جمال نقوی (کراچی)
بر صغیر ہند و پاک میں ترقی پسند تحریک کے قافلہ سالار اور اس کے زیر اثر تشکیل پانے والے کاروان ادب کے میر کارواں سید سجاد ظہیر عرف بنے بھائی کی دھنک رنگ شخصیت کی رونمائی ادب میں افسانوی مجموعے، انگارے سے ہوتی ہے جس نے اردو ادب میں ایک انقلاب برپا کیا، روایات کو توڑ ا اور سماج کے گھناؤنے چہرے پر پڑی نقاب کو جلا کر راکھ دیا۔ جن چہروں سے پردہ ہٹا یا گیا انہیں تکلیف ہوئی، اس لیے ہنگامہ برپا ہوا۔آخرکار یہ طوفان تھما اور ادیبوں کو روشن خیالی اور خرد افروزی کی نئی راہ نظر آئی۔
بنے بھائی نے ۱۹۳۵ء میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پیرس میں ادیبوں کی عالمی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں سے واپس آکر لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی۔ بیرسٹری کی تعلیم کے اختتام پر وہ پھر پیرس گئے جہاں انہوں نے اپنے ناول لندن کی ایک رات کو مکمل کیا۔ یوں انہوں نے ترقی پسند فکشن کے نمونے پیش کیے۔ہندوستان لوٹنے کے بعد انہوں نے بر صغیر کے ادیبوں کو اپنا ہمنوا بنایا۔ الہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی اور اس کی پہلی کل ہند کانفرنس ۱۱؍ اپریل ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ میں عظیم فکشن نگار پریم چند کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ ادب کے اس کار عظیم میں انہوں نے اکیلے ہی قدم اٹھایا تھا مگر:
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس کارواں میں بزرگوں میں مولوی عبد الحق، حسرت موہانی، پریم چند، نیاز فتح پوری ، قاضی عبد الغفار، ڈاکٹر عابد حسین، رابندر ناتھ ٹیگور، جوش ملیح آبادی اور نوجوانوں میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری ، فراق گورکھپوری، احمد علی، محمود الظفر، ڈاکٹررشید جہاں، ڈاکٹر عبد العلیم ، فیض احمد فیض ، اسرار الحق مجاز سبط حسن، اختر الایمان ، حیات اللہ انصاری، وامق جونپوری اور کیفی اعظمی وغیرہ شامل تھے۔ اس طرح ترقی پسندی کا سورج ادبی افق پر چمکنے لگا۔
اپنی سیاسی اور تنظیمی مصروفیات سے انہیں جب بھی موقع ملا، اور یہ موقع زیادہ تر قید تنہائی میں نصیب ہوا، انہوں نے ترقی پسندی کی جانب ادیبوں کی رہنمائی کرنے کے لیے ادب کی مختلف اصناف میں چراغ راہ روشن کیے۔ جن میں صنف افسانہ میں ’انگارے‘ فکشن میں ’لندن کی ایک رات‘ ڈرامہ میں ’بیمار‘ تنقید میں ’ذکر حافظ‘ رپورتاژ میں ’روشنائی ‘ خطوط میں ’نقوش زنداں‘ جدید شاعری میں ’پگھلا نیلم‘ اور درجنوں مقالات ، صدارتی خطبے اور اخبار قوی جنگ کے ادار یے شامل ہیں۔
’نیا دور‘ کراچی کے شمارہ ۱۴، ۱۵میں شامل راہل سانکریتائن کے مضمون ’سجاد ظہیر۔ نئے نیتا‘ سے پتہ چلتا ہے کہ سجاد ظہیر نے اپنے ابتدائی افسانے ۱۹۲۵/۲۶ء میں لکھے تھے جو ان ہی برسوں کے مجلہ ’زمانہ‘ کان پور میں شائع بھی ہوئے تھے لیکن لندن اور پیرس جانے کے بعد ترقی پسند فکر کے زیر اثران ان کی مقصدی تحریروں نے ادیبوں کو ایک نئی فکر اور جدید سوچ عطا کی۔ اور مغربی افسانوں میں استعمال ہونے والی جدید تکنیک stream of consciousness کے استعمال کو پہلی بار اردو ادب میں بڑی جرات مندی سے پیش کیا۔ اس طرح انہوں نے اردو افسانے کو اسلوب اور فن کارانہ رویے کی نئی راہ دکھائی۔انگارے کے افسانوں کے بعد ان کی مختصر افسانہ نگاری کی ایک اہم تحریر ان کا ایک one act play ’بیمار‘ بھی ملتا ہے۔ اس طرح ڈرامہ نویسی میں بھی انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کے لیے ایک چراغ راہ روشن کر دیا۔
