لائبہ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی جواد اسکے ساتھ آکر کھڑا ہوا۔کیا مسئلہ ہے تمہارا کیوں پیچھا کررہے ہوں۔ لائبہ غصے سے پوچھنے لگی۔ وہ میں مجھے آپ کے گھر کا ایڈریس چاہیے۔جواد نے نظریں جھکا کر کہا کیوں۔ لائبہ نے اس سے پوچھا۔ وہ مجھے کام ہے۔ جواد نے بتایا۔ مجھے نہیں دینا آپ کو اپنے گھر کا ایڈریس اب یہاں سے تشریف لے جائیں۔ اوہ تو مس سائیکو آج کسی اور پر چیخ رہی ہے۔سمیر جو جم سے باہر نکلا تھا کہنے لگا ۔ دیکھو مجھے تنگ مت کرو۔لائبہ کو حد سے زیادہ ہوا کہتے ساتھ سڑک کراس کر کے دوسری طرف آ گئی۔ تم اللہ میں کہاں جا کر اپنا سر مارو ایک پاگل سے بچ کر آئی ہوں دوسرا پاگل مل گیا۔لائبہ رونے والی ہو گئی تھی۔میں جارہا ہوں اور آئندہ کبھی تمہارے سامنے نہیں آؤں گا۔ کہتے ساتھ جانے لگا۔تھینکیو۔ لائبہ نے اسے کہا۔اور کبھی بات بھی نہیں کروں گا۔ سمیر نے بتایا۔ڈبل تھینکیو۔لائبہ نے کہا سمیر رک گیا۔ میری بات سنو اب میں آسمان سے گرو یا میرا سر پٹھے بے شک میں مرنے والی ہوں پلیزززززز میرا پیچھا مت کرنا۔ لائبہ نے پلیززز کو کھینچا۔ اوکے بیب۔ سمیر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔اے بیب کسی کہا ۔لائبہ چیخی۔کیا ہوا۔ سمیر ڈرا لائبہ غصے سے گھورنے لگی۔سمیر سر سمیر ایک سیلفی آج تک صرف انٹرویو میں دیکھا ہے آپ کو پلیز ایک سیلفی۔ وہ لڑکی اسے کہنے لگی۔یہ شیور۔سمیر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ کتنی پیاری لڑکی ہے ۔ سمیر نے اسے دیکھ کر کہا۔تو کیا میں پیاری نہیں ہوں ناجانے کیوں لائبہ نے اس سے پوچھ لیا۔نہیں نہیں تم بہت پیاری ہو لمبے بال بڑی بڑی آنکھیں تیکھی ناک گلابی لب پیاری ہو بہت پیاری بس جو غصہ کرتی ہوں وہ اس معصوم چہرے پر سوٹ نہیں کرتا۔سمیر نے بتایا ۔اوہ تو یہ ہے آپکی گرل فرینڈ۔وہ لڑکی مسکراتے ہوئے کہتی چلی گئی۔اوہ سنوں ایسا کچھ نہیں میں کوئی اسکی گرل فرینڈ نہیں ہوں۔لائبہ نے اسے پکارا۔
وہ کمرے میں چیزیں پھیلائی بیٹھی تھی تبھی مہد اندر آیا تم یہاں کیا کررہی ہو۔ مہد نے اسے دیکھ کر پوچھا۔اوہ تو اب یہ مسٹر مجھ پر روعب جمائے گا میں بلکل روعب نہیں جمانے دوں گی۔مہوش دل میں سوچتے ہوئے بولی۔نظر نہیں آرہا کام کررہی ہوں۔ مہوش نے بتایا۔ یہ کیا سمان پھیلایا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا۔ ایکسکیوزمی یہ میرا سمان ہے سمجھیں اگر اتنی ہی تکلیف ہے تو نکل جاؤں یہاں سے۔ مہوش کو غصہ آیا۔آہاں میرے ہی کمرے میں کھڑے ہو کر تم مجھے کہ رہی کہ میں نکلوں۔ اس نے بولا۔ کیونکہ تم مجھے کام نہیں کرنے دے رہے ۔