وہ سب ناشتے کی میز پر موجود تھے۔ وہ لائبہ کیا ہے مفت تو کوئی رہنے نہیں دیتا آج کے زمانے میں۔ شہناز نے بات شروع کی۔لائبہ کا پراٹھے کی طرف ہاتھ بڑھاتا رکا۔ جی چاچی میں جلد ہی اپنے لیے کوئی جاب ڈھونڈتی ہوں۔ اس نے بتایا۔ اچھا تمہیں مل بھی جائیں گے ایسے کسی کو نہیں ملتی۔شہناز نے بولا فیاض خاموشی سے ناشتہ کررے تھے مہوش بھی خاموش تھی۔
نہیں میں نے بی کام کیا ہوا ہے کسی بھی بینک میں مجھے جاب مل سکتی ہے۔ اس نے بتایا۔ اوہ اچھا جلدی ڈھونڈ لوں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کہتے ساتھ انہوں نے چائے پی ۔جی جلدی ہی ڈھونڈ لوں گی۔ وہ مسکراتے لگی مہوش نے اسکی پلیٹ پر پراٹھا رکھا ۔تو سب خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے۔فیاض کو بہت خوشی ہوئی تھی کہ انکی بیٹی پڑھی ہوئی ہے مگر وہ ظاہر نہیں کروارہے تھے۔ لائبہ انہیں دیکھنا تک گوارہ نہ کرتی تھی بس مہوش کے ساتھ ہی ہوتی تھی دو دن تو ہوئے تھے آئے ہوئے مگر بہت زیادہ وہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگ گئے تھے۔
سیم۔ قیصر نے اسے پکارا۔یس ڈیڈ۔سمیر جو کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا قیصر کی آواز سے انکی طرف دیکھنے لگا۔ کب تم نے آفس میں دلچسپی لینی ہے۔ انہوں نے پوچھا۔سچ بتاؤ کبھی نہیں ڈیڈ آپ مجھے بار بار مت کہیے کریں جب میرا دل کرے گا میں خود جوائن کر لوں گا ابھی میرے انجوائے کرنے کے دن۔سمیر نے انہیں بتایا۔اور کب ہو گا دل۔ انہوں نے پوچھا۔شاید کل یا شاید کبھی بھی نہیں۔سمیر کہتے ساتھ ہنسا مہد نے بھی اسکا پورا پورا ساتھ دیا
۔جاؤ تم پڑھو اور تم اکیڈمی کیوں نہیں جارہے سر کی کال آئی تھی دو دن سے تم اکیڈمی بھی نہیں جارہے۔ قیصر نے مہد کو غصے سے دیکھا۔ وہ اس لیے نہیں جارہا نہ کوئی لڑکی آرہی ہے اور سر بھی ٹھیک توجہ نہیں دے رہے۔ مہد نے بتایا۔سچ بات بتاؤ کہ لڑکیاں نہیں آرہی اس وجہ سے ۔ انہوں نے گھورتے ہوئے کہا۔کتنے اچھے سے جانتے ہیں آپ مجھے ۔ مہد مسکراتے ہوئے بولنے لگا۔تم دونوں زندگی بھر نہیں سدھر سکتے ایسی اولاد دینے سے اچھا ہے نہ ہی دیتے۔ انہوں نے کہا۔ایسے نہیں کہتے ناشکری ہوتی ہے ۔ مہد نے آج ندا والا ڈائلاگ بولا۔میں تمہارا باپ ہوں تم نہیں۔ انہوں نے بولا۔ ہم بننا بھی نہیں چاہتے ۔ سیم اور مہد اکٹھے بولے۔وہ چلے گئے۔
مہوش اور لائبہ بیٹھے تھے ۔ چائے کی پتی بھی ختم ہے اب کیا کروں۔ شہناز اونچی آواز میں کہنے لگی۔امی میں لے آتی ہوں۔ مہوش نے بولا۔ارے نہیں اب تم کہاں جاؤں گی لائبہ تم چلی جاؤں۔ شہناز نے بولا۔جی میں چلی جاتی ہوں کہاں ہیں دکان۔ اس نے پوچھا۔ارے انہیں دکان کا بھی نہیں پتہ میں چلی جاتی ہوں۔ مہوش پھر بولی۔تم چپ ہو دکان بس یہ گلی چھوڑ کر اگلی گلی میں ہے۔شہناز نے بتایا۔پیسے تو ہوں گے تمہارے پاس ۔ اس سے پہلے لائبہ پیسے مانگتی شہناز نے پہلے ہی بول دیا۔ جی ہیں پڑے۔ کہتے ساتھ ڈوپٹہ سر پر کرتی اور اپنے بیگ سے پیسے نکالتی چلی گئی
۔بھائی یہاں کوئی لڑکی نہیں دیکھ رہی میں یہاں سے جارہا ہوں میں نے کہا تھا کورنگی علاقے میں اس وقت لڑکیاں نہیں۔ ہوتی۔مہد نے بتایا۔ میں لڑکیوں کو نہیں سگریٹ پینے کے لیے آیا ہوں یہاں۔ سمیر نے کہتے ساتھ اس کے کندھے پر سر رکھا پر مجھے لڑکیاں دیکھنی ہیں۔ اس نے ضدی انداز میں بولا۔چھوٹے ہو تم ابھی ایسی باتیں نہیں سوچوں چپ چاپ یہاں خاموش کھڑے رہو۔ اس نے غصے سے کہا وہ خاموش ہو گیا۔
