پیپر کیسا ہوا ہے ؟؟؟ ” رومانہ کے اندر داخل ہوتے ہی سمیر نے فورا سوال کیا تو وہ ہنستی ہوئی اس کے قریب آئ اور بیٹھ گئی “۔۔
تم نے دعا کی تھی کہ اچھا ہو ؟؟ ” رومانہ نے الٹا اس سے سوال کیا “۔۔
ہاں جی بہت ساری دعا کی تھی تمہارے لیے بھی اور اس پاگل کے لیے بھی ، ویسے وہ ہے کہاں تمہارے ساتھ نہیں آئ ؟؟ ” سمیر کو بولتے بولتے زونیہ کا خیال آیا تو فورا پوچھا کیوںکے وہ جاتی چاہے لیٹ تھی مگر آتی ہمیشہ رومانہ کے ساتھ تھی “۔۔
ہم دونوں کا پیپر بہت بہت اچھا ہوا ہے ، وہ حال سے نکلی تو روحان کو ڈھونڈنے نکل پڑی میں نے پوچھا تو کہنے لگی اپنے سکون کو ڈھونڈنے جا رہی ہوں ، میں نے پیچھے جانا چاہ تو منع کر دیا اور میں ویسے بھی تھک گئی ہوں تو اس لیے میں آگئی ، وہ بھی کچھ دیر میں آجائے گی کیوںکے روحان تو جا چکا تھا میں نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔ ” رومانہ نے اپنے شوز اتارتے ہوئے مزے سے بتایا تو سمیر ہنستے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گیا “۔۔
تم فریش ہو جاؤ میں کافی بناتا ہوں اوکے ۔۔ ” سمیر نے کچن سے ہی آواز لگائی تو رومانہ اوکے کہتی اٹھی اور روم میں جانے لگی جب اس کی فون بجنے لگی “۔۔
اس ٹائم کون کال کر رہا ہوگا ؟؟ شاید زونی ہو ۔۔ ” رومانہ نے سوچتے ہوئے موبائل اٹھائی تو فرزانہ انٹی کا نام چمک رہا تھا “۔۔
ہیلو السلام عليكم انٹی کسی ہیں آپ ؟؟ ” رومانہ نے خوش دلی سے سلام پیش کیا “۔۔
وعلیکم السلام میں بلکل ٹھیک ہوں رومانہ بچے آپ کسی ہو ؟؟ ” فرزانہ بیگم بھی پیار سے بولیں ”
اللہ کا شکر ہے انٹی ۔۔ بس آپ کی اور امی جان کی دعا ہے ۔۔ ” رومانہ تہذیب سے بولیں تو فرزانہ بیگم نے ماشاءالله کہا “۔۔
اصل میں بچے میں کچھ دیر سے زونیہ کا فون ٹرائی کر رہی تھی مگر وہ ریسیو نہیں کر رہیں تو سوچا آپ کو فون کر کے پتہ کر لوں ، وہ ہے آپ کے آس پاس ؟؟؟ ” فرزانہ بیگم پریشان سی بولیں اور رومانہ کا رنگ اڑ گیا “۔۔
وہ ۔۔ وہ انٹی ۔۔ اصل میں زونی ابھی تک یونی میں ہی ہے وہ ۔۔ وہ کیوںکے اس نے کچھ نوٹس لینے تھے اور وہ ۔۔۔ اس نے اپنا موبائل میرے بیگ میں ڈال دیا تھا سائلنٹ کر کے اس لیے ۔۔۔ ” رومانہ نے بات سمبھالی “۔
اچھا ٹھیک ہے بچے آپ اپنا خیال رکھیئے گا اور زونیہ آجائے تو اسے کہہ دیجیئے گا مجھے کال کر لیں ٹھیک ہے ۔۔۔
جی ٹھیک ہے انٹی ۔۔ اوکے اللہ حافظ ۔۔ ” رومانہ نے کہتے ہوئے کال بند کی اور سکون کا سانس لیا “۔۔
کیا ہوا ہے رومی کس کی کال تھی ؟؟ ” سمیر کافی کے مگ لیئے اس کے ساتھ بیٹھتا ہوا بولا “۔۔
