میں سوچوں میں ڈوبے محبوب کو دیکھ رہا ہوں، وہ رقیب کو دیکھ رہی ھے، مجھے اپنی خام خیالی کا خیال ستا رہا ھے، میں اسکی جانب بڑھ کر سوچ رہا تھا، سمجھ رہا تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ھے مگر اسکی مسکان میرے لئے نہیں بلکہ پیچھے کھڑے میری خواہشوں کے قاتل کیلئے تھی_ اپنی خوش فہمیوں کو سوچتا ہوں تو اپنی نظروں میں گر جاتا ہوں_
وہ پاس پہنچ چکا ھے، دونوں نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور میں ہاتھ ملتا رہ گیا۔۔
کہاں تھے جان ؟ اتنی دیر لگا دی، کب سے انتظار کررہی ہوں۔ ۔ ۔
اچھا اس سے ملو میرا کلاس فیلو ھے، اس نے میری طرف اشارہ کیا-
میں نے رقیب کی جانب ہاتھ بڑھایا، کچھ دیر حقارت سے دیکھنے کے بعد اس نے ڈھیلے ہاتھوں لاپرواہی سے ہاتھ ملایا۔۔۔
آپ یہاں کیوں آئے؟
شاید مرچی لگ گئی تھی اسے- میں گویا ہونے کو تھا کہ وہ بولی اسے میں نے بلایا اپنے ہونے والے منگیتر سے ملنے۔۔ یہ جملہ میرے دماغ پر ہتھوڑی کی مانند لگا، دماغ کی رگیں ٹس ٹس کرنے لگیں۔۔۔
رقیب نے سنی ان سنی کرکے کہا میں اک گفٹ لایا ہوں، گاڑی میں ھے لیکر آتا ہوں، وہ جانے کو ہوا تو اس نے پکارا ،آپ رکیں یہ لے آئے گا ، اس نے میری طرف ہاتھ نچائے ۔۔۔۔
میں اسکی گاڑی کی طرف جارہا ہوں، میں اپنے اندر سے بار بار اپنے سامنے آ کر خود کو طعنے دے رہا ہوں، میں خود کو خود آب شرمندگی میں غوطے دے رہا ہوں۔۔۔ اس نے تمھیں یہاں ذلیل کرنے کیلئے بلایا، بے غیرتی دیکھ رقیب کے کام کر رہا ھے ۔ ۔ ۔ میں نے خود پر طعنوں کے فائر شروع کیئے-
گاڑی سے گفٹ اٹھا کر واپس انکے پاس پہنچا، اسے کافی مدت بعد پیار سے باتیں کرتے دیکھ رہا ہوں مگر کسی اور کے ساتھ- بنا شکریہ ادا کیئے رقیب نے گفٹ پیک کھولا۔۔۔ برینڈڈ پرفیوم اسکے حوالے کی، جان میں بھی اسی برینڈ کی پرفیوم استمال کرتا ہوں، رقیب نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔
پھر مجھ سے پوچھنے لگا آپ کونسی خوشبو لگاتے ہو؟ ؟
خوشبو وہ لگائے جس سے بدبو آتی ہو، میں نے جل کر کہا ۔ ۔ ۔
ان سے کنارہ کرکے سگریٹ جلایا، اپنی جلن سگریٹ کو جلا کر ختم کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا، بار بار یہ شعر زبان پر آرہا ھے
“وہ مجھ کو چھوڑ کر جس آدمی کے پاس گیا،
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آجاتا”
سائیڈ پر بیٹھے دو پیاسے دل والوں کا نظارہ کرنے لگا، مزید سے مزید جلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں دیکھ دیکھ کر جل رہا ہوں اور جل جل کر دیکھ رہا ہوں، اگر میں پلک جپکوں تو آنکھیں چھم چھم برس جائیں مگر میں ہرگز آنسوؤں کو آزادی نہیں دونگا، میں نہیں چاہتا کوئی میری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مجھے مزید ٹھیس پہنچائے-
دونوں کو پیار سے باتیں کرتے دیکھ کر دل شدت غم سے پھٹ رہا ھے، دل میں زلزلہ ہورہا ھے، بے رخی کا زلزلہ، لاپرواہی کا زلزلہ، نظراندازی کا زلزلہ،
سارے زلزلے مل کر دل میں دراڑیں ڈال رھے ہیں، چیر رھے ہیں دل کو، دل کمزور ہوتا جارہا ھے ، نہ یہاں بیٹھنے کو جی کر رہا ھے نہ یہاں سے جانے کو ، اک کشمکش سی ھے-
