*چند دن قبل- بلوم لینڈ پارک *
” اچھا عدیم مجھے کچھ اور بھی کہنا ہے تم سے ۔۔۔۔” کورا اول نے سوچ میں ڈوبے لہجے میں کہا اور چلتے چلتے رک گئی ۔
” ہاں ہاں بولو ناں ۔۔۔” عدیم نے بھی رک کر اس کی جانب مڑتے ہوئے کہا۔
کورا اول چند لمحہ خاموش رہی ، جیسے بولنے کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔۔ پھر اس نے بمشکل تمام بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔
” جب سے میں اس حادثے سے بچ نکل کر واپس پہنچی ہوں ، مجھے لگ رہا ہے کہ میں شدید دماغی ٹراما کا شکار ہوں ۔۔۔ یہاں تک کہ مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں اب کبھی کبھار STML یعنی ‘ شارٹ ٹرم میمری لاس ‘ کا شکار ہوجاتی ہوں ۔۔۔ یعنی اچانک مجھے سب کچھ بھول جاتا ہے کہ میں کہاں ہوں ، کب آئی اور کیا کررہی ہوں ۔۔۔ یہ کیفیت چند سیکنڈ سے لے کر چند منٹ تک بھی جاری رہ سکتی ہے ۔۔۔
اس سلسلے میں میں نے ستی سے بات کی ہے اور آنے والے سوموار کو اس نے مجھے اپنے ہاسپٹل آنے کا بولا ہے ، تاکہ وہاں کے دماغی امراض کے سپیشلسٹ سے میرا تفصیلی معائنہ کروایا جاسکے۔۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* چند روز بعد- چڑیا گھر *
جلد ہی کورا کینٹین تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔ کاونٹر پر کافی رش تھا ، وہ انتظار کرنے لگی کہ کاؤنٹر پر کھڑے بیس کے قریب لوگوں میں سے کوئی اپنا آرڈر لے کر ہٹے تو وہ آئس کریم آرڈر کرے ۔۔۔تبھی کاؤنٹر کے باہر کھڑے گاہکوں میں سے کسی نے یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا اور اس پر نظر پڑتے ہی چونک سا گیا ۔
” ارے عدیم ۔۔۔ تم یہاں ؟ کورا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
” ہاں میں ادھر کینٹین پر ۔۔۔۔ تم یہاں کیا کررہی ہو ، ابھی تو تم ۔۔۔” عدیم نے کچھ کہنا شروع کیا لیکن کورا کے بولنے پر اسے رکنا پڑا۔
” میں یہاں ایک فرینڈ کے ساتھ آئی ہوں۔۔۔” کورا نے کہا۔
۔۔۔۔ ” لگتا ہے اس کو پھر سے STML مسئلہ ہوچکا ہے اور یہ بھول چکی ہے کہ کہاں ہے اور کس کے ہمراہ ہے۔” عدیم نے سوچا۔
اسی لمحے کاونٹر پر سے پکارا گیا کہ اس کا آرڈر تیار ہے ۔۔۔ اور وہ کاؤنٹر کی جانب مڑا۔
” اچھا عدیم ، وہ میرا ویٹ کررہی ہوگی۔۔ پھر ملیں گے ۔۔۔” کورا نے کہا ۔
عدیم جب پےمنٹ کرنے واپس مڑا تو کورا وہاں سے غائب تھی ۔۔۔
” مائی گاڈ۔۔۔ اب کہاں گئی یہ۔” اس نے پریشانی کے عالم میں سوچا اور شاپر ہاتھ میں تھامے اسی سِیٹنگ ایریا کی طرف دوڑا ۔۔۔ جب وہ نزدیک پہنچا تو یہ دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا کہ کورا (اول) وہیں اسی بینچ پے براجمان تھی کہ جہاں وہ اسے چھوڑ کر آیا تھا ۔۔۔
” اوہ ۔۔۔ اس کا مطلب ہے اس کا STML واقعی چند سیکنڈ کا ثابت ہوا اور یاداشت بحال ہوتے ہی کورا کینٹین سے واپس یہیں پہنچ گئی ۔۔۔” عدیم نے اس کی جانب بڑھتے سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا جب واپس کورا ثانی کے پاس پہنچی تو وہ خالی ہاتھ تھی اور اس کے چہرے سے گھبراہٹ جھلک رہی تھی ۔
” کورا ؟ آئس کریم کہاں ہے اور اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو ۔۔۔؟ کورا ثانی نے اس سے پوچھا ۔
” وہ دراصل عدیم ۔۔۔” کورا نے کہا۔
” ہاں ۔۔ کیا ہوا عدیم کو؟؟” کورا ثانی نے کہا۔
” عدیم بھی یہاں چڑیا گھر میں موجود ہے۔۔۔۔ شاید اپنے دوستوں کے ساتھ آیا ہے گھومنے پھرنے”. کورا نے کہا۔
” تو اس میں اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے۔۔۔؟” کورا ثانی نے کہا۔
