صاحب جی۔۔۔وہ صبح جب آپکی گاڑی نکلی تھی تب اس روم سے دروازہ بجانے کی آوازیں آئیں تھیں- گارﮈ سجل کے قید خانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا-
ٹھیک ہے۔۔۔تم جاؤ آرام کرو– اسکی ہدایت پر گارﮈ اپنے روم میں جا چکا تھا-
مصطفی ہمدانی نے اپنے اس بڑے گھر میں صرف ایک گارﮈ اور ایک بواجی رکھیں تھیں- بواجی کام کرکے شام کو چلی جایا کرتیں تھیں اور گارﮈ اپنے روم میں چلا جاتا تھا-
وہ سجل کے بارے میں سوچتا ہوا دروازہ کھولا اور اسے وہ سیڑھیوں سے جاتے نیچے فرش پر گری ہوئی ملی تھی۔۔۔اسکے سر سے خون بہہ رہا تھا–
سجل۔۔ہوش میں آؤ۔۔۔ وہ اسکا چہرہ تھتپاتے ہوئے بولا پر وہ ہوش میں نہ آئی-
وہ اسے بمشکل وہاں سے اٹھا کر اپنے روم میں لایا- اور میڈیکل باکس لے کر اسکے سر سے بہتا خون صاف کرنے لگا تھا– اسے اس وقت بہت برا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی ماں کی بات کیوں نہ مانا۔۔۔جب اسکی ماں اس درندے کو معاف کرچکی تھی تو وہ کیوں نہ کرسکا– پر سب کچھ واپس ﺫہن میں آتے ہی اسے سجل سے نفرت ہونے لگی-
وہ اب اسکے ماتھے کی پٹی کرنے لگا۔۔۔اور پھر خود اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا–
پانی۔۔۔ وہ ابھی واش روم سے نکلا بال سنوار رہا تھا سجل کے منمنانے پر اسکے پاس آگیا–
پپا۔۔نی وہ مشکل سے بول رہی تھی- مصطفی فوراً نیچے گیا اور کچن سے اسکے لیے پانی لایا تھا-
سجل۔۔۔اٹھو پانی پی لو- وہ اسکی سنتی تب ہی اٹھ پاتی۔۔۔دو دن کی بھوکی لڑکی کیسے اسکی سن سکتی تھی- مصطفی نے خود ہی اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور پانی پلایا تھا۔۔۔وہ ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی ختم کرچکی تھی–
اور پیوگی۔۔۔مصطفی کو اس نازک سی لڑکی سے ہمدردی ہورہی تھی-
ہاں۔۔۔سجل نے اب بھی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں-
آنکھیں کھولو سجل۔۔۔مصطفی دوسری بار پانی پلا کر اسے لٹا چکا تھا- پر سجل نے پھر بھی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں-
سجل آنکھیں کھولو۔۔۔۔مصطفی غصے سے بولا تھا– اسے لگا تھا وہ جان بوجھ کر ایسا کرہی ہے-
میں مر جاؤں گی۔۔۔مجھے کھانا دے دو- وہ آنکھیں کھول کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی–
اچھا۔۔۔۔تمہارا کہنا تھا کہ تم کھانے کے بغیر تو رہ سکتی ہو پر اپنی ﮈائری کے بغیر نہیں۔۔کہاں گئی وہ ساری باتیں؟ مصطفی طنز کرنے سے باز نہ آیا-
بھوک انسان کو کیا کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔سجل کو آج سمجھ آئی تھی- اس پر پہلے ایسا کوئی وقت نہیں آیا تھا ورنہ سجل وہ بات کبھی بھی مصطفی کے سامنے نہ کہتی-
