عمارتیں گری ہوئی تھیں، گاڑیاں پچک چکی تھیں، تالابوں میں تھیں۔ ساحل کے پاس گھروں کے ڈھانچے بھی اکھڑ چکے تھے۔ صرف بنیاد کی کنکریٹ بتاتی تھی کہ کبھی یہاں بھی عالیشان رہائش گاہ تھی۔ یہاں پر چار ماہ پہلے آفت آئی تھی۔ لیکن کوئی ملبہ نہیں ہٹا رہا تھا۔ کہیں ہتھوڑے سے کیل ٹھوکنے کی آواز نہیں تھی۔ ریسکیو کرنے والوں نے سپرے پینٹ سے یہاں پر ہر گھر کی تفصیل لکھی تھی۔ اس کی تلاشی کب کی گئی، کیا خطرات ہیں، کیا کوئی لاش یہاں سے ملی۔ کٹرینا طوفان نے نیو اورلینز شہر کا بڑا حصہ ملیا میٹ کر دیا تھا۔ یہ ساحلِ سمندر پر 2005 کا ایک روشن دن تھا۔ یہاں پر خاموشی تھی۔ صرف کچھ پرندے چہچہا رہے تھے۔ ان کے لئے یہ گلف کے ساحل پر ایک اور سہانا دن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم کی شماریات کمپیوٹر میں اعداد و شمار کا یا لکھے گئے خشک مضامین کا حصہ بنتی ہیں۔ لیکن آنکھوں سے دیکھے جانے والے ایسے مناظر کا احساس کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب گلیشیر بڑھتے ہیں تو سمندروں کی سطح گرتی ہے۔ جب یہ گھٹتے ہیں تو سمندروں کی سطح بڑھتی ہے۔ برف اور سمندر کا باہم رقص دسیوں کروڑ سالوں سے اسی طرح سے جاری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور گلیشیروں کے گھٹنے کا ہے۔
سمندر کی سطح اس وقت سالانہ ایک تہائی سینٹی میٹر بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ گلیشیروں کی برف پگھلنا اور سمندر کے گرم ہونے والے پانی کا تھرمل پھیلاو ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سمندر کی سطح کم از کم اگلی کچھ صدیوں تک بڑھتی رہے گی۔ جو نامعلوم ہے، وہ یہ کہ اس کے بڑھنے کی رفتار کیا ہو گی۔ کیا یہ مسلسل ایک رفتار سے بڑھی گی یا جھٹکوں کے ساتھ۔ اور یہ بالآخر کتنی بلند ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیامِ پاکستان کے وقت میں عالمی سمندر آج کے مقابلے میں دس سینٹی میٹر کم سطح رکھتے تھے۔ اور اس وقت اس میں اضافہ ایک ملی میٹر سالانہ تھا۔ اب یہ اضافہ تقریباً تین ملی میٹر سالانہ ہے۔
اس صدی کے آخر تک سمندر کی سطح تین سے چھ فٹ کے درمیان بڑھ سکتی ہے۔ اور یہ بہت سا پانی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی شہر یا تو چھوڑے جا چکے ہوں گے یا پھر اونچے بند بنا کر پانی کو روکا جا چکا ہو گا۔ شاید بنگلہ دیش کا ایک چوتھائی حصہ سمندر نگل چکا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سمندر بڑھتا ہے تو ساحلی علاقوں کو چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔ اور ان میں سے ایک چیلنج یہ ہے کہ طوفان شدید تر ہوتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ پانی کی تبخیر سے ہوا کو زیادہ مرطوب کر سکتے ہیں۔ اور ایک بار پھر، خطرات کی واحد وجہ موسمیاتی تبدیلی نہیں۔