صمد آغا نے مشورہ دیا کہ ہم چاروں اس بات کی کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہونے دینگے ۔ هر وقت چاک و چوبند رہیں گے ۔ اور اس کمرے کو مکمل طور پر بند کر دیتے ہیں ۔ شادی کے بعد ہم یہاں پولیس کی مدد سے سارا معاملہ چیک کروا لینگے ۔
بس سب ملکر دعا کرو یہاں چار دن کا قیام امن و سکوں سے گزر جائے
پر ملازمین کے کمرے میں انسانی ہڈیوں کا کیا کام ۔ چلو اب کل صبح ہاؤس سے باہر نکلیں گے اور آس پاس کے لوگوں سے کچھ مدد طلب کرینگے ۔ میں تو اس بات سے پریشان ہوں کہ وہ عورت بہت دیکھی بھالی تھی تو مجھے یاد کیوں نہیں آ رھی ۔
سعد کو بھوک محسوس ہوئی اس نے کچن کا رخ کیا شائد کچھ سامان مل جاۓ ۔ اس نے دیکھا کچن صاف ستھرا اور کھانے پینے کی تمام چیزیں بڑے طریقے سے رکھی گئی تھی ۔ وہ سوچ میں پڑ گیا اتنا سامان یہاں کس نے رکھا ہوگا ۔ ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ پیچھے کھڑا ملازم جیسے اسکی سوچ پڑھ چکا تھا ۔ اس نے کہا ۔ آپ لوگوں کی اطلاع ملتے ہی تمام سامان منگوایا گیا تھا ۔ یار ایک بات تو بتاؤ ۔ سعد نے ملازم سے پوچھا ۔ یہ اتنی اطلاع دیتا کون تھا ۔ اس نے پھر پیلے پیلے دانت نکال کر کہا ۔ کوئی بندہ آیا تھا شہر سے بتانے ۔ اچھا یہ بتاؤ صابر کہاں ھے ۔
ملازم نے بتایا کہ اس کی موت ہو گئی تھی دس بارہ سال پہلے ۔ سعد کو اب ڈر کم اور غصّہ زیادہ انے لگا تھا ۔ یہ کن بھول بھلیوں میں پڑ گئے ہم ۔
سعد نے رضی کی مدد سے رات کا کھانا بنایا ۔ کھانا اتنا اچھا تو نہیں بنا مگر سب نے پیٹ بھر کر کھایا اور کل سب کے آنے کا انتظار لیے سو گئے ۔ رات کے کسی پہر سرمد آغا کی آنکھ عجیب و غریب آواز پر کھل گئی ۔ انہوں نے غور سے سننے کی کوشش کی اور اٹھ کر کھڑکی کے پاس اے ۔ سامنے جو منظر تھا ناقابل قبول ۔ انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ۔ زرین کی ابٹن کی رسم چل رہی تھی ۔
زرین بچپن کی عمر میں تھی لگ بھگ دس گیارہ برس کی ۔اسکے ساتھ کوئی لڑکا دولہا بنا بیٹھا تھا جسے سرمد آغا نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ انہوں نے دیکھا جس لڑکے سمیع سے زرین کی شادی تھی اسے ایک درخت سے الٹا لٹکایا ہوا تھا اور اس کے سر سے خون ٹپک ٹپک کر ایک ٹرے میں گر رہا تھا ۔ لوگ لائن بنا کر زرین کے ماتھے پر سمیع کے فریش خون سے زرین اور دوسرے بچے جو دولہا بنا بیٹھا تھا انکو ٹیکا لگاتے ہو جا رھے تھے ۔ زرین کا چہرہ خون سے لت پت ہو چکا تھا ۔ زرین کے ساتھ بیٹھے ہوئے بچے جو دولہا تھا اس کا چہرہ بھی خون کیوجہ سے پہچانا نہیں جا رہا تھا ۔ عورت کی نظر سرمد آغا کے ساتھ جب ملی تو سرمد آغا کو جھرجھری ا گئی ۔ وہ کھڑکی سے ہٹ گئے اور اپنے بیڈ پر بیٹھ کر زارو قطار رونے لگے ۔ اور اللہ سے دعا کی کہ آے میرے پروردگار جو غلطی ہو گئی مجھ سے تو معاف فرما ۔ مجھے ایسی آزمایش میں مت ڈالنا کہ پورا نا اتر سکوں ۔ صمد آغا اور سعد۔ رضی سب سرمد آغا کے رونے کی آواز پر جاگ گئے ۔ سرمد آغا جیسے مضبوط انسان کو روتے دیکھ کر تینوں کی ہمت جواب دے گئی ۔
