گلفام کی بابت سب کو یقین ہو چلا تھا کہ اب اس کی زندگی کے دن پورے ہو گئے ہیں اور اس دنیا میں وہ صرف چند دن کا مہمان ہے۔ اصطبل میں تھان کے سامنے لیٹے لیٹے اس کو کامل ایک ہفتہ گذر چکا تھا۔ مالک بھی اس کی خراب حالت کو دیکھتے دیکھتے تنگ آ گیا تھا۔ کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ گولی کا نشانہ بنا کر اس کی تکلیفوں کو ختم کر دے مگر دیرینہ رفاقت کا احساس اسے ہر مرتبہ باز رکھتا تھا۔ وہ روز اس خیال سے خاموش ہو جاتا کہ آج نہیں تو کل ضرور مر جائے گا۔ مرتے ہوئے کو مارنے سے کیا فائدہ؟
اس کی چاروں ٹانگیں بے کار ہو چکی تھیں، رانوں تک کا گوشت سڑ چکا تھا۔ جب ان میں کیڑے کلبلاتے تو درد کی شدت سے وہ بھیانک آواز میں ہنہنانے لگتا۔ اکثر رات کے وقت اس کے کراہنے کی آواز سے سوتے ہوئے لوگوں کی نیند خراب ہو جاتی۔ مالک جھنجھلا کر پستول لے کے اٹھتا مگر طویلہ تک جا کر رہ جاتا۔ اسے اندر جاتے ہوئے بھی کراہت معلوم ہوتی تھی۔ وہاں کی تمام فضا زخموں کی عُفُونت سے نا قابل برداشت ہو گئی تھی۔ وہ صرف جھانک کر دیکھتا اور واپس لوٹ آتا۔ دل ہی دل میں راے قائم کرتا کہ کل صبح تک ضرور مر جائے گا۔
گھر کے پلے ہوئے شکاری کتے اس کے پاس آتے، زخموں کو سونگھتے اور ان پر پیشاب کر کے غریب بے زبان جانور کو تکلیف پہنچا جاتے۔ کبھی کبھی بکرے کے سینگ بھی اس کی مجروح کھال پر عملِ جراحی کی مشق کرتے مگر وہ انتقام لینے سے قاصر تھا۔رات کے وقت چوہے نکل کر اس کے کان کاٹتے، گردن پر چڑھتے مگر اس میں اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ دم ہلا کر ان کو بھگا دیتا۔ وہ خاموش لیٹا ہوا اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں پوری کرتا رہتا۔ مہترانی بھی اس جگہ کو صاف کرتے وقت ناک بھوں چڑھاتی۔ وہ کوستی کہ یہ کمبخت مر کیوں نہیں جاتا کہ پاپ کٹے۔ وہ لید اٹھانے سے پہلے ایک لات اس کی پیٹھ پر جڑ دیتی۔ دوسرے گھوڑوں سے بچی ہوئی گھاس اسے کھانے کے لیے ملتی تھی اور وہ بھی بہت قلیل مقدار میں۔ وہ اسے بھی نہ کھا سکتا تھا۔ طویل بیماری سے اس کی بھوک پیاس بند ہو گئی تھی۔
اس کے لیے تمام دنیا ایک اصطبل میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ایک ہی حالت میں لیٹے لیٹے جب اعضا تھک جاتے اور بدن میں شدید درد ہونے لگتا تو وہ کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ کروٹ بدل لیتا تاکہ عارضی طور پر کچھ سکون حاصل ہو جائے اور بس۔ قرب و جوار کے شریر بچے دور کھڑے ہو کر اسے پتھر اور مٹی کے ڈھیلے مارتے۔ بعض بے رحم لڑکے پچکاریوں میں سرد پانی بھر بھر کر اس کی طرف پھینکتے جس سے اس کے زخموں میں مرچیں سی لگنے لگتیں۔ وہ درد بھری آواز سے ہنہناتا اور خاموش ہو جاتا۔ بچے خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور ہنستے ہوئے چلے جاتے۔ اس کی بے بسی کی حالت پر کسی کو رحم نہ آتا تھا۔
