حمایت علی شاعر(کراچی)
ثلاثی
(ایک بحر میں)
وابستگی
جب بھی دیکھا اسے تو یاد آئے
چاند کے گرد ،گھومتے تارے
دھوپ کے گرد ،بھاگتے سائے
سرشاری
میں ہوں اپنے نشے میں کھویا ہوا
آنکھ کیسے کھلے کہ میٹھی نیند
زیرِ مژگاں ہے کوئی سویا ہوا
من تو شدم
دیکھ کر اُس کو اور کیا دیکھوں
اب تو یوں بس گیا ہے وہ مجھ میں
جب بھی دیکھوں تو آئینہ دیکھوں
بعد از خدا
زندگی یوں گزارتا ہوں میں
پہلے ہونٹوں پہ تھا خدا کا نام
آج تجھ کو پکارتا ہوں میں
زہر خند
جانے کس بات پر ہنسی آئی
رنگ برسے،بکھر گئے اور پھر
اپنی اوقات پر ہنسی آئی
شغل
اُس کے ہونٹوں کے پھول چُن لینا
اور اُن کو بسا کے آنکھوں میں
کچھ ادھورے سے خواب بُن لینا
دیوانگی
یا ر تُو بھی عجیب انساں ہے
ایسی کشتی میں ڈھونڈتا ہے پناہ
جس کے اندر خود ایک طوفاں ہے
ہم سفر
شاید اک دوسرے سے جلتے ہیں
ایک منزل کے راہرو ہیں مگر
کب مہ و مہر ساتھ چلتے ہیں
شرط
شب میں سورج کہاں نکلتا ہے
اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی
روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے
المیہ
مجھ کو محسوس ہو رہا ہے یوں
اپنی صورت میں ہوں نہ دنیا میں
زنگ آلود آئینے میں ہوں