” کیونکہ اس وقت میرے ساتھ تم بھی ہو یار ۔۔۔ دو عدد کورا ۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ ہم دونوں کو اکھٹا دیکھ لے یا ہم سے کوئی بات کرے ، آفٹر آل ماسک سے چہرہ تو چھپ سکتا ہے مگر آواز نہیں بدل سکتی ۔۔۔ تو اس لیے میں بس چند رسمی جملوں کے بعد وہاں سے نکل بھاگی ۔۔۔” کورا نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا ، کورا اول، کورا ثانی اور ستی چاروں چھت پر موجود کمرے میں محفل لگائے بیٹھی تھیں ۔
” گرلز ، میرے پاس ایک خوشخبری ہے۔۔۔” ستی نے ان تینوں سے کہا۔
” اچھا ۔۔۔ کیا خوشخبری ؟” تینوں نے کہا۔
” اول و ثانی ۔۔۔ آپ دونوں کے لیے ایک متبادل رہائش گاہ کا بندوست ہوچکا ہے .” ستی نے کہا ۔
” اوہ ۔۔ کدھر ؟” کورا اول نے چہکتے لہجے میں کہا ۔
” یہیں عقب میں صرف ایک روڈ چھوڑ کر ‘نوبل ہائیٹس’ نامی اپارٹمنٹ بلڈنگ کی پانچویں منزل پر ایک اپارٹمنٹ ہائر کیا ہے میں نے ۔۔۔ اپارٹمنٹ فرنشڈ ہے اس لیے فرنیچر و دیگر ضروری سامان کا مسئلہ نہیں۔۔۔ ہاں آپ دونوں کا کوئی چھوٹا موٹا ساز وسامان ہے تو ایک آدھ دن میں پیک کرلیں۔۔۔” ستی نے کہا۔
” رئیلی ۔۔۔ ؟ دیٹس گریٹ !!” کورا ثانی نے کہا۔
” لیکن اس کا تو کرایہ بھی اچھا خاصا ہوگا ۔۔۔ کرائے کا انتظام کیسے ہوگا ؟” کورا نے کہا ۔
” نو پرابلم۔۔۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میری اچھی خاصی سیلری ہے تاہم میرے اخراجات محدود ہیں ۔۔۔ پانچ چھے ماہ تک کرایہ افورڈ کر پانا میرے لیے کوئی مشکل نہیں۔” ستی نے کہا.
” اور پانچ چھے ماہ بعد ۔۔۔؟” کورا اول نے کہا۔
” اس عرصے کے دوران میں آپ دونوں کی نئی زندگی کی تشکیل پر کام کروں گی ۔۔۔ کہ آپ دونوں کو ایک نئی شناخت کے ساتھ کسی دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں سیٹل کیا جاسکے۔۔۔ نئی شناخت کے ساتھ آپ دونوں اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہیں اپنا کیرئیر بناسکتی ہیں اور نارمل زندگی جی سکتی ہیں۔” ستی نے کہا۔
” میں بہت اداس ہو جاؤں گی تم دونوں کے بنا۔۔۔ ” کورا نے ان دونوں کو مخاطب کرتے کہا۔
” ڈونٹ وری۔۔۔ فی الوقت چھے ماہ تو یہ دونوں تمہارے پڑوس میں ہی رہیں گی جب چاہو جا کر مل لو ۔۔۔ ہاں اس کے بعد تم تینوں کو جدا ہونے پڑے گا ۔۔۔ لیکن ، فکر کی بات نہیں موبائل اور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔۔۔ آپ تینوں مستقل رابطے میں رہ سکتی ہو۔” ستی نے کہا۔
” کاش میں اپنی بہنوں کو ہمیشہ ساتھ رکھ سکتی۔۔۔” کورا نے غم آمیز لہجے میں کہا۔
” فکر کی بات نہیں۔۔۔ ان کی نئی زندگی میں بھی میں ان کی تب تک نگرانی رکھوں گی کہ جب تک یہ دونوں اپنے پیروں پر نہ کھڑی ہو جائیں۔” ستی نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج میں چھٹی ہو چکی تھی اور طلباء و طالبات کالج کے مین گیٹ سے باہر نکل رہے تھے ،
کورا اول کالج سے باہر نکلنے کے بعد حسبِ معمول چیونگم چباتی اور کچھ گنگناتی ہوئی بس سٹینڈ کی طرف جارہی تھی ، ابھی اس نے نصف راستہ ہی طے کیا تھا کہ اسے اپنے عقب پر ایک آواز سنائی دی ۔۔۔ ” کیا ٹائیٹ پیس ہے یار ” اور ساتھ ہی ایک قہقہہ بلند ہوا۔۔۔ اور وہ اپنے دماغ میں پھٹتے غصے کے آتش فشاں کے ساتھ بجلی کی تیزی سے پیچھے مڑی ۔
یہ جملہ کسنے والا ایک اوباش شکل لڑکا تھا اور اس پر قہقہ لگانے والا اس کا کوئی ساتھی ۔۔۔ پھٹی ہوئی جینز کا فیشن ، ایک کان میں بالی اور سہہ کے کانٹوں کی طرح کھڑے بال۔۔۔۔حلیے سے ہی وہ دونوں ٹھٹھ بدمعاش معلوم ہورہے تھے !!
