دلاور :ارےیار یہ پہاڑی راستہ تو بڑا دشوار ہے سچ یار۔۔!
آج اترنا پڑا تو ہی سمجھ آیا ہے۔۔
اور یہ تو اتنا سائیلنٹ موڈ پر کیوں میوٹ سا ہوا واہے۔۔۔؟
ارے میری بلبل جب تک نہیں چہکتی نا
تو میرے کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔۔۔
بول نا چپ کیوں ہے؟؟
دلاور نے خاموش خاموش ہرش کی طرف پلٹتے ہوئے پیار جتانا چاہا تو ہرش ایک دم لڑکھڑا گیا۔۔۔
ہرش:اگر اتنا پیار آرہا ہے تو توکام کی بات کرنا۔۔۔
ہرش ہانپتے ہوئے جھلایا۔۔
ہرش:
ایسا کر یہ کین مجھے دے۔۔
دلاور:
ہاں یہ لے۔۔۔
دلاور نے کین اسے پکڑاتے ہوئے محبت لٹائی۔۔
ہرش:
چل اب یہ لے۔۔۔
ہرش نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی کمر اسکی طرف گھمائی۔۔
ابے اسکا کیا کروں ۔۔۔؟؟
دلاور حیرت زدہ ہوکر اسکا منہ تکنے لگا۔۔
پہاڑی پر بھی تجھے سکون نہیں ہے۔۔
نیچے گرے نا تو یاد رکھ ہڈیاں تک نہیں بچینگیں۔۔
دلاور سنبھل سنبھل کر چلتا اپنے آگے پھسلتے پتھروں کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔۔
ہرش :
تجھے ہی شوق ہے محبت بگھارنے کا اب چل اٹھا مجھے اور نیچے لے چل۔۔۔سانس پھول رہی ہے۔۔۔
میں نہیں چل سکتا اب اور ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرش شاید سیریئس نہیں تھا مگر شکل تو سنجیدہ ہی لگ رہی تھی۔۔۔
دلاور کو پھر بھی ڈاوٹ ساہوا۔۔
دلاور:تیرا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔؟؟
دلاور نے پلٹ کر ہرش کو سر سے پیر تک گھورا۔۔۔
نجانے دن میں کتنے انڈے ٹھونس ٹھونس کے سانڈ بنا ہوا ہے اور مجھے ایک ہی دن میں اوپر پہنچانا چاہتا ہے ۔۔۔
لا چل دے ادھر کین بھائی۔۔۔
میں باز آیا ۔۔۔۔۔۔
تیری ایسی محبت سے۔۔۔۔۔۔۔!
مجھے گر کر نہیں مرنا پہاڑی سے۔۔
ہرش :
بس دیکھ لی تیری محبت۔۔۔
ہرش تنظزیہ مسکرایہ۔۔
دلاور:
اچھا اب تو تولے گا میری محبت کو ۔۔۔؟
دونوں وہیں شروع ہوچکے تھے۔۔۔
ہرش:جو دکھ رہا ہے وہی کھ رہا ہوں ۔۔تو تو سیریس ہی ہوگیا۔۔
اچھا چل ۔۔
اب گاؤں بھی پہنچنا ہے جلدی سے ۔۔
کب سے کھانا نہیں کھایا اگر مزید تونے اور دیر کی نا تو میں تجھے ہی کھا جاؤنگا ۔۔
پھر مت کہنا۔۔۔
ہرش تھوڑا ڈھیلا ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
دلاور کو ایک آئیڈیا سوجھا :
ہائےےے۔۔۔
ہرش :
ابے کیا لگ گیا ؟؟
ہرش کین پھینک کر دلاور کی طرف جھکا ۔۔۔
دلاور: ابے گھٹنا کیا دیکھ رہا ہے پاؤں تو نیچے ہے۔۔۔
ہائئئے۔۔۔ئے۔۔
اسے بھی ابھی لگنا تھا۔۔۔
اب چلونگا کیسے؟؟؟
دلاور کی صدائیں سنکر ہرش چونک اٹھا۔۔۔
ہرش:
کیا مطلب۔۔۔؟؟
دلاور :بھائی اٹھا لے نا ۔۔۔
لگتا ہے موچ آگئی ہے پیر میں۔۔۔؟؟
دلاور مسکین سی صورت بنائے جگمگاتی آنکھوں سے ہرش کو دیکھنے لگااور ایک دم چلایا۔۔
ہائے ئے۔۔۔۔
ڈرامے باز کہیں کا۔۔۔ہرش بڑبڑایا۔۔۔
اااااا۔۔۔ہ۔۔دلاور نے کن انکھیوں سے ہرش کی طرف دیکھ کر تان لگائی۔۔۔
ہرش:
اچھا اچھا ۔۔۔چلا مت ۔۔
اٹھاتا ہوں۔۔۔!!