مہوش نے کہا۔نکلوں کمرے سے۔مہد نے اسے کہا۔ ٹھیک ہے پھر میں کہ دیتی ہوں تمہاری مام کو ۔ مہوش کہتے ساتھ چلی گئی ۔۔میں نہیں ڈرتا کسی سے۔کہتے ساتھ بیڈ پر بیٹھا۔مہوش غصے سے باہر آ گئی۔بھائی جلدی گھر آؤ ہوں ایک لڑکی گھر میں ہے اتنا بولتی ہے سر کھا جاتی ہے اور اتنی انسلٹ کی ہے میری۔ مہد نے سمیر کو فون کر کے کہا۔اوکے اوکے میں آرہا۔سمیر نے کہتے ساتھ فون رکھا اور چلا گیا جواد ابھی تک سامنے کھڑا اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا اففف یہ لڑکا۔ لائبہ کہتے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگ گئی۔
اسلام و علیکم چاچی۔ لائبہ گھر آتی سلام کرنے لگی۔وعلیکم اسلام ایک کام کردیں لائبہ کچن میں کچھ برتن نکلے پڑے ہیں انہیں دھو دیں میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔شہناز نے اس سے کہا۔ جی وہ کہتے کمرے میں آئی اپنا بیک رکھا بالوں کا جوڑا بنایا اور ہاتھ منہ دھو کر باہر آئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔کہاں ہے وہ لڑکی۔ سمیر نے اس سے پوچھا۔ وہ۔مہد نے اسکی طرف اشارہ کیا ۔ سمیر نے اسے دیکھا مہوش اسے دیکھنے لگی ۔اسنے میری اتنی بے عزتی کی۔ مہد نے اسے بتایا۔ نہیں یہ ایسا کر ہی نہیں سکتی شی از سمپل شی از کیوٹ تم نے ہی اسے کچھ کہا ہوگا جو یہ بولی ہو گی ورنہ نہیں۔سمیر اس پیاری سی لڑکی کو دیکھ کر کہا بھائی نہیں یہ۔ مہد بول رہا تھا سمیر نے اسے چپ کروایا۔آپ بہت انٹیلیجنٹ ہیں۔مہوش مسکرا کر کہنے لگی۔ تھینکس۔ سمیر بھی مسکرایا۔آپ کام کرو آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ سمیر کہتے ساتھ چلا گیا مہوش نے مہد کو منہ چڑھایا۔تمہاری تو۔ مہد کو غصہ آیا۔جاؤ جاؤ بہت دیکھے تمہارے جیسے۔مہوش اسے کہتے ساتھ کام کرنے لگی۔
لائبہ برتن دھو کر کھانا کھا آرام کرنے کے لیے کمرے میں آئی تھی تبھی مہوش گھر آئی۔اسلام و علیکم امی۔ مہوش نے سلام کیا۔ وعلیکم السلام۔ شہناز نے جواب دیا۔کھانا بنا پڑا ہے کھا لو۔ انہوں نے کہا۔جی میں منہ ہاتھ دھو کر آئی۔ مہوش کہتے ساتھ کمرے کی طرف چلی گئی۔ لائبہ سے اس کے بعد ملاقات کی نہیں ہوئی میری۔ ندا مہد کو کہنے لگی۔ان سے پوچھے ان کی ہر روز ہوتی ہے۔مہد نے سمیر کی طرف اشارہ کیا۔ سمیر تمہاری آج لائبہ سے ملاقات ہوئی ہے۔ندا نے سمیر سے پوچھا جو کھڑا مسکرا رہا تھا ۔جی۔ سمیر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔اسے غصہ نہیں آیا ندا نے مہد سے کہا۔ جی میں خود حیران ہوں۔ مہد نے ندا کو ہلکی آواز میں کہا۔ تو کیا میں پیاری نہیں ہوں۔