“وہ تہذیبیں اور معاشرے پھلتے پھولتے ہیں جو بدلتے سماجی، سیاسی، روحانی اور فزیکل ماحول سے مطابقت رکھنے کا انتخاب کر سکیں”۔ مگنسن کا یہ فقرہ دلچسپ ہے۔ خاص طور پر اس میں “انتخاب” ایک دلچسپ اور اہم تصور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس قدرتی نظام کا ہی حصہ ہیں لیکن ہمارا طرہ امتیاز انتخاب کر لینے کی صلاحیت ہے۔ یعنی ہم محض فطری عوامل کے رحم و کرم پر ہی نہیں بلکہ ہمارے کئے گئے انتخاب تاریخ کے دھارے کو اور ہماری قسمت کو بدل سکتے ہیں۔ یہ انتخاب انفرادی بھی ہوتے ہیں اور کسی گروہ، قوم یا ملک کے لئے اجتماعی بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت اپنے نظام میں بے نیاز ہے۔ کوئی مارا جاتا ہے، کوئی کچل دیا جاتا ہے، ختم ہو جاتا ہے۔ اربوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ انسان کی فری ول کا مطلب یہ ہے ہم اپنے انتخاب میں اخلاقی لحاظ سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اور نہ ہی ہمارے پاس مضبوط سسٹم بنانے کے لئے ہزاروں سال کے وقت کی گنجائش ہے۔ ہمیں قدرت سے سیکھے سبق اپنے معاشروں اور سیاست پر شعوری طور پر اور ممکنہ حد تک تیزی سے لاگو کرنے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم سیاسی اعتبار سے پچھلے ابواب کے سبق کا خلاصہ سماجیات پر کریں تو وہ یہ ہیں۔
۱۔ اپنے سے باہر والوں سے سیکھنے کی صلاحیت۔ خاص طور پر اگر وہ معاشی اور عسکری لحاظ سے برتر ہوں۔ (اور ایسا کرنے میں کمتری یا ذلت کا عنصر نہ ہو)۔
۲۔ تنوع اور کثیر خیالی کو قبول کرنے کی صلاحیت۔
۳۔ اپنے مستقبل اور مسائل کے حل کی ذمہ داری خود لینا۔
۴۔ مقامی اور مرکزی تنظیم کا توازن۔ جیسا کہ ایک جنگل ایکوسسٹم کے اوپر ایکوسسٹم کے اوپر ایکوسسٹم کا جال ہے۔ ہر فرد اور ذیلی گروہ الگ بھی پھلتا پھولتا ہے لیکن ایک اہم حصہ اس کا کُل ہے جس سے بالآخر سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
۵۔ سیاست یا دوسرے سماجی امور کے مسائل پر سبک رفتاری سے اور لچکدار ذہن کے ساتھ کام کرنا۔ اور اس بات کو قبول کرنا کہ اچھے خیالات کسی بھی طرف سے آ سکتے ہیں۔ آپ کے بدترین مخالف کی طرف سے بھی۔ مضبوط معاشرے میں متنوع خیالات اور نظریات ملکر ارتقاپذیر ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔
اور یہ کیسے اور کس رفتار سے ہو سکتا ہے؟ اس کا تعلق سیاست، کلچر اور قیادت سے ہے۔ کلچر کسی معاشرے کے سیاسی ردِعمل کو تشکیل دیتا ہے۔ اور اس کی قیادت اور سیاست ملکر کلچر کو تشکیل دیتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...