جس دن سے وہ ایک گم نام جزیرے کی سیاحت سے واپس آیا تھا۔ بہت اداس رہتا تھا۔ یہ بات تو نہیں تھی کہ اسے اس جزیرے کی یاد رہ رہ کر آتی تھی۔ کیوں کہ وہ جزیرہ اس قابل ہی کب تھا کہ اس کی زیارت دوبارہ کی جائے۔ کوئی بڑا فضول سا جزیرہ تھا۔ “کاناباتا کاٹا “اور واقع تھا وہ بحر الکاہل میں۔ وہ ایک کلچرل وفد کے ساتھ اس جزیرے میں گیا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ اس جزیرے میں رہنے والوں کے طور طریقے عجیب و غریب تھے۔ مثال کے طور پر وہ چائے یا کافی کی بجائے سونف، کا عرق پیتے تھے۔ مصافحہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے کان اینٹھتے تھے۔ کوٹ کے اوپر قمیص پہنتے تھے۔ ناچتے وقت روتے اور عبادت کرتے وقت زور زور سے ہنستے تھے۔ یہ ایسی باتیں تھیں جنہیں دلچسپ کہا جا سکتا ہے اور نہ جنہیں سنسنی کے لیے لوگوں کو بیتاب ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی اس نے “کانا بانا کاٹا “کا ذکر کسی مجلس میں کیا اسے سخت مایوسی ہوئی۔ اول تو “کانا بانا کاٹا “کا نام سن کر ہی سامعین قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔ نہیں تو کسی نے فوراً چمک کر کہا۔ “ہٹاؤ یار اس بکواس کو۔ تم وہاں کیا گئے ایک دم Bore بن کے لوٹے۔ جب دیکھو کانا بانا کاٹا۔ کوئی کام کی بات کرو۔
کئی بار اس نے موقع محل سمجھ کر کانا بابا کاٹا کا ذکر چھیڑا۔ لیکن لوگوں نے تو جیسے اس میں دلچسپی لینے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ایک دفعہ چند شاعروں کے درمیان بیٹھے ہوئے اس نے کہا۔ “آپ شاید نہیں جانتے کہ کانا بانا کاٹا میں تمام شاعر نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ اور وہ بھی چند گنے چنے موضوعات پر مثلاً گیدڑ۔ کھٹمل۔ چمگادڑ۔ سب سے بڑا شاعر اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جس نے گیدڑ پر سب سے زیادہ نظمیں لکھی ہوں میں آپ کو گولا گوقلا کی ایک نظم سناتا ہوں۔ گیدڑ کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔ ؎
———– “اے گیدڑ۔ اگر تجھے شب بھر نیند نہیں آتی۔ تو تُو مارفیا کا ٹیکہ کیوں نہیں لگوا لیتا۔ اے گیدڑ۔ اتنے زور سے مت چلا۔ کہیں ایسا نہ ہو۔ کہ تیرا بڑا سا پھیپھڑا پھٹ جائے۔ ”
“اور اے گیدڑ—— ”
اور کسی شاعر نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔ “خدا کے لیے رحم کرد ہمارے حال پر۔ کیوں بور کرنے پر تلے ہو۔ “اور اس کی حسرت دل ہی دل میں رہ گئی تھی کہ گیدڑ والی ساری نظم وہ شاعروں کو سنا نہ سکا۔