سمیر کے کانوں میں پھر لائبہ کی آواز گونجی۔جیلس ہوئی تھی تو ہوں سمیر تمہیں کیا ہورہا ہے۔سمیر خود سے کہنے لگا۔اچھا کیسی ہے لائبہ۔ ندا نے پوچھا۔ بہت پیاری۔سمیر کے منہ سے پھسلا ندا کا منہ حیرانگی سے کھل گیا۔ کیا کہا ہے پھر کہنا۔ ندا نے بولا تو مہد اونچا اونچا ہنسا بہت بدتمیز ہے سمیر فوراً ہوش میں آیا ندا مسکرائی ۔ میں نے تم دونوں کے لیے لڑکیاں پسند کر لی ہے سمیر کے لیے لائبہ اور مہد کے لیے مہوش جو کل پیاری سی بچی آئی تھی۔ ندا نے ہنستے ہوئے کہا۔کیا میں مرنا پسند کرو گا میں نے اس لڑکی سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔ مہد نے بتایا سمیر اسکے انداز میں ہنس دیا۔ایک منٹ اس دفعہ سمیر چوہدری شادی کے نام پر کچھ نہیں بولا۔ ندا نے اسے دیکھا۔کیونکہ میں تھک چکا ہوں آپ سب کو بار بار بول کر۔ سمیر مسکراتے ہوئے کہتا چلا گیا۔کچھ تو ہوا ہے۔ندا نے اسے جاتا دیکھتے ہوئے کہا۔پیار ہو گیا ہے۔مہد نے بولا۔ندا مسکرائی
لائبہ آفس سے گھر واپس آئی اور سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئی تم۔لائبہ نے اسے دیکھا۔ جی میں۔جواد فوراً کھڑا ہوا۔تم یہاں کیا کررہے ہو۔لائبہ نے پوچھا۔لائبہ بیٹا کمرے میں جاؤں مہوش اپنی باجی کو کمرے میں لے جاؤں۔ شہناز نے فوراً کہا مہوش اسے کمرے میں لے آئی یہ کیوں آیا ہے۔ لائبہ نے مہوش سے پوچھا۔آپ کا رشتہ لے کر آیا ہے۔ مہوش نے بتایا۔واٹ میں نے اسے منع کردیا تھا یہ پھر بھی آ گیا۔ لائبہ کو غصہ آیا۔ابھی تیار ہو جائیں امی کہ رہی ہیں شاید امی نے ہاں بھی کردی ہیں۔ مہوش نے بتایا لائبہ کی آنکھیں پھیل گئی۔اگر آپ کو اعتراض ہے تو منع کردیں ۔ مہوش نے کہا۔ نہیں نہیں اگر چاچی کو کوئی اعتراض نہیں ہے مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔لائبہ مسکرا کر کہنے لگی۔ہاں وہ ندا دادی ہیں کوئی شاید آپ ان سے ملی ہوئی ہے وہ آپ کا پوچھ رہی تھی۔ اس نے بتایا۔انہیھ کیسے پتہ لگا تم میری بہن ہو۔لائبہ نے پوچھا۔ وہ کوئی سمیر چوہدری کافی اچھے انسان ہیں شاید وہ جانتے تھے مجھے۔ مہوش نے بتایا۔اچھا کل چلے گے ملنے۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ مہوش نے کہتے ساتھ اسکے سر پر دوپٹہ دیا۔چلیں۔ اس نے پوچھا لائبہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