موسم سرما کی ایک رات تھی، نصف سے زیادہ حصہ گذر چکا تھا۔ اس کے زخموں کی تکلیف حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ اس کے دل میں مصائب و آلام کے خلاف جہاد کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اپنی تمام پس ماندہ قوتوں کو جمع کر کے اس نے آخری کوشش کی اور کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ کھڑا ہو گیا مگر اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ جسم کا ایک ایک حصہ بید کی طرح کانپ رہا تھا۔ اس کا بھاری جسم ان نحیف ٹانگوں کے لیے ایک بارِ گراں تھا مگر پوری ہمت سے کام لے کر اس نے بمشکل توازن کا قائم رکھا۔
سب سے پہلے اس کی نظر ناند پر پڑی جس میں کئی دن کی سوکھی ہوئی گھاس کا تھوڑا سا ڈھیر پڑا تھا۔ اس کے سینہ پر سانپ سا لوٹ گیا جب اس نے خیال کیا کہ مالک اب اس کی خوراک کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اس کے سامنے وہ منظر آ گیا جب گھوڑ دوڑ کے میدان میں پہلی بار وہ اول نمبر آیا تھا۔ واپسی کے وقت ایک عروسِ نو کی طرح اس کی گردن پھولوں کے گجروں سے لدی ہوئی تھی۔ اس روز خود مالک نے اپنے ہاتھوں سے اس کی مالش کی تھی اور کئی روز تک صبح و شام بالٹی بھر کر دودھ جلیبیاں اسے کھلائی گئی تھیں۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے خیال کیا کہ انسان بہت قدر ناشناس اور خود غرض ہے۔ وہ پھولوں سے لطف اندوز ہو لینے کے بعد انھیں مسل کر پھینک دیتا ہے۔ مگر جلدی ہی اس نے اپنی راے تبدیل کر لی کہ شاید اس مخلوق کا یہی دستور ہو کہ ہر چیز کو برت لینے کے بعد نظر سے گرا دیا جائے۔
پھر اس کی نگاہ لکڑی کے کھونٹے پر پڑی جس کے ساتھ کبھی آہنی زنجیروں کے ذریعے اس کو باندھا جاتا تھا۔ مگر اب وہاں سن کی معمولی رسی بھی نہیں تھی کیونکہ کسی شخص کو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ گلفام میں چپکے سے بھاگ جانے کی ہمت ہے۔ اپنی اس بے بسی کی حالت پر اس کے آنسو نکل پڑے۔ اتنے ہی میں ایک چوہے نے بل سے سر نکال کر اپنے تیز دانت دکھائے گویا وہ اسے کاٹ کھانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ گلفام نے چاہا کہ سُم کی ایک ضرب سے اس چھوٹے سے جانور کی ہڈی پسلی ایک کر دے۔ مگر فوراً رک گیا کہ مبادا اس کشمش میں جسمانی توازن بگڑ جائے اور اسی جگہ گر پڑے جہاں کئی دن سے بے یار و مددگار پڑا تھا۔ اس نے آخری بار اس چاردیواری پر حسرت کی نگاہ ڈالی جس کے اندر زندگی کا بیشتر حصہ گذارا تھا اور لرزتے ہوئے پاؤں کو جنبش دے کر چلنے لگا۔ اس کے دونوں کولھے نجاست میں لتھڑے ہوئے تھے اور جگہ جگہ جسم پر مٹی جم کر خشک ہو گئی تھی۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
طویلہ سے نکل کر وہ سائیس کی کوٹھری کے قریب سے گذرا جو دروازے بند کیے دنیا و مافیہا سے بے خبر گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ رُک کر ہنہنایا گویا اپنے ان داتا کو آخری بار الوداع کہہ رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اب میں زندہ واپس نہیں آؤں گا۔
اس نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ چاند اپنے پورے شباب پر تھا۔ ستارے جگمگا رہے تھے۔ موسم سرما میں چلنے والی ہوا کے جھونکے اعضا کو مفلوج کر دینے کی حد تک سرد تھے۔ یقیناً اس کا جسم ٹھٹھر کر رہ جاتا اگر زندہ رہنے کی آخری کشمکش کے جوش نے اس کے اندر حرارت نہ پیدا کر دی ہوتی۔ چاندنی رات میں اس سنسان مقام پر کھڑے ہو کر اس نے تصور کی آنکھ سے اپنے عہد شباب کو دیکھا۔ ایک دن وہ جوان تھا اور چست و چالاک۔ اس کی رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا۔