سمیر فرزانہ انٹی تھیں زونی کا پوچھ رہی تھیں کے وہ کال کیوں نہیں ریسیو کر رہیں ۔۔ میں نے ان سے جھوٹ بولا اور کہا کے اسکا موبائل میرے پاس رہ گیا تھا اور وہ ابھی یونی میں ہے کسی کام سے ۔۔ ” رومانہ نے ساری بات سمیر کو بتائی تو وہ بھی پریشان ہو گیا “۔۔
پتہ نہیں سمیر مجھے کب تک اس بیوقوف کی وجہ سے جھوٹ بولنے پڑے گیں ، ” رومانہ نے دکھ سے کہا تو سمیر نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دی “۔۔
ایک بار پیپرز خیر سے ختم ہو جائیں اور زونیہ اپنے گھر پہنچ جاۓ تو ہم دونوں انٹی کو سب بتا دیں گے پھر وہی جو کرنا ہوگا کریں گی ۔۔ ” سمیر نے سمجھاتے ہوئے کہا تو رومانہ نے اسے دیکھ کر اثبات میں گردن ہلا دی “۔۔
اچھا میں چلتا ہوں ، تم کافی پیو پھر تھوڑا ریسٹ کر لینا اوکے ؟؟ اور ہاں زونی کے آتے ہی مجھے میسج کر دینا نہیں تو ٹینشن رہے گی مجھے ۔۔ ” سمیر نے جاتے ہوئے کہا تو رومانہ نے مسکرا کر اوکے کہا اور سکون سے کافی پینے لگی “۔۔
______
زونیہ پلیز مجھے گھورنا بند کرو ورنہ تمہیں یہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا ۔۔ ” روحان جو پچھلے آدھے گھنٹے سے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا زونیہ کی نظریں جھیل رہا تھا آخر تنگ آکر بولا “۔۔
بول تم نہیں رہے خاموش بیٹھے ہو مجھے بھی بات نہیں کرنے دیتے اب کیا دیکھوں بھی نہیں ؟؟ آنکھیں نکال لو گے میری ؟؟ ” وہ جو کب سے بولنے کو بےکرار تھی موقع پاتے ہی شروع ہو گئی “۔۔
تم یہاں بیٹھ کر صرف اور صرف اپنا وقت برباد کر رہی ہو زونی ، اچھا ہوگا کے تم چلی جاؤ ۔۔ ” وہ بےرخی سے بولا تو زونی ہنس دی اور روحان کو اور حیرت ہوئی “۔۔
اب کیوں ہنس رہی ہو ؟؟ ” روحان نفی کرتا ہوا بولا “۔۔
ویسے بڑے ہی عجیب ہو قسم سے لوگ محبوب کی ایک ہنسی کیلیے کیا کچھ نہیں کرتے اور تم ؟؟ میرے ہنسنے سے بھی تمہیں مسلہ ہے بہت برے ہو یار ۔۔ ” زونیہ منہ بنا کر بولی اور روحان نے حسرت سے اسے دیکھا وہ کیسے بتاتا اسے اسکی اسی ہنسی کی خاطر تو وہ اپنی محبت قربان کرنے کو تیار ہے ، اس نے چہرہ موڑ دیا “۔۔
روحان کب تک ایسے کرو گے میرے ساتھ ؟؟ ” وہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے آس سے بولی تو روحان نے مڑ کر اسکی جانب دیکھا “۔۔
جب تک تم یہاں بیٹھی رہو گی ، اس لیے کہ رہا ہوں چلی جاؤ خوا مخواہ خود کا اور میرا وقت برباد مت کرو ۔۔ ” روحان لہجہ تلخ کرتے ہوئے بولا تو زونیہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سینے میں کچھ ٹوٹا ہے ، وہ جانتی تھی روحان کے دل کا نرم پڑ جانا مشکل ہے مگر اتنا تو اس نے بھی نہیں سوچا تھا آنکھ سے نکلتے آنسوں کو صاف کرتے ہوئے اس نے سیٹ بیلٹ کھولی ، ایک بار بہت آس لیئے اس نے روحان کو دیکھا جو لاغرض سہ شیشے سے باہر کسی ان ہونے نکتے کو تاک رہا تھا وہ گاڑی سے باہر نکل آئ “۔۔