گھنٹوں تماشائی کی طرح انکا تماشہ کرتا رہا، بالآخر رقیب رخصت ہوا اور محبوب میری جانب پلٹا، میری جانب آتے ہوئے بھی اس نے چھ مرتبہ رقیب کی گاڑی جاتے دیکھی۔۔ چل میری طرف رہی تھی مگر خیالات اسی کے طواف کر رھے تھے۔۔
تم ابھی تک گئے نہیں؟؟ اس نے پاس آتے ہی مجھے آب تعجب میں گرا دیا ۔ ۔ ۔
میں دھیمی آواز میں بولا، تمھارا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
کیوں خیریت؟ ؟ اس نے ایک اور جھٹکا دیا۔۔۔
کچھ پل حیرانگی سے دیکھنے کے بعد میں نے اپنا سکوت توڑا،
تم ہی نے تو بلایا تھا، میں تو گھر جارہا تھا، اس پارک میں بلانے کا مقصد کیا تھا؟ مجھے جلانا تھا نا؟ اور کتنا جلاؤ گی؟ کتنا تڑپاؤ گی؟ پتھر تھا میں پتھر، موم ہوچکا تمھاری محبت میں، محبت سے پہلے میں بھی خوددار تھا مگر آج _______ ____ __
کب تک دل سے کھیلو گی؟ آخر کب تک؟ اگر ٹھکرانا ہی تھا تو اس سنگ کو دل نہ دیتی، جانتا ہوں مجھے یہاں بلانے کا تمھارا ایک ہی مقصد تھا کہ اسے راکھ کروں، ذلیل کروں۔۔۔
کافی سمجھدار ہو، اس نے میری بات ٹوکتے ہوئے کہا اور میں استعجاب کے تیسرے جھٹکے کیساتھ تکتا رہ گیا۔۔۔۔
تمھیں تو بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں، کسطرح بات کر رھے تھے میرے منگیتر سے، پینڈو ہو پینڈو ہی رہوگے، میں اسکے طعنے سنتا رہا ۔۔۔۔
ہم ہمیشہ کیلئے لاہور شفٹ ہورھے ہیں، خدا کا واسطہ ھے رابطہ کرنے کی کوشش بھی مت کرنا، یہ کہتے ہی وہ جانے لگی، میری سنو سنو کو اس نے ذرا نہ سنا، ایک مرتبہ بھی پلٹ کر نہ دیکھا، کہاں چھ مرتبہ پلٹنا اور کہاں____
میں اپنے آنسوؤں کو مزید آنکھوں کی حراست میں نہ رکھ پایا،
خود پر خود ترس آنے لگا،
چھوڑ کر جب وہ جانے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب اسے روکنے کا کوئی جواز ہی نہیں بچا، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جارہی ھے، پریشانی میں ڈوبے کچھ پل اسے دیکھتا رہا، جب آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو سب کچھ مدھم مدھم دکھائی دینے لگا، شاید میری آنکھیں اسکے علاوہ کسی چیز کو دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں-
13 مئی کی اک اداس دوپہر، تھکا ہارا اک شجر تلے بیٹھ کر خود کو اسکے خیالات سے بری کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا، میں شدید جل رہا ہوں، محبوب و رقیب کے خیالات اور اپنے برے حالات جلا رھے ہیں، رہی کسر مئی خوب نکال رہا ھے۔۔۔
چشم تر ھے، ہر منظر بد سے بد تر ھے، سامنے بلند پہاڑوں کو دیکھتا ہوں تو وہ وقت یاد آتا ھے جب میری امیدیں ان پہاڑوں جیسی ارفع تھیں، مگر اب یہ پہاڑ آتش فشاں کا شکار ہوگئے، اب وہ موسم نہیں رہا کہ امید کی کوئی کونپل پھوٹے، سرسبز درخت مجھے وہ وقت یاد دلا رھے ہیں جب رشتہ جاناں تازہ تھا، بہاریں تھیں، مگر اب جیسے خزاؤں کا آغاز ہوچکا- اب محبتوں کے درخت احساس کے پتے گرا رھے ہیں، اب نئے پتے شاخوں کو میسر ہونگے، پرانے پتے شاخوں سے گر کر بھلے کسی کے پیروں تلے روندے جائیں یا جل کر راکھ ہوجائیں، درخت اس فکر سے بری ھے-
