ترجمہ نگار: ھانی السعید(مصر)
٭گرچہ سارے لوگ اصلاَ مٹی سے ہیں
سب کے سب آنکھیں بند کیے پیدا ہوتے ہیں
مگر لمحوں،مہینوں اور سالوں کے بعد
کچھ اچھے اور کچھ بُرے بن جاتے ہیں
مجھے تعجب ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭مجھے تعجب ہے،تعجب ہے تم پر اے زمانی
اے نرالی اشیا کے خالق!اے میری آنکھوں کو خون کے آنسو رُلانے والے
کیسے میں اپنے لیے راستہ منتخب کروں
جب کہ میں خود دنیا میں جبراَ آیا ہوں
مجھے تعجب ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭میں جوان ہوں مگر میری عمر ہزار سال سے اوپر ہے
اکیلا ہوں مگر میرے سینے میں ہجوم ہے
ہراساں ہوں لیکن مجھے خوف خود اپنے آپ سے ہے
گونگا ہوں مگر میرے دل میں باتیں ہی باتیں ہیں
مجھے تعجب ہے!
٭کہتے ہیں بھائی،بھائی کا خون چوستا ہے
انسان حقیقت میں انسان نہیں
تو میں نے اپنا دل نکال کر اس کے بدلے پتھر رکھ لیا
مگر یہ پتھر بھی پگھل گیا اور میرا دل اپنی اصل لطافت کی طرف لَوٹ گیا
مجھے تعجب ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭اے جانِ من کیوں ہمارے درمیان ہمیشہ فاصلہ ہے
بے شک دوری ناقابلِ معافی جرمِ عظیم ہے
اے جانِ من کیوں ہمارے درمیان ہمیشہ سمندر ہی سمندر ہیں
ایک سمندر پار کرتا ہوں تو ایک اور سمندر سامنے آجاتا ہے
مجھے تعجب ہے!