’لندن کی ایک رات‘ سجاد ظہیر کا وہ اہم اور منفرد ناول ہے جس میں پہلی بار stream of consciousness یعنی شعور کی رو، کی تکنیک کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں خود کلامی کے ذریعہ ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کا اظہار و ابلاغ ہوتا ہے اور کہانی کرداروں کے ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی کشمکش کے گرد شعوری بہاؤ کے ذریعہ آگے بڑھتی جاتی ہے اور ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل سے آگاہی دیتی جاتی ہے۔سجاد ظہیر کے اس ناول کے بارے میں پروفیسر احتشام حسین تحریر کرتے ہیں :
’’نئے انداز کا پہلا ناول’لندن کی ایک رات‘ جس میں سجاد ظہیر نے یورپ کے کئی اسالیب کا تجربہ کیا ہے مگر اس کی اہمیت صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس کی تصنیف میں یورپ سے فیضان ملا ہے۔ بلکہ یہ پہلا ناول تھا جس میں ہندوستان کے نوجوانوں کے تصورات اور خواہشات کو یہاں کے سیاسی پس منظر میں دکھایا گیا۔‘‘
سجاد ظہیر ۱۹۳۶ء سے مسلسل مضامین لکھتے رہے جو نیا ادب،ادب لطیف، شاہراہ، نقوش، عالمگیر، عوامی دور اور حیات وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔ اس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ’روشنائی‘ میں بھی کیا ہے:
’’میں نے سبط حسن سے وعدہ کیا تھا کہ میں نیا ادب‘ کے لیے باقاعدگی سے مضامین لکھ کر حتی الا مکان ’نیا ادب‘ کی مدد کرتا رہوں گا۔ ادبی مضامین کی اشاعت پر زیادہ روک ٹوک بھی نہیں تھی اس لیے میرے لیے ایسا کرنا ممکن تھا چنانچہ میں نے جیل ہی میں ’یادیں‘ کے عنوان سے مضمون لکھ کر سبط حسن کو نیا ادب کی اشاعت کے لیے بھجوا دیا۔ مرزا جعفر علی خاں نے ترقی پسند ادب کی تحریک پر جو اعتراضات کیے تھے اس کا جواب بھی لکھا تھا۔ جو سراج مبین کے نام سے نیا ادب میں شائع ہوا تھا۔ ہندی کے ترقی پسند شعراء سمترانندن پنت پرشیودان سنھ چوہان کے مضمون سے اخذ اقتباس کر کے اور ہندی سے کچھ ترجمے بھی لیے جو نیا ادب میں شائع ہوئے۔‘‘
ان کے مضامین کا ایک انتخاب یوپی اردو اکادمی نے ۱۹۷۶ء میں’ مضامین سجاد ظہیر‘ کے نام سے شائع کیا۔ انہوں نے ان مضامین میں اپنے نظریات اور خیالات بہتر انداز میں پیش کیے ہیں۔ ان کے ادبی مضامین میں مار کسی نظریہ بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ بعض مضامین انہوں نے ترقی پسند نقطہ نظر کے وضاحت یا ادیبوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کے سلسلے میں تحریر کیے ہیں۔ ان کے مضامین کے علاوہ وہ مختلف سیمینار اور کانفرنسوں میں پڑھے گئے ان کے خطبات،رپورٹیں، اور مقالات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۹۴۲ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بمبئی میں منعقدہ چوتھی کانفرنس میں ان کے خطبہ صدارت، جو بعد میں ماہنامہ ’عالمگیر‘ لاہور میں بھی شائع ہوا، سے ایک اقتباس یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
