(Last Updated On: )
سمندر کی لہروں کا شور اس کے سنسان کانوں میں کسی پگھلے سیسے کی مانند جیسے کوئ انڈیل رہا تھا مگر وہ خاموشی سے شپ کی اوپری سطح پر موجود اپنی سوچوں میں کھویا ہوا تھا۔اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے اسے دیکھنے میں اس قدر مگن تھا کہ گردو نواں میں کیا چل رہا ہے اسے معلوم ہی نہ ہو رہا تھا۔ کوئ بنا چاپ پیدا کیے دور سے چلتا ہوا اسکے قریب آن کھڑا ہوا۔حائصم نے چہرے پر لگی سن گلاسز اتاری اور بہت غور سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے عرشمان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ہاتھ میں جھوکتے خوبصورت سے بینڈ سے اسکی نظر ہٹی اور مڑ کر حائصم کو دیکھنے لگا۔
وہ بہت گہری نگاہوں سے اپنے اس جان سے عزیز دوست کو دیکھنے لگا جس کے چہرے ہر وقت خاموشی اور سنجیدگی چھائ رہتی۔ نیوی جوائن کرنے کے بعد وہ واحد دوت جو عرشمان نے بنایا تھا وہ حائصم ہی تھا جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات بہت آسانی سے شئیر کر لیتا۔ وہ اسکے بہترین دوستوں میں شمار تھا۔ اب بھی وہ اسے اکیلا پا کر اسکے پاس چلا آیا”کیوں کیا حائصم اسنے میرے ساتھ ایسا میرا قصور کیا تھا آخر جو میرے دل میں اپنی محبت کا امڈتا جنون پیدا کرکے مجھے یوں اپنی یادوں کے حسین لمحات میں جکڑ کر یوں بےبس کر گئ وہ۔۔۔۔کاش مجھے پہلے ہی معلوم ہوجاتا تو کبھی اس کے خیال کو بھی اپنے دل میں اسکی جگہ قائم کرنے نہ دیتا”وہ دوبارہ اس خوبصورت بینڈ پر نگاہیں جمائے کہیں پیچھے سفر کر گیا تھا۔ لہریں اب بھی شپ سے ٹکرا رہی تھی۔
حائصم نے مڑتے ہوئے قدم کیبن کی طرف بڑھا دیے وہ عرشمان سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ جب تمہیں اس سے اس قدر انس تھا تو کیوں تم نے اسے سپیس نہیں دی کہ وہ اپنی وضاحت میں کچھ کہہ پاتی محبت اتنی نظر تو نہ تھی کہ اک بھول سے جو اس سے ہوچکی تھی اسکی معافی کی کنجائش نہ رہی ہو اس کی بھی کچھ مجبوریاں ضرور رہیں ہوگی جو اسنے وہ سب کیا ضرور اسکے پیچھے کوئ بڑی وجہ تھی مگر یہ سب وہ عرشمان سے نہ کہہ پایا۔ اسے سنبھلنے کے لیے مزید وقت درکار تھا۔ کچھ زخموں کو بھرنے کے لیے بہت مہلت کی ضرورت ہوتی ہے شائد اسے بھی تھی۔
********
وہ جانتی تھی کمرے میں موجود لڑکی کے ساتھ کوئ سانحہ ضرور پیش آیا تھا جس سے وہ ابھی سنبھل نہیں پائ تھی۔ اسی لیے وہ اسے کچھ وقت کے لیے تنہا چھوڑ آئ تھی کہ وہ اپنے دل کا غبار با آسانی باہر نکال سکے اور خود نماز ادا کرنے برامدے میں جائے نماز بچھانے لگی اور اس لڑکی کے لیے ہدایت کی دعا مانگنے لگی۔
وہ اب اپنے بھیگے ہوئے چہرے کو خشک کرتی بستر سے اٹھی اور منہ دھو کر باہر چلی آئ اسے شدت سے ندامت نے آگھیرا تھا پتہ نہیں وہ مدہوشی کے عالم میں اس بیچاری کو کیا کچھ سنا چکی تھی۔ اسے تو اس لڑکی کا احسان مند ہونا چاہیے تھا جس نے اسکی غیر ہوتی حالت میں اسکی مدد کی تھی۔ وہ شام کے سائے کو تکتی ہوئ باہر کی طرف آ گئ جہاں وہ نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ جائے نماز طے کرتی ہوئ مسکانے لگی “اب کیسا فیل کر رہیں ہیں آپ”اس لڑکی نے پوچھا تو اسنے اپنا ستہ ہوا جھکا لیا “مچ بیٹر” وہ سکارف کی پن کھولتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا دی “نام کیا ہے آپکا” کریسٹین نے پوچھا “فریشہ علی” اس لڑکی نے کہا “میرا نام کریسٹین ہے “اسنے خودی بتا دیا “کیا کرتی ہیں آپ”کریسٹین نے بات بدلتے ہوئے کہا”ویسے تو میں سائیکیٹرسٹ ہوں اس کے علاوہ شام کو میں کچھ لڑکیوں کو قرآن پڑھاتی ہوں ڈیڈ یہاں نہیں ہوتے البتہ خالہ میرے ساتھ یہیں رہتی ہیں”اس نے اس سے پرانی کوئ بات نہیں پوچھی
