ڈاکٹر ناصر عباس نیر ایسے صاحبِ علم دانشور نقاد ہیں جن کے علم کا نور ان کی تحریر سے از خودظاہر ہوتا ہے۔ میرا ان کا تعلق لگ بھگ ربع صدی پر پھیلا ہوا ہے،ہمارے درمیان زیادہ تر اختلاف رائے کا اظہارہوتا رہا لیکن ادبی اختلاف رائے کہیں بھی ذاتی رنجش کا باعث نہیں بنا۔ ریکارڈ پر موجود ہمارے اختلافی مباحث اختلاف کا منہ بولتا ثبوت ہیںتو ربع صدی سے قائم ہمارے ادبی مراسم ناصر عباس نیر کی اس اخلاقیات کا مظہر ہیں کہ ادبی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں نہیں ڈھلنا چاہیے۔ان کی کتاب”ساختیات۔۔۔ایک تعارف“ اس موضوع سے متعلق ان کی مرتب کردہ کتاب کا دوسرا اور نظر ثانی شدہ ایڈیشن ہے۔پہلا ایڈیشن مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور نے شائع کیا تھا اور یہ دوسرا ایڈیشن پورب اکادمی اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، فہیم اعظمی اور ناصر عباس نیر کے موضوع سے متعلق دودو مضامین شامل ہیں،ضمیر علی بدایونی اور قاسم یعقوب کا ایک ایک مضمون شامل ہے۔کتاب گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔پہلے سات مضامین میں نظری مباحث شامل ہیں جبکہ آخری چار مضامین میں ساختیاتی تنقید کے عملی نمونے پیش کیے گئے ہیں۔کتاب کے آخر میں پوری ذمہ داری کے ساتھ ساختیات کی اہم اصطلاحات،ساختیات کے اہم بنیاد گزاروں کا تعارفیہ اور کتابیات کو شامل کیا گیا ہے۔
کسی موضوع کی بحث میں اتفاق یا اختلاف کرنا ہر ادبی قاری کا حق ہے،تاہم ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کتاب کو مرتب کرتے وقت درسی نوعیت کی معلومات کی سطح سے اوپر کے علمی مضامین کو کتاب میں جگہ دی ہے۔جس سے کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ساختیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک اچھا علمی تعارفیہ ہے۔
(جدید ادب شمارہ نمبر ۱۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