نیویارک
ڈیمائر سٹریٹ کے کونے پر بنی ہو اعلی شان عمارت جو اپنےآپ میں ایک مثال تھی سڑکوں پر معمول سے زیادہ رش زیادہ تر لوگ پیدل ہی چل رہے تھے ۔۔۔۔۔ویسٹرن کپڑوں میں ملبوس وہاں کی عورتیں اتنی سردی کے باوجود بھی انتہائی پُر سکون انداز میں چل پھر رہیں تھی جبکہ مردوں نے زیادہ تر اوور کوٹ پہن رکھے تھے
اتنے میں ایک لینڈ کیروزر جس کے آگے پیچھے چھ موٹر سائیکل سوار سیکیوریٹی گارڈز تھے جنہوں کے منہ بلکل کور تھے
وہ سیکیورٹی سے متعین قافلہ اُس اعلی شان بلڈنگ کے آگے رُک گیا
گاڑی کے پارک ہونے سے پہلے سیکورٹی گارڈز اپنی بائک سے نکل کر ایک اپنے ہاتھوں سے حصار بنا چُکے تھے
فرق بس یہ تھا کے دروازہ کسی نے نہیں کھولا بلکہ اندر بیٹھے انسان نے خود کھول کے باہر قدم رکھا تھا
"بازل شاہ ” دنیا اُسے سمندروں کے بادشاہ کے نام سے جانتی تھی ۔۔۔۔اِس وقت دُنیا کے سب سے مہنگے اور تعداد میں زیادہ بحری جہاز اِس انسان کی ملکیت میں تھے ۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی ملک میں جانا اُس ملک کے لیے ایک اعزاز تھا ۔۔۔نہ صرف سیکیورٹی بلکہ اُسکے مہنگے لائف سٹائل کا خرچہ بھی اُسی ملک کے ذمّے ہوتا تھا
اپنی ذہنی صلاحیت اور اِس شعبے میں لگن کی وجہ سے چند سالوں میں ہی دُنیا پر راج کرنے والوں میں سے بن گیا تھا
وہ گاڑی سے نکلا تھا تو آس پاس سے گزرتے لوگوں کی ایک بھیڑ لگ چُکی تھی
"براؤن شہد رنگ کی کانچ کی آنکھیں ماتھے پر گرتے سیاہ بال ۔۔۔۔سُرخ اور سفید رنگت ،ہلکی ہلکی سی بیرڈ لیکن موچیں گہری تھیں جن کی وجہ سے اپرلا ہونٹ دکھائی نہیں دے رہا تھا
وہ اِس وقت پینٹ اور ہائی نیک ٹائپ شرٹ جس سے گردن چھپی ہوئی تھی ہاتھوں میں کسی قسم کی کوئی گھڑی ماجود نہ تھی ۔۔۔۔لیکن ٹائم کا اتنا پابند تھا کے کبھی ایک منٹ بھی اپنی کہے گے ٹائم سے لیٹ نہیں ہوا تھا بازو کی ویسٹ پر ایک چھوٹا سا ٹیٹو تھا جسے آج تک کئی مرتبہ زیرِ بحث لایا گیا لیکن اُسکا مطلب یہ مقصد آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کئی بار عالمی ارادے پاکستان اُسکے بیک گراؤنڈ اور دوسری معلومات حاصل کرنے آئے تھے لیکن کبھی کوئی کامیاب نہیں لوٹا تھا البتہ اُس سے ایسا سوال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ملی تھی
لوگوں میں بہت کم گھلنے ملنے والا انسان تھا اُس کی فرینڈ لاسٹ میں آج تک کوئی شامل نہیں ہوسکا تھا
بڑی بڑی اسٹار اور امیر زدیاں اُسے پرپوز کر چُکی تھیں لیکن کسی کو ایک نظر دیکھنا بھی بازل شاہ کو منظور نہیں تھا
خوشبوں کا ایک رالا اندر کی طرف بڑا یہاں پر آج کئی لوگوں کی قسمت کھولنی تھی یہ اُسکی پہلی بزنس ڈیل تھی ۔۔۔۔بزنس کی دُنیا میں پہلا قدم ۔۔۔اُسے امریکہ سمیت تین ممالک کی بڑی کمپنیوں کے شئیرز خریدنے تھے