یہ ہماری بیٹھی بڑی ہی پیاری سلجھی ہوئی ہر کام کر لیتی ہے بہت اچھی ہے۔ شہناز مسکراتے ہوئے لائبہ کی تعریفیں کرنے لگی۔وہ تو چہرے سے پتہ لگ رہا ہے۔جواد کی ماں مسکرا کر کہنے لگی۔لائبہ بھی پھیکا سا مسکرائی ۔ہمیں رشتے سے کوئی اعتراض نہیں لڑکی پسند ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ہمیں بھی نہیں ہے میں تو کہتے ہوں اسی جمعے منگنی رکھ لیں۔ شہناز خوشی سے کہنے لگی۔جی ٹھیک ہے اب ہمیں اجازت دیں ہم چلتے ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا شہناز بھی مسکرائی وہ لوگ چلے گئے لائبہ خاموشی سے کمرے کی طرف آ گئی۔ تبھی فیاض صاحب آئے۔لائبہ بیٹا اگر آپ کو اس رشتے سے کوئی اعتراض ہے تو بتادو مجھے۔ انہوں نے پیار سے پوچھا۔ نہیں ہے تلخی سے انہیں دیکھے بغیر جواب دیتی باتھروم کی طرف بڑھ گئی وہ چپ چاپ کمرے سے باہر آ گئی۔
صبح وہ لوگ ناشتہ کررہے تھے تبھی مہوش اور لائبہ آئے۔اسلام و علیکم لائبہ ندا کو دیکھ کر مسکرائی۔ وعلیکم السلام کیسی ہو۔ ندا ناشتہ چھوڑ کر اسکے پاس آئی میں ٹھیک ہوں آپکی طبیعت کیسی ہے۔ لائبہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔میں بھی ٹھیک ہوں اندر آؤ۔ ندا سے اندر لائی لائبہ کی نظر سمیر پر گئی اور اگلے ہی لمحے اس نے نظریں دوسری طرف کر لی۔ اسلام و علیکم۔ لائبہ نے قیصر چوہدری کو سلام کیا۔وعلیکم اسلام انہوں نے جواب دیا۔ناشتہ کر ہمارے ساتھ۔ندانے کہتے ساتھ اسے سمیر کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھایا کروں آجاؤ مہوش تم بھی۔ندا نے مہوش کو کہا۔نہیں نہیں میں کر کے آئی ہوں میں کام کرتی ہوں۔مہوش نے مسکراتے ہوئے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا لائبہ خاموشی سے بیٹھی رہی۔ اور بتاؤں لائبہ کیا ہورہا ہے ۔ ندا نے پوچھا کچھ نہیں بس جاب ہورہی ہے اور اس جمعے منگنی بھی ہے۔ لائبہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی سمیر جو جوس پی رہا تھا اس نے گلاس رکھا پتہ نہیں کیوں اسے یہ بات سن کر اچھا نہ لگا اچھا کس سے۔ ندا کو بھی کوئی خاص خوشی نہ ہوئی۔میری چاچی نے پسند کیا ہے۔ لائبہ نے بتایا سنائیں غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اچھا دادی اب میں چلتی ہوں مجھے دیر ہورہی ہے آفس کے لیے میں بس آپ سے ملنے آئی اور انگیجمنٹ میں آپ سب ضرور آئیے گا اللہ حافظ۔ وہ سب کو کہتے ساتھ چلی گئی ۔
لائبہ آفس میں بیٹھی تھی اور کچھ سوچنے میں مگن تھی۔کیسالگا میرا سرپرائز۔ جواد آتا کہنے لگا۔سمیر تم یہاں بھی۔ لائبہ کہتے ساتھ رکی اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھنے لگی۔سمیر کون سمیر میں تو جواد ہوں۔جواد نے بتایا۔ہاں وہی جواد مجھے بہت کام ہیں بعد میں بات کروں گی۔لائبہ نے کہتے ساتھ فائلز کھولی۔جی ٹھیک ہے۔ جواد نے بولا اور چلا گیا۔میں نے سمیر کا نام کیوں لیا۔لائبہ سوچنے لگی۔ چھوڑ اس پاگل کو یاد کر کے کیا کرنا ہے۔لایبہ فوراً اپنی سوچ سے باہر آئی اور کام کرنے لگی