اس کے جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی مگر سریع الزوال۔ چار ہی قدم چلنے سے اس کا سانس پھولنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ باغیچہ میں سے گذرا جہاں اس کے مالک نے مختلف الالوان پھولوں کے پودے لگا رکھے تھے۔ اس نے چاہا کہ اپنے سُموں سے سب کو روند کر فنا کر دے اور اس طرح اپنے جوشِ انتقام کو سرد کر لے۔
“مگر کیا فائدہ؟”
اس سوال کے پیدا ہوتے ہی اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
باغیچہ کے ایک کونے میں مالی کی کٹیا تھی۔ وہ رک گیا اور پھونس کی دیوار کے قریب اپنی آنکھ لگا کر ایک روزن سے جھانکا۔ بوڑھا بے خبر سو رہا تھا۔ اس نے ارادہ کیا کہ اسے بیدار کر کے کہے:
“اے پندرہ روپے کے ملازم! اب تو مجھے ہری گھاس نہیں دیتا۔ میں مالک سے تیری شکایت کر دوں گا۔”
مگر خود اسی کے قلب سے ایک درد بھری صدا نکلی:
“اے بے وقوف! خود تیرا مالک تیری فکر نہیں کرتا۔ اسے تیری پروا نہیں۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تو کل کا مرتا آج ہی مر جائے۔ وہ تیری فریاد کو کن کانوں سے سُنے گا؟”
چند قدم چلنے کے بعد باغیچہ کی حد ختم ہو گئی۔ خاردار تاروں کی باڑھ لگی ہوئی تھی۔ وہ رُک گیا۔ تار زیادہ اونچے نہیں تھے۔ مشکل سے ڈیڑھ فٹ ہوں گے، کھیل کے میدان میں وہ چار چار فٹ بلند جنگلے پر سے بآسانی چھلانگ مارتا جاتا تھا۔ مگر اب ٹانگوں میں سکت باقی نہیں تھی۔ چھلانگ مارنا تو درکنار راستہ چلنا بھی دوبھر تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر جسم کمزور کیوں ہو جاتا ہے؟ بدن کی طاقت کہاں چلی جاتی ہے؟ مگر یہ ایک مشکل مسئلہ تھا جس کو سمجھنے سے اس کی عقل حیوانی قاصر تھی۔
اس نے مناسب نہ سمجھا کہ ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک کھڑا رہے۔ اس خیال سے کہ کہیں جسم کی تھوڑی بہت گرمی زائل ہو کر سردی کا احساس نہ پید اکر دے، وہ پھر چل پڑا۔ حالانکہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی کمزور ٹانگیں اس کو کہاں لیے جا رہی ہیں۔ کوئی مخصوص منزلِ مقصود اس کی نظر کے سامنے نہیں تھی۔ وہ کاروان سے الگ ہو کر بھٹکنے والے مسافر کی طرح تھا جس کا ہر قدم لا علمی میں کبھی منزل کی طرف اٹھ جاتا ہے اور کبھی منزل سے دور۔
وہ جنگلے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا کہ شاید کہیں یہ سلسلہ ختم ہو جائے یا ایسا مقام آ جائے جس کو عبور کر لینا اس کے امکان میں ہو۔ وہ چلا جا رہا تھا اور بے خبر تھا کہ کائناتِ عالم کا ہر ذرہ اس کے تاثراتِ قلب کا دقیق مطالعہ کر کے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جانا چاہتا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ ہر شے کا غیر مرئی دل جذباتِ ہمدردی سے مغلوب ہو کر اس کے لیے دھڑک رہا ہے۔