انہوں نے سارا ماجرا سنایا تو سعد نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو باہر کچھ بھی نہیں تھا ۔ آدھی رات اور سردی انتہا تھی ۔ اس ٹائم کسی کا باہر فنگشن منانا ایک انتہائی ناقابل یقین بات تھی ۔سرمد آغا نے جب کھڑکی میں آ کر دوبارہ دیکھا تو رات کا اندھیرا پوری طرح پھیلا ہوا تھا ۔سرد ہوا کے جھونکے نے انہیں جلد ہی کھڑکی بند کرنے پر مجبور کر دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ زرین کے پیلے جوڑے پر جابجا خون کے دھبے بھی پڑ گئے تھے ۔
بقیہ رات چاروں نے آنکھوں میں کاٹی اور اس وقت کو کوسنے لگے جب یہاں انے کا سوچا تھا ۔
صمد آغا نے یاد دہانی کروائی کہ صبح جس کمرے میں زرین کی تصویریں لگی ہوئی ہیں اسے پکا تالا ڈال دیا جاۓ تاکہ کوئی اس کمرے کا رخ نا کر سکے ۔
سرمد آغا صبح اٹھتے ساتھ زرین کی تصویروں والے کمرے کو تالا لگا نے گئے تو انہوں نے دیکھا زرین کی مزید تصویریں دیوار پر لگ چکی تھی ۔ جس میں اسے ابٹن لگایا جا رہا تھا ۔
یا اللہ یہ کیا ہورہا ھے ۔ سرمد چکرا گئے ۔انہوں نے سب کو بلا کر نئی تصویریں دکھائی ۔ رضی نے کمرے پر بھاری تالا لگا دیا ۔ کیوں کہ آج کسی بھی وقت باقی گھر والے پہنچنے والے تھے ۔ رضی اور سعد پیدل ہی ارد گرد کے علاقے کو دیکھنے نکل گئے ۔ اکا دکا لوگ انہیں جیسے ہی دیکھتے خوف سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔ جیسے یہ انسان نہیں کوئی دوسری مخلوق ہوں ۔ چلتے ہوئے انہوں نے ایک یوٹلٹی سٹور دیکھا اور کچھ کھانے پینے کے لیے سامان بھی خرید لیا ۔
واپس پہنچنے پر پورچ میں گاڑیاں دیکھیں خوشی کے ساتھ ساتھ پریشانی اور بڑھ گئی ۔
سبکو دیکھ کر رضی سعد بہت خوش تھے ۔ بچے پورے ہاؤس میں ناچتے گھومتے پھر رھے تھے ۔ لڑکیاں اپنے اپنے کپڑے الماریوں میں سنبھالنے لگیں ۔ آج فارم ہاؤس میں سبکی پہلی رات تھی اور پارٹی کا اہتمام باہر لان میں کیا گیا تھا ۔ مختلف کھانے بنائے جا رھے تھے ۔ گانوں اور لڈی کی محفلیں سجائی گئی ۔ حنا بیگم نے اپنی ملازمہ سے کہا جب سب لوگ تیار ہوکر باہر آ جائیں تب تمام کمروں کو تالا لگا دینا ۔ کھلی جگہ ھے کچھ بھی ہو سکتا ھے ۔ لڑکیاں ایک ایک کرتی جب سب باہر نکل گئی تو ملازمہ کمرے چیک کرتی جاتی اور ساتھ ساتھ تالے لگاتی جاتی ۔ ابھی وو تمام کمروں کو تالے لگا کر مڑ ہی رھی تھی کہ ایک دروازے کو اندر کی جانب سے زور زورسے کھٹکھٹانے کی آواز سنی ۔ اس نے سمجھا یہ میرا وہم ھے اور واپس نکل آئی چند سیکنڈ بعد پھر آواز اور شدت سے ای تو ملازمہ نے دروازہ جیسے ہی کھولا اسے سرمد آغا دکھائی دیئے ۔ اور انہوں نے غصے سے ملازمہ کو کہا کہ جاؤ زرین کو بھیجو مجھے اسے ایک خاص تحفہ دینا ھے ۔