’’یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تمام تر اچھا ادب ترقی پسند ادب ہی ہے اور اسی طرح ہر ایک دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی ہے۔ چونکہ اردو میں جدید ترقی پسندی کی ابتداء محمد حسین آزاد ، حالی، اکبر، اقبال، ظفر علی خاں وغیرہ اور نثر میں سر سید احمد خاں ، ڈپٹی نذیر احمد، حالی، شبلی اور ابو الکلام آزاد کی، اور افسانہ نویسی میں منشی پریم چند نے کی‘‘۔
سجاد ظہیر نے اپنے مضامین میں اپنا رویہ معتدل، متوازن اور ہمدرد انہ رکھا ہے اس سے ان کے تنقیدی رویے کا پتہ چلتا ہے کہ:
٭ادب اور زندگی میں پائیدار ہم آہنگی ہونی چاہیے۔
٭ادب کا مقصد سماجی ہونا چاہیے اور انقلاب کی جد و جہدمیں ادیب و شاعر کو عملََا حصہ لینا چاہیے۔
٭شاعر و اعظ نہیں ہوتا۔ اسے اپنی شاعری میں وعظ کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
٭ادب کی تمام قدیم روایات کا احترام کرنا لازمی ہے۔
عملی تنقید کے نمونے کے طور پر سجاد ظہیر کی اہم کتاب ’ذکر حافظ‘ ہے جسے انہوں نے جولائی ۱۹۵۴ء میں مچھ جیل (پاکستان) کے ایام اسیری میں مکمل کیا۔ فارسی شاعر خواجہ حافظ شیرازی کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ سجاد ظہیر نے بڑی عرق ریزی سے تحریر کیا ہے اور ان کی شاعری پر عیش پسندی، زندگی سے فرار، ترک علم کی ترغیب اور مشائخ پر طنز و استہزا جیسے الزامات کا مدلل جواب دیا ہے جس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ دنیادار علماء کے بارے میں حافظ کے اس شعر کو انہوں نے بار بار پیش کیا ہے:
ریا حلال شمارند و جام و بادہ حرام
زہے طریقت و ملت زہے شریعت و کیش
حافظ کے کلام پر سجاد ظہیر کی مارکسی تنقید سے متاثر ہو کر پروفیسر عتیق احمد نے اپنی تحریر ’سجا دظہیر۔ تخلیقی اور تنقیدی جہات‘ میں یوں تحریر کیا ہے:
’’یہ حقیقت بھی لائق اعتراف ہے کہ سجاد ظہیر جیسے معتبر(کمیٹڈ ) مارکسی نقاد نے جس بصیرت، انصاف پسندی اور نقادانہ شعور کے ساتھ بڑی محنت سے حافظ شیرازی کے شعری اثاثے کو کھنگال کر ان کی ذہنی اور شاعرانہ پہنچ کے گرد صدیوں سے پھیلے ہوئے خس و خاشاک کے انبار سے نکال کر اردو ادب کے قارئین سے روشناس کرایا ہے وہ بھی اپنی جگہ اردو تنقید کا ایک لا زوال کارنامہ ہے۔‘‘
مچھ جیل (بلوچستان) میں جنوری ۱۹۵۴ء میں مکمل ہونے والی ان کی دوسری اہم دستاویز روشنائی ہے جو ذکر حافظ سے پہلے تحریر کی گئی ہے لیکن اشاعت کے اعتبار سے اسے فوقیت حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ ذکر حافظ کو انجمن ترقی اردو، لاہور نے نومبر ۱۹۵۶ء میں اور آزاد کتاب گھر دہلی نے ۱۹۵۹ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی و سکریٹری نے ترقی پسندادب کی تاریخ ۱۶ابواب میں پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں قلمبند کر دی ہے۔ جس سے اس تحریک کی ابتدائی منزلوں سے آشنائی اور نئے ادیبوں کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