اتفاقاً ایک جگہ تار ٹوٹ جانے سے باڑھ میں ایسی جگہ بن گئی تھی جہاں سے گذر کر باغیچہ کے باہر نکل جانا اس کے لیے آسان تھا۔ وہ خوش ہوا کہ اب آزادی کی فضا میں پہنچ کر سانس لوں گا مگر عین اس وقت بنگلہ کی طرف سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سہم کر کھڑا ہو گیا۔ افشاے راز کے خوف سے اس کا تمام جسم لرزنے لگا۔ اس نے زمین کی طرف دیکھا جس کی سطح پر پڑنے والا سایہ بھی کانپ رہا تھا۔ پھر اس کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھی۔ چاند پوری طرح روشنی پھیلا رہا تھا۔ اس نے آرزو کی کہ کاش آج کے دن یہ قندیلِ فلک گُل ہو جاتی تو بہتر تھا۔ مگر کسی کی آرزو کے مطابق نوامیسِ قدرت میں تغیر نہیں ہوتا۔ اس کے قوانین اٹل ہیں۔ اسے یقین ہو گیا کہ کتے کی آواز سے تمام چوکیدار بیدار ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ کوئی چور بنگلہ کی حدود میں گھس آیا ہے۔ بے شک وہ چور بھی تھا۔ کم از کم اس کا دل چور تھا۔
اس نے اپنے ضمیر کی آواز صاف طور پر سنی۔ وہ چوروں کی طرح دبے پاؤں اپنے مالک کے گھر سے فرار ہو رہا تھا۔ لازمی بات تھی کہ چاند کی روشنی میں چوکیدار اس کو باڑھ کے قریب کھڑا دیکھ لیں گے اور پکڑ کر واپس لے جائیں گے۔ تیز دوڑ جانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ اس نے گذشتہ واقعات پر غور کر کے سوچا کہ کیا دوبارہ اسی مسموم فضا میں زندگی بسر کرنی پڑے گی جہاں رہتے رہتے اس کی طبیعت اکتا چکی ہے۔ پھر وہی زندگی؟ جس سے مر جانا بہتر ہے۔
اس نے بنگلے کی طرف دیکھا، کوئی چیز سایہ کی طرح حرکت کر رہی تھی۔ ایک چوکیدار بیدار ہو چکا تھا۔ اس نے اچھی طرح پہچان لیا۔ یکایک روشنی نمودار ہوئی اور اس کی شعاع سب طرف چکر لگا کے اس کے جسم پر پڑنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انتہاے یاس میں آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن جب خلافِ توقع چند لمحے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ روشنی مفقود ہو چکی تھی اور صرف ایک کتا اس کے قریب کھڑا دُم ہلا رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ چوکیدار نے ارادتاً اس کی طرف سے لاپروائی اختیار کر لی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح یہ بلا دور ہو جائے۔ زخموں کی افراط کے باعث گُلفام کی کھال بھی اس لائق نہیں تھی کہ اس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ پھر اسے کون پکڑتا۔ اس خطرناک مستقبل سے بچ جانا ہی اس کے لیے باعثِ مسرت بن سکتا تھا۔ مگر اس امر کا احساس کہ اب اس کی ہستی کو ایک بے کار شے تصور کر کے نظر سے گرا دیا گیا ہے اس کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔
اب اس کی ٹانگوں میں کوئی تکلیف باقی نہیں رہی۔ اس کے زخموں کی چپک بند ہو گئی۔ اصطبل کی مسموم فضا کا خیال بھی اس کے ذہن سے اتر گیا۔ مگر اس کی روح کو ایک ایسی اذیت پہنچنے لگی جو دنیا کے تمام مصائب و آلام سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کوئی آئے اور اس کو دوبارہ جا کر اسی گندی اور مسموم فضا میں ہمیشہ کے لیے قید کر دے۔ یہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دنیا کی کوئی ہستی اس کو نظر حقارت سے دیکھے۔ وہ کھڑا دیکھتا رہا کہ اب کوئی آتا ہے، اب کوئی آتا ہے۔ مگر نہیں کسی کو آنا تھا نہ آیا۔ اس کی امیدیں پامال ہو گئیں۔ فضا میں کسی کا سایہ حرکت پذیر نہ ہوا۔ وہ خود اپنی ٹانگوں سے چل کر واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی خودداری مانع تھی۔ ترک کیے ہوئے راستے پر خود اپنی ہی مرضی سے گامزن ہو کر ہار مان لینا اس کی شان کے خلاف تھا۔ اس کے پندار میں وہ ایک ایسا اعتراف جرم تھا جس کا عملی پہلو بذاتِ خود ایک زبردست جُرم ہے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنی ہستی کو اور زیادہ گناہ آلود کرے۔ اس لیے با دلِ نخواستہ وہ آگے بڑھ جانے کے لیے مڑا۔ مگر عین اس وقت اس کی نگاہ کتّے پر پڑی۔ حالانکہ وہ کافی دیر سے اس کے قریب کھڑا دم ہلا رہا تھا۔ وہ پھر ٹھٹک گیا۔ اس نے پہچان لیا، وہ موتی تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست رہ چکے تھے۔ مگر اس وقت اس کا دماغ جس کا توازن حوادث زندگی سے بگڑ چکا تھا، یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ دیرینہ دوست مصیبت کے وقت بھی کام آتا ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں کہ خود اس کے قویٰ اس کے احکام سے انحراف کرنے لگے تھے، یہ کس طرح توقع کی جا سکتی تھی کہ ایک غیر جنس ہستی اس کا ساتھ دے گی۔ اس نے سوچا:
“کاش میرا وجود ازلی تخلیق کی ساعتوں کا رہین منت نہ بنتا۔ میری ماں مجھ کو جننے سے قبل مر جاتی۔”
اس نے اپنی گردن جھکا کر تھوتھنی موتی کے قریب کی۔ گویا وہ اس کے کان میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نطق سے محروم ہونے کے باعث کچھ نہ کہہ سکا اور اس مجبوری کے عالم میں اس کے تمام جذبات “معنیِ بے لفظ” بن کر رہ گئے۔ موتی جھکا اور گلفام کے سُموں کو چاٹنے لگا۔ اس بے زبان کے پاس بھی اظہار ہمدردی کے لیے اس سے زیادہ بہتر ذریعہ نہیں تھا۔ محبت بھرے دل کی سچی باتیں زبان سے ادا نہیں کی جا سکتیں اور شرمندۂ الفاظ بنے بغیر حسّاس قلب کے کانوں سے سن لینی ممکن ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مطلب سمجھ گئے۔ موتی نے راہبری کی اور مظلوم و بے کس گلفام اس کے ساتھ ہو گیا۔
صبح کی سپیدی نمودار ہونے سے قبل وہ بمشکل ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ گلفام کے لیے آگے قدم اٹھانا دوبھر ہو گیا۔ اس کا سانس بہت تیزی سے چل رہا تھا۔ تمام جسم میں تھرتھری پیدا ہو گئی تھی۔ ٹانگوں پر کافی دیر زیادہ زور پڑنے کے باعث زخموں کے اندر سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا اور اس طرح اس کی رگوں میں سے نکلے ہوئے عزیز خون نے زمین پر ایسے نقوش پیدا کر دیے کہ اگر کوئی تعاقب کرنا چاہے تو آسانی سے سراغ ملتا چلا جائے۔ اس نے حسرت سے اپنی ٹانگوں کو دیکھا، ان ٹانگوں کو جن کی طاقت اس کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں کامیاب بنا دیتی تھی مگر آج اس کے جسمِ زار کو بھی گھسیٹنے سے معذور تھیں۔ اپنی عظمت رفتہ کا خیال کر کے وہ رونکھاسا ہو گیا۔ اس کی کمر سینکڑوں زخموں سے داغ دار تھی اور جگہ جگہ نجاست لتھڑی ہوئی تھی۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل اس پر نمدے کس کر سواری لینا انسان کے لیے باعثِ فخر تھا۔