ہرش سنبھل کر آگے بڑھتا ہوا بولا اور دلاور کو سنبھال لیا اور دکاور کین اپنے گلے میں لٹکائے ہرش کی حالت سےلطف اندوز ہونے لگا۔۔۔
کیا ہے کیوں کھینچ کر لے ائیں۔۔
تارا جھنجھلائی۔۔
فزا: تم ایسا کرو ساری طبیعت آج ہی خراب کردو چاچا کی۔۔
یہ بتاو۔۔کیا غلط کہا تھا چاچا نے ۔۔؟
خود ہی تو چہکتی رہتی تھیں روس کے ذکر پر ۔۔اور یہ اچانک بدلاؤ کیسے اگیا۔۔۔؟
تارا: اررررے۔۔۔۔
بےوقوف لڑکی!
تارا اسے کھینچتی تھوڑا سائیڈ میں لے گئی پھر زرا اس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے بولی ۔۔
دل لگانے کیلیئے نہیں باتیں کرتی تھی پاگل۔۔
فزا :پھر؟
فزا ہونکوں کی طرح منہ اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔۔
تارا کا مقصد اسے ابھی تک سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔
تارا :بینک بیلنس،،ڈالر،،،کیش،،،منی۔۔۔نام سنا بھی ہے کبھی اس چڑیا کا۔۔؟؟
تارا فزا کی ناسمجھی پر ماتم کرتی اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتی فزا کے کندھے تک لائی اور اسے تکنے لگی۔۔۔
فزا :تارا کی بچی۔۔۔کتنی بری بات ہے۔۔!!!
مجھ سے بات مت کرو۔۔۔
فزا نےخفا ہوکر رخ پلٹ لیا۔۔۔
وہ کوئی بکاؤ چیز نہیں ہیں جو تم انکے بارے میں ایسی باتیں کررہی ہو۔۔۔!
تارا :ارے میری ماں۔۔۔
میں کب اسے خرید ۔۔!
میرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔
فزا کے کڑی نظروں سےگھورنے پر تارا اٹک گئی۔۔
تارا :مطلب مجھے بس اسکے پیسوں سے پیار ہے مگر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔۔
ویسےمجھے معلوم ہے میری بنو انہیں خاصا پسند کرتی ہے۔۔۔
تارااسٹائل سے لہرا کر پوسٹر سے ہوا کرنے لگی۔۔
فزا مسکرائی :
کوئی نہیں۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔
تارا :او اچھا ۔۔۔
فزا :
اور یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں۔۔۔؟؟
فزا اس کے ہاتھ سےپوسٹر اپنےہاتھ میں لیکر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
تارا:لو تمہیں نہیں پتا؟؟؟؟
فزا: نہیں ؟؟
کون ہے یہ ؟
فزا پوسٹر میں بنی تصویر غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
تارا :
جب تمہیں ہی اپنے روس کی پہنچان نہیں تو بھلا میں کیا کھ سکتی ہوں۔۔۔
اگر تم سچ میں نہیں جانتی کہ روس اس فوٹو میں کون ہے تو چلو ٹھیک ہے۔۔
پھر یہ بتاؤ ان دونوں لڑکوں کو دیکھو اور بتاؤ کیا یہ روس ہیں یا نہیں۔۔۔؟
تارا اپنی گینگ کو آنکھ مارتی گول گول باتیں گھماتے ہوئے بولی۔۔۔
فزا :مگر میں سچ میں نہیں جانتی !
کیا تمہیں معلوم ہے؟؟؟فزا سوالیہ نظروں سے تارا کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔
ا ااا۔۔۔؟؟؟؟؟….
