پسِ ساختیات کے تعلق سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا مضمون میں نے پوری توجہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ڈاکٹر نارنگ صاحب نے نمبرز لگا کر جو وضاحتیں کی ہیں اس سے مجھے اس نئے ڈسپلن کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوئی ہے،جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔
میں ابھی تک یہ سمجھ سکا ہوں کہ اس نئے ڈسپلن کے مطابق : متن کے پیچھے مصنف کی کوئی منشا نہیں ہوتی،جب کوئی متن وجود میں آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مصنف کی موت ہو جاتی ہے اور قاری کا جنم ہوتا ہے۔کوئی بھی تخلیق اپنا انفرادی تشخص نہیں رکھتی۔تخلیق کی کوئی خود مختار حیثیت نہیں ہے۔یہ ساری باتیں گمراہ کن ہیں۔
مصنف اپنی تخلیق کا پہلا قاری خود ہوتا ہے۔،اس لیے اسے رد کرنا آسان نہیں۔ہاں مصنف کی ذاتی حیثیت،سماجی مرتبہ اور مالی خوشحالی کو ہمیشہ نظر انداز کرنا چاہیے لیکن ہمارے بعض ساختیاتی نقاد خود اس ’’تنقیدی خوبی‘‘کا شکار ہیں۔اگر مصنف کی اپنی تخلیق کے پیچھے کوئی منشا نہیں تو اس کا مطلب ہے مصنف بے اختیار ہے۔لیکن اگر تخلیق کی بھی کوئی خود مختار حیثیت نہیں تو پھر دونوں باتوں میں تضاد ہے۔
ساختیاتی ناقدین اس ڈسپلن کو مشکل،گنجلک اور ژولیدہ انداز میں بیان کرنے کی بجائے اگر عملی تنقید کے نمونے پیش کریں تو زیادہ بہتر ہے۔نارنگ صاحب نے اس سلسلے میں اولیت کا اعزاز حاصل کیا ہے ۔ان کامضمون’’فیض کو کیسے نہ پڑھیں‘‘ساختیاتی عملی تنقید کا شاندار نمونہ ہے۔ایک طرف قاری کی آزادی کا احساس اتنا شدید ہے کہ مصنف کو موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے۔دوسری طرف بحیثیت ناقد ہدایت نامہ جاری کیا جا رہا ہے کہ فیض کو کیسے پڑھیں اور کیسے نہ پڑھیں۔
گستاخی معاف۔۔۔ادبی سطح پر یہ قاری کی آڑ میں تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کی ادب پر مسلط ہونے کی ایک چال ہے اور عالمی سطح پر بعض امریکی دانشوروں کے احساسِ کمتری کی نفسیاتی تسکین۔
پسِ ساختیات کے امریکی ماہرین ایک یونیورسل تھیوری کے چکر میں ہیں۔یعنی ایک جنرل اصول جو سائنسی اصول کی طرح ایک عالمی سچائی کے طور پر لاگو ہو سکے،لیکن مکمل ڈی کنسٹرکشن نا ممکن ہے۔جہاں مختلف افراداور اقوام میں ڈھیر سارے اختلافات ہیں ،وہیں ان میں بہت ساری similarities بھی ہیں۔سو مختلف طبقات اور اقوام پر سائنسی فارمولے کی طرح کوئی تھیوری کیسے لاگو کی جا سکتی ہے؟مکمل ڈی کنسٹرکشن سے صرف انارکی پھیلے گی۔فاشزم پھیلے گا۔امریکی فاشزم!
متن کی لا مرکزیت اور من مانے معنی پیدا کرنے سے امریکی معاشرے کی تسکین ہو سکتی ہے جو اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود کلچر کی دولت سے محروم ہے۔چنانچہGrand Narrativeکو توڑ کرثقافتی سرمائے سے مالا مال اقوام کو ان کے ثقافتی ورثے سے لاتعلق کرنے والے دانشور،ان اقوام میں ثقافتی خلا پیدا کر کے ایک طرف امریکی احساسِ محرومی کو زائل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اس ثقافتی خلا کو امریکی فاشزم سے بھرنا چاہتے ہیں۔
میڈونا کے جسم کے ساختیاتی مطالعہ کی جو کہانی امریکہ سے نکل چکی ہے اسے بھی مدِ نظر رکھیں۔مجھے افسوس ہے کہ مجھے نارنگ صاحب کے بنیادی موضوع کے ساتھ جڑے ہوئے اہم پوائنٹس کی طرف بھی اشارہ کرنا پڑا۔
(خط مطبوعہ سہ ماہی دستک ہوڑہ،شمارہ نمبر ۳،جولائی تا دسمبر۱۹۹۴ء۔صفحہ نمبر۲۳۶،۲۳۷)