وہ گھر کی طرف ہی جانے لگی جب ایک کتا اسکی طرف بڑھ رہا تھا وہ ڈرتے ہوئے دوسری طرف مڑ گئی اور تیز تیز بھاگنے لگی ۔اللہ تعالیٰ بچا لیں یہ تو پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا میرا۔ لائبہ کہتے ساتھ دوبارہ دکان کی طرف آ گئی کتا ابھی تک پیچھا کررہا تھا وہ دکان سے بھی آگے نکل گئی۔چل چلیں ۔سمیر سگریٹ پھینکتے ہوئے مڑا تبھی لائبہ تیز دوڑ لگاتی اسکی طرف آرہی تھی اس کا پاؤں مڑا
اس سے پہلے وہ گرتی سمیر نے اسے باہوں میں لیا لائبہ نے ڈر کے مارے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے سمیر اسے پکڑے کھڑا تھا دو تین منٹ تک جب وہ نیچے نہ گری تو اس نے اپنے چہرے سے ایک ہاتھ ہٹایا دونوں کی نظریں ملی پھر اس نے دوسرا ہاتھ بھی ہٹایا سمیر اسکی بڑی بڑی آنکھیں میں کھو سا گیا تھا مہد خاموش کھڑا دیکھ رہا تھا لائبہ کو جیسے ہی ہوش آیا لائبہ اس سے دور ہو کر سیدھا کھڑی ہوئی اور بغیر کچھ کہے وہاں سے جانے لگی جب سامنے کتے کو دیکھ کر دوبارہ سمیر کی طرف بھاگی اور اسکے پیچھے چھپ گئی۔
کتا ادھر ادھر دیکھتا خاموشی سے چلا گیا لائبہ بھی اسکے پیچھے سے باہر آئی اور جانے لگی۔ ایکسکیوزمی۔سمیر نے اسے پکارا وہ مڑی۔ تم جان کر یہاں آئی ہوں ۔ سمیر اسے دیکھتے ہوئے کہنا لگا۔ جی مجھے سمجھ نہیں ۔ لائبہ کہتے ساتھ جانے لگی۔ تم نے ایک نوجوان ہینڈسم لڑکا دیکھا رات کا وقت کوئی بھی نہیں تم نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ سمیر اسکے پیچھے آیا۔ آپ پاگل ہو۔لائبہ رک اسے دیکھ کر کہنے لگی۔ ایم ناٹ پاگل مگر تم مجھے دیکھ کر ضرور پاگل ہو گئی ہو اس لیے تو بار بار میرے پیچھے چھپ رہی تھی اب یہ مت کہنا تم کتے سے ڈرتی تھی اسلیے ۔ سمیر بولتا چلا جارہا تھا۔پتہ نہیں کس پاگل سے ٹکر گئی میں پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا۔ لائبہ کہتے آگے بڑھ گئی۔اوہ میڈیم میری بات کا جواب دو۔ سمیر اس کے پیچھے پھر آیا۔میرا پیچھا کرنا بند کروں۔لائبہ نے اسے منع کیا۔ سات میں تمہارا پیچھا میں نہیں تم میرے پاس آئی تھی ایک دفعہ نہیں دو دفعہ۔ سمیر نے انگلی کی مدد سے وکٹری بنا کر بولا۔ ہاں تو وہ میں ڈر رہی ہوں کتے سے۔ لائبہ نے بتایا۔ تم لڑکیاں بس لڑکوں کے قریب آنے کا بہانا ڈھونڈتی ہو۔ سمیر ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ پتہ نہیں کس پاگل کتے نے کاٹا تھامجھے کہ میں اس پاگل کے پیچھے چھپوں۔ لائبہ نے سر پکڑ لیا
مہد حیرانگی سے سمیر کو دیکھ رہا تھا پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا سمیر چوہدری کسی لڑکی کے پیچھے خود گیا ہو ۔ بھائی۔چلوں مہد اس کے پاس آیا۔ ادھر سے لے جانے کے بعد سب سےپہلے اپنے بھائی کو ڈاکٹر سے چیک کروانا پاگل ہے یہ یا پھر پاگل خانے بھیج دو۔ لائبہ کہتی جانے لگی۔تم کون ہوتی مجھے کہنے والی۔ میں جہاں مرضی جاؤں میں تو پاگل ہوں مگر تم سائیکو ہو سائیکو۔ سمیر کو غصہ آیا۔ بتانے کے لیے شکریہ سر نہ کھاؤں جاؤں یہاں سے کتے سے زیادہ مجھے اس سے بچ کر رہنا چاہیے پاگل پاگل پاگل۔ لائبہ غصے سے کہتے ساتھ جانے لگی۔ اوہ میڈیم سنو سمجھتی کیا ہو خود کو۔سمیر کو غصہ چڑھا۔ بھائی چلوں بس بہت ہو گیا کیا۔ آپ اس بیچارےکو تنگ کررہے تھے ۔ مہد نے پوچھا۔ بیچاری کہیں سے لگ رہی تھی تمہیں وہ سائیکو تھی سائیکو ۔ سمیر غصے سے کہتے ساتھ بال ٹھیک کرنے لگا اچھا چلوں گھر۔مہد اسے گھر لے گیا۔