آہٹ پر مڑ کر روحان نے دیکھا وہ گاڑی سے باہر تھی ، اسکی آنکھوں میں کئی آنسوں کے ساتھ ہزاروں شکوے تھے وہ چلتی ہوئی روحان کی جانب آئ ۔۔
کل لاسٹ پیپر ہے روحان ، پیپر کے بعد میں گھر چلی جاؤں گی اور جب تک کلاسز سٹارٹ نہیں ہوں گی میں وہیں رہوں گی ماما بابا کے پاس ، اس لیے تم سے ملنا چاہتی تھی ایک بار تمہیں دیکھنا چاہتی تھی تم سے کچھ دیر بات کرنا چاہتی تھی تاکے جتنے دن وہاں رہوں تمہارے ساتھ گزارے ان لمحوں کے حصار میں رہوں مجھے احساس ہو تمہاری موجودگی کا ۔” وہ آنسوں صاف کرنے کو لمحہ بھر خاموشی ہوئی اور پھر سے گویا ہوئی “۔۔
مجھے لگتا تھا تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو ویسی ہی جیسے میں کرتی ہوں ، اسی لیے تمہارے ساتھ یہاں تک چلی آئ لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہاں آکر تمہارے ساتھ بیٹھ کر میں نے اپنے ساتھ ساتھ تمہارا بھی وقت برباد کیا ہے ۔۔ سوری روحان دوبارہ تمہیں تنگ نہیں کروں گی اور نا ہی تمہارا قیمتی وقت برباد کروں گی ، ضروری نہیں ہوتا نا کے ہمیں جو پسند ہو اسے بھی ہم پسند ہوں پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگتا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو پتہ نہیں کیوں تمہاری آنکھوں میں مجھے اپنے لیے محبت دیکھتی تھی پتہ نہیں کیوں میں نے سمیر اور رومانہ سے اتنا یقین سے کہہ دیا تھا کہ ہاں تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا تھا کے میری طرح تمہارا سکون بھی مجھ سے جڑا ہے پتہ نہیں کیوں جب رات کو مجھے نیند نہیں آتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے تم بھی سو نہیں پاۓ ہو گے ، پتہ نہیں کیوں چاند کو دیکھتے ہی ایسا خیال آتا تھا کہ تم بھی اس چاند کو دیکھ کر مجھے سوچتے ہو گے ، ۔۔ ” زونیہ نے مسلسل روتے ہوئے بات کی اور روحان کو لگا جیسے اسکی جان نکلتی جا رہی ہو جیسے کوئی اسکی روح تک کو چیرتا جا رہا ہو وہ خود کو بےبسی کی آخری حد پر محسوس کر رہا تھا وہ جو کہہ رہی تھی وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ ہاں اسے یہ سب محسوس ہوتا ہے وہ بھی کئی راتوں سے سویا نہیں ہے وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ صرف محبت نہیں عشق کرتا ہے اس سے اور اسی عشق کے سمندر میں وہ ڈوب کر مر بھی رہا ہے مگر زبان پر لگے قفل کھل نا پاۓ وہ صرف سن رہا تھا اس کا دل رو رہا تھا آج پھر اسے اپنی قسمت اور اپنے وجود سے نفرت محسوس ہو رہی تھی ، اسکی محبت اس کے سامنے گڑگڑا رہی تھی اور وہ پتھر کا بنا بیٹھا تھا “۔۔
