جیولری شاپ پر ابریز تھا اور ساتھ میں کشمالہ۔ تزکیہ کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی کشمالہ ایئرنگ پہن کر بڑی ادا سے ابریز کو دکھا رہی تھی اور ابریز کتنی وارفتگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ سے ایئرنگ کو ٹھیک بھی کیا تھا یہ انداز یہ شوق یہ وارفنگی جیسے میاں بیوی میں ہونی چاہئے۔ کتنا خوش مسرور اور فریش لگ رہا تھا ابریز۔ اس کا دل چاہا کہ اچانک سامنے جاکر ان دونوں کو شاکڈ کردے مگر وہ جانتی تھی کہ بے عزتی تو اس کی ہی ہونی تھی ابریز کشمالہ کو لے کر اس قدر بائولا ہے کہ وہ اس کے سامنے تزکیہ کو ہی جھاڑ دیتا۔ جلدی سے وہ گاڑی میں آبیٹھی۔ تزکیہ کی نگاہوں میں ابریز کا ہنستا ہوا چہرہ اس کی محبت بھری نگاہیں جو صرف اور صرف کشمالہ کے لیے تھیں گھومتی رہیں۔ کتنی بے حیائی اور ڈھٹائی سے کشمالہ ابریز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی تھی۔ اور ابریز عقل کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے بھی اندھا ہوکر اس کی ادائوں پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھا۔ نہ جانے ایسا کیا ہے کشمالہ میں کہ وہ اس قدر پاگل ہوگیا تھا اور اچھائی برائی کی تمیز بھی یکسر بھول گیا تھا۔
__________
شام کو ابریز آیا وہی اکھڑ مزاجی اور کرختگی چہرے پر تھی۔ تزکیہ اس کو دیکھنے لگی کچھ گھنٹوں پہلے کشمالہ کے ساتھ وہ کتنا خوش اور فریش لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشیاں اور جینے کی امنگ تھی اس کی آنکھوں میں والہانہ پن اور چاہت تھی مگر۔ تزکیہ کو دیکھ کر ابریز کے ماتھے پر بل پڑ جاتے۔ چہرے پر بیزاری نمایاں ہوجاتی۔ اگر کوئی بات کرتا تو سوائے طنز اور تذلیل کے کچھ نہ کرتا۔ قدم قدم پر تزکیہ کو یہ احساس دلاتا کہ تزکیہ اس کے لیے بوجھ اور ناقابل برداشت چیز ہے جسے صرف سلمیٰ بیگم کی وجہ سے برداشت کررہا ہے۔
صبح صبح وہ دوا دینے مما کے کمرے میں آئی تو ان کو بہت بے چین دیکھا۔ آج کافی دن بعد ان کو تکلیف پھر سے ہورہی تھی اور وومیٹنگ بھی ہوئی۔ ابریز آفس جاچکا تھا۔ اتنا سارا بلڈ دیکھ کر وہ گھبرا گئی آج پہلی بار وومٹ میں اتنا بلڈ آیا تھا۔ ہاجرہ اور سکینہ نے سلمیٰ بیگم کو سنبھالا تزکیہ نے روتے ہوئے ابریز کو کال کی کہ میں مما کو لے کر اسپتال جارہی ہوں آپ فوراً پہنچ جائیں۔ تزکیہ نے جلدی سے گاڑی نکلوائی بمشکل مما کو گاڑی میں ڈالا اور اسپتال پہنچی سامنے ہی ابریز اسٹریچر لیے کھڑا تھا۔ مما کو اندر لے جاچکے تھے اور تزکیہ باہر بیٹھ کر روتے ہوئے ان کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ ابریز بھی بے چین ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
