی نہیں ہے۔۔ بس آج تم ادھر رک جاتی تو۔۔۔ ویسے ہی میرا دل گھبرا رہا تھا“ حائقہ نے جلدی سے وضاحت دی تھی۔
“آپی کیا ہوا ہے۔۔ کوئی بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہیں ہیں“ عبیرہ نے آواز میں خفگی سمائے حائقہ سے پوچھا۔
“نہیں کوئی بات تو نہیں ہے۔۔ بس آج کل میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی“ حائقہ نے واضح کیا جس پر عبیرہ نے جلدی سے حائقہ کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کی تھی۔
“کیا ہوا ہے آپ کو۔۔ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا آپ نے“ عبیرہ نے فکر مند لہجے میں پوچھا۔ ایک یہی تو تھی اس کی دوست، اس کی ساتھی، اس کی بہن.
” نہیں اتنی زیادہ خراب نہیں ہے۔۔ بس ہلکا سا بخار اور کھانسی ہے“ حائقہ نے اس کی فکر دیکھ مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“چلیں ابھی ہم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔۔۔ چلیں اٹھیں “ عبیرہ نے اٹھتے ہوئے اس کو بھی اٹھانا چاہا۔ جس پر حائقہ مسکرا دی۔ جبکہ آنکھوں میں نمی واضح ہونے لگی۔
“چلیں جلدی سے عبایہ کرے“ عبیرہ نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا اور پھر اپنا نقاب درست کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گھر سے نکلی۔
“عبیرہ تمہاری میڈیسن بھی ہم ساتھ ہی لے آتے ہیں“ حائقہ نے مشورہ دیا جس پر وہ ڈاکٹر کی طرف جانے سے پہلے عبیرہ کے گھر کی طرف چلے گئے۔
عبیرہ تم جاؤں وہ سلیپ لے آوں میں ابھی آتی ہوں“ حائقہ نے اسے دروازے کے پاس چھوڑا اور سامنے والے گھر میں چلی گئی جہاں ایک عورت دروازے میں کھڑی اسے بلا رہی تھی۔
حائقہ اس طرف گئی تو وہ عورت اس سے باتوں میں مگن ہو گئی۔ عبیرہ آہستہ آہستہ محتاط قدم اٹھاتی اندر گئی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ تبھی زوہیب کے آدمی اندر داخل ہوئے اور جلدی سے اس کے چہرے پر کلورو فوم کا سپرے کیا۔
سپرے کی وجہ سے عبیرہ بے ہوش ہو گئی تو انہوں نے اسے اٹھایا اور باہر موجود اپنی وین میں ڈال کر جلدی سے زوہیب کے فارم ہاوس کی طرف وین بھگالی۔حائقہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو گھر کے سامنے سے کوئی وین گزری تھی۔ وہ جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور عبیرہ کو تلاشنا شروع کیا لیکن وہ کہی بھی نہیں تھی۔
عبیرہ کو وہاں نہ پا کر حائقہ کو آسمان اپنے سر پر گھومتا ہوا محسوس ہوا اور وہ چکرا کر وہی زمین پر گر گئی۔یوسف آج حسبِ معمول اکیڈمی میں تھ جب ہہ قیامت آ کر گزر بھی گئی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””’
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...