پرندے چہک رھے ہیں اور ایک دوسرے کے فریب میں بہک رھے ہیں، مجھے میرا ماضی یاد دلا رھے ہیں اور میں انکو برے انجام کا خدشہ دینے کی ناکام کوشش میں لگا ہوں، کبھی مجھے بھی ان پرندوں کی آواز سریلی اور میٹھی لگتی تھی مگر آج زہر اور گالی لگتی ھے، ایک شاخ پر دو پرندے چونچیں ملائے بیٹھے ہیں، میں انکو برے انجام کی وعید دے رہا ہوں، “اے نہ کرو، نہ کرو، رسوا ہوگے، بربادی مقدر بنے گی، اضطراب نوچے گا، احساس کی جلن ہوگی” ۔ ۔ ۔
میں کسی پاگل کی طرح چیخ رہا ہوں مگر وہ میری بولی سمجھنے سے قاصر ہیں، کافی دیر دیکھ کر جب رہا نہ گیا تو دونوں کو شی شی کرکے اڑا دیا ۔۔
درختوں کی ہوا جو کبھی ٹھنڈک دیتی تھی آج جیسے میرے منہ پر رسوائی کے طمانچے مار رہی ہو، ہر چیز پھیکی، ہر منظر بے رنگ، اندروں تنگ تنگ، بے سکونی چھائی ہوئی ھے، عصر کا وقت ہوچکا، مؤذن “اللہ اکبر” کی صدا دیتا ھے، میں اسے اچھا مشورہ سمجھ کر بادشاہوں کے بادشاہ کے ہاں سکون کی خیرات لینے روانہ ہوچکا____۔۔۔
میں اس وقت اپنے ماضی میں جی رہا ہوں اور مستقبل میں جینے کے اسباب خیالوں میں ڈھونڈ رہا ہوں- ماضی جس میں مجھ سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں جن میں محبت سرفہرست ھے- میں نے محبت نہیں کوئی خطاء کی ہو جیسے، کی بھی تو نہیں بس ہوگئی، کیوں ہوئی کیسے ہوئی، اسکا جواب شاید سحر قیامت تک نہ ڈھونڈ پاؤں- افسردہ چہرہ، پرنم آنکھیں، اداس روح لیئے جب میں ماضی کے آشیاں میں جھانکتا ہوں تو خوشیاں نظر آتی ہیں، جہاں امید ھے، جہاں تابناک مستقبل کے خواب ہیں، جہاں ملن کی توقع ھے، جہاں مستقبل کے خوابوں کی تکمیل کا یقین ھے مگر فی الوقت یعنی حال جو ماضی میں لش پش مستقبل دکھ رہا تھا اک بھیانک حال ھے۔۔۔ آخر کیوں امیدیں ٹوٹتی ہیں؟؟ کیوں سپنے ریزہ ریزہ ہوتے ہیں؟؟
کیوں خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں؟؟
کیوں اضطراب نوچتا ھے؟؟
کیوں کرب دبوچتا ھے؟؟ کیوں رعنا محفلیں تنہائیوں کا شکار ہوجاتی ہیں؟؟
کیوں زندگی زندگی ہی نہیں لگتی؟؟
تقدیر ملن کی آس دلا کر بغاوت کیوں کرنے لگ جاتی ھے؟؟
درد و کرب، پریشانیاں، مصیبتیں،اضطراب،غم،سراسیمگی اور تکلیفیں مکمل اتحاد کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہیں، یہ دل محلے کے آشیاں میں تلخ یادوں کا تیزاب پھینک کر جلاتی ہیں-
روح چھلنی چھلنی ھے، میں اپنے ماضی کو شاعر کی طرح بھلانا چاہتا ہوں کیونکہ میرا ماضی اور یادیں بھی کسی عذاب سے کم نہیں، مگر جیوں بھی تو کہاں جیوں؟؟
ماضی بھلانا چاہتا ہوں، مستقبل کے حوالے سے مایوس ہوں، اور حال اتنا برا کہ حال کے برے حال پر ہنسی آرہی، کسی پاگل کی طرح ہنسے جارہا ہوں—
سوچتا ہوں کچھ سوچا نہ جائے مگر میرا دماغ بھی میرے ساتھ ناروا سلوک پر تلا ہوا ھے–
صدیوں پہلے کے رانجھا، مجنوں، فرہاد جیسے لوگوں پر بے تحاشہ ترس آرہا ھے، بیچاروں نے کیا کیا سہا، کیا کیا کرگئے، جانے کیسے جیئے جانے کیسے مرگئے۔ ۔ ۔
فی زمانہ محبت پہلے جیسے تو نہیں مگر میری کیفیت شاید صدیوں پرانی ھے، مزید جینے کی تو ہمت ہی نہیں جیسے، معلوم نہیں کیسے کٹے گی اسکے بن۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...