وقت گزرنے کے ساتھ ان میں خاصی دوستی ہو چکی تھی کہ پانچ ماہ اس فریشہ کے ساتھ گزارنے کا معلوم ہی نہیں چلا۔استنبول کے لوگوں کی مصروف زندگی اب بھی اسی منجھدار پر چل رہی تھی
فریشہ اور اسکی کافی دوستی ہو چکی تھی۔ وہ اپنا پاسٹ فریشہ سے شئیر کر چکی تھی مگر عرشمان کے متعلق اس نے فریشہ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ اپنے کردار کی مزید کسی کے بھی سامنے دھجیاں نہیں اڑانا چاہتی تھی۔ فریشہ نے اسے کافی چینج کر دیا تھا۔ وہ ڈرنک اور سموکنگ کافی حد تک چھوڑ چکی تھی۔ صبح کے وقت فریشہ اپنے کلینک چلی جاتی اور وہ اسکی غیر موجودگی میں قرآن سے ریلیٹڈ بکس پڑھتی جو فریشہ کی اسٹڈی میں موجود تھی ہاں وہ اسکے سامنے ظاہر تو نہ کرتی مگر کچھ معاملوں میں جہاں وہ اٹک جاتی اور اس سے بحث کرتی فریشہ نرمی سے مسکراتے ہوئے اسکا پوائنٹ کلئیر کر دیتی۔ کریسٹی کو لگتا فریشہ کو کچھ معلوم نہیں ہے مگر فریشہ کو اندازہ تھا کہ وہ اپنی روح کا سکون تلاش کر رہی ہے اور اسے یہ کام خود ہی کرنا تھا تاکہ وہ وسوسے جو اسے الجھاتے ہیں وہ انہیں خود ریزولو کر سکے۔
وہ شال اوڑھے برامدے میں اپنی کافی کا مگ تھامے کرسی پر بیٹھ گئ۔ کچھ دیر قبل ہی فریشہ کلینک سے واپس آئ تھی اور اپنی شام کو ہونے والی کلاس لے رہی تھی۔ روم سے اسکے بولنے کی آوازیں صاف سنائ دے رہیں تھی۔وہ اب بھی اسکی کلاس میں نہیں بیٹھتی تھی مگر اسکے آنے سے پہلے روم کی وہ کھڑکی ضرور اوپن کر دیتی جو برامدے میں کھلتی تھی۔ اسے فریشہ کی وہ خوبصورت دل کو چھو لینے والی باتیں بہت سکون بخشتی تھی مگر کبھی کبھی اسے ان سے خوف بھی آتا۔ فریشہ سکالرز کی طرح لیکچر دینے کی قائل نہیں تھی وہ عملی زندگی میں سے مثال تلاش کر انہیں آسان الفاظ میں بیان کرکے انہیں قرآن سمجھاتی تھیاسی لیے کوئ بھی لڑکی باآسانی اس سے اپنی پرابلم شئیر کر لیتی۔ وہ پانچ ماہ سے اسے یونہی سب کو سمجھاتے دیکھ رہی تھی مگر خود میں کبھی اتنا حوصلہ پیدا نہیں کر پاتی کہ خود اندر ان سب میں شامل ہو سکے اسی لیے باہر ہی سے انہیں سنتی۔
اب بھی وہ کافی کا مگ لبوں پر لگائے ہوئے تھی کہ اسے فریشہ کے الفاظ نے منجمد کر دیا”اور مومن عورتوں سے کہو اپنی نگاہیں نیچے رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو خود ظاہر ہو جائے” فریشہ قرآن کی آیت پڑھ کر سنا رہی تھی اسی آواز رات کی تاریکی کا سکوت توڑ رہی تھی ۔ اب فریشہ اس آیت کا مفہوم بیان کر رہی تھی مگر وہ تو شائد اب بھی اس آیت کے زیر اثر تھی۔ تو کیا وہ بے حیا تھی کہ اس نے تو ہمیشہ خود کو سنوار کر رکھا تھا اور خود کو فروم رکھنے کے اس جنوں میں وہ بہت آگے نکل آئ تھی کہ آج وہ اس مقام پر نہ ہوتی اسے وہ سنسان رات یاد آگئ جب عدنان نے اسے حراس کرنے کی کوشش کی تھی اگر عرشمان وہاں نہ آتا تو۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے اسکے چہرے کو چھونے لگے۔ اور عرشمان کو سوچتے ہوئے وہ اچانک وہاں سے اٹھی اور اپنے کمرے میں بھاگ گئ وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔
صبح وہ اٹھی تو فریشہ ابھی اپنے روم میں ہی موجود تھی اس نے باہر آکر جلدی سے اسکا سکارف اپنے پیچھے چھپا لیا اور بیٹھتے ہوئے میگزین چہرے کے سامنے کھول کر پڑھنے لگی۔فریشہ جلدی سے باہر آئ اور ورسٹ واچ کی طرف دیکھتے ہوئے جلد ہی اپنی چیزیں اٹھانے لگی وہ آج کچھ لیٹ ہو گئ تھی۔ وہ ارد گرد سے چیزیں اٹھاتے ہوئے متفکر سی کچھ تلاش کرنے لگی “کریسٹی تم نے میرا سکارف دیکھا ہے” اس نے اسکی جانب چہرہ موڑتے ہوئے پوچھا”ہاں کافی بار دیکھ چکی ہوں پنک کلر کا ہے سٹالر تمہارا”کریسٹی نے مسکراتے ہوئے کہا “ویری فنی مذاق کا وقت نہیں ہے میں ویسے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہوں “اس نے پریشان ہوتے ہوئے کہا”تو آج آف کر لو نا یار”کریسٹی نے اسے مشورا دیا”بلکل نہیں تم نے ہی کہیں غائب کیا ہے اٹھو ذرا اس چئیر سے تمہارے پیچھے ہی ہے”فریشہ کو کچھ گلابی گلابی سا اسکے پیچھے محسوس ہوا تو اس پر چڑھ دوڑی مجبورن اسے اٹھنا پڑا “مجھے معلوم تھا یہ تمہاری ہی حرکت ہوگی”فریشہ نے سکارف چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا”آج مت جاو نہ میں بور ہو جاتی ہو فریشہ آج میری خاطر آف کر لو”کریسٹی نے کہا”نیور شرافت سے مجھے جانے دو اچھا ایسا کرتے ہیں تم شام میں ریڈی رہنا ہم ادالار چلیں گے ساحل پر گئے بہت وقت ہو گیا ہے “فریشہ نے دروازے تک جاتے ہوئے کہا”گریٹ ٹائم پر آ جانا مگر”۔ وہ اب گیٹ عبور کر رہی تھی”خداخافظ” وہ کہتے ہوئے نکل گئ۔”خدا خافظ”وہ زیر لب بربرائ اسے کیا ہوتا جا رہا وہ ٹرانسفورم ہو رہی تھی اور اسے خود کی ٹرانسفورمیژن اچھی لگ رہی تھی۔
******
کار تیز رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ وہ ہینڈ فریز کانوں میں لگائے فون پر کسی سے بات کر رہا تھا “جی مسٹر شجاع مجھے فائلز آفس میں چاہیے اپنے اگزیکٹ پانچ بجے۔۔جی میری بات ہو چکی ہے کمپنی کے شئیر ہولڈرز کو اب ہمارے ساتھ کو پریٹ تو کرنا ہی ہوگا پروجیکٹ کسی بھی طور پر ہمارے ہاتھ سے نکلنا نہیں چاہیے”وہ بہت دیر سے فون پر بحث کرنے کے بعد اب کال رکھ چکا تھا۔ کار اب بھی تیز رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھی اسے جلد سے جلد آفس پہنچنا تھا۔ وہ اب سٹیرنگ ویل پر ہاتھ رکھے ونڈ سکرین کے پار دیکھ رہا تھا کہ اچانک سیل دوبارہ بج اٹھا اسنے ونڈ سکرین سے نظریں ہٹا کر سیل پر دیکھا۔ نمبر دیکھتے ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ چھا گئ ابھی اسنے کال ریسیو کی ہی تھی کہ سامنے سے آنے والا تیز رفتار ٹرک اسکی کار کو اڑاتا ہوا بہت آگے لے گیا کار کی دھجیاں اڑ چکی تھی۔ اسکا سر سٹیرنگ ویل سے ٹکرایا اور چہرے کی ایک طرف شیشے کی کرچیاں چبھی تھی جن میں سے بے تہاشہ خون بہہ رہا تھا۔ اسکی سانسیں اکھڑنے لگیں۔اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔لائن پر اب بھی کوئ تھا جو پاگلوں کی طرح اسے پکار رہا تھا۔۔۔
****
پورے گھر کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ عرشمان اور حائصم بھی آج ہی پہنچے تھے۔ منگنی کے فنکشن کی بھر پور تیاری جاری تھی۔ ریحان صاحب کو تو آفس کے جھمیلوں سے ہی فرصت نہ تھی۔ بس ایک بیچاری ماہین ٹینشن کے مارے سر پر ہاتھ رکھے ہر ایک پر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھی تھی۔ “او شکر ہے بھائ آپ سو سو کر کمرے سے تو نکلے اب جا کر ذرا ڈیکوریشن والوں کو دیکھیں میں تو پاگل ہو چکی ہوں سب کچھ مینیج کر کر کے بجائے اس کے کہ آپ میرا ہاتھ بٹائیں خود ویلے پھر رہیں ہیں آپ تینوں بھائیوں نے تو مجھ اکلوتی کا بھرتا بنا دیا ہے ایک صاحب ایبروڈ جا چکے ہیں دوسرا نیوی میں گھس گیا ہے اور تیسرے جن مخترم کی انگیجمنٹ ہے انہیں آفس سے ہی فرصت نہیں”وہ فل ڈرامائ موڈ میں خود پر ٹوٹنے والے مظالم کی دکھ بھری داستان ایکشن کے ساتھ بیان کر رہی تھی۔ کہ سیڑھیاں اترتے حائصم کو اس پر ہنسی آنے لگی۔
عرشمان اب ڈیکوریشن والوں کے ساتھ مغض ماری کر رہا تھا کہ اسکا فون بج اٹھا اسنے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا”جی جناب میں تو پہنچ چکا ہوں اب آپ بھی تشریف کا ٹوکرا لے آئیں گھر”اس سے پہلے کہ وہ آگے کچھ کہتا دوسری جانب سے آنے والی آواز نے اس پر سکتا طاری کر دیا۔وہ بھاگتا ہوا گیراج میں پہنچا اور گاڑی سٹارٹ کرکے سڑک پر دوڑانے لگا۔ حوش و ہواس سے بیگانہ وہ ہاسپٹل پہنچا اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ وارڈ کے باہر کھڑا ہوا۔ کچھ ہی پلوں میں ڈاکٹرز باہر آئے وہ انکی طرف بھاگا “آئے ایم سوری ہم انہیں بچا نہیں سکے انجریز بہت سوویر تھی “اور کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئے ۔ اور وہ وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر گرتا چلا شائد کسی اپنے کو کھونے کا دکھ بہت اذیت ناک ہوتا ہے جس کا احساس اسے آج ہوا تھا