ابھی تارا سوچ ہی رہی تھی کہ کیا جواب دے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوتی سنائی دی۔۔۔
تارا: اووووں یہ اس وقت کون آگیا ؟؟؟
تارا جھنجھلائے ہوئی آگے بڑھی اور دروازہ کھول دیا۔۔۔۔
ہرش: اووو۔۔۔ہائے ۔۔۔میں۔۔۔
لڑکی دیکھتے ہی ہرش کی بتیسی باہر نکل آئی مگر اس سے پہلے کہ کچھ کھ پاتا۔۔۔
دلاور نے اسکا بازو مروڑ دیا اور غرایا۔۔۔
ہر جگہ مت شروع ہوجایا کر۔۔۔چپ رہ۔۔۔
دلاور: سلام ۔۔۔
وہ کوئی بڑا ہے گھر میں۔۔؟؟؟
اس سے پہلے کے دلاور اپنا مقصد بتاپاتا۔۔۔اچانک سے دروازہ انکے منہ پر بند ہوگیا۔۔۔
ہرش:ہاہاہا ۔۔۔کر لے ۔۔۔تمیز سے بات۔۔۔
بیٹا لڑکیوں کو نا میرے جیسے لڑکے پسند ہوتے ہیں۔۔۔
ایک دم کککول۔۔۔
ہرش کی ٹون واپس لوٹ آئی تھی۔۔۔
دونوں اجنبیوں کو دیکھ کر تارا کی آنکھیں جھلملا اٹھیں تھیں اور اب وہ کچھ سوچتی نظروں سے اپنی گینگ کو اشارہ کرتی فزا کے سر پر پہنچ گئی۔۔۔
فزا!!
تمہیں روس کو دیکھنا ہے نا ؟؟
فزا :
ام ۔۔
میں نے کبھی دیکھا نہیں تو پہنچانوگی کیسے؟؟؟
فزا اٹکی۔۔
تارا اور اسکی گینگ چہکی:
افووہ ۔۔۔
ہم ہیں نا ہم بتائیں گے تمہیں۔۔۔مگر تم یقین ہی نہیں کروگی۔۔۔؟کیا فائدہ۔۔۔۔
تارا نے نقلی میں روٹھنے کا ناٹک کیا۔۔
فزا :بتاو۔۔۔تو۔۔۔
تارا: وہ روس اپنے دوست کے ساتھ باہر کھڑا ہے شاید گاڑی وغیرہ خراب ہوگئی ہوگی اسلئے ہمارے دروازے پر ایا ہے۔۔۔
کیا قسمت ہے فزا۔۔۔
یار دیر مت کرو ۔۔
میں تمہیں اشارے سے بتادیتی ہوں کہ روس کون ہے۔۔۔ٹھیک ہے اب جاو۔۔۔
تارا نے کھوجتی نظروں سے فزا کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
(اسے پکا یقین تھا کہ فزا جھوٹ بول رہی ہے ورنہ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ کسی کو بنادیکھے کوئی پسند کرنے لگے اس لیئے تارا نے یہ ڈرامہ کیا تھا کہ وہ بدک جائے اور کھ دے کہ ان دونوں میں کوئی روس نہیں۔۔۔
مگر تارا نہیں جانتی تھی کہ فزا سچ میں اس بات سے انجان تھی۔۔۔)
جاوووو ۔۔جاو ۔۔جلدی جاو۔۔۔تارا اسے دیکھتی رہی جب تک کہ وہ دروازے پر نہیں پہنچ گئی۔۔۔
بلو شرٹ والا۔۔۔
تارا نے جان بوجھ کر ہرش کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
تارا نے اسے اشارہ کیا تو فزا نے ہلکا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا جہاں دونوں زورو شور سے نجانے کونسی میٹنگ میں مصروف تھے۔۔
سب سے پہلے دلاور کی نظر پڑی۔۔
ہیلو سس۔۔۔
کوئی بڑا ہے گھر میں تو اسے بھیج دیں پلیز ہمیں ہیلپ چاہیئے۔۔۔
کیا بات ہے؟؟
فزا نے سرسری نظر ہرش پر ڈالی جو اسے گھورنے میں مصروف تھا۔۔۔فزا کو عجیب سا لگا۔۔
آپکی گاڑی کب خراب ہوئی تھی بھائی؟
فزا نے دلاور سے پوچھا۔۔۔
دلاور: یہی کوئی رات میں گیارہ بجے کے قریب۔۔۔
فزا :اوہ ۔۔۔
اوہ آپ لوگ جب سے ہی بھوکے ہیں۔۔۔
کافی ٹائم ہوگیا ہے آپ لوگ تو بہت بھوکے ہونگے کچھ کھائینگے آپ لوگ ۔۔۔؟؟
اندر آجائیں!!