پاگل کہیں کا بدتمیز ٹھرکی لڑکی دیکھی نہیں بات کرنا شروع۔ گھر آتے ساتھ غصہ کرنے لگی۔ ہوا کیا ہے۔مہوش نے پوچھا۔تم چھوڑو مت پوچھیں مجھے آئے گا پھر غصہ اس لیے پہتر ہے دھندا پانی پیو اور اس پاگل کو بھول جاؤں۔ لائبہ نے کہتے ساتھ فرج سے پانی کی بوتل نکالی اور پانی پینے لگی۔ کے آئی پتی۔ شہناز آتی پوچھنے لگی۔ جی لے آئی ہوں۔ لائبہ نے بتایا۔اچھا تم دونوں سو جاؤں اب پھر صبح جاب بھی تو ڈھونڈنے جانی ہے لائبہ نے۔شہناز نے کہا تو وہ دونوں چلے گئے۔
سمجھتی کیا تھی خود کو مجھے پاگل کہ رہی تھی مجھے سمیر چوہدری کو خود کو دیکھا تھا سائیکو تھی سائیکو۔ وہ گھر آتے ساتھ غصہ کرنے لگا ۔ ہوا کیا ہے۔ندا نے پوچھا۔ دادی ایک لڑکی۔ مہد ابھی اور کچھ کہتا ندا بولی۔ مطلب سمیر کو لڑکی پسند آ گئی ہے اس گھر میں بہو آئے گی نام کیا ہے کیسی دیکھنے میں۔ ندا نے مہد سے پوچھا۔نام نہیں پتہ دیکھنے میں اچھی تھی۔مہد نے ندا کو بتایا۔آپ دونوں کیا بول رہے ہیں میں اسے پسند نہیں کرتا زہر لگی ہے وہ مجھے اور آپ میری بیوی بنا نے کا سوچ رہے اسے میں مر جاؤں گا اس سائیکو اور بدتمیز لڑکی سے کبھی شادی نہیں کروں گی۔ سمیر غصےسے بتانے لگا۔ مطلب میرا دل پھر اداس ہو گیا تمہیں وہ نہیں پسند آئی۔ انہوں نے اداسی سے کہا۔ بلکل نہیں میں اور اس سائیکو کو پسند کروں گا نو نیور۔ غصے سے کہتے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔لڑکی نے زیادہ سنا دی کیا۔ندا نے مہد سے پوچھا۔اس نے تو یہ تک کہ دیا جا کر علاج کرواؤں اسکا یا پاگل خانے چھوڑ دوں۔ مہد نے بتایا۔یعنی کافی زیادہ ہو گئی سمیر کی۔ ندا کہنے لگی۔انہیں کس نے کہا تھا خودبخود اسکے پیچھے جائیں وہ لڑکی کافی کانفیڈینس اور سٹرانگ تھی۔مہد نے بتایا۔ چھوڑو ٹھیک ہو جائے گا کچھ دیر میں۔ ندا کہتے ساتھ صوفے پر بیٹھی ۔
امی دعا کرنا آپکی لائبہ کو جاب مل جائیں۔وہ رباغہ کی تصویر دیکھ کر کہنے لگی۔بیت یاد آتی ہے آپکی۔کہتے اس نے سنبھال کر تصویر رکھی اور جگ اٹھاتی کمرے سے باہر آئی کچن میں آئی تو فیاض کو کھڑے پایا انہیں نظر انداز کرتی جگ میں پانی بھرنے لگی۔لائبہ بیٹا۔ انہوں نے پکارا وہ مڑی مگر بولا کچھ نہیں۔رباغہ کیسی ہے وہ کہاں ہیں۔انہوں نے پوچھا۔ اس دنیا سے چلی گئی۔ کہتے ساتھ وہاں سے۔ جانے لگی۔ کیا ہوا تھا۔ فیاض پریشانی سے پوچھنے لگے۔یہ جھوٹی فکر مت کریں ۔ کہتے ساتھ چلے گئے اور وہ خالی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ کمرے میں آئی اور چپ چاپ اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئ
مجھے کہ رہی تھی میں پیچھا کررہا ہوں میں کب پیچھا کررہا تھا اسکا۔سمیر نے پوچھا۔ ہاں تو ٹھیک تو کہ رہی تھی کررہا تھا اسکا پیچھا۔ مہد نے بتایا سمیر نے اسے دیکھا۔تم اسکی سائیڈ پر ہو یامیری۔ اس نے مہد کو غصے سے دیکھا۔ آپ کی مگر آپ یہ کیوں کہ رہے جیسے وہ آپکی دشمن ہو ۔مہد نے پوچھا۔ آج سے وہ میری دشمن ہی ہے۔ سمیر نے بتایا۔کیا واقع بھائی مگر بحث آپ نے شروع کی تھی۔اس نے بتایا۔ شیٹ ایپ بند کرو اسکی سائیڈ لینا ۔ سمیر کہتے ساتھ باتھروم کی طرف بڑھا اور وہ خاموشی سے فون پر گیم کھیلنے لگا۔ وہ باتھروم سے باہر آیا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔لائٹ بند کرو۔ کہتے ساتھ ادھر منہ کر گیا۔