تو مار ﮈالو مجھے- سجل اتنا ہی بول پائی تھی کہ اسے واپس چکڑ آنے لگے- مصطفی اسے واپس بے ہوش ہوتا دیکھ کر فوراً نیچے بھاگا تھا اور کھانا گرم کرکے دونوں کیلئے ﮈش میں سجا لایا تھا پر سجل تو کب کی بے ہوش ہوچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر شاہ اس گھر سے جاچکا تھا– کلثوم بانو نے ساتھ گھر والوں کو بلوا کر بتایا تھا کہ میرا شوہر خودکشی کرچکا ہے اور یہ بات جس طرح انھوں نے سب کو بتائی تھی۔۔۔وہ اور انکا خدا ہی جانتا تھا کہ ان پر کیا گزر رہی ہے– سارے محلے والے سرگوشیاں کر رہے تھے کہ باپ کو اپنی اولاد کا بھی احساس نہ ہوا اور خود کو مار ﮈالا۔۔۔۔انکی تدفین ہونے کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے یہ شہر چھوڑ کر جا چکیں تھیں-
ممی ہم اب یہیں رہیں گے؟ وہ لاہور اپنی دوست کے گھر آچکیں تھیں۔۔۔انکی دوست انہی کے ساتھ پڑھی تھی پر اسکے ماں باپ نے اسکی جلدی شادی کردی تھی- اب وہ اپنے شوہر کے گھر لاہور میں ہوتی تھی اور انکا شوہر خود لندن میں کام کرتا تھا- اسی لیے انھوں نے کلثوم بانو کو انیکسی دے دی تھی۔۔۔جس میں دو کمرے اور کچن تھا– کلثوم بانو کیلئے یہ بھی غنیمت تھا-
ہاں بیٹے ہم یہیں رہیں گے– وہ نور العین کا ماتھا چومتے ہوئے بولی تھیں-
ممی میں میں بڑا ہوکر اس سے بھی بڑا گھر بنواؤں گا اور ان انکل کو بھی مار ﮈالوں گا-
مصطفی جو کہ 7 سال کا بچہ تھا۔۔اس نے ہر ایک لفظ اس شخص کا سنا اور دیکھا تھا- وہ اتنا چھوٹا بچہ نہیں تھا کہ سب کچھ بھول جاتا۔۔۔یہی عمر بچوں کے سمجھنے اور سیکھنے کی ہوتی ہے اور وہ بچہ اس عمر میں سوچ رہا تھا کہ میں اس شخص کو کیسے ماروں جس نے میرے باپ کو مار ﮈالا–
کلثوم بانو نے اسکا داخلہ بہت اچھے سکول میں کروا دیا تھا پر وہ یہ سب بھول پاتا تو ہی پڑھتا۔۔۔وہ ہر جگہ صفدر شاہ کے کہے الفاظ لکھتا تھا- ایک دفعہ یہی سب اسکی ٹیچر نے اسکی کتاب پر دیکھ لیا تھا- اور کلثوم بانو کو بلوایا تھا- جب کلثوم بانو کو اس سب کا پتہ لگا تو انھوں نے مصطفی کو بہت مارا تھا اور اسے روم میں بند کردیا تھا۔۔۔
ممی میں آئندہ پڑھوں گا۔۔۔ دروازہ کھولیں۔۔۔مجھے ﮈر لگ رہا ہے– وہ رو رو کر دروازہ بجا رہا تھا- کلثوم بانو کو آخر کار اس پہ ترس آگیا اور انھوں نے دروازہ کھول دیا–
مصطفی آپ اپنی ماما سے وعدہ کریں کہ آپ پہلی پوزیشن لائیں گے اور توجہ سے پڑھیں گے- کلثوم بانو اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں-
ہاں میں پہلی پوزیشن لاؤں گا اور بہت پڑھوں گا پھر انسپکٹر مصطفی ہمدانی بنوں گا– اسے ہمیشہ سے پولیس آفیسر پسند تھے- وہ اپنے باپ سے بھی بولتا تھا کہ میں انسپکٹر مصطفی ہمدانی بنوں گا اور وہ ہنس دیتے تھے-
ہاں پر اگر آپ پڑھائی اچھی کروگے تو بنو گے انسپکٹر مصطفی اور اگر نہ پڑھے تو کبھی آپ انسپکٹر نہیں بن سکو گے– وہ اسکا ماتھا چومتے ہوئے اسے سمجھا رہیں تھیں اور وہ سمجھ گیا تھا—
