(Last Updated On: )
تاجدار عادل(کراچی)
سمجھ میں آ نہ سکا دل کا حال تھا کیسا
کہ اس سے مل کے بھی ہم کو ملال تھا کیسا
جسے یقین رہا مستقل بلندی کا
خبر ہوئی ہے اُسی کو زوال تھا کیسا
یہ آفتاب و ستارہ تو اک علامت ہیں
کہیں یہ کس سے کہ وہ بے مثال تھا کیسا
سنائیں کس کو کہ یہ ہجر سب کا موسم ہے
کسے بتائیں الگ اپنا حال تھا کیسا
نشاط وصل میں دل بھی سمجھ سکا نہ جسے
تری نگاہ میں جانے سوال تھا کیسا
جو ایک بوند لہو کی پلک پہ اُبھری تھی
بتا رہی تھی بچھڑ کر ملال تھا کیسا
کبھی جو آئے گا چہرے پہ گردِ وقت لئے
اُسے بتائیں گے اُس کا جمال تھا کیسا
خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور نہیں سمجھے
صباؔ کو قید کیا جس نے سال تھا کیسا
سجایا شہرِ سخن کو بھی جس طرح چاہا
ہمارے ہاتھوں میں عادؔل کمال تھا کیسا