تم کہاں جارہے ہو صبح صبح۔سمائیا نے پوچھا۔بس ایک کام ہے وہ کرنے جارہا ہوں مہد کو ساتھ لے کر ہی جارہا ہوں۔سمیر نے بتایا۔مہد کے بغیر تم کچھ کرتے ہو۔ سمائیا نے کہا۔قچھی بات ہے پیار ہے دونوں میں اتنا خوش ہونے کے بجائے منہ بنارہی ہے ندا نے مداخلت کی سمائیا بغیر جواب دیے کمرے کی طرف بڑھ گئی سمیر اور مہد چلے گئے تبھی قیصر صاحب آئے۔سمائیا کہاں ہیں۔انہوں نے پوچھا۔بیٹا جی اس کے بغیر بھی کچھ ہے یا نہیں شادی کو تیس سال ہو گئے مگر ابھی تک سمائیا سمائیا کرتا رہتا ہے ندا منہ بنا کر کہنے لگی وہ شرمندگی سے سر جھکائے ڈائننگ ٹیبل پر آئے۔ ناشتہ تیار ہے لگادو۔تبھی سمائیا آئی۔نی۔ قیصر صاحب اخبار دیکھتے کہنے لگے وہ ناشتہ لگانے لگی ندا منہ بنائے اسے دیکھ رہی تھی سمائیا انہیں نظر انداز کرتی اپنا کام کرنے لگی۔
باجی آپ کو پتہ لگ جائے گا جگہ کا۔ مہوش نے پوچھا۔ ہاں لگ جائے گا ۔ لائبہ کہتے ساتھ سر پر دوپٹہ کرتی گھر سے باہر گئی۔سن۔زہناز کی آواز سے وہ رکی۔ جی ۔ اس نے پوچھا۔ دعائیں تو لے جا۔ شہناز نے اسے دعائیں دی وہ مسکراتے ہوئے چلی گئی۔وہ رکشے پر بیٹھی کچھ دور چلتے رکشے خراب ہوگیا۔بھائیا کیا ہوا۔لائبہ نے پوچھا پتہ نہیں باجی آپ دو منٹ باہر آئے میں دیکھتا ہوں۔ اس نے بتایا جلدی کرنا میں اس دکان میں ہوں۔لائبہ کہتے ساتھ دکان پر گئی
کسی سے ٹکر ہوئی لائبہ نے اسے دیکھا سمیر نے اسے۔ تم۔دونوں نے اکٹھا۔تم میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی۔سمیر غصے سے کہنے لگا۔میں کیوں کروں گی تمہارا انفیکٹ تم میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آ گئے ہو۔لائبہ کو بھی غصہ آیا۔مجھے پاگل نہیں ہوں جو تمہارا تم سائیکو کا پیچھا کروں گا۔سمیر غصے سے کہنے لگا۔ پاگل ہو تم میں نے کل رات ہی بتایا تھا تمہیں۔ لائبہ نے یاد دلایا۔میں نے بھی تمہارا رات کو بتایا تھا تم سائیکو ہو۔ سمیر نے بھی یاد دلایا۔ پاگل پاگل پاگل۔لائبہ غصے سے بولی۔مجھے لگتا ہے تم مجھے دیکھ کر دیوانی ہو گئی ہو میرے اوپر فدا ہو گئی اس لیے تم میرا پیچھا کررہی ہو اتنا۔سمیر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ جس لڑکی کی آنکھیں نہیں ہوں گی وہ ہی دیکھ کر تم پر فدا ہو سکتا اور تو کوئی نہیں۔ لائبہ اسے بتانے لگا۔یہ انسلٹ ہوئی ہے میری۔سمیر نے مہد سے پوچھا۔اس سے کیا پوچھ رہے ہومجھے سے پوچھوں۔جی ہاں تمہاری انسلٹ کی ہے۔لائبہ نے بتایا۔یو۔سمیر نے غصے سے انگلی دیکھائی یو کے آگے انگلش ختم ہو گئی۔لائبہ نے پوچھا۔یہ لڑکی پاگل کردے گیمجھے۔ سمیر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔پاگل ہو ا کیا ہے پاگل ہو تم۔ لائبہ اسے دیکھ کر بتانے لگی تم ہوتی کون ہے مجھے پاگل کہنے والی۔ سمیر اس سے پوچھنے لگا۔صرف میں نہیں تم جس کے پاس بھی جاؤ گے وہ یہی کہے گی تم پاگل ہو۔ لائبہ کہاں چپ ہونے والی تھی۔ب
اجی رکشہ ٹھیک ہو گیا ہے آجائیں۔ رکشے والا آتا کہنے لگا۔ شکر ہے اللہ۔ کہتے ساتھ کھانے لگا۔میرا جواب سن کر جاؤں اوہ مس سائیکو ۔ سمیر غصے سے چیخنے لگا سر پلیز آپ باہر چلے جائیں کسٹمر پریشان ہورہے ہیں۔ دکان والے نے کہا۔سوری سوری۔مہد کہتے ساتھ اسے لے گیا۔لڑکی نہیں یہ پوری پٹھاکہ ہے۔مہد اسے جاتا دیکھ کر بولا۔ سائیکو ہے سائیکو۔ سمیر بھی غصے سے رکشے کو دیکھ رہا تھا۔دماغ خراب دیا پاگل نہ ہو تو پتہ نہیں کون سی منہوس گھڑی تھی جب یہ ملا تھا مجھے ۔لائبہ غصے سے کہنے کگی۔اللہ تعالیٰ بس اب مجھے نارمل کردیں بینک آنے ہی والا ہے۔لائںہ اوپر دیکھ کر کہنے لگی۔کچھ ہی دیر میں وہ بینک میں تھی اس نے انٹرویو دیا واپس جارہی تھی بس سٹاپ پر کھڑی ہو کر بس کا ویٹ کرنے لگی۔رکزے سے جاؤ گی زیادہ پیسے لگے گے کل اگر فون آ بھی جاتا ہے بینک والوں کا تو پھر کروائے کے پیسے تو رکھنے کی ہوں گے وہ دل میں کہنے لگی۔تبھی بس آئی وہ بس میں چڑھ گئی بہت لوگ تھے اس با لڑکیاں بھی تھی لڑکے بھی تھے وہ خاموشی سے ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی۔