لیکن یہ جملہ کورا اول پر نہیں کسا گیا تھا بلکہ اس کی مخاطب کوئی اور طالبہ تھی ۔۔۔ اور کورا اول صاف دیکھ سکتی تھی کہ وہ لڑکی اس کی کلاس فیلو ہیزل تھی ۔۔۔ ہانیہ اور ہارلین بھی اس کے ساتھ تھیں۔
اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید ایسا کوئی جملہ سن کر کنی کترا جاتی یا آئیندہ کے لیے وہ راستہ ہی بدل لیتی لیکن ان تینوں کا لڑاکا پن توپورے کالج میں بدنام تھا ۔۔۔۔
ہیزل غصے میں جھلستی ان کی جانب بڑھی اور ہانیہ و ہارلین بھی اس کے پیچھے ہولیں۔
” کس کو ٹائیٹ بولا۔۔۔ ہاں ؟ گِدھ کی شکل والے گدھے۔۔۔” ہیزل نے اس کی جانب بڑھتے کہا لیکن اسی وقت چٹاخ کی آواز گونجی اور ہیزل چیختی ہوئی زمین پے آ گری ۔۔۔ ایک غنڈے نے اس کے گال پر زناٹے دار تھپڑ دے مارا تھا۔۔۔ہیزل کے گرنے پر ہانیہ اور ہارلین تیزی سے اس کی جانب بڑھیں ۔۔۔ لیکن عین اسی وقت ایک غنڈے کی فلک شگاف چیخ گونجی اور اس دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھے زمین پر بیٹھتا چلا گیا ۔۔۔ ہیزل کے زمین پر گرنے تک کورا اول وہاں پہنچ چکی تھی اور اس نے بلاتاخیر ایک غنڈے کی ناک پر اپنے وجود کی پوری طاقت سے مکا رسید کردیا۔۔۔ دوسرا غنڈا غراتا ہوا اسکی طرف لپکا اس کی چیخ پہلے غنڈے سے بھی زیادہ بلند تھی اس کے دائیں گال اور جبڑے پر زخموں کی ایک لکیر بن چکی تھی جس سے خون کی آبشار رواں تھی ۔۔۔ غنڈہ اس بری طرح سے چیخ رہا تھا کہ جیسے اسے ز•بح کیا جارہا ہو۔۔کورا اول نے خون آلود براس نَیکل اپنے ہاتھ سے اتارا اور بیگ کی سائیڈ پاکٹ میں ڈالا۔۔۔ ۔۔۔ تب تک آس پاس اچھی خاصی بھیڑ جمع ہوچکی تھی۔۔۔
“کیا چل رہا ہے یہاں ؟؟” کالج کے لڑکوں کا ایک گروپ وہاں پہنچا اور ایک سینیئر لڑکے نے آواز لگائی ۔۔۔ جس پر شدید زخمی ہونے کے باوجود دونوں غنڈے وہاں سے بھاگ نکلے ۔۔۔۔
کورا اول ہیزل کی جانب بڑھی ۔۔۔ جس کا دائیاں گال تھپڑ کی ضرب سے سرخ ہو چکا تھا ۔
” کیا تم ٹھیک ہو۔۔۔؟” کورا اول نے اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے ہمدردی آمیز لہجے میں کہا۔
غنڈوں کے بھاگ جانے کے بعد بھیڑ بھی منتشر ہونے لگی۔
” میں ۔۔۔ ٹھیک ہوں۔” ہیزل نے کہا۔
” کورا تھینک یو سو مچ یار۔۔۔” ہانیہ نے تشکر سے بھرے لہجے میں کہا۔