ماہین نے سیل فون بجتا دیکھا تو اسکی طرف بڑھ گئ”ہیلو بھائ آپ کہاں ہیں اور کچھ بتا کر بھی نہیں گئے”ماہین نے عرشمان کی کال ریسیو کرتے ہی اسکی کلاس لینی شروع کر دی۔”ماہین وہ۔۔۔”الفاظ اسکے لبوں پر دم توڑنے لگے”چلیں اب بتا بھی دیں شرافت سے کیا بات ہے کیوں مجھے بھی ہلکان کر رہے ہیں۔۔”ماہین نے پوچھا۔”ماہین میری بات بہت صبر اور حوصلے سے سننا ریحان کا بہت ایکسٹریم قسم کا کار ایکسیڈینٹ ہوا ہے اور کچھ دیر پہلے وہ ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے”آخر میں عرشمان کا ضبط جواب دے گیا اور وہ رونے لگا۔ماہین کے ہاتھ سے سیل فون زمین پر گرا تو حائصم جو اس سے کچھ دور ہی کھڑا تھا بھاگتے ہوئے اسکے قریب آیا وہ کسی بھی لمحے گر سکتی تھی۔حائصم نے اس کے چہرے کو زرد ہوتا دیکھا تو پوچھنے لگا”نو نتھنگ از اوکے۔۔مائے ڈئیریسٹ برادر ہیز ڈائید” اور وہ اسکا سہرا پاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔”او گوڈ ماہین سنبھالیں خود کو صبر سے کام لیں پلیز
“لیکن وہ بلک بلک کر روتی رہی”خرا تعالی ان کی مغفرت فرمائے گا آپ پلیز یوں روویں مت”اسے اسکے رونے سے دکھ پہنچا تھا”آخردیا
وں نہ رووں میں میرا بھائ چلا گیا دنیا سے میری یہ حالت ہے تو نجانے عائشہ کا کیا حشر ہوگا وہ کیسے جئیے گی بھائ کے بنا بہت پیار کرتی ہے وہ ان سے”اسنے اپنے آنسو خشک کیے اسے ہمت نہیں ہارنی تھی اسے عائشہ کو حوصلہ دینا تھا وہ خود ٹوٹ جاتی تو عائشہ کو کون سنبھالتا۔ ہم اسے یہ درد ناک خبر آخر کیسے دیں گے۔
اسنے سوچا۔حائصم نے اسے پانی کا گلاس تھمایا جسے وہ فوری طور پر پی گئ”حائصم آپ پلیز مجھے عائشہ کے پاس لے جائیں پلیز حائصم”ماہین نے روتے ہوئے اس سے کہا”اوکے میں کار نکال رہا ہوں آپ آجائیں وہ اسکے بالوں کو سہلاتا ہوا باہر کی طرف چل دیا اور وہ جو خود پر ضنط کے بندھ باندھ رہی تھی وہ پھر سے کھل گئے اور وہ پھر رونے لگی۔
*****
انکرا میں رات کا سناٹا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ وجاہت اور انس سر تھام کر بیٹھے تھے جیسے کسی بہت گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہوں۔انس نے ہاتھ میں پکڑا شیشے کا گلاس جو وائن سے بھرا ہوا تھا اسے تھامے چکر کاٹنے لگا پھر اچانک تیش میں آکر اسنے وہ گلاس پوری قوت سے دیوار پر دے مارا وہ کسی صورت خود پر کنٹرول نہیں رکھ پا رہا تھا اس نے ٹیبل سے دوسرا گلاس اٹھایا اور اسے بھی دیوار پر دے مارا”آخر وہ گئ تو گئ کہاں زمین نگل گئ یا آسمان کھا گیا اسے گوڈ ڈیمٹ مجھے وہ ہر حال میں اپنے قبضے میں چاہیے”اس نے تیسر گلاس بھی توڑنے کو ابھی اٹھایا ہی تھا کہ وجاہت نے وہ گلاس اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
“ریلیکس مائے سن جسٹ بی کالم ازنے جانا کہاں ہے لوٹ آئے گئ اپنے پنجرے میں۔۔”انہوں نے مسکراتے ہوئے بیٹے کو تسلی دی۔ “ڈیڈ آپ نہیں جانتے وہ سونے کی چڑیا ہے ہم اسکے پر تو کاٹ چکے ہیں مگر اسے اڑنے سے نہیں روک پائے میں نے اس ایریا پر بہت انویسٹمنٹ کی ہے اگر وہ جلد سے جلد سے جلد میرے نام نہ ہوئ تو کڑوڑوں کا نقصان ہوگا۔ میں یہ نقصان بلکل برداشت نہیں کر سکتا”وہ پریشانی کے عالم میں پھر ٹہلنے لگا”مجھے سب ہینڈل کرنا آتا ہے ڈونٹ یو وری”انہوں نے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا تو انس نے غصے سے انکا ہاتھ جھٹک دیا “کیا سنبھالیں گے آپ چھے ماہ ہوچکے ہیں وہ پاکستان سے بھی غائب ہے وہاں موجود اسکا اپارٹمنٹ لاکڈ ہے میں اچھی طرح چھان بین کر چکا ہوں اسکا کوئ سرا ہاتھ نہیں لگ رہا”وہ پریشانی سے اب اپنا کان سہلانے لگا۔