کہاں رہ گئی ہے باجی دیر نہیں ہو گئی۔مہوش پریشان ہوئی کہاں گئی ہوئی لائبہ۔فیاض صاحب نے پوچھا۔ انٹرویو دینے۔ مہوش نے بتایا۔آتی ہی ہوگی۔ وہ کہتے ساتھ اندر چلے گئے تبھی لائبہ آئی کہاں رہ گئی تھی۔مہوش پریشانی سے کہنے لگی۔ وہ بس سے آئی ہوں اسلیے دیر ہو گئی۔ لائبہ نے بتایا۔اچھا آجائیں کھانے لگ گیا ہے آپکا انتظار کررہی تھی۔ مہوش نے بتایا۔اچھا بس میں منہ ہاتھ دھو آؤ پھر کھاتے ہیں لائبہ مسکراتے ہوئے کہتی کمرے کی طرف بڑھ گئی اور مہوش کچن کی طرف بڑھ گئی۔
لائبہ اور مہوش نے اکٹھے کھانا کھایا اور پھر برتن دھو کر وہ دونوں کمرے میں آ گئی۔انٹرویو کیسا رہا۔ مہوش نے پوچھا۔ ٹھیک ہو گیا ہے بس دعا کروں کل کال آجائیں۔ لائبہ نے اسے دیکھتے ہوئے بتایا۔انشاء اللہ آجائے گی۔ مہوش مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔یہ کمرا بہت اچھا ڈیکوریٹ کیا ہے کس نے کیا ہے۔لائبہ نے آج پہلی دفعہ کمرے کو بہت غور سے دیکھا تو پوچھنے لگی۔میں نے خود میں نے انٹیریئر ڈیکوریشن کا کورس کیا ہوا ہے مہوش نے بتایا۔ واؤ بہت اچھا ڈیکوریٹ کیا ہے تم نے یہ کورس کیا ہے تو تم جاب کیوں نہیں کرتی۔ لائبہ نے اس سے مشورہ دیا۔امی کبھی نہیں مانے گی۔ مہوش اداسی سے بتانے لگی۔تم بات تو کر کے دیکھوں اگر کچھ نہ بنادو میں کروں گی چاچی سے بات۔لائبہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔سچی تھینکس۔ مہوش اس کے گلے لگی کوئی بات نہیں۔لائبہ مسکرائی
۔ امی کوئی بات ہوئی لائبہ سے۔ تانیہ نے پوچھا۔نہیں کوئی بات نہیں ہوئی اب تو سارے کام خود کرنے پڑتے ہیں۔ روبینہ نے بتایا۔ لیکن یہ اچانک باپ نکل کیسا آیا۔ تانیہ نے پوچھا۔ اچانک وہ شروع سے اسکے گھر پتہ جانتی تھی اس لیے وہ چٹ جس پر اسکے باپ کے گھر کا پتہ تھا وہ اپنی بیٹی کو دے دیا اس نے۔روبینہ نے بتایا۔ اچھا۔ تانیہ کہتے ساتھ جوس پینے لگی۔
اچھا سیم پھر ملاقات ہوئی اس سے۔ندا نے جان کر پوچھا۔ دادی نام مت لیں اس سائیکو کا۔ سمیر کو فوراً غصہ آیا۔ اتنا غصہ کیوں ہورہا ہے۔ انہوں نے پوچھا۔غصہ نہ ہو تو اور کیا کروں سائیکو ہے وہ ہر بات بولتی بھی نہیں چیختی ہے چیختی ہے۔سمیر کا غصے سے برا حال تھا۔ اچھا اچھا۔اتنا غصہ نہ کر چہرہ لال ہو چکا ہے تمہارا۔ ندا نے اسے ریلیکس کیا۔میں جارہی ہوں یہی ساتھ والی دکان پر ڈرائیور کے ساتھ اپنے لیے کچھ لینے تم نے کچھ منگوانا ہے۔ندا نے پوچھا۔ نہیں۔سمیر نے منع کیا وہ چلی گئی
۔ بس بھی نہیں آرہی اتنی دیر ہو گئی ہے۔ لائبہ بس کا ویٹ کررہی تھی نظر سامنے ندا پڑ گئی جو ڈر پکڑ کر کھڑی تھی لائبہ انکی طرف بھاگی وہ گرنے ہی لگی تھی لائبہ نے انہیں سہارا دیا۔ آپ ٹھیک ہیں۔ لائبہ نے پوچھا۔ ہاں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔ ندا مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔آپ کس کے ساتھ آئی ہیں۔ لائبہ نے ان کا پسینہ صاف کیا۔ اکیلی آئی ہوں وہ گاڑی کھڑی ہے۔ انہوں نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ میں آپ کو گاڑی تک چھوڑ دیتی ہوں۔ لائبہ مسکراتے ہوئے کہتی گاڑی کی طرف بڑھی۔
