لاہور اسٹیشن ٹرین پہنچ گئی تھی مگر لیٹ ہوگئی تھی
امین صاحب نے سب کو ٹرین سے نیچے اتارا کولی نے سامان اتار کے رکھوایا
ان سب کو پک کرنے ایک ڈرائیور آیا تھا جو لڑکی والوں کی طرف سے تھا
اور ایک گاڑی لڑکی کا،سب سے بڑا بھائی لایا تھا
رمیشہ ،صابرہ بیگم ،اقرا اور امبر ایک کار میں جب کے امین صاحب شہلہ بھابھی فاطمہ دوسری کار میں تھی
کار کے بیک مرر سے کوئی رمیشہ کو بار بار دیکھ رہا،تھا
رمیشہ بلکل دبلی پتلی تھی جیسے گڑیا ہوتی ہے
اور جنوری کا مہینہ تھا،لاہور میں ٹھنڈ کافی تھی
صابرہ بیگم نے بتایا،کہ یہ جو گاڑی چلا رہا،ہے تمہاری ہونے والی بھابھی کا بھائی ہے
رمیشہ نے کوئی جواب نہیں دیا
گاڑی گلبرگ کے علاقے میں داخل ہوگئی تھی
ایم ایم عالم روڈ ۔۔۔۔۔۔۔
رمیشہ نے بورڈ پڑھا اور علاقہ دیکھنے لگی بہت زبردست علاقہ ہے
اتنے پیارے گھر اتنی گرینری
علاقہ رمیشہ کو بہت اچھا لگا
وہ پہلے بھی لاہور آتے تھے مگر اس طرف کبھی نہیں آئے
گاڑی گھر کے اندر داخل ہوئی تو
رمیشہ کو یہ گھر بھی بہت اچھا لگا بہت خوبصورت اس نے لان یکھ کے دل میں کہا
بیوٹیفل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمیشہ کی پھوپھی پھوپھا پہلے ہی پہنچ چکے تھے شہلہ بھابھی کے شوہر یوسف کے ساتھ
سب سے مل کے فریش ہوئے اور سب کے ساتھ کھانا کھایا
امی ہونے والی بھابھی کہاں ہیں رمیشہ نے صابرہ بیگم
سے پوچھا پتہ نہیں باجی سے کہتی ہوں اسکو بلوا کے ملوادیں تم لوگوں سے
صابرہ بیگم نے کھانا کھاتے ہوئے جواب دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمیشہ نے امجد کا بتایا ہوا پلان امبر کو بتایا
پہلے تو وہ نا مانی مگر پھر مان گئی
رمیشہ نے امبر کو کہا تھا مل کے بندا ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جان لیتا،ہے
تمہں میرا ساتھ دینا ہوگا ایک بار ملنا ضروری ہے
اور یہ امجد بھی چاہتے ہیں کہ ایک بار ہم ملیں
رمیشہ امبر کو بتا رہی تھی جس کو اسکول کے ساتھ پکنک کینسل کرنے کا،افسوس تھا
امجد کی کار رمیشہ امبر دونوں پہچانتی تھیں کافی بار اسکو کار میں دیکھ چکی تھیں
اسکول سے تھوڑا فاصلے پر امجد کار لے کے رمیشہ اور امبر کے پاس آگیا
جہاں وہ دونوں اس کا انتظار کر رہیں تھیں
فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا امجد نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمیشہ آگے سیٹ پر امجد کے برابر میں بیٹھ گئی
پیچھے ایک سائڈ پر امبر بیٹھی اور دوسری طرف ایک لڑکا،اور بیٹھا تھا جس کا امجد نے بتایا اس کے ماموں کا بیٹا،ہے
کہاں چلیں ؟
امجد نے رمیشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو پیچ کلر کے کپڑوں میں پیاری لگ رہی تھی
امجد نے بلیک جینز اور لائٹ اورنج شرٹ پہنی ہوئی تھی دونوں اچھے لگ رہے تھے