الیاس احمد ناظمہ بیگم اور سیرت اور ابصار بھی آگئے تھے۔ پریشانی کے ان لمحات میں ابریز خود کو اکیلا محسوس کررہا تھا الیاس احمد اور ابصار کے آجانے سے اس کو بھی مورل سپورٹ مل گئی۔ ہاجرہ بیگم اور سکینہ بھی گھر پر دعائیں کررہے تھے وظائف پڑھ رہے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ سلمیٰ بیگم کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی الٹیاں بند نہیں ہورہی تھی اسی حالت میں دو دن گزر گئے سلمیٰ بیگم کو کچھ ہوش نہ تھا۔ تزکیہ کا رو رو کر برا حال تھا ایک لمحے کے لیے بھی وہ سلمیٰ بیگم کے پاس سے نہیں ہلی مستقل سورہ یسین پڑھ رہی تھی۔ ان پر دم کررہی تھی ان کی تکلیف ختم ہونے کی دعائیں مانگ رہی تھی ابریز چپ چاپ تزکیہ کو دیکھتا رہتا۔ ایک بار کہا بھی کہ تم گھر جاکر کچھ دیر آرام کرلو مگر تزکیہ نے منع کردیا۔
’’ابریز پلیز۔۔۔ مجھے مما کے پاس رہنے دیں میں ان کو اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔‘‘ ناظمہ بیگم کھانا پکا لاتیں مگر تزکیہ یا ابریز سے بالکل نہیں کھایا جاتا۔
دوسرے دن رات کے وقت کشمالہ آئی وہ جیسے ہی روم میں داخل ہوئی اسی وقت سلمیٰ بیگم کو وومٹ ہوئی ان کی چادر کپڑے سب خراب ہوگئے تزکیہ نے دوڑ کر انہیں سنبھالا ان کی چادر ہٹائی کپڑے صاف کیے ان کا منہ دھلوایا۔ ابریز بھی قریب آگیا تھا۔
’’اف توبہ۔۔۔‘‘ کشمالہ نے ابکائی لی اور ٹشو ناک پر رکھ لیا۔ ’’ابریز یار یہ جرمز پھیلا رہی ہیں پلیز کم از کم تم تو اپنی ناک پر ماسک لگائو۔‘‘ کشمالہ نے منہ بنا کر حقارت سے سلمیٰ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سوری میں تو یہاں نہیں ٹھہر سکتی یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتی اور تم۔۔۔ اپنا بھی خیال رکھو ابریز۔‘‘ کشمالہ سرد مہری سے ابریز سے کہتی ہوئی الٹے پائوں واپس پلٹ گئی
’’مما۔۔۔مما۔۔۔‘‘ تزکیہ کی چیخ پر ابریز چونکا۔
’’ابریز دیکھیں مما کو کیا ہوگیا؟‘‘ تزکیہ سلمیٰ بیگم کی بگڑتی حالت دیکھ کر چلائی۔ ابریز کی آنکھیں پھٹنے لگیں۔
’’ڈاکٹر۔۔۔ ڈاکٹر۔‘‘ ابریز پوری قوت سے چیخا۔ سلمیٰ بیگم نے آخری بار پوری آنکھیں کھول کر پہلے ابریز کو اور پھر تزکیہ کو دیکھا۔ اور دوسرے لمحے ان کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ تزکیہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سلمیٰ بیگم کے بے جان مگر پُرسکون چہرے کو دیکھا اور ابریز کی بانہوں میں جھول گئی۔
ابریز سکتے کی کیفیت میں تھا۔ الیاس احمد نے آگے بڑھ کر ابریز کو گلے سے لگالیا۔ ناظمہ بیگم نے تزکیہ کو سنبھالا۔ تزکیہ کو ہوش آیا تو سامنے سلمیٰ بیگم کو سفید کفن میں دیکھا۔ دیوانہ وار ان کی طرف بھاگی۔
’’مما۔۔۔مما آپ کہاں گئیں۔۔۔ کیوں چلی گئیں مما۔۔۔ میں کیسے رہ پائوں گی آپ کے بنا میرا خیال کون رکھے گا۔۔۔ میں کس کا خیال رکھوں گی؟ مما پلیز آنکھیں کھولیں۔۔۔ دیکھیں تو آپ کی دوا کا ٹائم ہوگیا ہے۔ آپ کو دوا لے کر پھر کھانا بھی کھانا ہے ناں۔ مما پلیز۔۔۔‘‘ سیرت تقدیس اور ناظمہ بیگم اسے سنبھال رہے تھے مگر وہ بری طرح بکھر رہی تھی۔ تڑپ رہی تھی بلک رہی تھی۔
’’ابریز۔۔۔ ابریز مما کو بلوا دو۔۔۔‘‘ ابریز کا کاندھا پکڑ کر جھنجوڑ رہی تھی۔