روحان جب مجھے احساس ہوا نا کے اب تم ہی میرا سکون ہو میری محبت ہو تو مجھے یوں لگا کے جیسے مجھے سب کچھ مل گیا ہے تمہیں دیکھ کر یوں لگتا کہ جس کو میں برسوں سے تلاش رہی تھی وہ تم ہو ، اور مجھے ایسا لگتا تھا تم بھی مجھ سے محبت کرتے ہو میں نے سوچا تھا کہ جب پیپرز کے بعد میں گھر جاؤں گی تو سب سے پہلے ماما بابا کو تمہارے بارے میں بتاؤں گی لیکن تم نے دو پل میں مجھ سے میری ساری خوشی چھین لی روحان ۔۔ لیکن تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے روحان یہ میری غلطی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ،، کوئی بات نہیں روحان میں یہی سمجھ لوں گی کے محبت میرے نصیب میں تھی ہی نہیں میرے ہاتھ میں تمہارے نام کی لکیر شاید ہے ہی نہیں ۔۔ ” زونیہ نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر روحان کو جو بلکل ساکیت اسے دیکھے جا رہا تھا “۔۔
اللہ حافظ روحان ، ہو سکے تو بس اتنی دعا کرنا مجھے صبر آجائے ۔۔ ” زونیہ نے آنسو صاف کیئے اور آگۓ کی جانب بڑھ گئی “۔۔
روحان نے جاتی ہوئی زونیہ کو دیکھا تو ضبط کیا ہوا ایک آنسو اسکی گال کو بھیگو گیا ۔۔
میں جانتا ہوں زونی تکلیف ہو رہی ہے تمہیں ، مگر یقین جانو میری تکلیف کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی ، مگر یہ سب کرنا بھی ضروری ہے کیوںکے جب تمہیں معلوم ہوگا کے میں ایک ناجائز ہوں اور بچپن سے آج تک طوائف خانے میں رہتا آرہا ہوں تب تم برداشت نہیں کر پاؤ گی تب تمہیں مجھ سے محبت نہیں صرف گھن آیہ گی جیسے مجھے خود میرے وجود سے آتی ۔۔۔ ” روحان نے گال پر بہتے آنسو کو بہت بےدردی سے صاف کرتے ہوئے کہا اور گاڑی کو سٹارٹ کر دیا “۔۔
_______
سمیر یار پلیز وہ ریڈ چلیز مجھے پاس کرو نا ، گارنش کرنی ہیں ۔۔ ” رومانہ نے دال کو تڑکا لگاتے ہوئے بولی تو ساتھ کھڑے سمیر نے گھور کے اسے دیکھا اور پھر سائیڈ سلیب سے اٹھا کر اس کو پاس کیں “۔۔
رومی یہ دیکھ کیسا لگ رہا ہوں ؟؟؟ ” سمیر نے اسے اپنی جانب متواجہ کرتے ہوئے کہا اور جیسے رومانہ نے دیکھا تو اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ، گول کٹے پیاز کو اس نے اپنے کانوں میں لٹکا رکھا تھا آنکھوں پر کھیرا رکھے اور لال لمبی مرچ سے موچھیں بنائے وہ خاصہ عجیب و غریب لگ رہا تھا اسے دیکھتے ہی رومانہ کی ہنسی چھوٹ گئی “۔۔
یار سمیر یہ کیا کیا وا ہے ؟؟ ” رومانہ نے ہنستے ہوئے کہا تو سمیر نے بھی آنکھؤں سے کھیرے اٹھا کر ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور پھر دونوں ہی ہنستے چلے گئے “۔۔