آپ بتائیں کہاں لے کے جائیں گے
رمیشہ نے امجد کو دیکھ کے جواب دیا
اسکول کہاں جا،رہا تھا امبر؟
امجد نے امبر سے پوچھا،
اسکول تو ہاکس بے جا رہا تھا
تو بس پھر ہم بھی کسی دوسری سائڈ پر چلتے ہیں
سینڈز پٹ ٹھیک ہے
پیچھے بیٹھے لڑکے نے بولا جس کا نام نعمان تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینڈز پٹ پہنچے تو ٹائم 11 بج چکے تھے
راستے سے کولڈ ڈرنکس وغیرہ لے لی تھی اور پکنک کے لیے صابرہ بیگم نے دونوں بہنوں کو بریانی بنا کے دی تھی لنچ میں
امجد نے رمیشہ کو دیکھتے ہوئے کہا پانی میں چلیں
چلیں ۔۔۔۔۔۔۔ امیشہ نے جواب دیا
رمیشہ نے امبر کو کہا،چلو تو اس نے کہا میں یہاں پتھر پر بیٹھی ہوں تم لوگ جاؤ بھوک لگ رہی ہے چپس کھاؤنگی
نعمان رمیشہ کے ساتھ دوسرے پتھر پر بیٹھ گیا،جو سامنے پڑا تھا
امجد ریت پر آگے آگے چل رہا تھا اور رمیشہ اس کے بنے پاؤں کے نشانوں پر چل رہی تھی
وہ امجد کو،چاہنے لگی تھی محبت کرتی تھی امجد سے
مگر امجد نے کبھی اس سے کھل کے اظہار نہیں کیا،اور نا رمیشہ نے کبھی امجد کو کہا
تو کہے تو تیرے ہی قدم کے میں نشانوں پہ
چلوں رکوں اشارے پہ
تو کہے تو خوابوں کا بنا کے میں بہانہ سا
ملا کروں سرہانے پہ
تم سے دل کی باتیں سیکھیں تم سے ہی یہ راہیں سیکھیں
تم پہ مر کے میں تو جی گیا
دونوں کے پاؤں کو سمندر کا پانی چھو کے واپس جاتا
دونوں کھڑے سمندر کو دیکھ رہے تھے
آج آپ نے آفس کی چھٹی کی ہے؟
رمیشہ نے سمندر کو دیکھتے ہوئے امجد سے پوچھا
ہاں بھائی کو بول کے آیا،تھا
نعمان اور میں دوستوں کے ساتھ پکنک پر جائیں گے
اچھا ااااا رمیشہ نے جواب دیا
ویسے نعمان نے بھی میری وجہ سے آج آفس کی چھٹی کی ہے
امجد سمندر کے اندر جاتے ہوئے بولا
اب وہ دونوں گھٹنوں تک پانی میں تھے
نعمان کیا،کرتے ہیں ؟رمیشہ نے پوچھا
وہ بینک میں جاب کرتا ہے
ویسے ایک بات بولوں امجد نے رمیشہ کو دیکھ کے کہا،جو سمندر کی لہروں میں ہاتھ ڈال رہی تھی
مجھے کوئی لڑکی پسند آگئی ہے
رمیشہ کو یہ بات بہت عجیب لگی مگر اس نے خود پر قابو کر کے پوچھا
کون؟پسند آگئی؟
بعد میں بتاؤنگا
نہیں ابھی بتا دیں
چلو پِھر جاؤ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کے دیکھ لو کون پسند ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد نے مسکراتے ہوئے کہا
یہ بات سن کے رمیشہ کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا تھا
اور امجد نے قریب ہوکے رمیشہ کو کہا
آئی لو یو
یہ کہہ کے امجد نے اپنا ہاتھ رمیشہ کی طرف بڑھایا جو اس نے تھام لیا
اب وہ دونوں سمندر کے بیچ ہاتھ تھام کے سمندر کی موجوں سے لطف لے رہے تھے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...