’’تزکیہ ہوش میں آئو یہ کیا ہوگیا ہے تمہیں مما کو تکلیف ہوگی تمہارے رونے سے کچھ ہوش کرو تم۔‘‘ ابریز نے روتے ہوئے کہا تو وہ ایک بار پھر ابریز کی بانہوں میں بے ہوش ہوگئی۔
سلمیٰ بیگم ابدی سفر پر روانہ ہوگئیں اور اپنے پیچھے بے شمار یادیں چھوڑ گئیں۔ کشمالہ بھی آئی تھی بس دس منٹ بیٹھ کر چلی گئی۔ تزکیہ کو رہ رہ کر سلمیٰ بیگم کی ایک ایک بات یاد آتی کتنی محبت سے شفقت اور پیار سے دھیمے انداز میں گفتگو کرتیں۔ ان کی باتوں میں کبھی بھی اپنی حیثیت یا امارت کی کوئی جھلک نہ ہوتی۔ ہمیشہ عاجزی سے بات کرتیں۔ وہ تو تزکیہ کے لیے ٹھنڈی چھائوں جیسی تھیں بالکل اماں کی طرح جن کے سائے میں آکر تزکیہ کو دلی سکون حاصل ہوتا۔
جن سے بات کرکے وہ اپنا دکھ بھول جایا کرتی تھی تزکیہ کچھ سنبھلی تو قرآن پاک لے کر سلمیٰ بیگم کے کمرے میں آگئی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے مما کا کمرہ ویسا ہی تھا صاف ستھرا بیڈ شیشے کی چھوٹی سی ٹیبل جس پر مما کی دوائیاں ان کا چشمہ اور پانی کا جگ اور گلاس اسی طرح موجود تھا۔ بیڈ کے ایک طرف مما کی ایزی چیئر جس پر بیٹھ کر وہ اخبار پڑھا کرتی تھیں بک شیلف جس میں دینی کتب کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی ہر چیز ویسی ہی تھی مگر مما نہیں تھیں۔ کتنی اداسی اور ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ ہر چیز اداس اور سوگوار محسوس ہورہی تھی ہر شے ماں کے بنا اداس تھی تزکیہ کی سماعتوں میں ایک آواز گونجتی رہتی۔
سکینہ اور ہاجرہ بھی بہت اداس تھے سلمیٰ بیگم نے ان لوگوں کو گھر کے فرد کی طرح اہمیت اور عزت دے رکھی تھی تزکیہ کو ابریز کا کہا ہوا ایک ایک جملہ بھی یاد آرہا تھا۔
’’تم مما کی زندگی تک اس گھر میں ہو اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد کردوں گا۔ مما کی وجہ سے تم یہاں ہو‘ مجھے تم سے نفرت ہے۔ شدید نفرت تم میرے لیے ناقابل برداشت چیز ہو۔‘‘ تزکیہ کی سماعتوں میں ابریز کے الفاظ کوڑے کی طرح برسنے لگے تھے۔
’’تم مماکی زندگی تک یہاں ہو۔ تم صرف مما کی زندگی تک یہاں ہو۔‘‘
’’مما۔۔۔‘‘ اس کی لبوں سے سسکی ابھری۔ ’’مجھے خود یہاں نہیں رہنا ابریز حسن مما کے بغیر یہ گھر میرے لیے ویران ہے۔‘‘ دل ہی دل میں سوچتے ہوئے آنکھوں کو صاف کرنے لگی۔ ابریز کال پر یقینا کشمالہ سے بات کررہا تھا۔
’’کشمالہ تم کہاں ہو؟ چار دن ہوگئے ہیں تم دوبارہ نہیں آئیں۔‘‘ ابریز نے شکوہ کیا۔
’’آئی ایم سوری ابریز بٹ مجھے تمہارے گھر سے خوف آنے لگا ہے‘ وہاں آتے ہوئے عجیب سی فیلنگ ہوجاتی ہے میری۔‘‘ کشمالہ کی بات پر ابریز چونکا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ تمہیں اپنے گھر میں وائٹ واش کروانا چاہئے لاسٹ میں تمہاری مما کی جو کنڈیشن تھی تمہیں اندازہ ہے کہ کتنے جراثیم ہوں گے تمہارے گھر میں‘ تمہیں پہلے اپنے گھر کی ٹھیک سے صفائی کروانی چاہئے۔‘‘