اس نے دو روز سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا۔ اس لیے حلق میں کانٹے سے پڑنے لگے۔ کچھ نہ کھانے کی وجہ سے نقاہت بڑھ رہی تھی۔ زخموں کی تکلیف سے جسم نڈھال تھا۔ زندہ رہنے کی تمنا میں مزید کشمکش کرنا اس کی طاقت سے باہر ہو گیا۔ اس کی ٹانگیں لڑکھڑائیں، آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ وہ گر پڑا، لڑکھڑا کر گر پڑا۔ زمین بالکل پتھریلی تھی۔ چھوٹے چھوٹے سنگریزے اس کے زخموں میں گھس گئے۔ وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔ مگر کوئی نہیں تھا جو ایک چُمکاری دے کر اس کے درد میں کمی کرنے کی کوشش کرتا۔ اس نے دو چار لاتیں ماریں کہ شاید اس طرح بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے مگر الٹا اثر ہوا۔ قریب کی خاردار جھاڑیاں اس کے زخموں پر نشتر زنی کرنے لگیں اور پسلیوں سے لگا ہوا پیٹ لوہار کی دھونکنی کی طرح زور زور چلنے لگا۔ اس کا سانس اکھڑ گیا۔ دونوں نتھنے خون آلود جھاگ سے بھر گئے۔ اس کا ہنہنانا بھی ایک بھیانک شور میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اس کے کراہنے کی آواز سن کر کس کے دل میں رحم پیدا ہوتا جب کہ وہاں کوئی متنفس موجود نہیں تھا۔ اس کی تمام گریہ و زاری صدا بصحرا تھی۔ اس کی آہ و بکا کو صرف ان طیور نے سنا جو قریب کے ایک پرانے درخت پر اپنے اپنے گھونسلوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ مگر اس کے آنے ہی سے قبل اس کی بے جا اور غیر متوقع مداخلت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اڑ چکے تھے۔ اب صرف اسی مرنے والے کی جانکنی کی آہیں خاموش فضا کے طلسم سکوت کو توڑ رہی تھیں۔ یا کبھی کبھی موتی کے بھونکنے کی آواز سنائی دے جاتی تھی جو انتہائی بے چینی کے ساتھ اپنے قریب الموت رفیق کے جسم زار پر تھوتھنی رگڑ رگڑ کر اظہارِ ہمدردی کر رہا تھا۔
وہ بار بار اس کی ایال اپنے منہ میں پکڑ پکڑ کر گھسیٹتا۔ اس کے سُموں پر اپنے پنجے مارتا۔ مگر مرنے والا گلفام نہیں سمجھ سکا کہ اس کا دوست اسے کہاں چلنے کے لیے آمادہ کر رہا ہے۔ اگر موتی میں سمجھ ہوتی اور اس کی پتلی ٹانگیں اس بارِ گراں کی حامل بننے کی اہل ہو سکتیں تو وہ یقیناً گلفام کو اپنی کمر پر لاد کر ایک ایسی فضا میں لے جاتا جہاں کوئی اس کے زخموں کو مندمل کر دیتا۔ وہ اس کو انسانوں کی دنیا سے نکال کر معصوم فرشتوں کی نگری میں پہنچا دیتا جس جگہ ہر دھڑکنے والے دل میں سچی اور بے لوث محبت کا دریا لہریں مارتا ہے۔ جس مقام پر سانس لینے والا ہر متنفس پژمردہ پھولوں کی بھی اتنی ہی قدر کرتا ہے جتنی ان کی حالتِ شگفتگی میں۔
سورج کافی طلوع ہو چکا تھا۔ کسان جھونپڑوں سے نکل نکل کر کھیتوں کی طرف جانے شروع ہو گئے۔ مویشیوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی صدا سنائی دینے لگی۔ کسی دور کے کھیت سے درانتی کی آواز بھی سنائی دی۔ شاید چنے کی فصل تیار ہو گئی تھی۔ گلفام زمین پر سُم رگڑنے لگا۔ اس نے زور سے لاتیں چلائیں۔ ہنہنانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی دیہاتی کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لے۔ یہ لوگ بہت نیک اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ مگر اس کی فریاد کسی کے کان تک نہ پہنچی۔ موتی بھی اپنے دوست کا منشا سمجھ کر چلانے لگا اور اتنے زور سے بھونکا کہ قرب و جوار کے دوسرے کتے بھی اس کے ہم آہنگ ہو گئے۔ کتوں کی فطرت ہے کہ اپنے ہم جنس کی آواز سن کر خواہ مخواہ چلانے لگتے ہیں گویا انھیں بھی اس کے ساتھ ہمدردی ہے۔ مگر کتوں کی زبان کو بھی کسان نہ سمجھ سکے۔ کھیت پک چکے تھے اس لیے وہ اپنے کام میں پورے انہماک کے ساتھ غرق تھے۔