اسنے ہر کلاس میں پوزیشن لی تھی اور اسے سکالرشپ کی وجہ سے داخلہ بھی با آسانی مل جاتے تھے۔۔۔وہ روز گھر آکر نور العین کو پڑھاتا تھا اور رات سونے سے پہلے صرف ایک دعا مانگتا تھا کہ میرے اللہ مجھے انسپکٹر مصطفی ہمدانی بنا دے تاکہ میں اپنے باپ کا اور ایک کانچ کی گڑیا کو توڑنے کا بدلہ لے سکوں–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اٹھ بھی جاؤ۔۔۔میں تمہارے نخرے اٹھانے نہیں لایا تمہیں یہاں– سجل رات دو بجے ہوش میں آئی تھی اور مصطفی سارا وقت اسکے پاس بیٹھ کر اسے تکے جارہا تھا-
مجھے کھانا دے دو۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی-
ٹھیک ہے لاتا ہوں پر پلیز بے ہوش مت ہونا واپس ورنہ صبح ہی ہوش میں آؤ گی- وہ اسے کہتا نیچے جا چکا تھا اور سجل کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے- کیا لکھ دیا گیا تھا اسکے نصیب میں اور کیاکیا اسے اب برداشت کرنا تھا- ابھی صرف ایک دن گزرا تھا اور وہ نڈھال ہوچکی تھی۔۔۔ ابھی تو ساری زندی گزارنی تھی- وہ 21 سال کی لڑکی آج اپنے باپ کا کیا بھگت رہی تھی اور جانتی بھی نہ تھی کہ یہ سب اسکے باپ کا کیا دھرا ہے۔۔۔اگر جان جاتی تو مصطفی ہمدانی کے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل بھی نہ رہتی-
یہ لو۔۔۔شکر تم بے ہوش نہیں ہوئی- وہ کھانا ٹرے میں سجا لایا تھا۔۔۔اسے کبھی بھی بھنڈی نہیں پسند تھی۔۔۔جب جب اسکی پھپھو بھنڈی بناتی تھیں وہ اپنے لیے کچھ بھی بنا لیتی تھی پر کسی بھی حال میں بھنڈی نہیں کھاتی تھی اور اب اس میں بلکل بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر کچھ بناتی–
میں بھنڈی نہیں کھاتی۔۔۔چینی لادیں گے-
روٹی سے چینی کھاؤ گی؟ مصطفی حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا–
ہاں مجبوری ہے۔۔۔پلیز لادیں— وہ اسکے کہنے پر واپس نیچے چلا آیا تھا-
یہ لو۔۔چینی اور یہ گوشت کا سالن۔۔۔یہ بواجی نے میرے لیے بنایا تھا کیونکہ میں بھی بھنڈی نہیں کھاتا– اسکی باتوں پر سجل نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔وہ بس کھانے کو دیکھ کر اس پہ ٹوٹ پڑی تھی اور مصطفی اسے ندیدوں کی طرح کھاتے دیکھ کے ہنس رہا تھا۔۔۔۔ اور سوچ رہا تھا کہ
بھوک انسان کو کیا کیا کرنے پر مجبور کردیتی ہے– بھوک کیلئے ایک انسان چور، ﮈاکو اور لٹیرا بن جاتا ہے اور ہم اس انسان کو برا بھلا کہتے ہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے ہوتے کہ وہ پیٹ بھرنے کیلئے یہ سب کر رہا ہے۔۔۔اور جب ہم نہ دیں کسی کو کھانے کیلئے تو بھوکا انسان چھین کر کھالیتا ہے– ہم کبھی سمجھ نہیں پاتے کہ ایک غریب بھوکا رہ کر کیا اور کیسا محسوس کرتا ہے- ائیر کنڈشنر گاڑیوں میں بیٹھے انکو ایسے دھتکارتے ہیں جیسے وہ ہم سے ہماری زندگی مانگ رہے ہوں۔۔۔۔۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں جو کچھ دیا ہے اس میں بھوکوں ، غریبوں اور مسکینوں کا بھی حق ہے اور نا انصافی کرنے والوں سے قیامت میں پوچھ ہوگی– سجل جو کہ مصطفی کے سامنے نہ رونے اور گڑگرانے کا وعدہ خود سے کرچکی تھی۔۔۔۔اسکی بھوک نے وہی سب اس سے آج کروا دیا تھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