“لیکن میرے پاس اب بھی ایک کارڈ موجود ہے ڈونٹ وری میں اپنے ایک خاص آدمی سے بات کرکے دیکھتا ہوں”انہوں نے کہتے ہوئے جیب سے سیل فون نکالا”ہاں تمہیں کام معلوم ہے نہ استنبول کا چپہ چپہ چھانو اور وہ جہاں بھی ہے اسے ڈھونڈ نکالو تمہیں تمہاری منہ مانگی قیمت ملے گی مگر مجھے وہ ہر حالت میں چاہیے جو بھی کرو تمہارے پاس صرف ایک ماہ کا وقت ہے”کہتے ہوئے انہوں نے فون بند کر دیا”وہ جلد ہی ہمارے شکنجے میں ہوگی”انہوں نے اسے مسکراتے ہوئے کہا ۔”اور آپ کے پاس ایسا کون سا کارڈ موجود ہے؟”انس نے انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا”اسکا لالچی باپ اب ہمیں اسکی ضرورت نہیں رہی اور جو شے نکارہ ہو جاتی ہے اسے ہم ضایع کر دیتے ہیں”وہ دونوں پھر مسکرائے۔ باہر سیاہی انکرا کے آسمان کو مزید سیاہ بنا رہی تھیں۔
*****
وہ دونوں سمندر کے قریب بیٹھی اپنے پاوں سے جوتے اتار کر ریت کی نمی کو اپنی پوروں سے محسوس کر رہی تھی۔ ہوا بہت پر سکون تھی۔ لہریں بار بار ساحل سے ٹکرا کر سمندر میں مدغوم ہو جاتیں۔اور وہ ان ڈبتی ابھرتی لہروں کو بہت توجہ سے دیکھ رہی تھی ۔ اس کے ذہن میں جانے کہا سمائ کہ وہ فریشہ سے آخر ذہن میں انے والا سوال پوچھ ہی بیٹھی “فریشہ تم اپنے خدا سے اتنی محبت کیوں کرتی ہو؟”اس نے لہروں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا”کیونکہ وہ اس قابل ہیں کہ میں ان سے جنوں کی حد تک محبت کروں سب کچھ تو عطا کیا اس خالق نے مجھے”فریشہ نے نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا “تو کیا انسان محبت کے قابل نہیں ہوتا فریشہ”کریسٹی نے اپنی الجھن اسکے سامنے بیان کی “بلکل انسان بھی محبت کے قابل ضرور ہوتا ہے مگر خدا سے زیادہ کا نہیں انسان سے محبت رب سے بڑھ کر نہیں چاہیے اگر محبتوں میں توازن نہ رہے تو وہ اپنی حیثیت کھونے لگتی ہے”فریشہ نے اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں پر رکھتے ہوئے کہا۔
“انسان کی محبت میں توزان سے کیا مطلب ہے تمہار۔۔”اسنے پوچھا”تمہیں یہ لہریں نظر آرہی ہیں کچھ اوپر اٹھتی اور پھر سمندر سے مل جانے والی لہریں انسان سے محبت بھی بلکل اسی کی مانند ہے”فریشہ نے سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا”یہ جو غیر کی محبت ہوتی ہے نہ یہ بھی دور سے سمندر کی لہروں کی مانند بہت خوبصورت دکھائ دیتی ہے جب یہ ہمارے دل میں جنم لیتی ہے تو یہ بھی اوپر کی طرف اٹھتی ہے بہت جنوں سے بہت والہانہ طور پر مگر یہ جتنی بھی بلند ہو آسمان کی بلندی کو نہیں چھو سکتی جانتی ہو کیوں۔۔۔کیونکہ اسے دوبارہ پستیوں میں گرنا ہی ہوتا ہے اسے واپس سمندر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں شامل ہونا ہی ہوتا ہے۔۔اس لیے کہ اس پر اپنی حقیقت واضح ہو سکے۔۔۔۔وہ یہ جان سکے کہ ہر چیز کو زوال ہے سوائے عشق حقیقی کے۔ صرف خدا کی محبت لافانی ہے باقی ہر شہ کو اختتام پر پہنچنا ہے خدا انسان کہ دل میں کسی اور کی محبت معلوم ہے کیوں ڈالتا ہے؟تاکہ وہ اسے آزما سکے لیکن جب انسان کسی غیر کو خدا پر فوقیت دینے لگتا ہے تو خدا اسے اسی کے ہاتھوں توڑتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ ہے کوئ جو مجھ زیادہ تمہیں محبت دے تو پھر انسان پر اسکی اوقات کھلتی ہے اور وہ بے بس ہوکر جب اسی ذات سے رجوع کرتا ہے تو خدا اسے اپنی دولت سے مالامال کر دیتا ہے اور پھر اسے کسی اور کی محبت کی ضرورت نہیں پرتی”وہ اسکی باتوں مین یوں گم ہوتی چلی گئ کہ جیسے وہ اسی کے لیے ہوں اسے ہی سمجائ جا رہی ہوں۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کرسٹی نے اس سے پوچھا “تمہیںساحل کے اس پار کیا دکھائ دیتا ہے فریشہ اسنے ڈوبتے سورج کی طرف دھیکا جو اب غروب ہو رہا تھا۔”