اُسکے اندر داخل ہوتے ہی سارے ہال میں ماجود لوگ اپنی کرسیوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے سب نے اُسکے پہلے قدم اور اُسے نیک تمناؤں اور اچھے خیالات سے نوازہ ۔۔۔۔۔جب کہ وہ آرام دہ حالت میں بیٹھا دور کھڑے انسان پر نظریں جمائے ہوئے تھا
"بازل شاہ آج اپنی محنت کا پھل وصول کرے گا”
آنکھوں میں ایک چمک آئی اور بہت مہذب طریقے سے اُس میٹنگ کا آغاز ہوا ہر کسی کی یہی کوشش تھی کے اُنکی کمپنی کو خریدا جائے دنیا کی سب سے۔ بڑی آفر اُنکے سامنے ماجود تھی
اُسنے آنکھ کے اشارے سے اپنے مینجر کو بولنے کا اشارہ کیا
"تین کمپنی جن کے ففٹی ففٹی شئرز بازل شاہ خرید رہے ہیں وہ دو پاکستان جبکہ ایک امریکہ کی ہی ”
ایک ہلچل سے پیدا ہوئی کیوں کے پاکستان سےکہیں زیادہ اچھی آفر دوسرے ممالک سے مل رہی تھی لیکن بازل نے گھاٹے کا سودا کیا تھا
وہاں بیٹھے لوگوں کے مطابق بازل شاہ ٹریڈرز بہت جلد ڈوبنے والا تھا
وہ سامنے لگے کلاک کو دیکھتا کھڑا ہوا جبکہ جن کمپنی کے شیئر خریدے تھے وہ اُس سے ملنے کے منتظر تھے لیکن وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا باہر چلا گیا
"تین دن بعد پاکستان کا دورہ کرنے جائیں گے ۔۔۔ سیکیورٹی میری مرضی کی ہوگئی”
پہلے سب کچھ منیجر سیٹ کرتا تھا البتہ سیکیورٹی بھی اُسی کے مطابق لی جاتی تھی اور بازل نے کبھی اِس متعلق کچھ نہیں کہا تھا
پہلی بار خود اُسے بتا رہا تھا
"اوکے سر”
تین قدم پیچھے چلتے منیجر نے اثبات میں سر ہلایا
وہ جیسے اپنے ساتھ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لایا تھا بلکل اُسی طرح خوشبوں اپنے ساتھ لیے چلا گیا اُسکے سہنا انداز کو کافی دیر تک لوگ سراہتے رہے جبکہ کچھ چہرے تو افسردہ ہوگئے تھے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"باہر آجاؤ دیب بچوں والی حرکتیں نہیں کرو جوتا بھی نہیں پہنا ہوا اوپر سے بخار ہے ”
باہر کھڑا کافی دیر سے آوازیں لگا رہا تھا جبکہ اندر کھڑی سردی سے کانپ رہی تھی کمرہ تو ہیٹر کی وجہ سے کافی زیادہ گرم تھا مگر واشروم بہت ٹھنڈا تھا اور جوتے نہیں ہونے کی وجہ سے زیادہ سردی لگ رہی تھی
"واش روم وغیرہ میں جن ہوتے ہیں ”
آخر کو اُسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا ہی پڑا جبکہ ایک سیکنڈ میں دروازہ کھول کر اُسکے سینے دو چیپک گئی
"اب میں واشروم کیسے جایا کروں گی”
کل سے بلکل بچی بنی ہوئی تھی یہ پھر خوف سر پر سوار ہو چکا تھا
"مجھے ہیلپ میں کوئی پروبلم نہیں ہے”
دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر بولا
"آپ بہت بُرے ہیں ۔۔۔۔بلکہ جائیں اب اُس کے پاس …. ملیحہ ہی ہے نہ نام اُسکا”
ابھی بھی اُسکے ساتھ لگی کھڑی تھی لیکن مشورے جانے کے دے رہی تھی
"ویسے مجھ سے چار سال بڑی ہو عقل نام کی چیز نہیں ہے تم میں”
طالش نے غُصہ سے کہا وہ بھی بار بار اسکو بیچ میں لائے جاری تھی
"طالش مجھے پتہ تھا آپکو میری عمر سے پروبلم ہوگئی میں اسلیے چلی گی تھی ”
سوں سوں کرتی بولی
