وہ فاطمہ کے لا ڈلے بیٹےحسین ہیں
محبوب ِ کبر یا کے نواسے حسین ہیں
حق و صداقتوں کے جو سالار ہیں حسین
لا شوں پہ کیسے بے بس و لا چار ہیں حسین
دیکھو سجی ہے خون ِ شہیداں سے کربلا
یوں سر خرو ہے آج بہتر 72 کا قافلہ
اے ساحل ِ فرات کے پیاسو تمہیں سلام
صد آفریں ، حیات کا تم نے دیا پیام
تاریخ کو ہے ناز تمہاری حیات پر
تم سا کہاں زمانے میں غیور راہبر
ر ب کی رضا پہ سب کی جبیں سجدہ ریز تھی
عشق و جنوں کی شکل یہ ایمان خیز تھی
گونجا تھا کر بلا میں جو اعلان ِ امر حق
حیرت زدہ تھا کفر ، تھا باطل کا چہرہ فق
عباس کے لہو سے تھی قاسم کی تر قبا
عابد نحیف و زار تھے ، زینب کا سر کھلا
دریا تمام خون ِ شہیداں سے سرخ تھا
ایماں کی بر کتوں سے مقدم تھا
سر کٹ گیا جبیں پہ شہادت کا تاج ہے
تا حشر تم نے رکھی صداقت کی لاج ہے
پرچم حسینیت کا شہیدان ِ کر بلا
لے کر اٹھے تھے سامنے باطل کے بر ملا
قدموں میں آج ان کے سلاطیں کے تاج ہیں
وہ سر بلند سر ، جو رہین ِ تاج ہیں
یوں شان و فخر و ناز سے وہ کا مراں ہوے
عالم میں اہل ِ بیت امر ِ بے گماں ہو ے
بندے نہیں تھے عام وہ ابن ِ رسول تھے
سارے شہید با غ ِ نبوت کے پھول تھے
مٹ جاے ان کا نام یہ امر ِ محال ہے
میدان ِ کر بلا تو فقید المثال ہے
زیبی غلام ابن ِ غلام ِ نبی ہوں میں
بس مغفرت کی اپنی دعا ما نگتی ہوں میں