امی کہاں ہیں۔ سمائیا نے پوچھا۔ کہیں باہر گئی ہیں۔مہد نے بتایا۔ دیر ہو گئی ہے کافی دیر سے گئی ہیں۔ سمائیا پریشانی سے کہنے لگی۔اندر آؤ بیٹا ۔ ندا لائبہ کو ساتھ لے آئی تھی۔دادی نہیں میں جاتی ہوں ۔ لائبہ نے منع کیا ارے اندر آؤ تم بھی تھکی ہوئی لگ رہی ہوں ٹھنڈا پانی پی لوں پھر میں تمہیں تمہارے گھر چھڑوا دوں گی۔ ندا اسے زبردستی اندر لے آئی وہ بیٹھی
سمائیا اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگی مہد کی نظر اس پر گئی تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آپ۔مہد نے اسکی طرف دیکھا۔لائبہ نے اسے دیکھا۔ تم۔ لائبہ نے بھی اسے دیکھا تبھی سمیر سیڑھیاں اترتا نیچے آیا لائبہ کی نظر اس پر گئی۔ بھائی۔مہد نے اسے پکارا۔اب کیا ہوگیا۔سمیر جو اپنے بازو ٹھیک کررہا تھا نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
تم تم میرا پیچھا کرتے کرتے میرے گھر پہنچ گئی۔ سمیر فوراً غصے میں آیا۔ پتہ نہیں کون سا گناہ کیا اللہ تعالیٰ جو ہر جگہ مجھے مل جاتا ہے یہ پڑسوں سے لے کر اب تک یہ تیسری دفعہ مجھے مل رہا ہے۔ لائبہ رونے والی ہو گئی تھی۔اب تو مجھے یقین ہو گیا تم مجھ سے محبت کرنے لگی ہوں۔ سمیر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔سیم یہ کیا بول رہے ہوتم۔سمائیا جو کھڑی حیرانگی سے انہیں دیکھ رہی سمیر کی بات پر فوراً بولی۔اور تم ہمارے ہی گھر کھڑے ہو کر ہمیں ہی سنا رہی ہوں۔سمائیا کو لائبہ ایک آنکھ نہ بھائی۔میں وہ۔لائبہ کہتے کہتے خاموش ہو گئی سمائیا غصے سے وہاں سے چلی گئی۔ میں تم سے کوئی محبت نہیں کرتی تم سے محبت کرنے سے اچھا ہے میں پھانسی لٹک جاؤ۔ لائبہ نے سمائیا کے جانے کے بعد اسے جواب سمیر کو حد سے غصہ آیا ۔ یہ لو جوس لائبہ ۔ندا نے اسے جوس دیا۔نہیں دادی مجھے دیر ہورہی ہے مجھے جانا چاہیے۔ لائبہ کہتے ساتھ اپنا بیگ اٹھاتی جانے لگی۔اچھا آتی رہنا۔انہوں نے کہا وہ مسکرا دی۔
اسےآپ لائی۔ سمیر حیرانگی سے کہنے لگا۔ ہاں بڑی پیاری بچی ہے۔ ندا مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔ یہی ہے وہ سائیکو دادی۔ سمیر نے بتایا۔ سمیر یہ ہے وہ تم نے مجھے جیسا بتایا تھا یہ بلکل بھی ویسی نہیں ہے بہت سلجھی ہوئی اور بہت پیاری بچی ہے۔ندا کہتے ساتھ چلی گئی اور سمیر نے غصے سے مہد کو دیکھا۔میں نے تو کوئی تعریف نہیں کی۔ مہد ڈرتے ہوئے بتانے لگا شیٹ ایپ وہ غصے سے کہتے ساتھ چلا گیا
کیا بنا انٹرویو کا۔ مہوش نے لائبہ سے پوچھا۔ انٹرویو ہی نہیں دے سکی پھر وہ پاگل ٹکر گیا۔ لائبہ نے غصے سے بتایا۔آخر اس پاگل کا مسئلہ ہے کیا۔مہوش نے پوچھا۔پتہ نہیں جہاں بھی جاتی ہوں وہی مل جاتا ہے تم یہ چھوڑو یہ بتاؤں چاچی سے بات کی۔ لائبہ نے پوچھا۔بات کی تھی مگر نہیں مانی۔مہوش نے بتایا۔ آؤ اکٹھے چل کر اجازت لیتے ہیں۔ لائبہ نے کہا نہیں نہیں میں کل پھر منانے کی کوشش کروں گی اگر نہیں مانی پھر آپ کرنا۔ مہوش نے بتایا۔ اوکے ٹھیک ہے۔لائبہ کہتے ساتھ باتھروم چلی گئی وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی اس کا فون بجا۔ باجی فون بج رہا ہے۔ مہوش نے کہتے ساتھ اسے دیا۔اسلام و علیکم۔ دوسری طرف کسی مرد کی آواز تھی۔وعلیکم اسلام جی۔ لائبہ نے پوچھا۔آپ کل جس بینک میں انٹرویو آئی تھی انہوں نے ہائیر کر لیا ہے آپ کو آپ کل سے صبح نو بجے آ سکتی ہیں۔ اس لڑکے نے کہتے ساتھ فون رکھا۔ مہوش ۔لائبہ چیخی کیا ہوا باجی۔مہوش پوچھنے لگی۔ مجھے جاب مل گئی۔ لائبہ نے اسے گلے لگایا۔ میں سب کو بتا کر آتی ہوں۔ مہوش کہتے ساتھ چلی گئی