"تم پاگل ہو یہ مجھے سمجھتی ہو ۔۔۔۔یار میں اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کیوں کسی کو عورت کے بارے میں سوچو گا اور مجھے کبھی دیکھنا میں تم سے بڑا لگتا ہوں”
اُسکے بال سہلاتے ہوئے بولا
"تم نے اُس سے شادی کی ہوئی ہے”
آنکھیں پھاڑ کر دیکھتی ہوئی بولی دل میں درد کی لہر اُٹھی
"میں تمہاری بات کر رہی ہوں پاگل لڑکی ۔۔۔ اور مجھے آپ کہا کرو ۔۔یہ کیا تم تم کرتی رہتی ہو”
اُسکی بات سنتے لال ٹماٹر جیسی ہوگئی تھی
"کیا ہم اپنے اِس پیارے سے رشتے کا آغاز کر سکتے ہیں ۔۔۔جس میں بس میں اور تم ”
پلکوں کے جلر نیچے گر گئے اُسے دیکھے بغیر ہی اپنے ہاتھوں کی اُنگلیاں چٹخار رہی تھی اُسکے مرمری سے ہاتھ اُسکے چہرے کی طرح لال ہو چُکے ۔۔اُسکی معصوم سی اجازت پر دل سے مسکرایا تو گال کا ڈمپل گہرا ہُوا شاید وہ بھی مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا
سردیوں کی دھند آلود سی صبح اُنکی محبت سے اور رنگین ہوگئی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
چار دن ہوگئے تھے وہ دونوں صبح چلی جاتی رات کو کال کر دیتی تو محد اُنکو لئے آتا اُنکو آتے ہی کھانا تیار ہوتا اب یہ فرق پڑا تھا کے اُسکے کام کی تعریف کر دیتی تھی
محد آج صفائی کر رہا تھا جب مایا کا لیپ ٹاپ اچانک ہاتھ لگنے کی وجہ سے نیچے گر گیا تھا اور اُسے ٹھیک کرنے کے چکر میں لیپ ٹاپ کی ونڈو اُڑا چُکا تھا ۔۔۔۔۔
"مایا جی وہ آپکا کمپیوٹر مجھ سے گر گیا تھا میں ٹھیک کردیا ہی سکرین بلکل ٹھیک ہوگئی ہے”
گھر میں داخل ہوتے ہی بتایا
"کدھر ہے جلدی لاؤ”
بن پانی کے مچھلی کی طرح ٹرپی
جب دیکھا تو بلکل ٹوٹا ہُوا تھا فلیش لگنے کی جگہ تو بلکل خراب ہوچکی تھیں ابھی یہی سوچ رہی تھی کے اُسکا ڈیٹا کیسے نکالے گی ساری زندگی کی محنت اُس میں ماجود تھی
لیکن لیپ ٹاپ کے آن ہوتے ہی ایک مرتبہ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی
"چٹاخ”
"چٹاخ”
بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اُسکی طرف لپکی اور دو تھپڑ اُسکے منہ پر لگائے
"یہ بتاؤ اتنے سٹرونگ پاسورڈ کے ہوتے ہوئے تم آن کیسے کیا ۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔۔۔سیدھی طرح بتاؤ ورنہ انکونٹر کر دوں گی”
اُسکی کنپٹی اور پٹسل کی نوک رکھتے ہوئے بولی
"مسٹرنی جی اُس دن اپنے میرے سامنے کھولا میں بھی ویسے ہی کھولا تھا تو کھل گیا میں ۔۔”
ابھی وہ کچھ اور بولتی ایک پنچ اُسکے جبڑے پر جڑاء
"تم تو دس جماعتیں بھی نہیں پڑے پھر اتنا مُشکِل پاسورڈ کیسے یاد ہُوا تمھیں ۔۔۔۔۔۔۔کس ملک کے اجنٹ ہو ۔۔۔۔۔”
پیچھے کھڑی نوین پریشان تھی کیوں کہ اُسکے کہنے پر ہی رکھا تھا
"مایا جی میں تو بٹنوں کی ترتیب دیکھی تھی ”
شرمسار سا ہوکر بولا ایک لڑکی نے اُس پر ہاتھ اٹھایا تھا یہی غیرت مند مرد کے لیے مرنے کا مقام تھا
"شیلا۔۔۔۔۔۔ شیلا کی جوانی ….”