۔مہوش کام کرکے جانے لگی۔خیریت مس واکی ٹاکی آج تم کچھ بولی نہیں۔مہد نے اسکا راستہ روکا۔کہوں تو بولو ۔ مہوش غصے سے پوچھنے لگی۔نہیں بس ویسے ہی ۔ مہد نے اسے کہا۔اپنا منہ بند رکھو اور میرا راستہ چھوڑو ٹھرکی۔ مہوش کو بے حد غصہ آیا۔ مت بھولو تم میرے گھر مہد چوہدری کے گھر میں ہوں۔مہد نے اترا کر کہا۔ اوہ میں تو ڈر گئی ہٹو۔مہوش نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی اور پھر غصے سے کہنے لگی۔ کتنی بدتمیز ہو تم کاش تمہاری یہ باتیں سین بھائی سن لیتے۔ مہد نے کہا۔ مہد پلیز مجھے جانے دیں مت تنگ کریں۔مہوش فوراً معصوم بنی۔ مہد پریشان نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔کیوں تنگ کررہے ہو مہد اسے سمیر کی آواز اسکے کانوں میں آئی وہ مڑا۔اوہ تو یہ بات ہے۔ اس نے بولا نہیں بھائی میں تو کہ رہا تھا گھر ڈراب کردوں اگر پریشانی ہوگی جانے میں۔مہد نے سمیر کو مسکراتے ہوئے کہا مہوش بھی مسکرا رہی تھی۔ بتاؤں کیوٹی۔ سمیر نے پیار سے کہا۔نہیں میں چلی جاؤں گی۔ مہوش مسکراتے ہوئے کہتی چلی گئی اس ٹھرکی کو تو میں بعد میں دیکھوں گی۔ مہوش غصے سے کہتے ساتھ چلی گئی
۔لائبہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ باجی سو جائیں صبح جانا ہے۔ مہوش نے کہا ۔ ہاں سو رہی۔لائبہ کہتے بیڈ پر آئی ۔ سمیر چوہدری میں جانتی ہوں تم مجھے چاہنے لگے ہوں اعتراف کرلوں اگلے ہی دن ہاں کردوں گی۔لائبہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔سمیر فوراً نیند سے جاگا ۔ ادھر ادھر دیکھنے لگا کہیں بھی نہیں تھی لائبہ یہ کیا ہوا مجھے۔سمیر سوچ میں پڑ گیا۔مہد مہد بات سن۔ اسنے مہد کو ہلایا جی بھائی۔ میرے خواب میں خوبصورت لڑکی آئی ہوئی ہے مت ڈسٹرب کرو۔ مہد نیند میں بولا۔ تیری تو اٹھ۔سمیر نے اسے ہلایا کیا ہوا ۔ مہد نیند سے جاگا ۔ یار میں نے خواب دیکھا۔سمیر نے بتایا۔گڈ مجھے بھی دیکھنے دو۔مہد نے اسے کہتے ساتھ لیٹنے لگا۔خواب سن میں نے خواب میں لائبہ کو دیکھا۔سمیر نے بتایا۔کیا میرے کانوں کو یقین نہیں آیا۔ اس نے بے یقینی سے کہا۔مر جا میں نے کہا میں نے خواب میں لائبہ کو دیکھا اور آج صبح بھی برا لگ رہا تھا جب اسنے کہا رشتہ پکا ہو گیا سمجھ نہیں آرہا اب غصہ بھی نہیں آتا۔سمیر پریشانی سے کہنے لگی کافی نازک صورتحال چل رہی ہے یار یہ باتیں صاف ظاہر کرتی ہیں آپ عشق کرنے لگ گئے ہو میرے بھائی مجنوں بن گئی ہے۔ مہد نے مسکراتے ہوئے بولا سمیر نے اسے گھورا۔