امی۔۔۔دیکھ لیں آپکا بیٹا انسپکٹر مصطفی ہمدانی بن گیا- وہ اپنا پولیس یونفارم پہن کر جا رہا تھا–
ہاں میرے بیٹے۔۔۔۔میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ۔۔۔کبھی بے ایمانی نا کرنا۔۔۔چاہے کوئی تمہاری جان ہی کیوں نہ لے لے— اللہ میرے بیٹے کو ترقی دی اور لمبی زندگی دے– کلثوم بانو آج بہت خوش تھیں۔۔انکی دعائیں رنگ لائیں تھیں اور ان سے زیادہ خوش مصطفی ہمدانی تھا کیونکہ اسکا خواب پورا ہونے والا تھا-
آمین۔۔۔آج شام تیار رہیے گا ہم تہذیب کا پزا کھانے چلیں گے۔۔۔وہ لوگ اسلام آباد واپس آچکے تھے– گنورنمنٹ کی طرف سے مصطفی کو شاندار بنگلہ اور گاڑی ملی تھی-
ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔۔آپ ابھی جاؤ۔۔۔پہلا دن ہی لیٹ ہوجاؤ گے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے-
وہ ماں بہن کو اللہ حافظ بول کر جاچکا تھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
تمہارے باپ کو فالج کا اٹیک ہوا ہے اور اس وقت وہ ہسپتال میں ہے– اگلے دن وہ سو کر اٹھی تو مصطفی نے اسکے سر پہ بم پھوڑا-
اور اس سب کے ﺫمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔آپ نے ہی ہم سب کی زندگیاں برباد کردی ہیں- وہ واپس چیخی تھی اور مصطفی کو اس کے چیخنے پہ غصہ آیا تو اس پر ہاتھ اٹھا گیا–
میری ایک دفعہ کی کہی بات تمہیں سمجھ نہیں آتی ہے؟ منع کیا تھا نا میں نے کہ مجھے چلاتی عورتیں سخت ناپسند ہے۔۔۔۔اور مجھے قصوروار ٹہرانے سے پہلے یہ سب اپنے باپ سے پوچھنا۔۔۔وہ اسکا ہاتھ دبوچ کر اسکے سامنے کھڑا غراتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔۔سجل کو لگ رہا تھا کہ وہ اب کبھی اس درندے سے چھٹکارا نہیں پاسکی گی–
اٹھو اور دفع ہوجاؤ میرے روم سے۔۔۔۔تم جیسے کو میں ہمدردی کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھانا چاہتا– وہ اسے بیڈ سے اٹھا کر کمرے کے دروازے تک لے آیا-
ہنہہ اور تم جیسے درندے سے کوئی مدد بھی نہیں مانگنا چاہے گا– میں اسی وقت اپنے گھر جارہی ہوں– وہ کہتے ہوئے فوراً نیچے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔پر سیڑھیوں سے اترتے وقت اسکا ﮈوپٹہ پاؤں میں آگیا اور وہ اونچی سیڑھیوں سے لڑھک کر نیچی جاگری تھی–
سجل ۔۔۔۔۔مصطفی جو اپنے کمرے کے دروازے پہ ہی کھڑا چیخا تھا۔۔۔۔ نیچے آکر اسکو اٹھایا۔۔۔اور فوراً گاڑی میں ﮈال کر ہسپتال لے گیا تھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...