” چند روز قبل تم نے جن لڑکیوں کی بری طرح سے پٹائی کر ڈالی ۔ آج انہی کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دو اوباشوں کو لہو لہان کردیا ۔۔۔ آخر تم چیز کیا ہو ؟” ہارلین نے جذبات سے لبریز لہجے میں کہا ۔
” گرلز ۔۔۔ دو تین جانوروں کو بھی ایک سال تک ایک کھرلی پے باندھے رکھو تو وہ آپس میں مانوس ہو جائیں گے ۔۔۔ ہم تو اس سے دہرے عرصے سے کلاس فیلوز ہیں۔۔۔ رہی بات ہمارے جھگڑے کی تو وہ جھگڑا بھی میں نے تمہاری اصلاح خاطر ہی کیا تھا ۔۔۔ اور آج کی لڑائی بھی تم تینوں کی خاطر۔” کورا اول نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
” اچھا ویسے ۔۔۔ وہ براس نَیکل تم کالج میں لے کر جاتی ہو ؟؟” ہارلین نے کہا۔
” ہاں ۔۔۔ جسٹ فار سیلف ڈیفنس۔۔۔ پر کچھ لوگ تو کالج میں حیش تک لے کر جاتے اور پیتے ہیں۔” کورا اول نے شرارت آمیز لہجے میں کہا اور وہ چاروں قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں۔
” ویسے کورا ، پہلے تم نے بیک وقت تین لڑکیوں کو زیر کرلیا اور آج دو پَلے ہوئے غنڈوں کو زمین بوس کردیا ۔۔۔ کیا ہی طوفان بھرا ہے تمہارے اندر ۔۔۔۔ آخر تم کھاتی کیا ہو ؟” ہانیہ نے کہا ۔
” میں کھاتی کیا ہوں۔۔۔۔۔؟ یہ جاننے کے لیے تم تینوں کو مجھے لنچ پر مدعو کرنا ہوگا۔۔۔” کورا اول نے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
” شیور ۔۔۔ ابھی چلتے ہیں ۔” ہیزل نے بھی جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویک اینڈ کی وجہ سے ‘ہوٹل سپرنگ بلاسم’ میں معمول سے زیادہ رش تھا ، عدیم اس وقت ہوٹل کی پارکنگ میں اپنی کار پارک کرنے کے بعد لابی کی طرف جارہا تھا ۔۔۔ گزشتہ کئی ویک اینڈز کی ہی طرح یہ ویک اینڈ بھی عدیم اور کورا (اول) نے ایک ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اب کی مرتبہ مل بیٹھ کر کہیں جانے کا فیصلہ کرنے اور پھر وہاں جانے کے بجائے وہ دونوں الگ الگ طے شدہ ہوٹل میں پہنچے تھے ، کورا اول عدیم سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ۔
” آج مجھے تم سے کچھ خاص کہنا ہے۔۔۔اج زرا دل پکا کرکے آنا ۔” لابی میں داخل ہوتے ہوئے اس کے دماغ میں کچھ دیر قبل کال پر سنا فقرہ گونجا۔
” نجانے کورا آج ایسا بھی کیا دھماکہ کرنے والی ہے جو مجھے دل مظبوط رکھنے کی فرمائش کی ۔۔۔” عدیم نے لابی پر نظر دوڑاتے سوچا ، لیکن اسے کورا کہیں بھی نظر نہ آئی۔
تبھی اس کے موبائل پر بیپ ہوئی اور اس نے میسج دیکھا ۔۔۔ ایک ہی لفظ کا پیغام تھا ” پول”.