اتنے پُر اسرار ماحول میں محد کا موبائل چنگڑا
"اٹھاؤ اور سپیکر آن کرو”
بیل پر پہلی بار شرمندگی ہوئی تھی اور نوفل کو دل سے کئی گالیوں سے نوازہ تھا اُسی کا کارنامہ تھا
"فتر کالنگ”
نوکیا کا دس سال پرانے ماڈل پر نوفل کا نام چمک رہا تھا محد نے ڈرتے ہوئے يس کے بٹن پر ہاتھ رکھا
"پپو کیا ہوا بھول گیا مجھے ۔۔۔۔۔مجھے پتہ تھا گوریوں میں جا کر کہاں یاد آئے گی میری تجھے”
سپیکر سے آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی
جب کی محد شرم سے پانی پانی ہوگیا
"یار ایک ادھ میرے لئے بھی بیگ میں ڈال کر لے آنا کچھ میرا بھی بھلا ہوجائے گا”
ابھی شاید کچھ اور بھی فرمائش کرتا مایا نے فون پکڑ کر بند کر دیا
"اُس دن شپ سے کیسے نکل آئے تھے تم ۔۔۔۔۔۔وہاں سیکیورٹی بہت سخت تھی اگر میں غلط نہیں تو”
اِس بات پر تو اُس دن سے غور ہی نہیں کیا اب تو بس اُسے کوئی ایجنٹ ثابت کرنے کی پوری کوشش تھی
"جی مجھے شرم آتی ہے میں کیسے بتاؤں”
جلدی سے رومال نکال کر اپنی ناک پر رکھ کر شرمانہ شروع کردیا
مایا کا بس نہیں چل رہا تھا اُسے اس حرکت پر جان سے مار دے اُسکی ساری عمر کی محنت ایک پل میں ضایع کردی تھی اور اب شرما رہا تھا
زور سے ایک لات اُسکے پیٹ میں ماری تو محد بلکل لڑکہڑا کر پیچھے ہُوا ۔۔۔۔کتنی بے رحم لڑکی تھی اور محد کا دل دُکھا تھا کیوں بھول گیا تھا وہ کے ایک غریب اپنا راستہ بٹکا ہُوا انسان ہے اور وہ ایک شہزادی ہے جس کے آگے ہر کوئی اپنا سر جھکا دیتا ہے پر دل بھی تو پاگل تھا نہ بنا سوچے سمجھے اُس کی طرف راغب ہوگیا
"مجھے واشروم جانا تھا تو جہاز والے واشروم کا سمجھ نہیں آیا تو عملے نے مجھے باہر بھیجا تھا اور آپ ساتھ لے آئیں”
اب نظریں جُھکی ہوئیں تھیں اپنی اوقات یاد آگئی تھی
"جو بھی ہو میں اب اور برداشت نہیں کر سکتی دفع ہوجاؤ یہ نہ ہو مجھ سے کچھ غلط ہوجائے”
دھکا دے کر باہر نکال دیا اب اس سے زیادہ غلط پتہ نہیں کیا ہونا تھا تھوڑی دیر میں بیگ جس میں صرف ایک سوٹ تھا لاکر اُسکے منہ پر مارا اور دروازہ بند کرکے چلی گی آج اُسنے محد کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی تھی یہ پھر اُن پُر اسرار آنکھوں میں دیکھ کر کمزور نہیں ہونا چاہتی تھی
جبکہ محد ساری رات دروازہ کھلنے کی اُمید اور دہلیز پر بیٹھا تھا لیکن اُس پتھر دل لڑکی نے ایک بار دیکھا بھی نہیں
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
کراچی میں ایک بڑے سے کلب میں جشن کا سماں تھا ہر کسی کو فری انٹری دی گئی تھی شراب کی بوتلیں مفت میں بانٹ دی گیں تھی کے کوئی اُنکی خوشی کو محسوس کرنے سے نہ رہ جائے لاؤڈ اسپیکر پر تیز میوزک بج رہا تھا ہر کوئی اُس پرزور ماحول میں اپنا آپ بھولے زندگی کے چند پل کھل کر جینے کی کوشش میں تھا
ایلیٹ کلاس کی دوشیزائیں اپنے بدن کی نمائش کرتے ہوئے ہر کسی کی نظریں اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے تھیں ۔۔۔کوئی بھی ایسی لڑکی ماجود با تھی جس کا بدن زیادہ نہیں تو تھوڑا سا ہی چھپا ہوتا ۔ ہاتھوں میں جہنم کے جام کے گلاس پکڑے ہرکوئی تھوڑا تھوڑا جھول رہا تھا نشے میں چور لوگ ایک دوسرے کے اُوپر گر رہے تھے
ڈرنک کے مین ڈسک پر بیٹھے دو نقوش حرام پانی کو اپنے اندر انڈیل رہے تھے
"آج مغلوں کی جیت ہوئی ہے سارے اخبارات میں بس ایک نام ہے ۔۔۔مغل شاہ زار ۔۔۔۔۔۔ ”
آنکھیں بند ہی رہیں تھی لیکن خوشی کی وجہ سے بار بار ایک ہی نام دوہرا رہے تھے
"اب لاٹی چوہے کا کھیل ختم ہوگیا زار ۔۔۔۔۔۔اب بہت جلد ایک نام دُنیا کے نقشے پر چمکے گا ۔۔۔۔۔۔۔”مغل ٹریڈرز ” سامنے بیٹھے انسان نے جام کا گلاس اوپر اُٹھا کر کہا
"سانپ خود کشار میں آکر بیٹھا ہے اب سر کچلنا تو فرض ہے نہ ”
ایک قہقہہ نشے میں دھند لوگوں نے لگایا لیکن آواز بس اپنے کانوں میں ہی پڑی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...