سجاد ظہیر ایک پہلو دار شخصیت کے حامل تھے۔ ادب ، سیاست ، صحافت، اور مارکسی اشتراکیت ان کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں۔ وہ ایک بلند آہنگ ، شخصیت ، بیدار ذہن اور پختہ شعور کے مالک تھے۔ فارغ بخاری ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک تحریک تھے اور ایک مکتبہ فکر تھے۔ انہوں نے اردو ادب کو ایک نیا موڑ دیا، نئی سوچ اور نئی روشنی دی اور قلم کاروں کی ایک ایسی کھیپ پیدا کی جو نئے چراغ روشن کر رہی ہے۔جب تک چراغ سے چراغ جلتے رہیں گے ان کا نام زندہ پائندہ رہے گا‘‘۔
ادب کی مختلف اصناف میں تخلیقی چراغ روشن کرنے کے بعد انہوں نے شاعری کی طرف توجہ دی۔ایام اسیری میں وہ شعری تخلیقات جیل میں منعقدہ ہونے والی نشستوں میں سنایا کرتے۔ سینٹرل جیل حیدر آباد سندھ میں انہوں نے اپنے شعر میں جس طرف اشارہ کیا تھا:
وہ قتیل رقص و رم تھی، وہ شہید زیر و بم تھی
مری موج مضطرب کو نہ ملا مگر کنارا
اسی بات کو پروفیسر عقیل رضوی یوں لکھتے ہیں:
’’سیاست کی عملی زندگی نے سجاد ظہیر کی تخلیقی صلاحیتوں کو وہ موقع نہ دیا جو اسے ملنا چاہیے تھا۔ اگر انہوں نے اپنا میدان عمل صرف تخلیقات تک محدود رکھا ہوتا تواردو ادب کو ایک عظیم فن کار ان معنوں میں بھی ملتا کہ اور نہ معلوم کتنی تخلیقات اور حسرت تخلیق ان کے ذہن میں دفن رہ گئیں۔ ان کے خطوط ’نقوش زنداں‘ کا مطالعہ کیجئے تو کتنی کتابوں کے خاکے اور تصنیفی خواہشات ملتی ہیں۔‘‘
سجاد ظہیر نے ایک حلقے کی مخالفت کے باوجود آخری دنوں میں نثری نظموں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور ایک مجموعہ ’پگھلا نیلم‘ تخلیق کر کے شائع کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ادب میں نئے تجربوں کی قدر کرتے تھے اور خود بھی اس میں شریک ہوتے تھے۔ اس شعری مجموعے میں کل ۳۴نظمیں ہیں جن میں سے زیادہ تر نظمیں سیاسی اور سماجی موضوعات پر ہیں۔ اپنی اس شعری تخلیق کے بارے میں ان کی رائے دیکھئے جس کا اظہار انہوں نے ’پگھلا نیلم‘ میں کیا ہے:
’’یہ آہنگ اور ترنم ان معانی اور اس مکمل فنی تخلیق کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے جو میرا مدعا ہے۔ یقیناً آپ کو اس میں اجنبیت محسوس ہوگی اس لیے کہ یہ روایتی نہیں ہے۔ لیکن چوں کہ یہ آہنگ نیا ہے اس لیے میری نظر میں یہ کسی قدر زیادہ دلفریب بھی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ میں یہاں پر جو کچھ پیش کر رہا ہوں آپ اس سے لطف اندوز ہو ں گے‘‘۔
آخر میں اس مضمون کو میں ان کی ایک نظم ’کالا پھول‘ کی اختتامی لائنوں پر ختم کروں گا جس سے ان کی اس خواہش کا اظہار ہوتا ہے جو ان کی جد و جہد حیات کا حاصل تھی یعنی سماجی امن و مسرت۔ دیکھے وہ پر امید تھے:
کہ اس اچھی دھرتی میں ؍ایک ہی نہیں؍ہزاروں،لاکھوں، لا تعداد؍پھولوں کے نگینے پوشیدہ ہیں؍
وہ سب نکلیں گے؍اور اس سندگی مٹی کو ہی نہیں؍سارے ایشیا کو رنگ و بو؍اور سب کے دلوں کو؍
امن و مسرت سے بھر دیں گے! ٭٭٭
سپاہِ شب نے تو اندھیر کر دیا تھا بہت سو آگیا ہوں میں وقتِ طلوع سے پہلی
یہ عید آئی ہے کس قتل گاہ میں حیدرؔ سلام پھیر لیا ہے رکوع سے پہلے