زونیہ جو بوجھل قدموں اور اترے چہرے سے اندر داخل ہوئی کچن میں کھڑے سمیر اور رومانہ کی مستیاں دیکھ کر وہیں رک گئی ، وہ دونوں کتنے پیارے لگتے تھے ساتھ میں ہر وقت محبت سے رہتے تھے ہنستے ہوئے مستی کرتے ہوئے ، زونیہ نے ستائشی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا اور پھر آنسوں صاف کرتی خاموشی سے روم کی جانب بڑھ گئی ۔۔
بیڈ پر بیٹھتے ہی اس کی آنکھیں پھر برسنا شروع ہو گئیں ۔۔
کوئی اتنا مغرور کیسے ہو سکتا ہے ، اتنا سخت دل ؟؟ نہیں اس کے سینے میں دل ہے ہی نہیں وہ ایک پتھر ہے اور میں ، میں ایک پتھر سے محبت کر بیٹھی ایسا تو ہونا ہی تھا میرے ساتھ ۔۔ ” زونیہ خود سوال جواب کرتے ہوئے رونے لگی اور روتے روتے وہ کب سو گئی اسے پتہ ہی نہیں چلا “۔۔
___ ”
وہ فل سپیڈ سے گاڑی کو دوڑاتا ہوا حسن نگری پہنچا تو راستے سے ہی ساری حسن نگری روشنیوں میں نہائ ہوئی تھی گاڑی کو پارک کرتا وہ اندر کی جانب بڑھا تو بہت سے لوگ اسے اندر جاتے ہوئے دکھائی دیئے جن میں اکثریت مشہور اور بڑے لوگوں کی تھی وہ سمجھ گیا آج کی رات پھر حسن نگری پر خدا کا عذاب برسے گا ۔۔
اسکی رگیں تن چکی تھیں ، مٹھیاں بینچئے وہ سیڑھیاں چڑھتا تتلی کے کمرے میں آیا دروازہ کھولتا وہ اندر داخل ہوا تو نظر تتلی پر گئی جو شیشے کے سامنے کھڑی محفل کے لیے خود کو سجا رہی تھی ۔۔
آہٹ پر تتلی نے مڑ کر دیکھا تو غصے سے بھرا روحان دروازے میں کھڑا تھا اسے دیکھ کر تتلی کی نظریں جھک گئیں وہ جانتی تھی جب جب خاص محفل سجتی تھی وہ غصے سے پاگل ہو جایا کرتا تھا ۔۔
آج پھر تماشہ ہونے والا ہے ؟؟؟ ” روحان اسکی جانب بڑھتا ہوا بولا جو گولڈن لہنگے میں قیامت لگ رہی تھی گہرے گلے میں اسکی دودھیا گردن اور چھوٹی چولی کی وجہ سے واضح ہوتی پتلی کمر اور پوری خالی چمکتی ہوئی سفید آستینیں دیکھ کر روحان نے نظریں جھکا لیں “۔۔
روحان ۔۔ ” تتلی نے بھرائی ہوئی آواز سے اسکی بازو پر اپنا ہاتھ رکھا جیسے روحان نے غصے سے جھٹک دیا “۔۔
مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہئے تھا ۔۔ ” روحان غصے سے کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا اور وہ روتی ہوئی وہیں نیچے زمین پر بیٹھ گئی “۔۔
مجھے معاف کر دے روحان ، تیری خوشی کے لیے تجھ سے کیئے وعدے کو پورا کرنے کیلئے مجھے یہ سب کرنا پڑے گا ، اگر ایسا نا کیا تو تجھے تیری محبت کبھی نہیں مل پاۓ گی اور میں نہیں چاہتی تجھے بھی میری طرح محبت ہوتے ہوئے بھی محبت سے محروم رہنا پڑے ۔۔ ” تتلی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کھڑی ہوئی اسے خود کو مکمل طور پر محفل کیلیے تیار کرنا تھا “۔۔
______
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...