ایسا کچھ نہیں ہے بس یہ ویسے ہی ہورہا ہے۔سمیر نے شاید خود کو تسلی بخشی۔ایسی ویسی ہی سب کچھ ہوتا ہے۔مہد نے آنکھ ماری مر جاؤں تم۔ سمیر نے اسے کشن مارا ٹھیک ہے مررہا ہوں اللہ حافظ مہد کہتے ساتھ سو گیا۔سمیر کو نیند نہ آئی وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا وہاں لائبہ کو بھی نیند نہ آئی تھی
۔ لائبہ بھی کھڑکی کے پاس کھڑی سمیر کو یاد کررہی تھی۔میرا رشتہ پکا ہو گیا ہے کیوں سوچ رہی ہوں اسکے بارے میں۔لائبہ خود سے سوال کرنے لگی۔ کیا مہد ٹھیک کہ رہا ایم ان لو۔سمیر نے خود سے پوچھا سمیر کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی اور چہرے ایک دلفریب مسکراہٹ جگہ بنائی لائبہ بلوچ۔ مسکراتے ہوئے اسنے نام لیا۔جواڈ کسی لڑکی کے ساتھ کھڑا ہنس ہنس اسے اپنے ہاتھوں سے آئسکریم کھلارہا تھا سمیر اور مہد کی نظر اس پر گئی لائبہ کا رشتہ اسے سے پکا ہوا ہے۔ سمیر نے دیکھتے ہوئے بتایا تصویر اسے مہوش نے دیکھائی تھی آج صبح تبھی اس لڑکی کی نظر سمیر پر گئی۔میں پیسے دے کر آیا۔ جواد کہتے ساتھ آئسکریم والے کے پاس گیا سمیر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا لڑکی نے اسے آنکھ ماری سمیر ہنسنے لگا لائبہ جو گھر جارہی تھی اور سمیر اسے دیکھنے کے لیے ہی رکا ہوا تھا اسکی نظر اس پر گئی ۔ ٹھرکی کہیں کا کیسے دیکھ رہا ہے۔لائںہ غصے سے دیکھنے لگی سمیر کی نظر لائبہ ہر گئی لائبہ منہ بنا کر چلی گئی۔ اوئے پکڑ اسے ۔ سمیر نے مہد کو کہا۔لائبہ سنو۔سمیر اسکے پیچھے بھاگا لائبہ بغیر جواب دیے چلتی گئی۔ مت کروں پیچھا۔جب سمیر نے پیچھا کرنا نہ چھوڑا تو لائبہ غصے سے بولی۔بات کتنی ہے۔سمیر نے کہا۔ اس چڑیل سے کروں تم بات سمجھیں اب میرے پیچھے مت آنا بائے۔ غصے سے کہتے ساتھ گھر کے اندر چلی گئی۔یاررر۔ سمیر نے سانس بحال کیا۔یار تصویر تو لیتا سمیر اسکی لائبہ کا رشتہ ویسے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ سمیر نے پیر پٹکا اور غصے سے بھاگا کہاں گئے وہ سمیر مہد کے پاس آیا ۔ چلے گئے۔مہد آئسکریم کھاتے ہوئے بتانے لگا۔ایک تصویر نہیں لے سکتے تھے۔سمیر نے بہت لگائی۔میری آئسکریم میلٹ کو جاتی۔مہد آئسکریم کھانے میں مگن تھا ۔سمیر کو حد سے زیادہ غصہ چڑھا۔ایک منٹ کہیں آپ نے اقرار تو نہیں کر لیا ورنہ کبھی لائبہ کے پیچھے نہ جاتے ۔ مہد نے پوچھا۔تمہیں کیا تم کھاؤں۔ سمیر نے گھورا۔اوہوں دادی کو یہ نیوز گھر جاتے ہی دوں گا۔ مہد مسکراتے ہوئے کہنے لگا سمیر نے کوئی جواب نہ دیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...