لوگوں کو ساحل کے اس پار اس ڈھلتے آفتاب کو دیکھ کر مایوسی اور افسردگی محسوس ہوتی ہے مگر جانتی ہو مجھے کیا دکھائ دیتا ہے مجھے اس کے پار امید دکھائ دیتی ہے اور وہ امید اس سورج کی مانند ہے جو ہر صبح طلوع ہوتے ہوئے مرمرا کے پانیون کو اپنی روشنی سے بھر دیتی ہے اور ہر صبح کی خوشگوار فضا کو استنبول کے کبوتروں اور بغلوں کی اڑان سے اسے مزید اوپر پرواز کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ دونوں اب اپنے کپڑے جھارتے ہوئے کھڑی ہو گئیں اور واپسی کے لیے پلٹ گئیں مگر مرمرا کا سمندر اب اک نئ صبح کے طلوع ہونے کا منتظر تھا۔
***
کال تو کب کی ڈسکونیکٹ ہو چکی تھی مگر عائشہ کے ذہن پر اب بھی ان آوازوں کا ڈیرا تھا جو اسنے آخری وقت میں ریحان کی سنی تھیں وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی مگر ریحان اسے چھوڑ کر جا چکا تھا۔ آج دو دن گزر چکے تھے اسی موت کو مگر عائشہ کا سکتہ ٹوٹنے پر نہیں آ رہا تھا زندگی نے اسکے ساتھ کون سا کھیل کھیلا تھا سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ ماہین اس سے ملنے آئ تو وہ اسکے گلے لگ کر بے تہاشا روئ تھی۔ اسکی خوشیوں کو جانے کس کی نظر لگ گئ تھی۔ کیوں اتنی بے رحمی سے کوئ اسکی سانسیں چرا لے گیا تھا۔ عرشمان سے تو اس بکھری ہوئ معصوم سی گڑیا سے ملنے اور اسے حوصلہ تک دینے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ دونوں اپنی محبت کھو بیٹھے تھے وہ اپنی سب کشتیاں جلا چکے تھے۔ محبت کی اس تڑپ نے انہیں کہیں چھوراتھا۔ سمجھ ہی نہ آتی کہ کون کس کے درد کا مداوا کرتا۔ کون کسے کس کے دکھ سے باہر لانے کی کوشش کرے۔
وقت اب ان زندگی کو بہت تیزی سے بدل رہا تھا عائشہ کو اب صبر آنے لگا تھا ۔ وقت اسکے لیے مرہم کے طور پر کام کر رہا تھا اس نے دوبارہ یونی جوائن کر لی تھی سمن اور حسن ہر وقت اسکی دل جوعی کرنے میں لگے رہتے۔ مگر وہ اب بہت سنجیدہ ہو چکی تھی ان کی کچھ باتوں پر مسکرا بھی دیتی۔ حسن کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنی اس دوست کو دنیا کی ہر خوشی خرید کر لا دے ۔ وہ اس عرصے میں اسکے کافی قریب آچکا تھا اسکا بہت خیال بھی رکھتا وہ اب اسے ہر دکھ سے بچانا چاہتا تھا ۔ مگر عائشہ کا رویہ اب بھی سنجیدہ ہی رہتا کچھ وقت کے لیے وہ نارمل ہو جاتی۔
***
ڈیرھ سال کا وقت کیسے پر لگا کر گزر گیا کسی کو معلوم بھی نہ ہو سکا ۔ ریحان کے جانے کے بعد سب کچھ بدل چکا تھا ۔ مصطفی صاحب کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی ریحان کی موت نے انہیں بہت بڑا جھٹکا دیا تھا کہ وہ اس قدر بیزار ہو چکے تھے کہ بزنس سے بھی انکا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ بزنس کی حالت لو ہوتی جا رہی تھی۔ ارسلان اپنے جھمیلوں میں اتنا پھنس چکا تھا کہ کسی بھی صورت واپس نہیں آسکتا تھا۔ اس لیے عرشمان نے نیوی چھوڑ دی اور اب ڈیڈ کے بزنس کو دیکھنے لگا۔ ایک سال میں وہ اس قدر محنت اور لگن سے کمپنی کی ساکھ کو دوبارہ بحال کر پایا۔
حائصم کی ماہین سے منگنی ہوچکی تھی اور اگکے سال اسکی بھی شادی ہوجانا تھی ۔ ممی اسکے پیچھے ہاتھ دھو کر پریں تھی کہ وہ عائشہ سے منگنی کر لے اور وہ دو ماہ بعد اسکی بھی شادی کر دیں۔ مگر وہ بزنس پر فوکس کرنا چاہتا تھا ۔ یو کے اور مختلف ممالک مین وہ برانچز کھول چکا تھا ہاں مگر رات بستر پر لیٹتے ہی اسے وہ دو پر کشش نیلی آنکھیں بہت شدت سے یاد آتی مگر وہ انہیں جھٹک کر سونے کی ناکام کوشش کرنے لگتا۔