عدیم اس ہوٹل میں پہلے بھی آچکا تھا اس لیے وہ یہاں کے راستوں سے آگاہ تھا ، چنانچہ وہ اس گیلری کی طرف بڑھ گیا جو ہوٹل کے عقبی سیکشن کی طرف جاتی تھی۔۔۔۔جلد ہی وہ ہوٹل کے وسیع پول ایریا میں پہنچ چکا تھا جہاں مختلف گہرائیوں کی تین وسیع و عریض پولز قائم تھے ۔۔۔ وہاں بڑی تعداد میں لوگ یا تو سوئمنگ میں مگن تھے یا پھر پولز کے آس پاس نصب کی گئی نشستوں پر براجمان ایک دوسرے سے گفتگو میں مگن تھے ۔۔۔۔
” کورا کہاں ہوگی اب۔۔۔؟” عدیم نے پہلے پول نے نزدیک پہنچ کر ارد گرد نظر دوڑاتے سوچا۔
لیکن اسی وقت اسے ایک زوردار دھکا لگا اور وہ چھپاکے کی آواز کے ساتھ پول میں جا گرا ۔۔۔ پول میں گرتے ہی اس نے ہڑبڑا کر اٹھنے کی کوشش کی اور اس کی سماعت سے کورا اول کے قہقہوں کی آواز ٹکرائی جو اب ٹھیک اسی جگہ کھڑی تھی کہ جہاں چند لمحہ پہلے عدیم خود تھا ۔۔۔
” کورا کی بچی ۔۔۔ یہ میرا نیا ڈریس تھا ۔” عدیم نے زچ لہجے میں کہا۔
” جب تمہیں پتا تھا کہ اس ہوٹل کی وجہِ شہرت ہی اس کے شاندار سوئمنگ پولز ہیں تو تمہیں خود تیراکی کے لباس کا انتظام کر کے آنا چاہیے تھا ۔۔۔” کورا اول نے ہنستے ہوئے کہا اور خود بھی پول میں اترنے لگی۔
” یقین مانو اگر میرا موبائل واٹر پروف نہ ہوتا اور تمہارے اس پرینک کی نظر ہوکر جان بحق ہوگیا ہوتا تو میں نے تمہارا موبائل ضبط کرلینا تھا۔۔۔” عدیم نے مصنوعی غصے کے ساتھ کہا اور کورا اول پھر سے ہنس دی۔
” اچھا یہ تو بتاؤ ۔۔۔ آج تمہیں مجھ سے کیا کہنا تھا ؟” عدیم نے پوچھا ۔
” صبر عدیم صبر ۔۔۔ میں نے اگر پول میں ہی بتا دیا تو کہیں تم ڈوب ہی نہ جاؤ ۔” کورا اول نے کہا۔
نصف گھنٹے بعد وہ دونوں پول سے نکلے اور نزدیک موجود نشستوں کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔
” میں جو تمہیں بتانے جارہی ہوں ، شاید تمہارے لیے بہت شاک آمیز انکشاف ثابت ہو ۔۔۔ تاہم اب مجھے سب کچھ تمہیں سچ سچ بتا دینا بیحد ضروری ہے ۔۔۔ اس راز کو زیادہ عرصے تک راز نہیں رکھا جاسکتا ۔۔۔” کورا اول نے کہا ، وہ دونوں نزدیکی نشستوں تک پہنچے ، جہاں الگ سے ایک میز پر بڑی تعداد میں رول شدہ تولیے پڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔
” کم آن اب مزید کتنی تمہید باندھنی ہے اور کتنی پہلیاں بھجوانی ہیں۔۔۔؟” عدیم نے ایک رول شدہ تولیہ اٹھا کر کورا اول کی طرف بڑھاتے کہا جبکہ دوسرا خود اٹھا لیا۔
” میں گزشتہ پوری رات یہی سوچتی رہی کہ آخر تمہیں یہ سب کیسے بتاؤں ۔۔۔ لیکن پھر اس نتیجے پر پہنچی کہ مجھے بس صاف صاف کہہ دینا چاہیے ۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” اچھی بات ہے ۔۔۔ تمہاری صافی گوئی مجھے ہمیشہ سے پسند رہی ہے کزن۔” عدیم نے کہا۔
” عدیم۔۔۔کیا تم مجھے بتاسکتے ہو کہ میں اس سمندری حادثے کے بعد کتنا فیصد بدل چکی ہوں ؟” کورا اول نے تولیہ دوسرے ٹیبل پر ، استعمال شدہ تولیوں کے ڈھیر پر اچھالتے کہا۔
” مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے تم اس دن کے بعد 100 فیصد بدل چکی ہو۔۔۔لیکن اس بات کا یہاں کا ذکر بنتا ہے ؟؟” عدیم نے ایک نشست پر براجمان ہوتے کہا۔ اور کورا اول اس کے ساتھ دوسری نشست پر براجمان ہوگئی۔
” عدیم ۔۔۔۔ میں کورا نہیں ہوں۔۔۔۔
میں۔۔۔تمہاری کزن کورا نہیں ہوں ۔” کورا اول نے کہا۔