ملازمہ زرین کو بلا کر کمرے میں لے آئی ۔ کمرے میں انے سے پہلے باہر لان میں اسکی نظر پڑی تو سرمد آغا سعد سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ اس نے سوچا اگر سرمد آغا باہر ہیں تو اندر کون ھے ۔ کیوں کہ ابھی ابھی حنا بیگم نے بھی کہا کھلی جگہ ھے کچھ نا کچھ ہو سکتا ھے ۔لہٰذا وہ واپس جانے لے لئے مڑی ہی تھی کہ دیوار کے پیچھے سے کسی کو اتے دیکھ کر رک گئی ۔ وہ کوئی نقاب پوش عورت تھی جو عین اسکے سامنے آن کھڑی ہوئی اور چہرے سے نقاب اٹھا کر خاموش نظروں سے اسے گھورنے لگی ۔
ملازمہ نے اپنے سامنے خود کو ہی دیکھا وہ بھی انتہائی قریب سے ۔ ابھی چیخ مارنے کو ہی تھی کہ اس عورت نے پنجہ مار کر ملازمہ کا چہرہ بگاڑ دیا ۔
باہر محفل کافی سجی ہوئی تھی ۔ رمشہ بھی باقی لڑکیوں کے ساتھ گانے بجانے میں مصروف رھی ۔ رضی سعد سرمد اور صمد آغا چاروں بظاھر نارمل رھے فنگشن کے دوران ۔پڑ انکی پوری توجہ زرین پر رھی ۔ نجانے کس وقت تینوں کی توجہ کہیں اور بٹی کہ زرین انکی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔ سعد نے سرمد آغا کی طرف دیکھا اور زرین کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ زرین غائب ہو چکی تھی ۔ حنا بیگم سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ابھی ابھی ملازمہ کے ساتھ گھر کے اندر گئی ہے بس آتی ہوگی ۔ سرمد آغا انتظار کیے بغیر گھر میں داخل ہونے تو دیکھا ملازمہ اس کمرے کے باہر زخمی حالت میں پڑی تھی جہاں زرین کی تصویریں دیوار اور لگی ہوئی تھی اور زرین کمرے میں لیٹی ہوئی تھی اور اس کا جسم پیلا زرد ہو چکا تھا جیسے جسم سے تمام خون نچوڑ لیا گیا ہو ۔ سرمد آغا نے زور زور سے زرین کو جھنجھوڑا تو اس نے فورا آنکھیں کھول دی۔
زرین کی آنکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئی تھیں اور جسم آگ برسا رہا تھا ۔ سرمد آغا کو دیکھتے ہی زرین نے نظر جھکا دی اور نڈھال سی دکھائی دینے لگی جیسے اسکے اندر گہری ٹوٹ پھوٹ ہو رھی ہو ۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ زرین نے بتایا کہ ملازمہ اسے بلا کر یہاں تک لائی اور کہا کہ وہ ایک تحفہ دینا چاہتی ہے جو اس کمرے میں ھے ۔ سرمد آغا کی نظر دیواروں پر پڑی تو دیکھا دیواریں بالکل خالی تھیں ۔ یہاں زرین کی کوئی تصویر نہیں تھی ۔ انہوں نے زرین سے پوچھا بیٹا تم نے یہاں کچھ دیکھا ۔ مطلب کمرے میں دیواروں پر یا آس پاس ۔ زرین کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ای اور ساتھ ہی غائب ہو گئی ۔
نہیں بابا جان ۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...