مصطفی صاحب کو وہ بہت سے سائیکیٹرسٹش کو دکھا چکا تھا مگر انکا ڈیپریشن کسی صورت کم نہ ہوتا ۔ وہ بزنس کو ترکی میں اب ایکسٹینڈ کرنا چاہتاتھا اسی لیے ڈیڈ کو ساتھ لے کر وہ استنبول آ چکا تھا۔ ایک دو ڈیلیگیشنز سے میتنگ کے بعد۔اسنے بہترین استنبول کے سائکیٹرسٹ کو سرچ آوٹ کیا ۔ مصطفی صاحب کی حالت اب پہلے سے بڑھ کر خراب ہو رہی تھی وہ اب تک ریحان کے ایکسیڈنٹ کا صدمہ برداسٹ نہیں کر پائے تھے۔ اور عرشمان اب مزید کسی کو کھونے کا دکھ براست نہیں کر سکتا تھا۔
افس میں چھائ خاموشی کو سیل فون کی ٹون نے توڑا اس نے کچھ سوچتے ہوئے سیل جیب سے نکالا اور ڈیٹیلز پر نگاہ ڈال نگاہ ڈال کر کچھ سوچتے ہوئے سیل فون پر نمبر ملانے لگا۔ دوسری جانب بیل جارہی تھی کہ کسی نے کال ریسیو کی “may I talk to doctor farisha ali” دوسری جانب سے بھی جواب موصول ہوا”yes I am speaking” فریشہ نے نرم لہجے میں کہا”Iam mr.arshman I need to fix out an appointment with you for my father”اسنے گمبھیر لہجے مین کہا اور تمام معلومات لے کر فون رکھ دیا
وہ مصطفی صاحب کا کافی دیر تک تفصیل سے چیک اپ کرتی رہی۔ اور آخر میں عرشمان کو کچھ پریکوشنز بتانے لگی اس سب میں وہ اسے کافی الجھا الجھا اور پریشان محسوس ہوا۔ “مجھے تو لگتا ہے آپ کو بھی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے اگر آپ برا نا مانیں تو مجھ سے ڈسکس کر سکتے ہیں”فریشہ نے نرمی سے کہا۔ وہ بہت دنوں سے کافی ڈیپریس تھا کچھ ڈیڈ کی گرتی صحت کے باعث اور کچھ ریحان کی یاد بہت آنے لگی تھی۔ آفس میں اکثر اسکا دیہان بٹ جاتا تھا۔ وہ روز بروز بہت سنجیدہ اور خاموش رہنے لگا تھا۔”ایسا کچھ نہیں ہے آئے ایم فائن بس لاسٹ ٹو ائیرز میں
اتنے حادثات ہماری فیملی پر گزر چکے ہیں کہ میں مینٹلی طور پر کچھ ڈسٹرب ہو چکا ہوں”عرشمان نے نیم مسکراہٹ سے کہا”اٹس اوکے پریشانیاں اور غم بھی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں خدا نے کسی کو مکمل نہیں بنایا پرفیکشن صرف خدا کی ذات میں ہے اینی ویز آپ جب چاہیں مجھے کال کر سکتے ہیں آپ بھی بلکل میرے دوستوں کی طرح ہیں استنبول میں اب تک آپ نے کسی کو دوست نہیں بنایا ہوگا”اسنے کارڈ عرشمان کی طرف بڑھاتے ہوئے پیشاوارانہ مسکراہٹ سے کہا۔
******
نیا سال شروع ہوئے بھی اب دو ماہ گزر چکے تھے۔ وقت بہت رفتار میں بیت رہا تھا۔مگر اس وقت کی سب سے حسین بات یہی تھی کہ وہ انسان کو کچھ نا کچھ سکھا کر ہی گزر رہا تھا۔ کرسٹی میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں رونماں ہوئ تھی وہ اب فریشہ سے باقاعدہ قرآن پڑھتی اور سمجھتی تھی۔ فریشہ نے ایک پرائیوٹ ہاسپٹل میں اپلائ کیا تھا جس سے اسکی صلاحیتوں کو مزید تقویت مل سکتی تھی مگر ایک مسئلہ تھا نائٹ جاب سے وہ کلاس نہیں لے سکتی تھی اس لیے اس نے حور کو انزیسٹ کیا کہ اب تو وہ قرآن پڑھ بھی چکی ہے اسکا مفہوم بھی بیان کر سکتی ہے تو وہ کلاس دیا کرے”لیکن فریشہ میں۔۔۔میں کیسے دے سکتی ہوں کلاس میں تو اتنی گنہگار ہوں اس قدر خدا کی نافرمان رہ چکی ہوں نہیں فریشہ پلیز میں نہیں دے پاوں گی”وہ بوکھلائ”حور۔۔میری جان تم خدا کو بہت عزیز ہو اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ تمہیں ہدایت کی راہ پر کیوں چلاتا اسی نے تمہارے قلب میں یہ پاک کلام محفوظ کیا ہے اور وہی تمہیں اسے آگے پہنچانے کی صلاحیت بخشے گا تم خدا پر یقین رکھو وہ سب بہتر کرنے والا ہے”آنسو اسکے چہرے کو بھگونے لگے۔
