یہ جنوری 1860 کا دن تھا۔ مانچسٹر چیمبر آف کامرس کی سالانہ میٹنگ میں 68 ممبران اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ صنعتوں والا شہر تھا اور یہ لوگ کپاس کے تاجر اور کپڑے کے صنعتکار تھے۔ پچھلے 80 سال میں انہوں نے دنیا بدل دی تھی۔ زراعت، تجارت اور صنعت کا عالمی نیٹورک بن چکا تھا۔ دنیا بھر میں کپاس اگتی تھی اور برٹش فیکٹریوں کا رخ کرتی تھی۔ دنیا کے دو تہائی تکلے یہاں پر تھے۔ مزدوروں کی فوج اسے گھما کر دھاگہ بناتی تھی اور اسے بُن کر کپڑا۔ پھر تاجر اسے دنیا کے منڈیوں میں لے جایا کرتے تھے۔
یہ حضرات پرمسرت تھے۔ ان کے صدر ایڈمنڈ پوٹر نے تقریر میں کہا کہ صنعت کی حیران کن بڑھوتری کی رفتار نے پورے ملک کو خوشحال کر دیا ہے، خاص طور پر مانچسٹر کو۔ مانچسٹر، برطانیہ، یورپ، امریکہ، چین، ہندوستان، جنوبی امریکہ اور افریقہ پر بھی اس ملاقات میں بات ہوئی۔ کاٹن کے صنعتکار ہنری ایشورتھ نے کہا کہ “یہ کاروبار جتنی خوشحالی لے کر آیا ہے، انسانی تاریخ میں کامیابی کی ایسی کوئی اور مثال نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خوشگوار موڈ بلاسبب نہیں تھا۔ یہ لوگ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی سلطنت کے مرکز میں تھے۔ یہ کپاس کی سلطنت تھی۔ ان کی فیکٹریوں میں دسیوں ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ بڑی سپننگ کی مشینیں چلتی تھیں۔ گھن گھرج کی آواز دیتی مشینوں میں سے کپڑا نکلتا تھا۔ امریکہ کے غلاموں کی اگائی گئی کپاس سب سے زیادہ آتی تھی۔ اور یہاں بنائی مصنوعات دنیا کے کونے کونے میں جایا کرتی تھیں۔ اس وجہ سے عالمی معاملات میں یہاں دلچسپی تھی۔ حالانکہ ان کا اپنا پیشہ سیاست سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ یہ دھاگے اور کپڑے کے تاجر تھے۔ شور مچاتی، گندی، رش والی اور ناخوشگوار ماحول والی فیکٹریوں کے مالک تھے۔ ان کے شہر کوئلے سے چلنے والے سٹیم انجن کی کالک سے سیاہ تھے جہاں انسانی پسینے اور فضلے کی بدبو پھیلی رہتی تھی۔ یہ ایک بڑی سلطنت چلا رہے تھے لیکن کہیں سے سلطان نہیں لگتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف سو سال پہلے ان کے اجداد “کپاس کی سلطنت” کی سوچ پر قہقہہ لگاتے۔ کپاس چھوٹی سی اراضی پر اگائی جاتی تھی اور آگ کے الاوٗ کے آگے بیٹھ کر اس پر کام ہوتا تھا۔ برطانیہ میں کپاس کی صنعت چھوٹی سی تھی۔ ایسا نہیں کہ لوگ کپاس سے ناواقف تھے۔ یورپ میں انڈیا سے ململ، چھینٹ اور لٹھا آیا کرتا تھا۔ یورپی دیہاتوں میں مرد و خواتین گھر میں کپڑا بنا کرتے تھے۔ امریکاز، افریقہ اور ایشیا میں جوار، مکئی اور شکرقندی کے ساتھ کپاس بھی لگائی جاتی تھی۔ اس سے کپڑا بنا جاتا تھ جس سے گھریلو ضروریات یا حکمرانوں کی خواہشات پوری کی جاتی تھیں۔ صدیوں سے ڈھاکہ، کانو، ٹیوٹی ہواکان اور دوسری جگہوں میں کپڑا بنایا اور رنگا جاتا تھا۔ اس میں سے کچھ کی تجارت بھی ہوتی تھی۔
سٹول پر بیٹھی خاتون جو جھونپڑی کے باہر چرخہ کات رہی ہے۔ اس کو صنعتی انقلاب نے تبدیل کر دیا۔ 1860 میں سٹیم انجن سے چلتے کئی ملین مشینی تکلے تھے جن کو دیہاڑی پر مزدور چلاتے تھے (اور ان میں بچے بھی ہوتے تھے)۔ یہ مزدور چودہ گھنٹے روزانہ بھی کام کرتے تھے اور کئی ملین کلوگرام کا دھاگہ بنتا تھا۔ یہ کام گھر سے نکل کر فیکٹری میں چلا گیا۔ ہزاروں میل دور کھیتوں میں غلام مشقت کرتے تھے اور ان بھوکی فیکٹریوں کو کپاس کی خوراک ملتی تھی۔ مغربی افریقہ بنے ہوئے کپڑے سے لدے ہونے اونٹوں کے صحرا میں سفر کرتے قافلوں کی جگہ سمندر میں دخانی جہازوں نے لے لی تھی۔
کسی کو احساس بھی نہیں ہوا تھا اور عالمی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی پیچیدہ صنعتی کامپلیکس وجود میں آ گئی تھی۔ اس روز کمرے میں خود کو شاباش دینے والے لوگ خود بھی اس کے ماضی سے ناواقف تھے۔
اور جتنا فرق دنیا کا اپنے ماضی سے تھا، اس سے زیادہ فرق اپنے مستقبل سے۔ اگر انہیں بتایا جاتا کہ کپاس کی سلطنت دنیا کو آئندہ کیسے بدلنے والی ہے تو وہ اس پر یقین نہ کرتے۔
سو سال بعد، 1960 تک کپاس ایک بار پھر ایشیا، چین، سوویت یونین اور ہندوستان کی طرف چلی گئی۔ دھاگے اور کپڑے کی پیداوار بھی۔ برطانیہ اور باقی یورپ میں ٹیکسٹائل کی چند فیکٹریاں ہی بچیں۔ اس کے بڑے گڑھ ۔۔۔ مانچسٹر، ملہاوس، بارمین، لوول ۔۔۔۔ اجڑے ہوئے کارخانوں سے اٹے پڑے تھے۔ مزدور بے روزگار تھے۔ 1963 میں لیوورپول کاٹن ایسوسی ایشن، جو ایک وقت میں دنیا کی اہم ترین تجارتی ایسوسی ایشن تھی، اپنا فرنیچر نیلام میں بیچ رہی تھی۔ کپاس کی سلطنت، جس کے بڑے حصہ پر یورپ چھایا رہا تھا، منہدم ہو چکی تھی۔
یہ سیریز اس کتاب سے ہے
The Empire of Cotton – Global History : Sven Beckert
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...