اسی طرح ایک دفعہ اس نے وکیلوں کی ایک محفل میں کہا۔ ” آپ شاید نہیں جانتے، کہ کانا بانا کاٹا میں وکیل کو۔ “ٹاپا ” کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں۔ “دلچسپ جھوٹ بولنے والا “اور “جج “کو “کاپا “کہا جاتا ہے جس کے معنی ہوئے “غلط فیصلہ کرنے والا “اور گواہ کو کہتے ہیں “ماپا “جس کے معنی۔۔۔ ۔۔ ۔ ”
اس پر ایک وکیل نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ اور آپ کو “باپا “کہا جاتا ہے۔ “جس کے معنی ہوئے فضول بکواس کرنے والا۔ ”
اس دن کے بعد اس نے معمول بنا لیا تھا کہ کسی مجلس میں کانا بانا کاٹا کا ذکر نہیں کرے گا۔ بلکہ اکیلے دُکیلے آدمی کے ساتھ بات چلانے کی کوشش کرے گا۔ ایک دن سڑک پر چلتے ہوئے ایک فقیر نے اس سے پیسے کا سوال کیا۔ اس نے فقیر کی ہتھیلی پر ایک لکڑی کا سکہ جو وہ کانا بانا کاٹا سے لایا تھا رکھتے ہوئے کہا۔
“جانتے ہو یہ کس ملک کا سکہ ہے۔ ”
“نہیں جانتا۔ ”
“یہ کانا بانا کاٹا کا سکہ ہے۔ جانتے ہو یہ ملک کہاں واقع ہے۔ ”
“نہیں جانتا۔ ”
“بحر الکاہل میں، جاپان سے تین ہزار۔۔۔ ۔۔ ۔ ”
“جی ہو گا۔ لیکن غریب پر ور میں نے تو پیسے کا سوال کیا تھا۔ ”
ایک دوکان دار سے صابن خریدتے وقت اس نے کہا۔ “کانا بانا کاٹا “میں صابن نہیں ہوتا۔ در اصل اس کی ضرورت بھی نہیں وہاں عام طور پر لوگ ایک سال بعد نہاتے ہیں۔ عجیب ملک ہے۔ وہاں دوکاندار کو “چمپیٹو “کہتے ہیں جس کے معنی ہوئے۔۔۔ ۔۔ ”
دوکاندار اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ “اچھا تو آپ کو کون سا صابن چاہیے۔ ”
ایک بار باغ میں ٹہلتے ہوئے اس کی ملاقات ایک ضعیف آدمی سے ہوئی۔ اس نے سوچا۔ موقعہ اچھا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ آداب بجا لانے کے بعد اس نے کہا۔ “بڑے میاں آپ کی کیا عمر ہو گی۔ ”
“کانا بانا کاٹا میں کسی شخص کو ساٹھ سال کے بعد زندہ رہنے کی اجازت نہیں۔ ”
“کانا بانا کاٹا کیا بلا ہے۔ ”
“بلا نہیں صاحب۔ ایک بڑا عجیب جزیرہ ہے۔ بحر الکاہل میں جاپان سے۔۔۔ ”
“اچھا ہو گا۔ ”
“لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں۔ کہ وہاں ساٹھ سال کے بعد کسی کو زندہ۔۔۔ ۔۔ ”
“تو کیا اسے پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ ”
“جی ہاں۔ ”
“بڑا بے ہودہ ملک ہے۔ ”
“جی نہیں۔ بے ہودہ نہیں۔ دیکھئے نا۔ اس قانون کا یہ فائدہ ہے کہ۔۔۔ ۔ ”
“اجی رہنے دیجئے۔ بزرگوں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک ! ”
“سنئے تو۔ آپ نے پوری بات توسنی نہیں۔ ”
“معاف کیجئے۔ میں ایسی فضول باتیں نہیں سنا کرتا۔ ”