فزا کی نظریں دوبارہ ہرش کی سمت اٹھیں جو دلاور کا بازو کھینچے اسے کھانا کھانے سے روک رہا تھا۔۔۔
جی کوئی بروبلم ہے؟؟
ہرش کو منہ بناتا دیکھ کر فزا دلاور سے مخاطب ہوئی۔۔۔
دلاور :
ارے نہیں سس۔۔
مجھے تو بالکل بروبلم نہیں ۔۔۔
بس میرا یہ دوست کچھ وی آئی پی ٹائپ ہے ۔۔۔اس لیئے یہ تو یہاں گاؤں میں بھی نہیں آرہا تھا بس مجبوری تھی اس لیئے اگیا۔۔۔
دلاور نے اپنی سادگی میں ہرش کی پول کھول دی تھی مگر فزا جان چکی تھی۔۔۔کہ یہ روس بالکل نہیں ہوسکتا۔۔
دلاور کی بات سنکر فزا پاپا کو بلانے اندر چلی گئی اور ہرش دلاور کے پیچھے پڑ گیا کہ اسے پوری داستان سنانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔
ماوی سوچے گئی :
میں جانتی ہوں روس کہ تم دکھی ہو پر کہو گے نہیں،مگر کاش میں تمہارے لیئے کچھ کر پاتی۔۔
خاموشی کا دورانیہ خاصاطویل ہوگیا تھا۔۔
دونوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے کہ اچانک ہرش کی آواز نے اس گہری خاموشی کو توڑ دیا۔۔۔
کیا چل رہا ہے یہاں۔۔
ہرش آندھی طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا۔۔
اوہ۔۔ہ۔۔ہ
کسی کا سوگ منایا جارہا ہے لگتا ہے کوئی اپنا یاد آگیا اچانک۔۔؟؟
اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔!!!
تمہیں بھی تو پتا چلنا چاہئیے دکھ،تکلیف اور سہنا کسے کہتے ہیں۔۔
ہرش کے لہجے میں انگارے سلگ رہے تھے اور وہ چلتا ہوا سیدھا خاموش بیٹھے روس کی طرف پہنچ گیا۔۔۔
جو اپنی سرخ نظریں لیئے مسلسل ہرش کی طرف دیکھنے سے گریز کرتے ہوئےاس سےنظریں چرائے جارہاتھا۔۔۔
اب دیکھو۔۔۔۔۔
بات تو انصاف کی ہونی چاہئیے نا جوتم تو خیرمجھ سے بہتر ہی جانتے ہو۔۔
صرف باتیں بنانے سے کوئی مہان
اتمہ نہیں بن جاتا۔۔۔۔۔!!!
ہرش اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے رکھی ٹیبل پر ٹکاتے ہوئے روس کی سرخ ہوتی نگاہوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔
اور میرے ہوتے ہوئے تو یہ بات بالکل ممکن نہیں ہوسکتی۔۔
اور یہ خیال تو۔۔۔تو۔۔۔بالکل……..
اپنے دماغ سے مٹا ہی دے بھائی !
کہ تو ہمارا حق مارے گا اور ہم۔۔
تیرے غلام بن کر جیئینگے۔۔۔
تجھے پیار دینگے ۔۔۔ہاں ۔۔؟؟ہاہا نیور۔۔۔
بھول جا روس ۔۔۔
اس جنم میں تو ہرگز تو میرا بھائی نہیں بن سکتا۔۔۔
ہرش مسلسل تیر چلائے جارہا تھا اور ماوی بےچین تھی کہ دونوں بھائیوں کے درمیان بولنا نہیں چاہتی تھی مگر جسے بولنا چاہیئے تھا روس کو وہ تو بالکل خاموش بیٹھا ہرش کی زہر اگلتی زبان بس سنے جارہا تھا۔۔
ماوی :
ہرش بہت ہوگیا یہ آپکا بھائی ہے اور یہاں کے ہونے والے لیڈر بھی۔۔۔!!
اپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ ایک لیڈر سے بات کیسے کی جاتی ہے؟؟بھولیئے مت۔۔۔۔۔۔۔
ماوی آخر کب تک برداشت کرتی ۔۔
ہرش کی باتیں اور رویہ نہایت تکلیف دہ اور برداشت سے باہر ہوتا جارہا تھا۔۔۔
ہرش :
اوووو۔۔
بھائی کی بہنا بول اٹھیں۔۔
یہی تو پلان ہے ان بھائی صاحب کا۔۔!!
گدی نشین ہونا چاہتے ہیں یہ ۔۔سلطنت کے مالک بننے کا بھوت سوار ہے ان پر وہ بھی اکیلے اکیلے ۔۔۔
ہیں۔۔۔واہ ہ ہ۔۔بھائی۔۔ہا ۔
مزے کی بات تو دیکھو!..
اپنے باقی فرائض بھول جاتے ہو مگر انکی محبت تو دیکھو جہاں ریاستی مسائل اور بڑا بننے کی بات شروع نہیں ہوتی وہاں ہمارے بھائی صاحب لیڈر بننا کبھی نہیں بھولتے ۔۔۔
ہرش ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے
کوئی ذہنی مریض دکھائی دے رہا تھا مگر ماوی اور کچھ نہیں کھ سکی کیونکہ روس نے اسے اشارے سے منع کردیا تھا اور جبھی ماوی صرف اپنی جگہ خاموش کھڑی رہ گئی۔۔
ارے ہاں اور وہ تمہارا دوست تھا نا کیا نام تھا اس کا۔۔
ہرش سر جھکائے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔
ہاں ۔۔یادو ۔۔۔۔۔۔
یادو وہ کہیں تمہیں چھوڑ کر تو نہیں بھاگ گیا ۔۔؟
اخر کوئی کب تک کسی کی چمچہ گیری کرنا پسند کرے گا۔۔ہرش غصے میں بے قابو ہوا
اب اپنی لمٹ کروس کرنے لگا ۔۔
روس :
شٹ اپ ہرش ۔۔۔تم جاؤ یہاں سے۔۔۔!
اور مت بھولو ابھی تم غصے میں ہو تو نجانے کیا اول فول بولے جارہے ہو۔۔۔مت بھولو تمہارے بھائی نے یادو کو کبھی اپنا دوست نہیں سمجھا وہ میرا بھائی ہے۔۔۔
بھائی۔۔۔اچچھا۔۔
ٹھیک۔۔۔ہرش نے دائیں بائیں گردن ہلاتے ہوئے اپنی ہنسی چھپائی۔۔
روس :
ابھی تم غصے میں ہو جب تمہارا غصے ٹھیک ہو جائیگا تب بات کرینگے ۔۔
ابھی جاؤ اپنے کمرے میں۔۔
یہ کھ کر روس کبٹ کی طرف رخ پھیر کر کھڑا ہوگیا کہ کہیں اسکے آنسوں کوئی دیکھ نا لے اور وہ یہی تو نہیں چاہتا تھا کہ ماوی اسے پریشان دیکھ کر اور دکھی ہو جائے ۔۔
اخر کچھ گنے چنے لوگ ہی تو بچے تھے اسکی زندگی میں۔۔
جو آہستہ آہستہ گزرتے وقت کے ساتھ اس سے دور ہوتے جارہے تھے ۔۔۔۔
پہلے یادو ،،،،پھر دادا اور اب ماوی بچی تھی اور وہ دکھی ہو جائے یہ تو روس کو گوارا نہیں ہوتا۔۔
مگر دوسری طرف ہرش تھا جو اپنی ناسمجھی میں بےوقوفی کے سارے ریکارڈ توڑتا روس کی مشکلوں میں اضافی کیئے جارہا تھا اور دشمن کا کام آسان۔۔
ہرش :
ہاں۔۔
بس ایک یہی۔۔۔یہی۔۔۔ طریقہ تو بچا ہے ۔۔
جب کسی بات کا جواب نہیں دینا پسند ہو تو بس حکم فرمادیا جاتا ہے۔۔
کہ تخلیہ ،،چلے جاہیئے فالحال مہاراج بزی ہیں۔۔
دیکھناابھی وہ یادو چھوڑ کے بھاگا ہے۔۔
کل یہ بھی چلی جائینگی جو ابھی آپکی طرف داری کررہی ہیں ۔۔۔
جب اپکو اپنے سگوں کی تکلیف کا احساس تک چھو کر نہیں گزرا تو انکے ساتھ کیسے نبھا ئینگے؟؟
ہرش نے اس بار ماوی کو نشانہ بناتے ہوئے تیر چلایا تو روس تڑپ اٹھا۔۔۔
روس:
تم جو چاہتے ہو وہ میں نہیں کرسکتا ہرش ۔۔۔!!