لائبہ کی نظر اپنی ماں کی تصویر پر گئی۔امی آج آپ کی لائبہ کو جاب مل گئی کہا تھا ایک دن میں ضرور بینک میں جاب کروں گی۔ لائبہ اداسی سے کہنے لگی۔لائبہ باجی باہر آئے۔ مہوش کی آواز سن کر وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرنے لگی اور باہر آئی۔ مجھے پہلے پتہ تھا تمہیں نوکری مل جائے گی۔ شہناز نے اسے گلے لگایا لائبہ مسکرائی۔ فی کتنی ہے۔ شہناز نے پوچھا۔ لائبہ کے ساتھ ساتھ مہوش نے بھی شہناز کو دیکھا۔ امی فی نہیں ہوتا پے ہوتا ہگ۔ مہوش نے سمجھایا۔ہاں وہی وہی کہ رہی تھی میرا مطلب وہی تھا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ بیس ہزار۔ لائبہ مسکراتے ہوئے بتانے لگی۔او ایم جی اتنی اچھی نوکری مل گئی ہے ۔ شہناز کرو پیسے سن کر پاگل ہی ہو گئی۔ اس لیے کہ رہی ہوں مجھے بھی کرنے دیں مجھے اس سے بھی زیادہ ہے ملے گی۔ مہوش نے بتایا۔سچی۔شہناز خوشی سے کہنے لگی۔جی سچی۔ مہوش مسکراتے ہوئے بتانے لگی۔ٹھیک ہے پھر کل تو بھی جاب وٹرویو دینے چلی جائیں۔ شہناز کہنے لگی۔ انٹرویو ہوتا ہے ونٹرویو نہیں۔مہوش نے بتایا۔ہاں وہی وہی میرا وہی مطلب تھا۔شہناز کہتے ساتھ چلی گئی لائبہ اور مہوش اونچااونچا ہنسی۔
جلدی جا دیر ہو گئی تو نکال دے گا جلدی۔ شہناز نے اسے بتایا۔جی جارہی ہوں مہوش آجاؤں۔ لائبہ نے مہوش کو پکارس۔ جی آ گئی امی دعا کیجیے گا۔ مہوش نے کہا یہ دونوں کہا جارہے ہیں۔فیاض نے پوچھا۔ ارے آپ کی بھتیجہ کو نوکری مل گئی ہے اور مہوش گئی ہے اپنے لیے ڈھونڈنے جاب۔ اس نے بتایا۔ فیاض صاحب مسکراتے ہوئے چائے پینے لگے شہناز بھی مسکرائی۔
لائبہ مہوش کو اس کے آفس میں اتارتی جارہی تھی جب اس نے پرس میں دیکھا تو پیسے کم تھے اس نے پچاس روپے رکشے والے کو دیے اور بس اسٹاپ پر کھڑی ہو گئی وہ بس کا انتظار کرنے لگی نظر سامنے گئی اور آنکھیں پھیل گئی۔یہ کیا ہو رہا ہے جب سے یہ شخص مجھے ملا ہے سب کچھ غلط ہورہا ہے کہیں یہ مجھے دیکھ نہ لے پھر شروع ہو جائے گا میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں بھی پہنچ گئی۔لائبہ کہتے ساتھ اپنے منہ کے آگے فائل کر گئی۔میڈیم بس آ گئی ہے اس لڑکے نے بتایا اس نے اپنے چہرے سے فائلز ہٹائی سمیر کی نظر بھی اس پر گئی
۔ یہ لڑکی میرا پیچھا کرتے کرتے میرے جم تک پہنچ گئی ہے ۔ سمیر کو حد سے زیادہ غصہ آیا۔اس سے پہلے یہ میری طرف آئے لائبہ بیٹھ جا بس میں۔ وہ فوراً بس کی طرف بھاگی سمیر کی نظر دوبارہ گئی وہ وہاں نہیں تھی۔کہیں وہ خیال تو نہیں تھا یار یہ تو اب مجھے ایسے بھی نظر آنے لگی ہے۔ سمیر پریشان ہوا جب نظر بس پر گئی تو وہ شیشے والی سائیڈ پر بیٹھی موبائل دیکھ رہی تھی۔نو نو یہ سچ میں ہے۔ سمیر نے اسے دیکھا۔کون بھائی مہد باہر آتا پوچھنے لگا۔کچھ بھی نہیں چل چلیں۔ سمیر نے کہتے ساتھ گاڑی کے پیچھلی سیٹ پر پانی کی بوتل ہے اور بیٹھ کر چل دیا ۔
اففف دیر ہو گئی ہے مہوش اور چاچی پریشان ہوں گی۔ لائبہ تیز قدم اٹھاتی آرہی تھی جب ایک بچہ اسکے پاس آیا۔باجی غبارہ لے لیں ۔ اس بچے نے معصومیت سے کہا۔ لائبہ نے اسے دیکھا۔کتنا کا ہے۔ لائبہ نے اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرا ۔ دس روپے کا۔ اس نے بتایا۔لائبہ نے بیس روپے نکالے اور اسبچے نے دو غبارے دیے لائبہ نے مسکراتے ہوئے تھام لیا اور پھر جانے لگی
