سیکڑوں دورِ فلک دیکھنے والے دریائے جمنا کی دیوی یمی اور یمی کا بھائی یما بھی یہ سب باتیں سن رہے تھے اور محوِ حیرت تھے کہ اس عالمِ آب و گِل میں اب کیا گُل کھلنے والا ہے۔ مورخ بھی اسی سوچ میں گم تھا کہ تاریخ کا یہ سبق کیسے واضح کر کے کہ آج تک کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ملاح دِل پہ ہاتھ رکھ کر زیرِ لب بڑبڑا رہے تھے:
’’اگرچہ تاریخ ہماری بے بسی، بے گناہی اور بے حسی پر نفرین کرے گی مگر تعمیل ارشاد کا وقت آ گیا ہے ظل تباہی اب تمھاری رُو سیاہی کی نوبت آ پہنچی۔‘‘ یہ کہہ کر ملاحوں نے شاہی حکم کی تعمیل میں اپنے دِل پہ جبر کر کے کشتی دریائے جمنا کی مہیب طُوفانی لہروں کے گرداب میں ڈبو دی اور خود مشکیزوں کے ذریعے تیر کر کنارے تک آ پہنچے۔ میرے شوہر جہاں دار شاہ نے ملاحوں کو شاباش دی اور میں نے بھی کشتی کے توانا ملاحوں کی مہارت کی بہت تعریف کی۔ یہ قیامت کا منظر تھا ہر طرف شور برپا تھا ’’بچاؤ۔۔ بچاؤ‘‘ کی درد ناک آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ایک طرف بے بس انسانیت سسک رہی تھی، زندگی ختم ہو رہی تھی اور آہیں دم توڑ رہی تھیں تو دوسری طرف بے حس درندے قہقہے لگاتے کھانے پر ٹُوٹ پڑے۔ جب درندے اپنے پیٹ کا دوزخ بھر چُکے تو ڈُوبنے والی کشتی کے قسمت سے محروم مظلوم انسانوں کی چیخ پُکار ختم ہو چکی تھی اور سب زندگی کی بازی ہار کر عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار چکے تھے۔ یہ لرزہ خیز، اعصاب شکن اور جان لیوا سانحہ دیکھ کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا سچ تو یہ ہے کہ میں پھول کر کُپا ہو گئی اور میں نے ہر وقت نشے میں دھت رہنے والے اپنے بے بصر اور کور مغز شوہر جہاں دار شاہ سے کہا:
’’آج کی پر تکلف اور پر لطف ضیافت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ آج بہت مزہ آیا، ڈُوبنے والوں کی چیخ پُکار اور رقاصاؤں کے پیروں میں بندھی پائل کی جھنکار نے سماں باندھ دیا۔ ثابت ہوا کہ رقص تو چیخ کو سُن کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ رقاصاؤں کو تو اپنے رقص کی جولانیوں سے کام ہوتا ہے۔ کسی نے بھی ڈُوبنے والوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا جرسِ گُل بھی اس منظر کو دیکھ کر محو حیرت تھی۔‘‘
جہاں دار شاہ بولا ’’ہماری راجدھانی میں اس قسم کی ضیافتیں اب کثرت سے ہوں گی۔ اگر ملکۂ عالیہ کا حکم ہو تو ہر روز اسی طرح ایک کشتی دریا میں ڈبو دی جائے، ہمیں تو تمھاری خاطر مقدم ہے۔‘‘
قفسی اور مس بی جمالو کو نعمت خان کلانونت سے قلبی وابستگی تھی۔ نعمت خان کلانونت نے جب اپنے خاندان کی ان طوائفوں کو دیکھا تو اُس کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔ اس نے قفسی اور مس بی جمالو کی تعریف کی اور انھیں لوٹ مار کی نئی داستانیں رقم کرنے پر مبارک باد دی۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے نعمت خان کلانونت نے کہا:
’’اس گئے گزرے زمانے میں بھی لال کنور کے پرستاروں میں کمی نہ آئی۔ لال کنور کا وتیرہ تھا کہ وہ ہمیشہ گھی سے بھرے کُپے کے ساتھ جا لگتی اس طرح اُس کی سدا پانچوں گھی میں رہتیں۔ میں ملتان کیا پہنچا سداتفکرات میں گھِرا رہتا۔ اگرچہ میں بہت با رعب تھا لیکن اس نوکری نے مجھے خاک روب سے بھی بد تر بنا دیا۔ دہلی میں تھا تو لال کنور کو آنکھ بھر کر دیکھنے کا موقع مِل جاتا تھا، جب کہ ملتان میں گرد، گرما، گدا اور گورستان کے سوا کچھ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس شہر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ دہلی میں مجھ جیسے منصب داروں کے بارے میں لوگ برملا یہ کہتے تھے کہ اقتدار کے اصطبل میں اب گھوڑے عنقا ہیں، اب تو خر، خچر اور استر ہی راج کر رہے ہیں۔ تخت دہلی کی طرف سے اپنی توہین، تذلیل، تضحیک، بے توقیری اورمسلسل شکستِ دِل کے باعث میں علیل رہنے لگا۔ میں نے اپنے چارہ گر اور مسیحا کو بتا دیا تھا کہ لال کنور کے ہجر میں گھُل گھُل کے میں مُو سا ہو گیا ہوں۔ میری کوئی امید بر نہیں آتی تھی اور نہ ہی لال کنور سے ملنے کی کوئی صورت نظر آ رہی تھی۔ جہاں دار شاہ کے ساتھ شروع میں تو میرا وقت اچھا گُزرا مگر کچھ عرصہ بعد اُسے معلوم ہو گیا کہ میں بھی لال کنور کا شیدائی ہوں۔ وہ مجھے اپنا رقیب سمجھنے لگا اوراسی وجہ سے وہ ہر قیمت پر مجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جہاں دار شاہ اور میں نے اخلاقی اقدار اور درخشاں روایات کی پامالی میں جس بے بصری، بد ذوقی اور کور مغزی کا مظاہرہ کیا، اُس کی مہذب معاشرے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہاں دار شاہ اور میں نے جس حسینہ کو چاہا اپنا لیا، جو مہ جبیں دل کو بھائی اسے فی الفور دل میں بسا لیا۔ نئے نئے نشے تیار کرنے پر زرِ کثیر خرچ کیا اور جو بھی نشہ ملا وہ استعمال کیا۔ جنس و جنوں کا جو انداز بھی سُوجھا اُسے بے دریغ اختیار کیا۔ ہمیں کسی کے خوش یا ناخوش ہونے کی مطلق پروا نہ تھی۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنا اُلو سیدھا کرنا ہمارا وتیرہ تھا۔ جنس اور جذبات کے سیلِ رواں میں ہماری کشتیِ جاں ہچکولے کھانے لگتی اور ہمیں کچھ نہ سُوجھتا۔ جہاں دار شاہ کی کم عقلی کا یہ حال تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جنس اور جذبات اور حُسن و رومان کے قدیم تصورات اب فرسودہ ہو چُکے ہیں۔ بے غیرتی اور بے ضمیری کی دلدل میں دھنسا یہ موذی و مکار حاکم یہی سمجھتا کہ جب جنس و جنوں سے دل کو قرار ملتا ہے تب ہی سرود عیش گانے اور تیوہار منانے کی سُوجھتی ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ حُسن کی ہر صورت ایک دعوتِ عام کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے ساتھ جہاں دار شاہ کے اختلافات رفتہ رفتہ بڑھنے لگے۔ در اصل ایک جذبۂ رقابت تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں میں ایک ایسی خلیج پیدا ہو گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ سلوتریوں سے سُنا تھا کہ گدھے کا ماس کاٹنے کے لیے کُتے کے دانت درکار ہیں۔ میں نے جہاں دار شاہ کا تختہ اُلٹنے کے لیے ایک مغل شہزادے فرخ سیر سے رابطہ کیا۔ وہ میری بات سن کر پھڑک اُٹھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے ہی اس مہم جوئی کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ میں نے ہمدم دیرینہ بادشاہ گر سادات بارہہ کے سرغنہ حسین علی کو اپنے اور فرخ سیر کے عزائم سے آگاہ کیا۔ میری باتیں سُن کر حسین علی کی آنکھوں میں ایک خوف ناک چمک پیدا ہوئی اور وہ مسکراتے ہوئے بولا:
’’میں وہ ہوں جس شہزادے کو جُوتا ماروں وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’اس بار تو اپنے بوسیدہ کفش کا ہما فرخ سیر کی گنجی کھوپڑی پر بٹھا دو، اس سے بہت سے طالع آزما اور مہم جُو موقع پرستوں کا بھلا ہو گا۔ سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک پھر سے آ ملیں گے۔ آہ! خورشید جمال لال کنور جب اپنے عیاش شوہر جہاں دار شاہ سے نجات حاصل کر لے گی تو پھر اپنے پُرانے آشناؤں کی طرف بھی کچھ توجہ دے گی۔‘‘
بادشاہ گرحسین علی نے میری آہ و زاری سُن کر کہا: ’’میں توسیاسی شطرنج کے مہرے بدلنے کا ماہر ہوں۔ عشق کی بازی میں تو جان تک بھی داؤ پر لگائی جاتی ہے، اس لیے اپنی جان کو داؤ پر لگا کر عشق کی بازی کھیلنا میرے بس سے باہر ہے۔ تمھاری خواہش اور فرخ سیر کی ہوس جاہ و منصب کی تسکین کے لیے جہاں دار شاہ کو ٹھکانے لگا کر اُس کی جگہ ایک نئی کٹھ پتلی کی صورت میں فرخ سیر کو تو شاہ شطرنج کی صورت میں تخت شاہی پر بٹھایا جا سکتا ہے مگر جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور کو کسی اور عاشق کی آغوش میں ڈالنا میرے لیے نا ممکن ہے۔‘‘
حسین علی کا روکھا جواب سن کر میں نے کہا ’’تم صرف جہاں دار شاہ کو میرے راستے سے ہٹا دو باقی کام میں اپنی قسمت پر چھوڑتا ہوں۔ اگر لال کنور کے دل میں میرے ساتھ گزارے ہوئے شب و روز، بچپن کی محبت، جوانی کی ترنگیں، جذبات کی اُمنگیں، شباب کے پر کیف لمحات اور خلوت میں گزرنے والے مسحور کن اوقات کی یاد باقی ہو گی تو وہ بیوگی کی چادر اوڑھ کر بھی کچے دھاگے سے کھنچی میرے پاس چلی آئے گی۔ مجھے دیکھ کر وہ ردائے غم اُتار پھینکے گی اور سولہ سنگار کیے، طلائی زیورات پہنے اور گوٹے کی دھاریوں والی کیسری چُنی اوڑھ کر بے تابانہ مجھ سے آ لے گی۔‘‘