رات کی تاریکی میں وہ تنہا برآمدے میں بیٹھی ماہتاب کو دیکھنے میں مہو تھی جس نے اردگرد کے تمام ماحول میں چاندنی پھیلائ ہوئ تھی۔ آج اس نے پہلی بار کاس لی تھی اور بامشکل ایک گھنٹہ ہی دے پائ تھی تمام وقت اسکے ہاتھوں کی انگلیاں کپکپا رہیں تھی اور آنسووں کے دریا پر بندھ باندھے نہیں بندھ رہا تھا۔ وہ بولنے کے ساتھ ساتھ اپنی نگاہوں کے نرم گوشے بھی صاف کرنے لگتی۔کلاس ختم ہونے کے بعد وہ برآمدے میں آبیٹھی۔اپنی انگلی میں موجود چاند کی روشنی میں دمکتی نحیف سی ڈائمنڈ رنگ کو گھماتی وہ اپنے خیالوں میں گم تھی اسے آج معلوم ہو رہا تھا کہ زندگی کے بیس سال اسنے اک سیراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزاری تھی یوں جیسے کوئ پیاسا صحرا کی تپتی دھوپ پانی کی تلاش میں سفر کر رہا ہو اور اسے یوں شبہ ہو کہ کچھ آگے پانی کی ایک ندی ہے اور جب وہ اسکے قریب پہنچے تو ہاں دہکتی ریت کے سوا اور کچھ نہ ہو۔۔۔۔اسے اپنی زندگی بھی ویسی ہی محسوس ہوئ۔کیوں عرشمان۔۔۔آخر کیوں تم نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا میرا کیا قصور تھا۔۔اگر تم مجھے نرمی سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تو کیا میں نہیں بدلتی مگر ہو تو تم بھی آخر انسان ہی معاف کیسے کر سکتے تھے مجھے بھلا۔۔۔اگر خود سے جدا کرنا ہی تھا مجھے تم اپنی یہ امانت بھی مجھ سے واپس لے لیتے اس پر بھی میرا کوئ حق نہیں۔۔۔وہ ہچکیوں سمیت رو کر گرگرانے لگی التجا کرنے لگی۔۔
رات ہاسپٹل سے وہ کافی دیر سے لوٹی تھی۔ فریشہ کو شدید تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی مگر وہ کبھی ظاہر نہیں کرتی تھی حور کو اسکی یہی سب سے دلچسپ لگتی تھی۔ اپنی کمزوری کسی کے سامنے عیاں نہ ہونے دینا۔ حور اسکے لیے کھانا گرم کرکے لے آئ دن بھر کہ بعد اب ہی انہیں بات کفنے کا موقع ملتا ورنہ صبح تو فریشہ نے پورے گھر میں یوں ہل چل مچائ ہوتی جیسے اسکی صدر امریکہ سے میٹنگ فکس ہو۔ حور کو اب کلاس لیتے ہوئے بھی ایک ماہ ہوچکا تھا اور وہ کافی اچھے سے سب کچھ مینیج کر رہی تھی”تمہیں پتا ہے حور “head of embraizers” کی انگیجمنٹ فکس ہو گئ ہے اپنی کزن کے ساتھ چلو فائینلی اس آدمی کو کوئ لڑکی تو ملی ورنہ جتنا وہ سرد مہر ہے میرا نہیں خیال تھا کبھی شادی بھی کرے گا”فریشہ نے مسکراتے ہوئے بتایا وہ پچھلے دو ماہ سے اس “head of embraizer” کی داستان امیر حمزہ سن سن کر اکتا چکی تھی۔ سنا تھا اسنے کہ وہ بزنس چین رن اوٹ کر رہا ہے اور فریشہ کا بہت اچھا دوست بھی بن چکا ہے ابھی پچھلے ماہ اسنے فریشہ کو بتایا تھا کہ اسکے بھائ کی کار ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئ اور فریشہ ان دنوں کافی اداس بھی رہی وہ ایسی ہی تھی اس سے کسی کا دکھ نہیں دیکھا جاتا تھا۔اسی وجہ سے فریشہ نے اسکی مغفرت کے لیے دعا بھی کروائ۔۔حور کو لگتا جیسے فریشہ اس سے زیادہ اب اس شخص کی دوست بنتی جا رہئ ہے تو کبھی کبھار وہ فریشہ سے لڑ بھی پرتی “میں بتا رہی ہوں فریشہ اب تم نے مجھ سے زیادہ اس ہیڈ کو اہمیت دی تو دیکھنا ھوڑوں گی نہیں تمہیں”تو فریشہ پیار سے اسکا گال دباتے ہوئے کہتی “دوست تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں میرے لیے تم بھی بہت اہم ہو اور وہ بھی”حور اسے گھوڑنے لگتی “مگر مجھ سے زیادہ اہم نہیں “تو فریشہ مسکرانے لگتی “تم سے زیادہ کوئ ہو بھی نہیں سکتا”
“تمہیں بھی میرے ساتھ چلنا ہے اسکی انگیجمنٹ پر انویٹیشن کارڈ ہم دونوں کے لیے ہے میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا میں اپنی بیسٹی کے بنا نہیں آوں گی “فریشہ نے کھانا ختم کرتے ہوئے کہا”میرا موڈ نہیں ہے”حور نے جان چھڑانی چاہی”میں کوئ ایکسکیوز نہیں سنوں گی اس نے صرف میرے کہنے پر انگیجمنٹ استنبول میں ہی رکھی ہے ورنہ وہ یہاں نہ کرتے اب نہیں جائیں گے تو برا لگے گا ” فریشہ نے سمچھاتے ہوئے کہا “اچھا چلیں جائیں گے تمہارے اس “head of embraizer” کی انگیجمنٹ پر “حور نے اکتاتے ہوئے کہا”یاہووو
****