آگے آیا شخص نہیں دیکھا دونوں کی ٹکر ہو گئی غبارہ کے ہاتھوں سے چھوٹا لائبہ غبارے کو دیکھنے لگی ۔میرا بالون۔لائبہ روتی شکل بنا کر بولی سمیر نے اسے دیکھا۔اتنی بڑی ہو گئی ہو ابھی تک بالون سے کھیلتی ہوں۔ سمیر پریشانی سے پوچھنے لگا۔ شیٹ ایپ تم نے میرا غبارہ اڑا دیا۔لائبہ اسے غصے سے کہنے لگی میں نے میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ سمیر نے بتایا۔ تم مجھ سے ٹکرائے اور میرا غبارہ ہوا میں اڑ گیا۔ لائبہ نے اسے بتایا۔ تم سچ میں سائیکو ہو کون لڑکی ایک غبارے کے لیے روتی ہے ۔سمیر کو بھی غصہ آیا۔شیٹ ایپ ۔ لائبہ غصے سے کہتے ساتھ چلی گئی۔میں کیوں چپ ہوں۔وہ بولتے بولتے اسکی طرف مڑا لائبہ وہاں نہیں تھی سمیر نے آنکھوں سے گاگلز اتارے اور اسے جاتا دیکھا۔مس سائیکو ۔ غصے سے کہتے ساتھ آگے بڑھ گیا
۔ کیسا گزرا پہلا دن۔لائبہ فریش ہو کر باہر آئی تو مہوش نے پوچھا۔اچھا گزر تم بتاؤ تمہارا انٹرویو کیسا رہا ۔ لائبہ نے اس سے پوچھا۔اچھا رہا ہے اب دیکھیں کال آتی ہے یا نہیں۔ اس نے بتایا۔ انشاءاللہ آئیں گی بہت بھوک لگی ہے۔ لائبہ نے کہتے ساتھ پلیٹ میں سالن ڈالا اور کھانے کی میز پر آکر بیٹھی اور کھانا کھانے لگی۔
سیم سے کب بات کریں گی وہ بلکل بھی آفس میں دلچسپینہیں کے رہا اگر آفس ہی نہیں جوائن کرنا تو کچھ اور کر لے یوں ویلا تو نہ رہے۔قیصر صاحب نے سمائیا سے کہا۔ کروں گی کل ہی بات کروں گی۔ سمائیا کہتے ساتھ دوسری طرف منہ کر کے سو گئی۔مہد آج تو دفعہ اس سے ملا یار ہر دن وہ مجھے مل جاتی ہے پتہ نہیں یار ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ایک لڑکی مجھے بار بار یوں ملی ہو۔ سمیر نے پریشانی سے بتایا۔بھابی ہے وہ میں نے تو اسے دن کہ دیا تھا۔ مہد نے بتایا۔شیٹ ایپ فضول مت بولو ایسا کچھ بھی نہیں ہے مجھے بلکل پسند ہے مس تیکھی مرچ مس سائیکو ۔سمیر اسے غصے سے کہنے لگا۔آپ پھر کسی کو اس طرح یاد بھی نہیں کرتے۔مہد نے اسے بتایا۔ تو یار ہر روز وہ ملی گی تو انسان کو تو ٹینشن ہو گی ۔ سمیر نے اسے سمجھایا۔جی فیوچر کی ٹینشن ہے تو کل سے آفس جوائن کر لیں۔مہد نے ہنستے ہوئے کہا
۔مہد میں مذاق کے موڈ میں نہیں۔ سمیر واقع میں سریس تھا۔سوری سوری بھائی مگر ہر روز یوں ملنا کچھ تو گڑبڑ ہے اور ایک دن میں دو دو دفعہ ملنا حیرانگی کی بات ہے۔ اس نے بتایا۔ واقع یار میں خود پریشان ہوں۔ سمیر نے بتایا۔اچھا پریشان نہ ہو ایسا ہو جاتا ہے کبھی کبھی پیار بھی ہوجاتا ہے مگر مانتے نہیں ہیں لوگ۔مہد نے بتایا۔مہد تمہاری تو۔ سمیر نے کہتے ساتھ کشن اسے دے مارا۔ بھائی اچھا اب نہیں کہوں گا۔ اس نے معافی مانگی سمیر نے اسے چھوڑ دیا۔
لائبہ کمرے کی کھڑکی کے پاس اداس کھڑی تھی تبھی مہوش آئی کیا ہوا خاموش لگ رہی ہیں آپ۔ مہوش پوچھنے لگی نہیں بس امی یاد آ گئی ۔اس نے اداسی سے بتایا۔میں سمجھ سکتی ہوں ایک ماں کو کھونے کا درد کیا ہوتا ہے۔ مہوش نے بھی اداسی سے بتایا۔ہاں۔وہ بس اتنا ہی کہ سکی اور کھڑکی بند کرتی بیڈ پر لیٹ گئی فیاض باہر کھڑے سن رہے تھے وہ بھی اداس ہوئے تھے۔ کیا ہوا آپ یہاں کیا کررہی ہیں ۔شہناز آتی پوچھنے لگی۔ مہوش کو دیکھنے آیا تھا۔ وہ کہتے ساتھ چلے گئے شہناز ان کے کمرے کا دروازہ بند کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...