تم سمجھتے کیوں نہیں۔۔؟؟؟؟
اخر میرے بھی جذبات ہیں مگر سمجھنے کی کوشش کرو بھائی۔۔۔۔
کوئی تو وجہ ہوگی جو میں اس وقت اتنا مجبور ہوں۔۔۔
روس بے چین ہوگیا اور ہرش کے پاس چلا آیا مگر اس پر کسی بات کا اثر کب ہونا تھا۔۔
ہرش:
رہنے دیں ۔۔۔سارے بہانے ہیں۔۔!!
نا مجھے آپ پر پہلے بھروسہ تھا اور نا آج ہے۔۔۔
اور میری بھی یہی ریکویسٹ ہوگی آپ سے کہ آپکے لیئے بھی یہی بہتر ہوگا کہ آپ جان لیں اپکا کوئی ہرش نام کا بھائی موجود نہیں ہے۔۔۔
ہرش نے نہایت سفاکی سے روس کی نم آنکھوں میں جھانک کر اسکا دل کچل ڈالا۔۔۔
کیوں دوسرا بھائی بھی تو ہے؟؟
کچھ وقت ساتھ کیا چھوڑا مجھے تو بھول ہی گئے تم لوگ۔۔یہ آواز۔۔؟
یہ آواز کوئی کیسے بھول سکتا تھا بھلا ۔۔؟؟؟
سبھی ایک جھٹکے میں آواز کی سمت پلٹے اور جو دکھا وہ ۔۔۔
کیا سچ تھا یا ایک وہم؟؟
ہمیشہ کی طرح۔۔
روس اپنے آنسو ں کو روک نہیں پایا اور اس کے حلق سےگھٹی ہوئی اواز نکلی۔۔
یادووو۔۔
یادو:
ہاں میرے بھائی ۔۔۔اجا۔۔
کیوں اسٹیچو بنا کھڑا ہے۔۔۔
مجھے تو حیرت ہے تو میرے بنا ابھی تک زندہ کیسے ہے۔۔یادو چہکتے ہوئےخود ہی روس کے پاس پہنچ گیا اور گھوم گھوم کر اسکا جائزہ لینے لگا۔۔۔
ہرش:
اففف ۔۔۔بس اسی ڈرامے کی کمی تھی۔۔۔
ہرش جلتا بھنتا کمرے سے روانہ ہوگیا ورنہ یادو روس سے فارغ ہوتا تو ہرش کو سامنے دیکھتے اسنے اسے بھی نہیں چھوڑنا تھا۔۔
یادو ۔۔بس نام ہی لیتا رہے گا ۔۔چل اجا۔۔
یادو نے مسکراتے ہوئے روس کو گلے سے لگالیا اور روس بلک اٹھا ۔۔
نجانے کب سے آنسوؤں پر بند باندھے بیٹھا تھا۔۔
اب جو کسی اپنے کا سہارا ملا تو بالکل ٹوٹ کے بکھرگیا۔۔۔
روس کو روتا دیکھ کر ماوی اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی باہر چلی گئی مگر اب وہ پرسکون تھی یادو جو آگیا تھا ۔۔۔
کیا یہ کیا کھ رہے ہو مہیر!!
پھر میں آزاد کیسے ہونگی ۔۔۔؟؟
اتنا لمبہ طویل انتظار رائیگاں نہیں جاسکتا۔۔۔
نہیں۔۔۔؟؟؟؟؟……..
اس یادو کو بھی ابھی لوٹنا تھا۔۔
مجھے کچھ نہیں پتا بس مجھے آزاد ہونا ہے ۔۔۔
میرے ساتھ دوبارہ ایسا نہیں ہوسکتاااااااا۔۔۔۔
ریچا غیظ وغضب سے بھری آواز میں چلائی۔۔۔
مگرریچا کی دہائی صرف انہیں پہاڑیوں کے بیچ گونج کر رہ گئی۔۔۔