آخر جب یہ حربہ بھی کوئی خاص کامیاب نہ رہا تو اس نے ایک اور تدبیر سوچی۔ کانا بانا کاٹا سے وہ اپنے ساتھ چند سنگ تراشی کے نمونے لایا تھا۔ وہ اس نے اپنے کمرے میں رکھ دیئے۔ اس کا خیال تھا کہ جب کوئی ملاقاتی اس سے ملنے آئے گا۔ تو ضرور ان پر نظر دوڑانے کے بعد ان سے متعلق سوال کرے گا، اور بات چل نکلے گی۔ لیکن اس کے سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اکثر ملاقاتیوں نے ان کی جانب دیکھا تک نہیں۔ ایک آدھ نے دیکھنے کے بعد فرض کر لیا کہ کسی کباڑی سے اونے پونے چند فضول مجسمے خرید لیے گئے ہیں ایک دن اس نے ایک ملاقاتی کی توجہ ایک مجسمے کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا۔ “یہ کس کا مجسمہ ہے۔ ”
“کسی بندر کا معلوم ہوتا ہے۔ ”
“ارے نہیں۔ بندر کا نہیں۔ یہ کانا بانا کاٹا کے مشہور فلسفی “موموکو کو “کا ہے۔ ”
“ہنھ۔ ”
مومو کو کو بڑا۔ پہنچا ہوا فلسفی تھا۔ اس کے خیال میں انسان کی سب سے بڑی کمزوری عورت نہیں۔ افیون ہے۔ خود “موموکو کو “ہر روز تین سے چھ ماشے افیون کھا یا کرتا تھا۔ ایک دن جب اسے افیون نہ ملی۔ تو جانتے ہو اس نے کیا کیا۔
“شاید خودکشی کر لی۔ ”
“نہیں خود کشی نہیں کی۔ وہ ایک پودا جڑ اور پتوں سمیت کھا گیا۔ لیکن جب اسے۔۔۔ ”
“اچھا یا ر کوئی اور بات کرو۔ یہ کس کا ذکر لے بیٹھے۔ ”
“اسے سب سے زیادہ افسوس تب ہوتا تھا جب بات چل نکلنے کے بعد درمیان میں رک جاتی۔ مثلاً ایک اتوار کو اس کا ایک اخبارنویس دوست اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ “آپ شاید نہیں جانتے۔ کہ “کانا بانا کاٹا “میں لوگ اخبار پڑھنے کے لئے نہیں آگ جلانے کے لیے خرید تے ہیں۔ ”
“لیکن وہ اخبار پڑھتے کیوں نہیں۔ ”
“ان کا خیال ہے کہ اخباروں میں سکینڈل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ”
“یہ تو کوئی معقول دلیل نہیں۔ ”
اپنا اپنا خیال ہے۔ اور وہاں سب اخباروں کا نام ایک سا ہوتا ہے۔ یعنی “رگڑرگڑ “جس کے معنی ہوئے۔۔۔ ۔۔ ”
“کچھ بھی ہوئے۔ کوئی کام کی بات کرو۔ ”
اور ایک دن تو اس کے ساتھ ایک عجیب سانحہ پیش آیا۔ اس کا ایک دوست جو پیرس سے تین سال کے بعد واپس آیا تھا۔ اسے ملنے کے لیے۔ اس نے سوچا کہ ضرور کانا بانا کاٹا کے کچھ حالات سننے پر رضا مند ہو گا۔ اس نے ابھی تمہید ہی باندھی تھی کہ اس کے دوست نے مسکرا کر کہا۔ “لیکن یار کیا بات ہے فرانس کی۔ بڑا دلچسپ ملک ہے اور پیرس ! پیرس ! زندہ دلوں کا شہر ہے۔ ہر رات شب برات کا درجہ رکھتی ہے۔ آرٹسٹ بڑی لا ابالی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ گلیاں بڑی پراسرار، ہوٹل دلہنوں کی طرح سجائے جاتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں پر پرستان کا دھوکا ہوتا ہے۔ سڑکیں اتنی صاف شفاف کہ ہاتھ لگے میلی ہو جائیں۔ سیاست دان معاملہ اور مہم اور نکتہ داں۔ شراب۔ آہ ظالم گویا شراب نہیں۔
ایک تیز چھری ہے کہ اترتی چلی جائے
وغیرہ وغیرہ۔