گلفام اپنے خیالات میں محو ہو گیا۔
ایک خواب بیداری کے عالم میں کوٹھی کا منظر اس کی نگاہ کے سامنے تھا۔ تخیل کی آنکھ سے اس نے دیکھا کہ مالک اور گھر کے دوسرے لوگ بیدار ہو گئے ہیں۔ ملازم اپنے فرائض کی انجام دہی میں کمر بستہ ہیں۔ سائیس سے گلفام کی حالت دریافت کی جا رہی ہے۔ وہ اطلاع دیتا ہے کہ رات کے سکوت میں وہ کہیں بھاگ گیا۔ مالک “خس کم جہاں پاک” کہہ کر قہقہہ لگاتا ہے اور سائیس کو ہدایت کرتا ہے کہ بہت جلد مہترانی کو بلا کر اصطبل صاف کرا دے اور اس میں گندھک روشن کر دے تاکہ عفونت کم ہو جائے۔ اس میں سفیدی کرانے کا بھی حکم دیا جاتا ہے تاکہ اس میں آئندہ بندھنے والے گھوڑوں پر برا اثر نہ پڑے۔
گلفام چونک پڑا۔ اس کے زخمی سینے سے ایک آہ سرد نکلی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھائیں اور بادل کی چادروں میں موت کے فرشتے کو تلاش کرنے لگا۔ وہ زندگی سے تنگ آ گیا تھا۔ اسے مر جانے کی آرزو تھی۔
موتی بھاگ کر قریب کے ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں کھڑے ہو کر خوب چلایا۔ مگر بے سود۔ اس بستی کے تمام لوگ کم از کم اس دن کے لیے بہرے ہو گئے تھے۔ اس کی فریاد کو نہ سن سکے۔ وہ جلدی سے واپس آ گیا۔ اس خیال سے کہ تنہائی کے نا خوشگوار لمحات میں مرنے والے دوست کو کوئی غیر معمولی صدمہ نہ پہنچ جائے۔ اس نے دیکھا کہ گلفام کے منہ پر مکھیاں بھنکنے لگی تھیں۔ اس کی زبان جبڑے کے باہر لٹک رہی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی مگر بے نور تھیں۔ مکھیاں زخموں پر بیٹھتیں تو بدن میں تھرتھری پیدا نہ ہوتی تھی۔ اب اس کا جسم بالکل بے حس ہو چکا تھا۔
اس کی روح کبھی کی نکل چکی تھی۔ مگر موتی کو یقین نہ آیا کہ گلفام مر گیا ہے۔ وہ سمجھا کہ انتہائی کمزوری کے باعث غنودگی طاری ہو گئی ہے۔ اس لیے وہ خود بھی خاموش ہو کر زمین پر پنجے ٹکا کر بیٹھ گیا اور ایک فلسفی کی طرح زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔
“کائناتِ عالم کی تخلیق سے خدا کا منشاے حقیقی کیا ہے؟ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کس وجہ سے دیا گیا؟ دیگر حیوانات نطق سے کیوں محروم رکھے گئے؟ مسرت و انبساط کے ساتھ مصائب و آلام کو وابستہ کر کے زندگی کو تباہ کر دینا کس مصلحت کی بنا پر ہے؟ ایسی ہستیوں کو موت جلد کیوں نہیں آ جاتی جو خود اپنی زندگی سے بیزار ہوں؟”
یہ اور اسی قسم کے سینکڑوں سوالات تھے جو یکے بعد دیگرے موتی کے دل میں پیدا ہوئے۔ مگر اس کی عقلِ نا رسا کسی ایک رمز کی بھی عقدہ کشائی نہ کر سکی۔ حتیٰ کہ آفتاب غروب ہونے کے قریب ہو گیا اور موتی کی توقع کے مطابق گلفام کو ہوش نہ آیا۔
وہ ابدی نیند سو رہا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...