سلیم اختر فاروقی(کیرانہ)
زندگانی کے لئے میری بہت اکسیر ہیں
تیری باتیں آج تک دل پر مرے تحریر ہیں
ایلبم میں چاہنے والوں کی مل ہی جائیں گے
ہم تو ایک اخبار سے کاٹی ہوئی تصویر ہیں
اس جہانِ بے سکوں میں کس کے دل کو ہے قرار
ہاں اگر مل جائے جن میں وہ ہی سچّے پیر ہیں
جو کہ سچ بولیں جہاں میں ظالموں کے روبُرو
آج باطل کے لئے وہ ہی کھلی شمشیر ہیں
جو نظر آتے ہیں اخترؔ آسمانوں میں مجھے
ایسا لگتا ہے کہ میرے خوابوں کی تعبیر ہیں
سلیم اختر فاروقی
وہ جب سے ہوئے ہیں نگاہوں کا عنواں
غزل بن گئی ہے رسالوں کا عنواں
مرّتب ہوئی ہیں جو خونِ وفا سے
میرا نام ہے ان کتابوں کا عنواں
نقابوں میں سِمٹا جواں سال آیا
نظر بن گئی ہے نظاروں کا عنواں
حیا بار آنکھیں جھکی جا رہی ہیں
کہ شاخیں ہوں جیسے گلابوں کا عنواں
وہ کالج کے رستو ں کا بارِ ضرورت
لو وہ بن گئے ہیں کتابوں کا عنواں
تصور کے آنگن میں بیٹھے ہوئے ہیں
وہ بن کر ہمارے خیالوں کا عنواں
اب اخترؔ مجھے کوئی چاہت نہیں ہے
وہ ہیں میرے دل کے حوالوں کا عنواں