(Last Updated On: )
سمیٹ کر تیرے غم کو، بکھر نہ جاوں کہیں
مسافرت میں ہوں راستے میں مر نہ جاوں کہیں
سیاہ بن میں لگا ہے ، سفر محال مجھے
کہ ساتھ دو کوئی لمحات ، ڈر نہ جاوں کہیں
نظر ہو ہم پہ بھی سائیں کبھی کرم کی نظر
تِری نگاہ سے میں بے اثر نہ جاوں کہیں
چھپا لے اپنی نگاہوں میں تُو ذرا مجھکو
کہ خوشبووں کی طر ح ، میں بکھر نہ جاوں کہیں
ضمیر مردہ ہیں سب کے ، یہاں پہ اے عاقل
اُجاڑ و تنہا ہے یہ شہر ، مر نہ جاوں کہیں