’’واٹ۔۔۔ کشمالہ تم یہ کیا فضول بات کررہی ہو؟‘‘ ابریز نے جھنجھلا کر کہا۔
’’کم آن ابریز۔۔۔ اس میں غصہ کرنے کی کوئی بات نہیں اللہ پاک تمہاری مما کو جوار رحمت میں جگہ دے مگر کم از کم تمہیں تو احتیاط کرنی چاہئے۔ مانا کہ وہ تمہاری ماں تھیں مگر تھیں تو ایک موذی مرض کا شکار‘ تم کو تو ابھی بہت زندگی جینی ہے میرے لیے اور میں نہیں چاہتی کہ خدا ناخواستہ کل کو ہمارے ساتھ کچھ غلط ہو‘ مجھے تمہاری فکر ہے تم سے پیارکرتی ہوں تمہارا احساس ہے مجھے‘ تب ہی تمہاری بہتری کے لیے سوچتی ہوں تم غصہ کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل سے میری بات پر غور کرو۔‘‘ ابریز چپ ہوگیا شاید وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی کشمالہ اس سے محبت بھی تو بہت کرتی تھی
مما کی ڈیتھ کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ ابریز اس روز آفس بھی گیا تھا۔ آج موسم بھی بہت اچھا ہورہا تھا۔ تزکیہ اپنا زیادہ تر وقت اب بھی سلمیٰ بیگم کے کمرے میں ہی گزارتی تھی۔ ان کے کمرے کی صفائی کرتی ان کے بستر پر بیٹھ جاتی۔ وہیں آکر قرآن پاک با آواز بلند پڑھتی اسے اس وقت یوں محسوس ہوتا کہ جیسے سلمیٰ بیگم آنکھیں بند کئے چپ چاپ مکمل انہماک کے ساتھ اس کی تلاوت سن رہی ہوں۔ ایسا کرتے وقت تزکیہ کو بھی سکون ملتا۔ تزکیہ نے سوچ لیا تھا کہ ابریز کے کہنے سے پہلے اپنا بوریا بستر سمیٹ لے گی وہ خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرنے لگی جو سلمیٰ بیگم کی موت سے بھی زیادہ اذیت ناک تھا۔
شام کو تزکیہ نہا کر نکلی تو دل بہت اداس ہوگیا ایسے ابر آلود اور خوب صورت موسم میں سلمیٰ بیگم کوئی نہ کوئی چیز ضرور پکواتی تھیں تزکیہ اور سلمیٰ بیگم لان میں بیٹھ کر چائے اور کبھی پکوڑے سموسے اور کچوریوں سے لطف اندوز بھی ہوتے موسم کے ساتھ ساتھ چائے کے مزے بھی لیتے اور ساتھ آپس میں ڈھیروں باتیں بھی کرتے۔ آج ٹوٹ کر مما کی یاد آرہی تھی دل بھر آیا۔ دل کا درد آنسوئوں کی صورت آنکھوں سے بہہ نکلا وہ وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئی اور دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندلیں۔
مما کی باتیں ان کی ہنسی ان کی شبیہہ بند آنکھوں کے پیچھے اتر آئی۔ بلیک اور کاپر کلر کے سوٹ میں لمبے بالوں کو پشت پر پھیلائے آنکھیں موندے وہ دنیا و مافہیا سے بے خبر تھی۔ آج پہلی بار مما کی یاد اتنی شدتوں سے آئی تھی کیونکہ اس نے اب اپنا وقت سفر باندھنے کا بھی ارادہ کرلیا تھا۔ تب ہی ابریز آگیا۔ وہ اسی طرح چپ چاپ آنکھیں موندے بے حس وحرکت بیٹھی رہی۔ آج پہلی بار ابریز نے اس کے سوگوار مکمل حسن کو دیکھا تھا وہ واقعی خوب صورت تھی‘ وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا۔ تب ہی تزکیہ نے آنکھیں کھولیں ابریز کو بلمقابل دیکھ کر پہلے تو چونکی پھر گڑابڑا کر جلدی سے کھڑی ہوگئی۔