آخر دو گھنٹے کے بعد جب اس کے دوست نے پیرس کا تذکرہ ختم کیا تو اس نے محسوس کیا۔ کہ ایسے شخص سے کانا بانا کاٹا کا ذکر کرنا پرے درجے کی حماقت تھی۔
جب اس کا درجہ بیکار ثابت ہوا تو کھویا کھویا سا رہنے لگا۔ اسے انسانوں سے وحشت سی ہونے لگی۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔ انہیں اپنے سوا کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ صرف روٹی کمانے کا دھندا ان کے دل و دماغ پر سوار ہے۔ کانا بانا کاٹا کا ذکر نہ بن کر یہ اپنے ساتھ کتنا ظلم کر رہے ہیں۔ وہ جتنا ان باتوں کے متعلق سوچتا اس کی اداسی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا۔
ایک دن اس نے اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ اداس پایا۔ اس نے ایک ڈاکٹر کی دوکان کا رخ کیا۔ اتفاق سے ڈاکٹر کے پاس ایک مریض بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ دوا لے کر رخصت ہوا۔ تو ڈاکٹر نے کہا۔ “فرمائیے آپ کو کیا شکایت ہے۔ ”
“ہر وقت اداس رہتا ہوں۔ ”
“وجہ؟ ”
“بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ”
“یہ شکایت کب سے ہے۔ ”
“جب سے کانا بانا کاٹا سے لوٹا ہوں۔ ”
“کانا بانا کاٹا۔ یہ کسی ملک کا نام ہے کیا؟ ”
“جی ہاں، ایک جزیرہ ہے۔ بحر الکاہل میں۔ ”
“جاپان سے کتنا دور ہے۔ ”
“کوئی تین ہزار میل۔ ”
“آپ وہاں کس سلسلے میں تشریف لے گئے تھے۔ ”
“ایک کلچر وفد کے ساتھ گیا تھا۔ ”
“آپ فن کار ہیں۔ ”
“مصور ہوں۔ ”
“تو خوب سیر کی۔ ”
“جی ہاں ایک مہینہ رہا ”
“تو کیا کیا دیکھا وہاں آپ نے۔ ”
“بہت کچھ۔ بڑا عجیب جزیرہ ہے۔ ”
“ہمیں بھی کچھ بتائیے۔ ”
“وہاں ڈاکٹر نہیں ہوتے۔ ”
“ڈاکٹر نہیں ہوتے۔ تو پھر جو لوگ بیمار پڑتے ہیں وہ علاج کس سے کراتے ہیں۔ ”
“چوں کہ انہیں معلوم ہے کہ علاج کرنے والا کوئی نہیں۔ اس لیے وہ بیماری ہی نہیں پڑتے۔ ”
“اچھا کوئی اور بات بتائیے۔ ”
“وہاں مکانوں کے دروازے نہیں ہوتے۔ ”
“تو لوگ اندر کس طرح آتے ہیں۔ ”
“کھڑکیاں جو ہوتی ہیں۔ ”
“اچھا اور کیا دیکھا۔ ”
“وہاں بچے کی پیدائش پر ماتم منایا جاتا ہے۔ ”
“وہ کیوں۔ ”
“وہ کہتے ہیں۔ کہ ہرنیا بچہ اپنے ساتھ نئی مصیبتیں لاتا ہے۔ ”
“بہت خوب۔ اچھا میں آپ کے لیے دوا تیار کر لوں۔ باقی باتیں۔۔۔ ۔ ”
“دوا رہنے دیجئے۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ ”
“ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ ہر وقت اداس رہتے ہیں۔ ”
“جس شے کی کمی مجھے اداس رکھتی تھی وہ مجھے مل گئی۔ ”
“وہ کون سی شے ہے۔ ”
“سامع ! ”
ڈاکٹر اس کا منہ تکنے لگا لیکن وہ چپکے سے آداب عرض ہے کہہ کر دوکان سے باہر چلا گیا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...