’’السلام علیکم۔‘‘ بہتے ہوئے آنسوئوں کو ہتھیلی کی پشت سے صاف کرتے ہوئے وہ سلام کرکے اندر کی طرف چلی گئی۔ ابریز چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ آج پہلی بار تزکیہ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں غصہ نہ تھا اس کے دل میں نفرت نہیں ابھری تھی۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ اور سوچتا کشمالہ کی کال آگئی اور ابریز کی ساری توجہ کشمالہ کی جانب مبذول ہوگئی۔
کافی دن بعد کشمالہ بھی آگئی۔ سکینہ اسے یہیں لے آئی کہ صاحب بڑی بیگم صاحبہ کے کمرے میں ہیں۔
’’افوہ۔۔۔ ابریز فار گاڈ سیک میری بات پر بھی کچھ دھیان دے دو۔ تمہیں بار بار سمجھا رہی ہوں پھر بھی تم یہاں اس بیڈ پر بیٹھے ہو؟‘‘ ابریز کو سلمیٰ بیگم کے بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر وہ سیخ پا ہوگئی نہ سلام نہ دعا آتے ہی شروع ہوگئی۔ ابریز کے ساتھ ساتھ تزکیہ نے بھی پلٹ کر حیرانی سے اسے دیکھا۔
’’اٹھو یہاں سے۔‘‘ ابریز کے پاس آتے ہی اتنی بدتمیزی اور حاکمانہ لہجے میں کہا کہ تزکیہ کو بھی غصہ آگیا۔
’’کیا ہو گیا ہے کشمالہ؟‘‘ ابریز نے تھوڑے سے تیز لہجے میں کہا۔
’’کیا ہوگیا ہے؟ یہ مجھ سے پوچھ رہے ہو ابریز۔۔۔ تمہیں نہیں پتا کہ کیا ہوا ہے؟ تمہیں اندازہ بھی ہے تمہاری مما کس بیماری میں مبتلا تھیں۔ بجائے یہ کہ تم ان کی یوز کی ہوئی چیزوں کو اٹھا کر پھینک دو۔ تم خود ان کے کمرے میں۔۔۔ ان کی چیز یوز کررہے ہو۔ بی کیئر فل۔‘‘ ابریز کو مما کا سرہانے کا تکیہ گود میں رکھا دیکھ کر وہ غصے سے بولی۔ اس کی بات پر تزکیہ کا دماغ گھوم گیا۔ کیسی فضول اور جاہلانہ بات کررہی تھی وہ۔
’’کم آن یار ایسا کچھ نہیں ہوتا تم خوامخواہ پریشان ہورہی ہو۔‘‘ ابریز نے مصالحانہ انداز میں کہا۔
’’اف۔۔۔ کیسے سمجھائوں ابریز تم کو۔۔۔ تم کیوں اس بات کو اتنا ہلکا لے رہے ہو۔ ابھی ابھی اٹھا کر پھینکو یہ سب کمرہ خالی کروا کے صفائی کروائو اور۔۔۔‘‘
’’پلیز۔۔۔‘‘ تزکیہ جو ابھی تک برداشت کیے سب کچھ سن اور دیکھ رہی تھی اس نے کشمالہ کی بات کاٹی اور ہاتھ اٹھا کر اس کو مزید کچھ بولنے سے روکا۔
’’یہ کیا بولے جارہی ہیں آپ؟ ہزاروں گھروں میں لوگ کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوکر مرتے ہیں جو ان پر اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ تو کیا ہر کوئی سامان اٹھا کر پھینک دیتا ہے؟ ان کمروں کو بند کردیتا ہے جس میں مریض رہتا ہو؟ ہر شخص اپنے نصیب کی بیماری اور موت کا وقت لے کر آتا ہے۔ ایسے کسی کی بیماری نہیں لگ جاتی کسی کو بھی۔‘‘
’’تم چپ رہو تزکیہ میں نے تم سے بات نہیں کی۔‘‘ کشمالہ نے جاہلانہ انداز دکھایا۔
’’آپ تو پڑھی لکھی ہیں۔۔۔ آپ ایسی باتیں کررہی ہیں۔ مما ابریز کی ماں تھیں۔ اگر کل کو خدا ناخواستہ آپ کے گھر میں یہ بیماری کسی کو ہوجاتی ہے تو کیا آپ اس سے کنارہ کش ہوجائیں گی؟ یا اسے گھر سے نکال دیں گی؟ اللہ کے لیے ایسی باتیں نہ کریں پناہ مانگیں اللہ سے۔‘‘
__________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...